1
Wednesday 21 Jul 2021 17:53

مشرق وسطی میں فوجی موجودگی سے متعلق امریکہ کی نئی پالیسی

مشرق وسطی میں فوجی موجودگی سے متعلق امریکہ کی نئی پالیسی
تحریر: سعید الشہابی
 
گذشتہ چند ہفتوں کے دوران امریکہ نے افغانستان سے غیر متوقع طور پر تیزی سے فوجی انخلاء کا آغاز کیا ہے۔ اگرچہ امریکی حکام کافی سالوں سے مشرق وسطی خطے سے فوجی انخلاء کی باتیں کر رہے تھے لیکن امریکہ کی جانب سے اس طرح اچانک افغانستان میں اپنے اہم فوجی مراکز خالی کر دینے کی توقع بہت کم تھی۔ بعض سیاسی حلقے اس انداز میں افغانستان سے فوجی انخلاء کو امریکہ کی جانب سے طالبان کو مزید پیشقدمی کی سبز جھنڈی دکھائے جانے کے مترادف قرار دے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ امریکہ کا اچانک فوجی انخلاء طالبان کو فوجی طاقت کے بل بوتے پر مزید علاقے فتح کرنے پر اکسانے کا باعث بنا ہے۔ اس خدشے کو اس وقت زیادہ تقویت ملتی ہے جب ہم گذشتہ چند ہفتوں کے دوران افغانستان میں طالبان کی تیز پیشقدمی کا مشاہدہ کرتے ہیں۔
 
امریکہ اگرچہ اس نتیجے تک پہنچ چکا ہے کہ طالبان یا داعش جیسے دہشت گرد گروہ اس کی قومی سلامتی کیلئے خطرہ محسوب نہیں ہوتے لیکن دوسری طرف مشرق وسطی خطے میں اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے یہاں اپنی ہمیشگی فوجی موجودگی کو ضروری سمجھتا ہے۔ اس سوچ کی ایک وجہ یہ عقیدہ بھی ہے کہ کسی ایسی طاقت کے ظہور کا امکان بہت کم ہے جو پورے مشرق وسطی خطے میں واحد بڑی طاقت تصور کی جا سکتی ہو۔ دوسری طرف ایران اور سعودی عرب خطے میں ایکدوسرے کے حریف تصور کئے جاتے ہیں اور دونوں اپنا اثرورسوخ بڑھانے کیلئے کوشاں ہیں۔ البتہ یہ مقابلہ اسٹریٹجک نوعیت کا ہے اور اس کیلئے خطے میں بڑے پیمانے پر امریکہ کی فوجی موجودگی ضروری نہیں ہے۔
 
اسی طرح ایران اور چین کے درمیان جاری اسٹریٹجک تعاون کی نوعیت فوجی نہیں بلکہ مالی اور تجارتی ہے۔ اس اسٹریٹجک تعاون کے نتیجے میں چین ایران سے سستا تیل دریافت کر پائے گا۔ لہذا امریکی پالیسی میکرز اس بارے میں مطمئن ہیں کہ ایران اور چین کے درمیان جاری اسٹریٹجک تعاون ہر گز امریکہ کیلئے براہ راست خطرہ بن کر سامنے نہیں آئے گا۔ چین نے خلیج تعاون کونسل کے ساتھ بھی تجارتی معاہدے کر رکھے ہیں جبکہ سعودی عرب اور عراق ایران کی نسبت زیادہ مقدار میں چین کو تیل برآمد کرنے میں مصروف ہیں۔ اسی طرح خلیج تعاون کونسل کے رکن ممالک نے ایران سے کئی گنا زیادہ اسلحہ بھی چین سے خریدا ہے۔
 
خطے میں امریکہ کی فوجی موجودگی کے بارے میں بہت سے مفروضات پائے جاتے تھے جن میں سے کافی مفروضات یا تو ختم ہو گئے ہیں یا ان میں تبدیلی واقع ہو رہی ہے۔ ایک مفروضہ یہ تھا کہ امریکہ خطے میں اپنی فوجی موجودگی برقرار رکھے گا تاکہ ایک طرف اپنی تیل کی درآمدات کو باقی رکھ سکے اور دوسری طرف اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم کی مدد جاری رکھ پائے۔ اسی طرح اس کا ایک اور مقصد علاقائی یا عالمی سطح پر ایک نئی طاقت سامنے آنے کو روکنا ہے۔ ایسی طاقت جو خطے پر تسلط پیدا کرنے کی خواہاں ہو اور امریکہ کے مفادات کیلئے بھی خطرہ بن سکتی ہو۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ امریکہ خود سب سے زیادہ تیل اور قدرتی گیس پیدا کرنے والا ملک بن چکا ہے۔ اسی طرح قدرتی ایندھن کی پیداوار کا بڑا حصہ امریکہ، کینیڈا، میکسیکو اور برازیل کے پاس ہے۔
 
ایک حقیقت جو سب سے زیادہ واضح ہے وہ یہ کہ مشرق وسطی سے متعلق امریکی حکمت عملی میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی۔ حتی افغانستان اور عراق سے امریکی فوجیوں کے انخلاء کے بعد بھی مشرق وسطی خطے میں دسیوں ہزار امریکی فوجی موجود ہیں۔ مزید برآں، خطے میں بڑی تعداد میں امریکہ کی ایئرفورس اور نیوی کے اڈے بھی پائے جاتے ہیں۔ لیکن امریکہ کی اس فوجی موجودگی نے کبھی بھی خطے میں موجود مشکلات یا تنازعات کے حل میں کوئی مدد فراہم نہیں کی ہے۔ مسلح گروہوں کی جانب سے دہشت گردانہ سرگرمیوں کے تسلسل کے باوجود یہ گروہ محض علاقائی حد تک خطرہ تصور کئے جاتے ہیں اور ان سے نمٹنے کیلئے امریکہ کی محدود فوجی موجودگی ہی کافی ہے۔ لہذا امریکہ نے افغانستان سمیت خطے میں اپنی فوجی موجودگی کم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
 
خطے سے متعلق دوسرا اہم نکتہ اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم سے متعلق ہے۔ صہیونی رژیم نے متحدہ عرب امارات اور بحرین جیسے عرب ممالک سے اپنے سفارتی اور دوستانہ تعلقات بڑھا کر مشرق وسطی خطے میں اپنا اثرورسوخ بڑھانے کی کوشش کی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ان سرگرمیوں کا واحد مقصد ایران کے اثرورسوخ کو روکنا ہے۔ دوسری طرف صہیونی رژیم خطے سے باہر خاص طور پر شمالی افریقہ میں بھی اپنا اثرورسوخ بڑھانے کے درپے ہے۔ یہ بھی خطے میں امریکہ کی جانب سے اپنی فوجی موجودگی کم کرنے کی ایک وجہ ہے۔ اس خطے میں امریکہ کے مفادات محدود ہیں۔ افغانستان سمیت مشرق وسطی خطے سے امریکہ کے فوجی انخلاء کا مقصد دیگر خطوں جیسے جنوب مشرقی ایشیا، بحر اوقیانوس اور چین کے جنوبی سمندر میں فوجی موجودگی بڑھانا بھی ہے۔
خبر کا کوڈ : 944489
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش