0
Monday 19 Jul 2021 12:46

ادیان الہیٰ میں قربانی کا تصور اور شخصیت امام حسینؑ

ادیان الہیٰ میں قربانی کا تصور اور شخصیت امام حسینؑ
تحریر: محمد حسین بہشتی

مسلمان اپنی نذر کو پوارا کرنے یا خدا کا تقرب حاصل کرنے کے لئے جس جانور کو ذبح کرتے ہیں، اسے مسلمان مذہبی اعتبار سے خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے کسی حلال جانور مثلاً بھیڑ، بکری، گائے یا اونٹ وغیرہ کو قربانی، نذر یا صدقہ کی نیت سے ذبح کرتے ہیں۔(وفدیناہ بذبحٍ عظیم)
قربانی:
دس ذالحجہ کو حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی یاد میں ہر مسلمان اپنی استطاعت اور طاقت کے مطابق کسی حلال جانور کو قربانی کی نیت سے ذبح کرتا ہے اور اس کا گوشت اپنے رشتہ داروں، ہمسایوں اور فقراء میں تقسیم کرتا ہے۔ یہ خالصتاً سنت ابراہیمؑ کی پیروی ہے، جو کہ قربۃً الی اللہ کی جاتی ہے، لہٰذا اس پر یہ لفظ قربانی اطلاق ہوتا ہے۔

نذر:
مسلمانوں کے درمیان یہ مرسوم ہے کہ وہ اپنی حاجت روائی کے لئے جس حلال جانور کو راہ خدا میں ذبح کرتے ہیں، اس کو نذر کہتے ہیں، مثلاً کوئی مسلمان نذر کرتا ہے کہ اگر میرا بچہ بیماری سے نجات حاصل کرکے تندرست اور صحت یاب ہو جائے تو میں خدا کی خوشی کے لئے تین دن روزے رکھوں گا، یا فلاں جانور کو راہ خدا میں ذبح کرکے اس کا گوشت فقراء میں تقسیم کروں گا۔

عقیقہ:
کسی مسلمان کے ہاں بچہ یا بچی پیدا ہو جائے تو اس کی صحت و سلامتی کے لئے بکرا وغیرہ ذبح کیا جائے تو وہ عقیقہ کہلاتا ہے، اس کی خاص شرائط ہیں، جو فقہ کی کتابوں میں مذکور ہیں۔
صدقہ:
اگر کوئی مصیبت اور بلا ٹلنے کے لئے جو بکرا اور بھیڑ وغیرہ کا گوشت یتیم، فقیر اور فقراء میں تقسیم کیا جاتا ہے، اس کو صدقہ کہا جاتا ہے، یہ تینوں رسمیں شرعی لحاظ سے اسلامی معاشرے میں موجود ہیں اور بعض کو تو بڑے زور وشور سے منایا جاتا ہے۔

قربانی یا ذبیحہ کا تصور دوسرے ادیان میں بھی موجود ہے، خصوصاً ادیان الہیٰ جیسے کرسچن، یہودی، زرتشتی وغیرہ یہ رسم مختلف طور طریقوں سے مناتے ہیں۔
پرانے ادیان:
گذشتہ زمانوں میں مختلف قبیلوں میں مختلف طور طریقوں، عقیدوں اور فکروں پر مشتمل حیوانوں اور انسانوں کی قربانی کرنے کے واقعات موجود تھے۔ قربانی کے حوالے سے گذشتہ زمانوں کے لوگ مختلف افکار اور خیالات پر مبنی یہ رسم مثلاً سورج، آسمان، زمین، آفتاب، برف و باراں وغیرہ کی پوجا کرتے تھے۔ مختلف افکار و نظریات مثلاً خدا کی ناراضگی سے بچنے کے لئے اور اس سے مدد و نصرت طلب کرنے کے واسطے انسان کی قربانی اس خدا سے دوستی و محبت کی بناء پر کی جاتی تھی یا اس کی خوشنودی اور تقرب حاصل کرنے کے لئے ذبح کیا جاتا تھا، اس کے علاوہ بیماریوں کے عام ہوتے وقت، قحطی کے موقعے پر، جنگ میں کامیابی کے لئے اجتماعی عبادت گاہوں اور مذہبی مجالس کی جگہوں کی طہارت اور پاکیزگی کے لئے، بلائوں اور مصیبتوں کے ٹلنے کے لئے، بڑے بڑے ہنگامی حالات سے نجات پانے کے لئے، گناہوں کے کفارہ کے لئے انجام دیا جاتا تھا۔

دین زرتشت سے پہلے قربانی کا تصور موجود تھا۔ آفتاب و مہتاب پرستی اور میترائسیم کے آئین و دین کے زمانے میں قربانی کا سلسلہ موجود تھا، یہ گروہ ’’بہار گائو‘‘ کے موقعے پر اپنی عبادت گاہوں (معبد) میں قربانی دیا کرتے تھے، اس دور میں ’’اہورا مزدا‘‘،  ’’عناصر چہارگانہ‘‘ سورج، چاند، پانی اور مٹی کو بھی مقدس سمجھتے تھے، ان کے لئے بھی فدیہ اور قربانی دیا کرتے تھے، البتہ قربانی کے طور طریقے مختلف تھے۔ کوئی آگ میں جلا کر کرتا تھا، کوئی صحراء میں زندہ چھوڑ جاتا، کوئی کسی گودال میں گرا اور کوئی جانوروں کی دم کو جلا کر اپنی قربانی کو انجام دیتا تھا۔

یہود:
دین یہود کے اوائل میں قربانی کا تصور موجود ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ہے، کیونکہ تورات میں تحریف ہونے کی وجہ سے اس بارے میں ہمارے پاس کوئی منابع موجود نہیں ہیں۔ حال حاضر میں جو معلومات ہمارے پاس ہیں، وہ موجودہ یہودیوں کے ذریعے سے ہیں۔ تورات سفر خروج  باب 32 میں ہم پڑھتے ہیں کہ: جناب ہارون ؑنے گوسالہ بنایا اور اس کے لئے ایک قربان گاہ بنائی اور بلند بلند کہنا شروع کیا کہ کل عید ہے، خدا کے واسطے گوسالہ کے لئے عبادت کرو اور بنی اسرایئل کو بھی اس کی عبادت کے لئے کہا گیا ہے، پس یہ لوگ ہارون ؑ کے حکم پر گوسالہ کے لئے قربانی دینے لگے، یعنی قربانیوں کو گوسالہ کے نام پر ذبح کرنے گئے۔ نوٹ: (یہ کام سامری کا تھا نہ کہ حضرت ہارون ؑ کا)

سفر خروج  باب نمبر 5 میں ہم پڑھتے ہیں ’’چلئے ہم صحراء میں جا کر یہودہ خدا کا قرب حاصل کرتے ہیں اور وہاں پر قربانی دیتے ہیں، تاکہ کہیں ہم لوگ وباء اور تلوار کے بھینٹ نہ چڑھ جائیں‘‘ جو کچھ ہم تورات میں مطالعہ کرتے ہیں، اس سے ہم یہ نتیجہ اخذ کرسکتے ہیں کہ قربانی کرنا دین یہود کا ایک حصہ ہے، شریعت حضرت موسیٰ ؑ میں قربانی کے لئے ایک خاص نظم یا طریقہ کار موجود تھا، اس سے پہلے ہمیں کوئی خاص بات یا طریقہ کار نظر نہیں آتا ہے۔ کاہن لوگ خود یہ قربانی ذبح کرتے تھے، یہ لوگ اس زمانے میں دینی ذمہ دار یا عالم کے طور پر مانے جاتے تھے اور دینی شعائر کو انجام دیتے تھے۔ جب حضرت موسیؑ کوہ طور پر گئے اور وہاں سے جو پروگرام اور لوح موصول ہوئی تو بنی اسرائیل نے قربانی کا سلسلہ منظم اور مرتب طریقے سے انجام دینا شروع کیا۔ خصوصاً خاندان ہارون میں اس امر کو واجب سمجھا جاتا تھا۔

مسیحیت:
دین مسیحیت میں قربانی کو ایک امر واجب سمجھتے ہیں۔ نصاریٰ اپنی قربانی فقط ’’لوجہ اللہ‘‘ کرتے ہیں اور خدا کی خوشنودی کے لئے قربانی کو نابود یعنی ختم کر دیتے تھے اور اس طریقے سے اپنے اوپر خدا کی حکومت کے مکمل ہونے کا اعتراف کرتے تھے۔ بعض مسیحیوں کے نزدیک قربانی تو صرف ایک سے زیادہ نہیں ہے، وہ ہے جسد اور خون حضرت عیسیٰؑ، لیکن پروٹسٹنٹ اس قربانی کو آخری قربانی تصور کرتے ہیں۔ نصاریٰ قربانی کو ذبح کرتے وقت حضرت عیسیٰؑ کا نام لیتے ہیں، پھر قربانی کو ذبح کرتے ہیں۔

زرتشت:
گاتاہا کی گواہی پر ہر قسم کے جانور کو ذبح کرنا اور ہر قسم کا معبد بنانا حرام سمجھتے تھے، کیونکہ ان کا اعتقاد یہ ہے کہ یہ حیوانات انسان کے لئے غذا فراہم کرتے ہیں۔ اس کے لئے کام آتے ہیں، لہٰذا اس کا احترام کرنا چاہیئے۔ زرتشت گاتاہا میں مکمل اور واضح طور پر اعلان کرتا ہے، نفرین اور لعنت ہے اے مزدائ (شیطان) تم پر کہ تم نے ہوا کے ذریعے جانوروں کو پریشان کرتے ہو اور جانوروں کی کئی طور طریقوں سے قربانی کرتے ہو۔ چونکہ زرتشتوں سے پہلے جو کئی خدا کو مانتے تھے۔ مختلف طور طریقوں سے جانوروں کو ذبح کرتے یا ان کی قربانی دیتے تھے۔ زرتشت نے آکر ایک منظم طریقے سے کئی قسموں کی رسم و رواج کو ختم کر دیا، جن میں قربانی کے مختلف طریقے بھی شامل تھے اور ایک نئے آئین اور دین کی بنیاد ڈالی۔ لیکن زرتشت کی رحلت کے بعد اس کے ماننے والے اپنی پریشانیوں اور دوسرے اغراض و مقاصد کے لئے پھر سے قربانی دینے کا سلسلہ شروع کر دیا۔ زرتشت ماہ پرستی کے سخت مخالف تھے، لیکن اس کے بعد دوبارہ ماہ پرستی کا سلسلہ شروع ہوا اور جانوروں کو بھی قربانی کرنے کی رسم دوبارہ شروع ہوئی۔ ایران میں رہنے والے زرتشت بھیڑ کو قربانی کے لئے ذبح کرتے تھے۔

زرتشتوں کی تاریخ کا مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ زرتشت خود ایک خدا پرست شخص تھا، جس نے اپنے زمانے میں بہت بڑا روحانی انقلاب برپا کرکے لوگوں کو خدا  پرستی کی طرف دعوت دی تھی، لیکن بعد میں لوگ پھر اپنے رسم و رواج کی طرف  پلٹ گئے تھے۔ اس مختصر سے مطالعے کے بعد یہ ثابت ہوتا ہے کہ قربانی کا جو تصور اسلام کے اندر ہے، وہ باقی تمام ادیان کے مقابلے میں بہت ہی اعلیٰ و ارفع مقاصد اور بہترین نیت پر مبنی ہے۔ دین مقدس اسلام میں قربانی صرف حاجیوں کے اوپر عید قربان کے دن واجب ہے یا جس دن نذر اور قسم کھائی ہو، اس کے اوپر قربانی دینا واجب ہو جاتی ہے، باقی تمام موارد میں من جملہ عقیقہ وغیرہ میں مستحب ہے۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ یہ تاکید بھی ہوئی ہے کہ قربانی کا گوشت بیچارے اور فقیر و فقراء کے درمیان تقسیم کیا جائے، تاکہ یہ گراں قدر چیز فضول طور پر ضائع اور برباد نہ ہو جائے، جیسا کہ دوسرے ادیان میں ہے کہ وہ قربانی کو جلاتے ہیں یا صحرا  میں یا کھائی وغیرہ میں گرا دیتے ہیں اور یہ سب اسراف میں شامل ہے، جو کہ بہت بڑا گناہ ہے۔

بہرحال اسلام کے اندر قربانی کی اہمیت نہایت ہی بلند و بالا ہے۔ یہاں پر یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ تمام ادیان سے اسلام وہ بہترین دین ہے، جس میں قربانی ایک مقدس چیز شمار ہوتی ہے، جس میں خود خدا، دین خدا اور کتاب خدا کو زندہ رکھنے کے لئے قربانی کا تصور موجود ہے، اسی لئے حضرت امام حسینؑ نے دین مقدس اسلام کو زندہ رکھنے کے لئے اور یزید کے شر سے بچانے کے لئے میدان کربلا میں ایک عظیم قربانی پیش کی، جس کو آج پوری بشریت تسلیم کرتی ہے اور حضرت امام حسینؑ کے اوپر اعتقاد رکھتی ہے۔ بقول شاعر انقلاب جوش ملیح آبادی:
انسان کو بیدار تو ہو لینے دو
ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسینؑ


عظیم قربانی:
"وفدیناہ بذبحٍ عظیم" (سورۂ صافات، 107) "اور ہم نے اس کا بدلہ ایک عظیم قربانی کو قرار دیا ہے۔" چونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات پیدا کیا۔ عقل اور فکر سے نوازا، اسی لئے اس کو اپنی معرفت اور عبادت کی ذمہ داری دی اور جبکہ انسان اشرف المخلوقات قرار پایا تو وہ اگر ناحق قتل کر دیا جائے تو اس ایک انسان کے عوض میں اگر ورثاء راضی ہوں تو سو اونٹ دیت میں دیئے جاتے ہیں، جس طرح عبداللہ، والد بزرگوار حضرت پیغمبر اسلام ؐ کی قربانی میں سو (100) اونٹ فدیہ دیئے گئے۔ قربانی کی رسم قدیم سے ہے۔ انبیاء کرام ؑ اور اوصیاء ؑ سب خدا کی راہ میں قربانی دیتے رہے۔ ابتدائے زمانہ میں آدم ؑ کے بیٹے ہابیل اور قابیل نے قربانی دی تھی۔

ذبح عظیم سے مراد:
بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ وہی دنبہ جسے حضرت قابیل علیہ السلام نے قربانی میں دیا تھا اور بارگاہ خداوندی میں قبول ہوا۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام کے لئے جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ان کو ذبح کے واسطے لٹایا تو بہشت سے اللہ تعالیٰ نے فدیہ بھیجا تھا، جس کی خبر قرآن میں دی ہے ’’وفدیناہ بذبحٍ عظیم۔‘‘ ہم نے حضرت اسماعیل ؑ کے عوض میں ایک بہت بڑی قربانی دی ہے۔ ان دونوں بزرگواروں کی نسبت اسلامی تاریخ کا یہ واقعہ بڑی اہمیت رکھتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام من جانب اللہ مأمور ہوئے کہ اپنے فرزند حضرت اسماعیل علیہ السلام کو اپنے ہاتھوں سے ذبح کریں اور آپ ؑ نے بڑی ثابت قدمی اور پر جگری کے ساتھ حکم ربانی کی تکمیل کو عمل کے آخری درجہ تک پہنچا دیا۔ اگرچہ وقت پر پروردگار عالم کی طرف سے بجائے انسان کے قربانی کے عمل میں آنے کا انتظام ہوگیا، مگر اس اعلان کے ساتھ کہ آئندہ اس کا معاوضہ راہ خدا میں ایک بڑی قربانی کے ساتھ ہونا ضروری ہے۔ اس واقعہ کو اسلام نے بڑی اہمیت دی اور قربانی کی شکل میں اس کی مستقل یادگار قائم کر دی۔

تفسیر اہلبیت ؑ میں وارد  ہے کہ ذبح عظیم سے مراد حضرت امام حسین علیہ السلام ہیں کہ وہ کربلا کے سرزمین پر ذبح کئے گئے اور انہی کو خداواند کریم نے ذبح عظیم کہا ہے، اسی لیئے علاّمہ اقبال نے’’وفدیناہ بذبحٍ عظیم‘‘ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:
اللہ اللہ بائے بسم اللہ پدر
معنی ذبح عظیم آمد پسر

اللہ اللہ وہ کلمۂ تحسین و آفرین ہے، جو مرحبا، حبذا اور شاباش کے معنوں میں آتا ہے، اس کا لطف اہل زبان خوب جانتے ہیں اور یہ لفظ (اللہ اللہ) اس وقت اور بھی حسن و رعنائی میں بڑھ جاتا ہے، جب شاعر اپنے کسی شعر کا آغاز لفظ اللہ اللہ سے کرتا ہے، جیسا کہ علاّمہ صاحب نے اس شعر کی ابتداء میں استعمال کیا ہے۔

جناب ابن عباس سے مروی ہے کہ حضرت امیر المؤمنین علی بن علی طالب علیہ السلام ایک شب بسم اللہ کی تفسیر بیان کر رہے تھے۔ تمام اصحاب ہمہ تن گوش باب مدینۃ العلم کے فضل و کمال سے لطف اندوز ہو رہے تھے کہ رات بیت گئی مگر تفسیر ناتمام رہی۔ آخر آپ ؑ نے فرمایا کہ اگر ہم اس کی تفسیر کلی طور پر بیان کریں تو اس کا  بوجھ ستر (70) اونٹ نہیں اٹھا سکتے۔ اسی واقعے کو شیخ سلیمان قندوزی نقشبندی نے اپنی (ینابیع المؤدہ) شہرہ آفاق کتاب میں ’’امیر المٔومنین فرماتے ہیں کہ جو کچھ کلام اللہ ہے، وہ سورۂ الحمد (الفاتحہ) میں ہے اور جو کچھ سورۂ الحمد (فاتحہ) میں ہے، وہ بسم اللہ میں ہے اور جو کچھ بسم اللہ میں ہے، وہ بائے بسم اللہ میں ہے اور جو کچھ بائے بسم اللہ میں ہے وہ ’’ب‘‘ کے نقطے میں ہے اور وہ ’’با‘‘ کے نیچے کا وہ نقطہ میں (علی) ہوں۔‘‘

اللہ اللہ جہاں مصرعۂ اولیٰ میں علاّمہ اقبال صاحب نے علی بن ابی طالب علیہ السلام کے ارشاد کو نظم کیا ہے، وہیں اس شعر کے مصرعۂ ثانی میں کلام اللہ کی اس آیت کی تشریح و توضیح نہایت اجمال کے ساتھ بہت ہی خوبصورتی سے نظم کی ہے۔ جس کی نظیر ملنا بہت مشکل ہے۔ مفسرین نے لکھا ہے کہ جب تین بار جبرئیل امین ؑ نے آکر چھری کو حلق اسماعیل ؑ سے پلٹ دیا تو آواز قدرت آئی، اے ابراہیم ؑ تو نے اپنے خواب کو سچا کر دکھایا۔ اب ہم تم دونوں (باب بیٹے) کو اعلیٰ مراتب سے سرفراز فرمائیں گے۔ اس لئے کہ ہم نیکی کرنے والوں کو جزائے خیر دیتے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ یہ بڑا کڑا امتحان تھا اور حضرت اسماعیل ؑ کی قربانی کا فدیہ ایک ذبح عظیم سے بدل ڈالا۔ افسوس کہ کم عقل اور کم نظر مفسرین نے اس واضح خداوندی "وفدیناہ بذحٍ عظیم" سے مراد وہ موٹا تازہ دنبہ لیا ہے، جو بہشت سے جناب اسماعیل ؑ کی جگہ آیا ہے، مگر صاحب یہ انسان سے افضل نہیں، چہ جائیکہ نبی یا امام سے بڑھ جائے تو پھر یہ کیسے ہوسکتا کہ قربانی اسماعیلؑ کی جگہ آیا تو اسماعیلؑ سے اس بہشتی دنبے کی قربانی عظیم ہو، جو جناب اسماعیلؑ کی جگہ آیا، تو ماننا پڑے گا کہ ذبح عظیم کے مصداق اتم حضرت ابا عبد اللہ الحسین علیہ السلام کی ذات ستودۂ صفات ہے جو
بحر حق در خاک و خون غلطیدہ است
پس بنائے لا الہٰ  گردیدہ است
(اسرار، رموز خودی ص، 127)

حسین علیہ السلام حق کی خاطر اپنے عزیزوں اور مٹھی بھر جانثاروں کے ساتھ باطل سے ٹکرا گئے۔ تاریخ گواہ ہے کہ یزید اپنی پوری طاقت کے ساتھ شراب و کباب اور شباب کے نشے میں چور حق سے برسر پیکار ہوا۔ اس نے اسلام کے خدوخال کو مسخ کرنے کی سعی لا حاصل کی۔ اس نے اقدار اسلامیہ کو پائمال کرنے کی بھی جسارت کی، اس نے شریعت محمدیہ کا کھلے بندوں مذاق بھی اڑایا۔ ہمارے اس بیان پر واقعہ حرّہ بطور دلیل تاریخ میں آج بھی موجود ہے اور پھر اسی پر اکتفاء نہیں کرتا بلکہ توحید و رسالت کے خلاف علم بغاوت بلند کرتا ہوا طاقت کو حق کہتا ہے۔ اس کے برعکس جگر گوشئہ رسولؐ حفاظت حق کے لئے صدائے حق بلند کرتے ہیں اور یزید کے اس نعرہ کو باطل قرار دیتے ہیں کہ طاقت حق ہے، نہیں نہیں ہرگز طاقت حق نہیں بلکہ حق طاقت ہے۔ یہ منوانے کے لئے حسین ؑ کفن بر دوش سرفروش ساتھیوں کے ساتھ اٹھے اور باطل سے ٹکرا گئے۔

تاریخ عالم اس بات کی شاہد ہے کہ فتح و نصرت نے حسینؑ کے قدم چومے اور شکست دائمی یزید نحس کا مقدّر بن گئی۔ اللہ اللہ حسین علیہ السلام نے خاک و خون کا دریا پاٹ کر صفحۂ گیتی پر حرف الا اللہ کی وہ مستحکم بنیاد رکھ دی کہ جسے اب تا بہ ابد کفر و الحاد و زندقہ کی منہ زور آندھی نہ ہلا سکتی ہے اور نہ ہی مٹا سکتی ہے۔ امام عالی مقام نے تاریخ اسلام کے اس اہم باب کا اختتام اپنی قربانی سے کر دیا، جس کی ابتدا خواب ابراہیمؑ اور قربانی اسماعیلؑ سے ہوئی تھی۔ یہی وہ باب ہے جسے علاّمہ اقبال نے غریب و سادہ و رنگین قرار دیا ہے، تاریخ کے قاری سے یہ بات مخفی نہیں کہ اس غریب و سادہ   CHAPTER میں یہ بلا کی رنگینی، قربانیٔ سبطہ رسول انام ؐ سے معرض وجود میں آئی, اسی لئے تو شاعر مشرق علاّمہ اقبال کو کہنا پڑا:
سرخرو، عشق غیور از خون او
شوخیٔ این مصرع از مضمون او


حسین علیہ السلام (نمائندہ ٔحق) نے برای حرمت حق سر دھڑ کی بازی لگا دی کہ حق کا بول بالا اور باطل کا منہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیئے کالا کر گیا۔ قسم ذات احدیت کہ عشق غیور کی آبرو کا محافظ وہی ہے(سر دے کر جس نے اسلام بچا لیا) اور آج اسلام اہل عالم کی نظروں میں معزز و مؤقر اسی لئے ٹھہرتا ہے کہ اس کی پیشانی پر جلی حروف میں یاحسین ؑ لکھا ہے اور یہی وہ نام ہے، جو عشق کے مضمون کا عنوان قرار پاتا ہے۔ اسی لئے عشق غیور کو سرخروئی کا تاج ملا اور انسانیت کو معراج نصیب ہوئی، یہی اقبال کے نزدیک عشق کے مضمون کی سرخیٔ شوخ ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ اگر امام عالی مقام اس درد پرآشوب میں جبکہ باطل اپنی طاقت کے زعم میں حق کو ملیامیٹ کرنے پر تلا ہوا تھا، آوازۂ حق بلند نہ کرتے تو اسلام کے نقوش دھندلا کر رہ جاتے ہیں، توحید کا سبق یکسر دل و دماغ سے محو ہو جاتا اور محمد رسول اللہ کہنے والا کوئی نہ ہوتا، حتیٰ کہ گلدستہ اذان سے اشہد ان لا الہٰ الا اللہ کی صدائے بازگشت بھی سنائی نہ دیتی۔

اس میں شک نہیں کہ اگر امام حسین علیہ السلام اپنی اور اپنے عزیزوں اور یار و انصار کی قربانی راہ خدا میں نہ دیتے تو یقیناً یہی ہوتا، جس کی نشاندہی شاعر نے کی ہے۔ یہ تو حضرت امام حسین ؑ نے جہاں اپنی قربانی دے کر اللہ تعالیٰ کے وعدے ’’وفدیناہ بذبحٍ عظیم‘‘ کی گواہی دی ہے، وہیں نبی اکرم ؐ کے ااس بلند بانک دعوے "حسین منی و انا من الحسین‘‘ کی صداقت کو ’’الم نشرح‘‘ کر دکھایا۔ "حسین منی و انا من الحسین‘‘ حسین مجھ سے ہے اور میں حسینؑ سے ہوں۔ حسینؑ جس نسل کی یاد تھے، وہ صدیوں سے قربانی و فداکاری کے ایک مسلسل تاریخ تیار کر رہی تھی۔ یہ عام قاعدہ ہے کہ بچے جب اپنے بزرگوں کے حالات سنتے ہیں تو ان میں بچپن ہی سے ولولہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمیں بھی کوئی موقع ایسے کارنامے پیش کرنے کا مل جائے۔ اس لئے عام فطرت کے تقاضوں اور ظاہری اسباب کے لحاظ سے یہ کہنا بالکل درست ہے کہ امام حسینؑ کے لئے علاوہ منصبی ذمہ داری کے خاندانی روایات اور بلند فطرت کا تقاضا یہی تھا کہ بچپن سے منتظر اور مشتاق رہیں کہ سچائی کی خدمت، غریبوں کی مدد، مظلوموں کی دستگیری اور ہمدردی کا کوئی موقع پیش آئے اور آپ بھی حق کی حمایت میں اپنے فریضے کو انجام دے کر اپنی خاندانی روایات کو زندہ اور برقرار رکھیں۔

حضرت امام حسین ؑ اسلام کی حفاظت اور اعلیٰٔ کلمۂ حق کو حقیقت اور عدالت و فضیلت کو زندہ رکھنے اور نگہداشت کرنے میں ان تمام امتیازی وابستگیوں اور امکانی تعلقات سے جو کچھ کسی شخص کی انفرادی حیثیت سے محبت و دوستی کا باعث ہوتے ہیں، صرف نظر فرمایا اور مقصد و ہدف کے حصول کے لئے مال و جان و فرزند اور زندگی کے تمام علائق سے دست بردار ہوگئے۔ اس وقت جبکہ قریب تھا کہ پیغمبر عالیقدر اسلام کی 32 سالہ تمام زحمتیں، کوششیں، کاوشیں اور مجاہدین راہ حق کی کوششیں اور جان فشانیاں بے کار و پائمال ہو جائیں اور اسلام حقیقی لوگوں کے درمیان سے یکسر غائب و نابود ہو جائے، ایسے حالات میں جبکہ اسلام حکام جور کے ہاتھوں میں ایک کھلونے کے سوا کچھ نہیں رہ گیا تھا، حضرت سیدالشہداء ؑ نے قیام فرمایا اور مدینے سے رخصت ہوتے وقت فرمایا: ’’جو شخص اس بات کے لئے آمادہ و حاضر ہو کہ ہمارے اس مقدس مقصد کی راہ میں، جو ہمارے پیش نظر ہے، اپنا خون و دل نثار کرے اور اپنی زندگی اور شخصی تعلقات سے دست بردار ہو جائے وہی شخص ہمارے قافلے میں شامل ہو اور چلے۔‘‘

حضرت امام حسین ؑ نے دوران سفر راستے میں اپنی راہ میعن فرمائی تھی اور فرمایا: "میرے دوستو! اور ساتھیو! یہ تمہیں معلوم ہونا چاہیئے کہ زمانے کی ہیٔت و حالت دگرگوں ہوچکی ہے، برائیاں ظاہر ہو گئی ہیں، نیکیاں و اچھائیاں، خوبیاں اور فضیلتیں ہمارے ماحول سے رخت سفر باندھ چکیں اور رخصت ہوچکی ہیں اور مراد اسلام کے برخلاف حالات سامنے آگئے ہیں۔ انسانی فضائل میں سوائے ایک قلیل مقدار کے کچھ بھی باقی نہیں رہ گیا ہے، ٹھیک ایسے ہی جیسے  پانی گراتے وقت معدود چند قطرے ظرف آب پر معلق رہ جاتے ہیں، آج لوگ رسوائی و بے حیائی کے ماحول میں، جس کے ساتھ ننگ و عار ذلت بھی شامل ہے، زندگی گزار رہے ہیں۔ آج حق و حقیقت پر عمل نہیں ہوتا اور باطل و ناجائز امور سے پرہیز اور روگردانی کا کوئی وجود نہیں ہے، ایسے میں مناسب و سزاوار یہی ہے کہ با ایمان و بافضیلت انسان فداکاری و جانبازی کا ثبود دیں اور اپنے پروردگار سے ملاقات اور اس کے فیوض حاصل کرنے کے لئے سبقت و جلدی کریں، میں ایسے جبر و تشدد سے معمور ماحول میں اور ان خرابیوں سے بھرپور فضا میں موت کو فقط سعادت و خوش نصیبی سمجھتا ہوں اور ان جابروں اور ستمگروں کے ساتھ زندہ رہنے کو سوائے جانکاہ رنج و ملال کے اور کچھ نہیں جانتا۔"

حضرت امام حسینؑ رضائے خدا کی خاطر اپنی قربانیاں پیش کرکے رضائے الہیٰ کی بلندیوں پر پہنچے، کیونکہ توحید خدا کا کمال یہ ہے کہ محوّد اپنے کو حق تعالیٰ پر قربان کر دے اور تمام منزلوں سے گزرے، اسی لئے خداوند عالم نے فرمایا ’’وفدیناہ بذبحٍ عظیم۔‘‘ علاّمہ اقبال اس سلسلہ میں فرماتے ہیں:
آن امام عاشقان ِپور بتول ؑ 
سرور آزادی زبستان رسولؐ
بہر آن شہزادۂ خیر الملل
دوش ِختم المرسلین نعم الجمل
موسیٰ ؑ و فرعون شبیرؑ و یزید
این دو  قوت از حیات آمد پدید
زندہ  حق از قوت شبیرؑی است
باطل آخر داغ حسرت میری است

بر زمین کربلا بارید و رفت
لالہ در ویرانہ ھا کارید و رفت
تا قیامت قطع استبداد کرد
موج خون او چمن ایجاب کرد
سرِّ ابراہیم ؑ و اسماعیلؑ بود
یعنی آن اجمال را تفصیل بود


حضرت امام حسین ؑ سرّ اسماعیل و ابراہیم ؑ تھے، یعنی اس اجمال کی تفصیل تھے۔ مطلب یہ کہ حسین ؑ نے اپنے جدّ بزرگوار حضرت ابراہیم ؑ و اسماعیل ؑ کے پروگرام کو پایۂ تکمیل تک پہنچایا اور ’’وفدیناہ بذبحٍ عظیم‘‘ کی تشریح و توضیح اور تفسیر نہایت ہی جلی حروف میں خاک کربلا پر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اپنے خون سے تحریر کر دی۔ جب ہم جناب ابراہیمؑ و اسماعیل علیہم السلام کے واقعے کو بہ نظر عمیق مطالعہ کرتے ہیں اور ادھر سرکار امام حسینؑ کے جذبۂ ایثار و قربانی کا ذکر سنتے ہیں یا پڑھتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ میدان کربلا میں سید الشہداء ؑ نے اپنے جد اعلیٰ سیدنا ابراہیم ؑ کا کردار ادا کیا اور آپؑ کے فرزند سعید حضرت علی اکبرؑ نے تأسی جناب اسماعیل ؑ میں سر تسلیم خم کیا۔ اس شعر میں علاّمہ علیہ الرحمہ کا اشارہ جناب اسماعیل و ابراہیمؑ کے اس جرأت مندانہ اقدام کی طرف ہے، جو انہوں نے عشق الہیٰ میں مقام مناء پر ادا کیا۔ اس خواب کی جلی تعبیر جگر گوشۂ رسولؐ فرزند علی ؑو بتولؑ نے قربانی جناب علی اکبر ؑ سے پیش کر دی:
صدق خلیل بھی ہے عشق، صبر حسین ؑ بھی ہے عشق
معرکۂ وجود میں بدر و حنین بھی ہے عشق


اس شعر میں علاّمہ صاحب نے عشق کی بات کی ہے۔ عشق ایک مسلسل امتحان کا نام ہے، نسل آدمؑ سب سے پہلے حضرت آدم کؑا امتحان ہوا۔ قصہ طویل ہے، مختصر یہ کہ آدم ؑ کامیاب ہوئے، دستار فضیلت کے مستحق اور خلعت خلافت کے سزاوار قرار پائے، حضرت نوحؑ نے امتحان عشق طوفان بلاخیز میں کشتی اتار کر پار کیا تو بامراد ہوئے۔ یونس ؑ نے شکم ماہی میں امتحان عشق کی منازل طے کیں۔ حضرت ذکریا ؑ نے بوقت امتحان عشق زیر آراہ مسکرا کر دیا۔ جناب ابراہیم خلیل اللہ ؑ نے یہ امتحان نار ِ نمرود میں کود کر پاس کر لیا۔ موسیٰ ؑ نے یہ امتحان کوہ طور پر جا کر، عیسیؑ مسیح نے سلیب پر چڑھ کر یہیں امتحان دیا اور آخری نبی ؐ نے تو اپنی پوری زندگی اسی امتحان میں گزار دی۔ علی ٔمرتضیٰ ؑ نے تو مسجد کوفہ میں ابن ملجم کا خنجر لگنے اور ذوالقرنین بننے پر صاف کہہ دیا  ’’فزت برب الکعبہ‘‘ رب کعبہ کی قسم میں اپنے مشن میں کامیاب رہا۔ امام حسن مجتبیٰ ؑ نے یہ امتحان زہر ہلاہل کو بصورت قند پی کر پاس کیا اور پنجتن پاک کے آخری فرد امام حسینؑ نے یہ امتحان سر نوک سناں یوں دیا کہ نبیوں ؑکو حیراں کر دیا اور بالآخر علاّمہ اقبال علیہ الرحمہ کو کہنا پڑا کہ خلیل اللہ کے عشق اور خواجۂ بدر و حنین کے عشق کی طرح کا عشق صبر حسینؑ نے پایا ہے۔

حضرت ابا عبداللہ الحسین ؑ کی ذات مبارک بنی نوع انسان کے لیے ایک آئیڈیل ہے، ایک مقصد ہے، ایک طرز فکر ہے، ایک مکتب جاویداں ہے، حریت اور آزادی کے علمبردار ہیں۔ حضرت امام حسینؑ کی قربانی ایسی تھی کہ جس کی نظیر دنیا میں نہیں ملتی۔ خود بھی راہ خدا میں قربان ہوگئے اور اپنے خاندان کے لوگوں کے ساتھ ساتھ چھے 6 ماہ کا بچہ بھی قربانی میں دے دیا۔ دیکھئے روز عاشور امام حسین ؑ کی حالت خود ایسی تھی کہ بغیر ذبح کئے شہید ہو جاتے، انیس سو (1900) زخم تلواروں کے، نیزے کے، تیروں کے مرنے کے واسطے کم نہ تھے، فقط ایک تیر خولی کا جو قلب اقدس پر لگا اور پرنالہ کی طرح خون جاری ہوا، ایسا جانکاہ تھا کہ وہی مر جانے کے لئے کافی تھا، مگر خدا نے ذبح عظیم کہا تھا، بغیر ذبح ہونے کے خدا کا قول کیونکر پورا ہوتا؟ اور ذبح کے کیونکر فدیہ قرار پائے؟ جب حضرت ؑ گھوڑے سے گرے، شمر ملعون آگے بڑھا، سینہ ٔ اقدس پر سوار ریش مبارک ہاتھ میں لی اور تلوار سے ذبح کر دیا۔ محرم اسلامی سال کا پہلا مہینہ ہے، اس کی دسویں تاریخ کو قربانی ہے اور ذوالحج اسلامی سال کا آخری مہینہ ہے، اس کی دسویں تاریخ کو بھی قربانی ہے، ہم مسلمانوں کا سال شروع بھی قربانی سے ہوتا ہے اور ختم بھی قربانی پر۔ آغاز بھی قربانی، انتہا بھی قربانی۔ علاّمہ اقبال فرماتے ہیں:
غریب و سادہ و رنگین ہے داستان حرم
نہایت اس کی حسین ؑ ابتدا ہے اسماعیلؑ
خبر کا کوڈ : 944226
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش