0
Saturday 24 Jul 2021 15:45

امریکہ پر حاکم نظام اور مظلوم امریکی عوام(1)

امریکہ پر حاکم نظام اور مظلوم امریکی عوام(1)
تحریر: ثاقب اکبر

دنیا میں مختلف اداروں کی طرف سے امریکہ پر حاکم نظام کے بارے میں وحشت ناک رپورٹیں سامنے آتی رہتی ہیں۔ امریکی ریاست جو کچھ امریکہ سے باہر انجام دیتی ہے اور مختلف ممالک یا خطوں میں جو استعماری حربے اختیار کرتی ہے، ان پر بات ہوتی رہتی ہے، البتہ امریکی عوام پر یہ نظام جو ظلم ڈھاتا ہے، اس پر بات کم ہوتی ہے۔ تاہم اس بارے میں بھی بہت سی رپورٹیں منظر عام پر آ چکی ہیں۔ افسوس یہ ہے کہ تیسری دنیا کے ممالک جن میں پاکستان بھی شامل ہے، ان کا میڈیا بہت پست درجے کے مقاصد کے ساتھ خبروں کا انتخاب کرتا ہے اور لوگوں کو چھوٹی چھوٹی مقامی باتوں میں الجھائے رکھتا ہے اور اس طرح لوگ عالمی حقائق سے بے خبر رہ جاتے ہیں، حالانکہ عالمی ادارے اور بڑی حکومتوں کے فیصلے پاکستان اور اس کے عوام پر بھی گہرے اثرات مرتب کر رہے ہوتے ہیں بلکہ بعض اوقات ہماری موت و حیات کے نہایت اہم فیصلے ملک سے باہر کیے جا رہے ہوتے ہیں۔

سطور ذیل میں ہم اپنے قارئین کے سامنے چند ایسے حقائق بھی رکھیں گے، جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ پر حاکم استعماری، استبدادی اور بے رحم سرمایہ داری نظام خود اپنے ملک کے عوام کا بھی خیر خواہ نہیں۔ امریکی عوام گاہے اپنی مظلومیت کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ اسی طرح بیرون ملک امریکی افواج اور ریاست جو ظلم ڈھا رہی ہے، اس کے بارے میں جس قدر امریکی عوام کو آگاہی ہوتی ہے، اس کے خلاف وہ اپنا ردعمل ظاہر کرتے رہتے ہیں۔ البتہ امریکی ریاست اور ریاستی اداروں کی کوشش ہوتی ہے کہ امریکی عوام کو ایسے حقائق سے بے خبر رکھیں۔ اپنے حقوق اور عالمی حالات کے حوالے سے 2011ء میں امریکی عوام نے جو عظیم الشان مظاہرے کیے، وہ تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔ یہ مظاہرے ’’وال اسٹریٹ دھرنا‘‘ کے عنوان سے جانے جاتے ہیں۔ اس موقع پر دھرنا دینے والوں نے دنیا بھر کے عوام سے ایک روز باہر نکل کر مظاہروں کی اپیل کی تو دنیا کے تقریباً ایک ہزار شہروں میں عوام ان کی حمایت میں نکلے۔ مظاہروں میں شریک عوام کے بنیادی مطالبات یہ تھے:

افغانستان اور عراق پر مسلط کی گئی جنگوں پر خرچ ہونے والے ٹریلین ڈالرز کا خرچ امریکی عوام پر زبردستی مسلط کیا گیا ہے۔ ان افواج کو واپس امریکہ لایا جائے اور ان کے ذمے صرف امریکی سرحدوں کا دفاع ہونا چاہیے۔ یاد رہے کہ غیر ممالک اور علاقوں میں براجمان یا مصروف جنگ امریکی افواج کے لیے سالانہ بجٹ تین ٹریلین ڈالر سے زیادہ ہے۔ مظاہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ حکومت مالیاتی اداروں کو بچانے کے لیے بے پناہ قرضے لے رہی ہے اور ان قرضوں کی ادائیگی کا سارا بوجھ عوام کے اوپر لاد رہی ہے۔ بے روزگاری میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے اور عوام کو دی گئی سہولیات میں کٹوتی کی جا رہی ہے۔ مظاہرین میں مقبول ترین نعرہ یہ تھا کہ ایک فیصد سے اقتدار چھین کر ننانوے فیصد عوام کے سپرد کیا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ بڑی بڑی کمپنیوں کے مالکوں، ان کے ایجنٹ سیاستدانوں اور ان کے لے پالکوں کی مجموعی طور پر تعداد ایک فیصد سے زیادہ نہیں جو امریکی وسائل پر قابض ہیں۔

24 مارچ 2021ء کو چین نے یو ایس ہیومن رائٹس وائلیشنز 2020ء کے عنوان سے ایک رپورٹ جاری کی ہے، جس میں خود امریکہ کے سرکاری اداروں نے امریکی و برطانوی میڈیا کی رپورٹس کو سورس بنا کر امریکہ میں انسانی حقوق کی بدترین صورت حال کو دنیا کے سامنے پیش کیا گیا ہے۔ پاکستان کے معروف صحافی رعایت اللہ فاروقی نے اس رپورٹ کا خلاصہ تین اقساط میں مرتب کیا ہے، جس میں دیے گئے ہوشربا حقائق پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ کرونا کے مسئلے پر صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے عوام کے ساتھ جو بہیمانہ سلوک کیا، اس کے بارے میں رپورٹ میں خاصی تفصیلات پیش کی گئی ہیں، ہم اس سلسلے میں صرف دو نکات کا ذکر کرتے ہیں:
* انسانی جانوں کی ناقدری اس درجے کی تھی کہ ٹیکساس کے لیفٹیننٹ گورنر ڈین پیٹرک نے فاکس نیوز پر بات کرتے ہوئے 23 مارچ 2020ء کو کہا کہ اگر لوگوں کو موت سے بچانے کے لئے احتیاطی تدابیر کے نتیجے میں معیشت کو نقصان ہوتا ہے تو وہ معیشت کو بچائے رکھنے کے لئے موت کو ترجیح دے گا۔

* کرونا کے تدارک کے حوالے سے نظام اس قدر غیر منصفانہ ہے کہ امریکہ میں کرونا وائرس سے متاثر ہونے کا امکان سفید فاموں کے مقابلے میں سیاہ فاموں میں تین گنا زیادہ ہے۔ اگر اموات کے لحاظ سے دیکھا جائے تو انتظامی غفلت کے نتیجے میں کرونا سے سیاہ فام کے مرنے کا امکان سفید فام سے دوگنا ہے۔ صرف کرونا ہی نہیں بلکہ سیاہ فاموں کی تو عام حالات میں بھی صورتحال یہ ہے کہ سفید فام کے مقابلے میں سیاہ فام کا پولیس کے ہاتھوں مرنے کا امکان تین گنا زیاہ ہے۔ کرونا کی خوفناک اور خطرناک وبا کے پھیلائو کے دنوں میں دنیا کے دیگر ممالک اور صحت کے عالمی ادارے کے ساتھ امریکی حکومت نے جو رویہ اختیار کیے رکھا، اس کی بھی نہایت افسوسناک تفصیلات رپورٹ میں موجود ہیں۔ اس کے بارے میں بھی چند نکات ملاحظہ فرمائیں:

* عالمی ادارہ صحت دنیا بھر میں انسانی صحت کو لاحق خطرات کے حوالے سے کام کرنے ولا ادارہ ہے۔ جب دنیا بھر کے لوگ کرونا جیسی بدترین وبا کا شکار ہوئے اور عالمی سطح پر انسانی صحت کو لاحق خطرات سے نمٹنے کے لئے مربوط عالمی کوششوں کی ضرورت سب سے زیادہ بڑھی تو امریکہ نے عالمی ادارہ صحت کے فنڈز روک دیے اور اس پر چائنا سے جانبداری برتنے کے الزامات عائد کردیے، جس کی پوری دنیا نے مذمت کی، کیونکہ کرونا سے نمٹنے کے لئے اس ادارے کی عالمی سطح کی کوششوں کی شدید ترین ضرورت تھی اور حالات کا تقاضا یہ تھا کہ اس ادارے سے تعاون مزید بڑھایا جائے۔

* مریکہ نے ایران، شمالی کوریا، شام، کیوبا اور وینزویلا پر لگائی گئی اپنی پابندیاں کرونا جیسی عالمی وبا کے دوران میں بھی برقرار رکھیں۔ جس سے ان ممالک کے لیے اپنے کروڑوں شہریوں کے لیے عالمی برادری سے طبی امداد حاصل کرنے میں بے پناہ مشکلات پیش آئیں اور اس سے ان ممالک میں بے شمار قیمتی جانوں کا نقصان ہوا۔ انسانی جانوں کا یہ نقصان پابندیاں ختم یا نرم کرکے بڑی حد تک کم کیا جاسکتا تھا، مگر ایسا نہیں کیا گیا۔
* اقوام متحدہ کی ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق مشل بیچلیٹ نے 24 مارچ 2020ء کو اس حوالے سے بیان بھی جاری کیا کہ یہ پابندیاں ان ممالک میں طبی خدمات کی راہ میں بڑی رکاوٹ ثابت ہوں گی اور ان سے بڑے پیمانے پر نقصان ہوگا، لہٰذا انھیں ختم یا نرم کرکے قیمتی انسانوں کو بچایا جاسکتا ہے مگر اسے نظر انداز کر دیا گیا۔
* دنیا کے مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے 24 سینئر سفارتکاروں نے امریکہ سے اپیل کی کہ ایران پر پابندیاں نرم کی جائیں، تاکہ لاکھوں انسانی جانیں بچائی جا سکیں، مگر یہ اپیل بھی نظر انداز کر دی گئی۔

گذشتہ برس کے واقعات سے پوری دنیا آگاہ ہوچکی ہے، امریکہ میں کالوں کے ساتھ ریاستی سطح پر جس بے رحمی کا سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ اس کی مثال اسرائیل اور بھارت میں روا رکھے جانے والے امتیازی سلوک کے علاوہ شاید ہی کسی اور ملک سے دی جا سکے۔ مذکورہ رپورٹ میں اس ضمن میں بھی تفصیلات پیش کی گئی ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے:
* عین عالمی وباء کے دوران میں سفید فام پولیس افسر کے ہاتھوں قتل کئے جانے والے جارج فلائڈ کی موت کے نتیجے میں پورے ملک کی سطح پر احتجاجی تحریک شروع ہوئی۔ یہ احتجاج امریکہ کی پچاس ریاستوں میں پھیل گیا۔ اس دوران میں امریکی حکومت کا کردار یہ رہا کہ طاقت کے زور پر اس تحریک کو کچلنے کی کوشش کی گئی۔ اس تحریک کے دوران میں احتجاجیوں میں سے 10 ہزار افراد کو حراست میں لیا گیا۔ صحافیوں کی ایک بڑی تعداد کو اس احتجاج کے دوران میں گرفتار بھی کیا گیا اور ان پر حملے بھی کیے گئے۔ رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے:
* 18 سال سے کم عمر کے غیر سفید فام بچوں کی تعداد امریکہ میں 33 فیصد ہے، لیکن اس کی جیلوں میں قید 18 سال سے کم عمر والے بچوں میں غیر سفید فام بچوں کی تعداد 66 فیصد ہے۔

* 15 ستمبر 2020ء کو لاس اینجلس ٹائمز میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق امریکہ بھر میں سزائے موت کے منتظر قیدیوں کی غالب اکثریت سیاہ فاموں کی ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ امریکہ میں کسی سفید فام کو سیاہ فام کے قتل پر سزائے موت کا امکان بہت ہی کم ہے۔ سفید فام کو سزائے موت سنائے جانے کے امکانات تب ہی واضح ہوتے ہیں، جب اس نے کسی سفید فام کو ہی قتل کیا ہو۔
* نسلی امتیاز کی صورت حال کس قدر بدتر ہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگا یا جا سکتا ہے کہ ایف بی آئی کے تمام انتظامی عہدوں پر اس وقت سفید فام افسران براجمان ہیں جبکہ اس ادارے کے 13 ہزار ایجنٹس میں سے صرف چار فیصد سیاہ فام ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ اس ادارے کی خواتین میں بھی سیاہ فام خواتین کی تعداد صرف ایک فیصد ہے۔ یاد رہے کہ سیاہ فاموں کا تناسب امریکہ میں 13 فیصد ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خبر کا کوڈ : 944886
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش