7
Saturday 24 Jul 2021 17:02

عالمی بساط کے بڑے کھیل کا نیا مرحلہ

عالمی بساط کے بڑے کھیل کا نیا مرحلہ
تحریر: محمد سلمان مہدی

بہت ساری اہم ڈیولپمنٹس جو پاکستان میں خواص کی توجہ کی متقاضی ہیں، بظاہر خواص کی عدم توجہی کا شکار ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین ایک نجی دورے پر امریکا میں سات دن گذار آئے، وہاں کی کوئی چھوٹی سی بھی مصروفیت سامنے نہ آسکی، کیوں!؟ جوزف بائیڈن کی صدارت کے بعد سے تیزی سے ہونے والے واقعات، لیکن پاکستان میں ان سے صرف نظر! کیوں؟ بلاشبہ یونائٹڈ اسٹیٹس آف امریکا بین الاقوامی تعلقات کا ایک بہت بڑا کردار ہے۔ عالمی سطح کی سیاست پر اس کا اثر و رسوخ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارت میں امریکا کا اصلی چہرہ دنیا کے سامنے آیا۔ جوزف بائیڈن کی صدارت میں امریکا نے بہت تیزی سے عالمی صف بندی کے پرانے حربے آزماتے ہوئے نئی کامیابیاں سمیٹیں۔ اس کا ایک مظہر روس کے سامنے بحر اسود کے سمندر میں بین الاقوامی بحری فوجی مشقیں تھیں۔ بڑے فخر سے امریکا نے دنیا کے سامنے اعلان کیا کہ اس میں 32 ممالک نے مختلف حیثیت میں شرکت کی۔ پاکستان ان مشقوں میں مبصر کی حیثیت سے شریک ہوا۔ جعلی ریاست اسرائیل تو ان مشقوں میں مسلسل شرکت کرتا آرہا ہے، لیکن پاکستان کی شرکت بہرحال ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ضرور تھا، لیکن پاکستان میں اس پر بڑی اور اہم شخصیات خاموش رہیں۔

بین الاقوامی منظر نامے میں افغانستان کی اہمیت کو یوں ظاہر کیا جا رہا ہے، گویا عالمی بساط پر دیگر کوئی فلیش پوائنٹ ہی نہ ہو۔ افغانستان ایک اہم ایشو ضرور ہے، لیکن ہیٹی میں امریکی ٹرینڈ دہشت گردوں نے وہاں کے صدر کو قتل کر دیا، یہ بھی ایک بڑا واقعہ تھا۔ ہیٹی کی طرح افغانستان کے اس پورے کھیل میں شاطر کھلاڑی خود امریکا ہی ہے، لیکن بات یہاں سے بہت آگے جاچکی ہے۔ عالمی بساط کے سب سے بڑے اور شاطر کھلاڑی امریکا نے بحر اسود میں روس کے خلاف طاقت کا مظاہرہ کیا تھا۔ اب یہاں پاکستان اور افغانستان سمیت پورے خطے میں چین کے خلاف امریکا مصروف عمل ہے تو عالمی بساط کے اس بڑے کھیل میں افغانستان کے پڑوسی ملک پاکستان کے سب سے قریبی اور بااعتماد ترین دوست ملک چین کے حوالے سے بھی امریکی بلاک کی پالیسی واضح ہے۔ یہ سب پاکستانیوں کے لیے توجہ طلب بلکہ لائف اینڈ ڈیتھ ایشوز ہیں۔ پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی قیادت میں وزارت خارجہ کی ٹیم چین کے سرکاری دورے کو اس تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ جیو نیوز کی ایک رپورٹ کے مطابق انٹیلی جنس ادارے آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل فیض حمید بھی چین میں اسٹرٹیجک مذاکرات کرنے پہنچ چکے ہیں۔ مورخہ 14 جولائی2021ء کو ایک بس میں دھماکہ ہوا، جس کے نتیجے میں 9 چینی شہریوں سمیت 13 افراد ہلاک ہوئے۔ یہ وہ افراد تھے، جو داسو ڈیم پر کام کیا کرتے تھے۔ ابتدائی طور پر اسے گیس لیکیج کے سبب دھماکہ قرار دیا گیا، لیکن بعد ازاں اس میں دہشت گردی کا امکان سامنے آیا۔

چینی ذرائع ابلاغ کے مطابق پاکستان اور چین دونوں ہی نے اس بس دھماکے کو دہشت گردی قرار دیا ہے۔ چونکہ کسی گروہ نے ذمے داری قبول نہیں کی، اس لیے اس میں کسی تیسرے ملک کے ملوث ہونے کا امکان ظاہر کیا گیا ہے۔ چینی ذرائع ابلاغ نے تجزیہ نگاروں کی رائے کے پیش نظر علیحدگی پسند بلوچ گروپس اور پاکستانی طالبان کے ملوث ہونے کا بھی ذکر کیا ہے۔ انڈراسٹوڈ ہے کہ ریاست پاکستان اس تیسرے ملک میں بھارت کا نام لے گی اور چینی حکومت شاید امریکا کا نام لے، کیونکہ غیر ملکی ہاتھ کے ملوث ہونے کی تاریخ سے رجوع کریں تو یہی دو ملک سرفہرست رہے ہیں۔ امریکا کا نام اس لیے لیا جاسکتا ہے کہ اس نے پہلے سے چین پر دباؤ بڑھا رکھا ہے۔ اب چین پر نئی پابندیاں بھی لگائیں ہیں۔ چین نے بھی جوابی کارروائی کرتے ہوئے امریکی شخصیات پر پابندیاں لگانے کا اعلان کیا ہے۔ چین نے امریکا کے اس سابق وزیر پر بھی پابندی لگائی ہے، جس نے پاکستان کا دورہ کیا تھا اور امریکا پاکستان تجارتی تعلقات میں وسعت کی پالیسی وضع کی تھی۔ البتہ 24 جولائی کی سہ پہر تک چین کے ذرائع ابلاغ نے پاکستان کے اعلیٰ حکام کے دورہ چین کو کوئی خاص اہمیت نہیں دی ہے۔ یاد رہے کہ چین، پاکستان کے لیے امریکا سے زیادہ اہم ملک ہے۔ پاکستان کو قرضے دینے میں پیش پیش چین ہے اور چین ہی نے پاکستان میں بڑے پیمانے پر سرمایہ لگایا ہوا ہے۔ اس کی ایک زندہ مثال اقتصادی راہدی منصوبہ سی پیک ہے۔ بین الاقوامی فورمز اور خاص طور پر اقوام متحدہ کی سکیورٹی کاؤنسل میں ویٹو پاور چین کے علاوہ کسی اور ویٹو پاور پر پاکستان اس طرح اعتماد نہیں کرسکتا۔

یہی وجہ ہے کہ امریکا کی قیادت میں کام کرنے والا پورا امریکی بلاک پاکستان کو چین سے دور کرنے کے جتن کرتا رہتا ہے۔ داسو ڈیم جانے والی بس میں دھماکہ اس کی ایک تازہ مثال ہے اور یہ سانحہ صوبہ خیبر پختونخواہ میں ہوا ہے کہ جہاں افغانستان فیکٹر دیگر عوامل سے زیادہ محسوس کیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح یہ رخ بھی مدنظر رہے کہ چائنا علاقائی ربط سازی کے لیے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے پر تیزی سے عمل پیرا ہے۔ اس لیے افغانستان و پاکستان و ایران تا ترکی، چین پرامن راستوں کی تلاش میں ہے اور چین کے ان پرامن راستوں کا امن تباہ کرنا امریکی بلاک کی ترجیحات میں سرفہرست دکھائی دیتا ہے۔ بظاہر یہی لگتا ہے کہ بیجنگ اور اسلام آباد بعض اہم معاملات پر ہم آہنگ نہیں ہیں۔ عالمی بساط کے اہم کھلاڑی بھی پاکستان کے وزیراعظم عمران خان اور ان کی انصافین حکومت سے ہٹ کر بھی سوچ رہے ہیں۔ اس زاویے سے بلاول بھٹو زرداری کا نجی دورہ امریکا ایک معمہ کے طور پر موجود تھا۔ اب برطانیہ میں افغانستان کے نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر حمداللہ محب اور وزیر مملکت سید سادات نادری کی ملاقات بین الاقوامی سفارتکاری میں سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کی اہمیت کو ثابت کر رہی ہیں، یعنی نواز شریف کو بین الاقوامی سفارتی مشاورت میں آن بورڈ لینے کا ایک ثبوت یہ ملاقات تھی، جو افغان حکام نے کی۔

اب پلٹتے ہیں امریکا و چین فیکٹر کی طرف کہ جہاں بھارت فیکٹر کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ چند مشترکہ اور چند مختلف وجوہات کی بنیاد پر پاکستان اور چین دونوں ہی کے بھارت کے ساتھ کچھ تنازعات اور شدید اختلافات ہیں۔ البتہ چین برکس اور شنگھائی تعاون تنظیم میں بھارت کے ساتھ بھی ہے۔ شنگھائی تنظیم میں ساتھ تو پاکستان بھی ہے، لیکن پاکستان کی داخلی ریاستی پالیسی میں بھارت کو ایک مرکزی ولن کا درجہ حاصل رہا ہے۔ پاکستانی ریاست کا قومی بیانیہ اور خارجہ پالیسی کا محور انڈیا سینٹرک ہی رہا ہے۔ یہ الگ بات کہ جنرل ضیاء کی کرکٹ ڈپلومیسی، مرار جی ڈیسائی کو پاکستان کا اعلیٰ قومی اعزاز دینا اور بھارت کے ساتھ تجارتی تعلقات کا سلسلہ قائم رکھنا، ریاست پاکستان کی پالیسی میں قول و فعل کے تضاد کے طور پر ہی سہی لیکن تاریخی حقیقت کے طور پر موجود ہے۔ امریکا اور افغانستان کے اعلیٰ حکام کے بیرونی دوروں کے لحاظ سے اگلے ہفتے بھارت میں پڑاؤ ہوگا۔ 23 جولائی کو افغانستان ریاست کے اہم فرد عبداللہ عبداللہ نے نئی دہلی میں بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر سے ملاقات کی ہے۔ افغانستان کے آرمی چیف جنرل ولی محمد احمد زئی 27 جولائی سے بھارت کا دورہ کر رہے ہیں۔ کیا اسے محض اتفاق سمجھا جائے کہ امریکی وزیر خارجہ اینتھونی بلنکن بھی اسی دن بھارت کے دورے پر ہوں گے۔ یہ اتفاق تو امریکا، افغانستان و بھارت سہ طرفہ ہم آہنگی کو ظاہر کرتا ہے۔ امریکی پالیسی یہ رہی ہے کہ اعلیٰ سطحی دوروں میں پاکستان کو اہمیت نہیں دی جاتی، البتہ لو پروفائل میں یا ان رپورٹڈ میل ملاقات اور روابط کا سلسلہ جاری رہتا ہے اور ان میں فوج اور انٹیلی جنس اداروں کو اہمیت دی جاتی ہے، نہ کہ سویلین قیادت کو۔

جیسا کہ ہم پہلے ہی یہ پیشنگوئی کرچکے تھے کہ بائیڈن کی صدارت میں امریکا ماضی کی طرح مکاری سے پیش قدمی کرے گا، لیکن ٹرمپ کی طرح چرب زبانی سے گریز کرے گا۔ بعینہ اسی انداز میں صدر بائیڈن کے تحت امریکا بہت تیزی سے اپنے نیٹو اور نان نیٹو اتحادیوں کے ساتھ پیش قدمی کر رہا ہے۔ کہنے کو پاکستان امریکا کا نان نیٹو اتحادی ہے، لیکن اس ٹائٹل کا کوئی خاص فائدہ پاکستان کو بحیثیت مملکت حاصل نہیں ہوا۔ امریکا اور بھارت نے متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کے ذریعے پاکستان سے اپنی باتیں منوانے کی پالیسی پر کامیابی سے عمل کر دکھایا ہے۔ پاکستان میں حکومت اور حزب اختلاف کے رہنماؤں کو الفاظ اور الزامات کی جنگ سے فرصت نہیں جبکہ بہت تیزی سے مشکلات کی آندھی پاکستان کی طرف آتی دکھائی دے رہی ہے۔ مریم نواز نے الزام لگایا کہ انصافین حکومت آزاد کشمیر کو پاکستان کا صوبہ بنانے کا منصوبہ بنا چکی ہے۔ گو کہ عمران خان نے تحریک انصاف کی آزاد کشمیر الیکشن مہم کے جلسے میں اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت کشمیریوں کے حق خود ارادیت کی ہی بات کو دہرایا لیکن 23 جولائی یعنی اسی دن فردوس عاشق اعوان نے عمران خان کی قیادت میں کشمیر کو پاکستان کا حصہ بنانے کی بات کی۔ اتوار 25 جولائی 2021ء کو آزاد کشمیر کے الیکشن کے مطلوبہ نتائج نہ آنے کی صورت میں نون لیگ اور پی پی پی کا ردعمل ہی داخلی صورتحال کے مستقبل کو ظاہر کر دے گا۔ البتہ افغانستانی حکام کی نواز شریف سے ملاقات پر عمران خانی حکومت کے حکام نے نواز شریف پر راء دوستی کے الزامات لگائے ہیں۔ مریم نواز نے جواب میں اسی حمداللہ محب کی پاکستان آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات کی تصویر بھی شیئر کر دی ہے۔

عالمی بساط کا بڑا کھلاڑی افغانستان کے حوالے سے میڈیا وار جیت چکا ہے۔ اب دنیا بھر میں یہ تاثر قائم ہوچکا ہے، گویا امریکا افغانستان سے مکمل فوجی انخلاء کر رہا ہے۔ امریکی حکومت کے بقول پچانوے فیصد فوجی انخلاء ہوچکا، محض پانچ فیصد انخلاء باقی ہے، جو اگست کے آخر تک مکمل کر لیا جائے گا، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ امریکا کا اصل منصوبہ یہ ہے کہ وہ سات سو تا ایک ہزار فوجی افغانستان ہی میں رکھے گا۔ امریکی سفارتخانے کی حفاظت کے نام پر یہ امریکی فوجی یہیں رکھنے کا منصوبہ ہے۔ لیکن دنیا بھر میں تجزیہ نگار و مبصرین اس طرح تبصرے کر رہے ہیں، گویا سو فیصد فوجی انخلاء عمل میں آرہا ہے، حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ دنیا کے کس ملک میں سات سو تا ایک ہزار فوجی کسی بھی دوسرے ملک میں اپنے سفارتخانے کی حفاظت پر مامور ہیں، کوئی نام ہے تو بتائیں!؟ اب جولائی کے آخری ہفتے میں امریکا اور بھارت کے اعلیٰ حکام کی ملاقات میں کیا طے ہوتا ہے، یہ سامنے آنا باقی ہے۔ ایران بظاہر داخلی معاملات اور نئے منتخب صدر کے آنے تک کوئی خاص فعالیت کرتا دکھائی نہیں دے رہا۔ حالات پہلے بھی اچھے نہیں تھے اور آئندہ مزید خراب ہونے کے واضح امکانات ہیں۔ افغانستان میں خانہ جنگی کا سیدھا سیدھا مطلب یہ ہے کہ پہلے مرحلے میں افغان متاثرین صوبہ خیبر پختونخوا اور صوبہ بلوچستان آئیں گے اور ماضی ایک معتبر گواہ کے طور پر موجود ہے کہ آخرکار ان کی بڑی تعداد کا آخری اسٹاپ کراچی ہوگا، جس کے آگے وہ جانہیں سکتے کیونکہ سمندر ہے۔
خبر کا کوڈ : 944909
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش