3
Saturday 24 Jul 2021 18:45

کئی کتابوں پر بھاری شخصیات کی تلاش کا عمل

کئی کتابوں پر بھاری شخصیات کی تلاش کا عمل
تحریر: نذر حافی
nazarhaffi@gmail.com

کتاب اور علم کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ ہمارے ہاں جدید زندگی کی پے در پے مصروفیات نے کتاب خوانی کے شوق کو شدید متاثر کیا ہے۔ ایسے میں ہمارے درمیان ایسی شخصیات بھی موجود ہیں، جن کی معلومات اور سماجی تجربہ کئی بھاری بھرکم کتابوں سے بھی زیادہ ہے۔ سپورٹ کشمیر انٹرنیشنل فورم اور صدائے کشمیر فورم کی ایک کوشش یہ ہے کہ ایسی شخصیات کو ڈھونڈ کر اُن کے تجربات اور معلومات سے آگاہی حاصل کی جائے۔ جہانِ اسلام کے فراموش شدہ موضوعات پر گفتگو کرنے کیلئے اکیسویں سیشن میں سید غلام رضا نقوی ایڈووکیٹ صاحب ہمارے مہمان تھے۔ اُن کا مختصر تعارف یہ ہے کہ وہ اس وقت مسلم کانفرنس آزاد کشمیر کے نائب صدر ہیں جبکہ سابق چیئرمین اسلامک ڈیموکریٹک پارٹی، سابق ممبر آزاد جموں و کشمیر کونسل (دو مرتبہ)، سابق چیئرمین پبلک اکاونٹس کمیٹی، سابق چیئرمین اسٹینڈنگ کمیٹی، سابق چیئرمین بلدیہ ہونے کا تجربہ بھی رکھتے ہیں۔

 انہوں نے مسئلہ کشمیر کو درپیش خدشات اور امکانات پر مفصل گفتگو کی۔ گفتگو کے دوران انہوں نے اس مسئلے کا پسِ منظر بیان کرنے کے بعد کہا کہ مودی حکومت نے  5 اگست  2019ء کو کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے حوالے سے اپنے آئین میں جو ترمیم کی تھی، وہ کشمیریوں کیلئے کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔ کشمیریوں کا بھارتی آئین سے کوئی لینا دینا نہیں۔ کشمیری اقوام متحدہ کی  قراردادوں کے مطابق اپنا حق خود ارادیت مانگ رہے ہیں۔ انہوں نے دہلی میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی سے کشمیر اور ہندو اکثریتی خطے جموں کے چودہ سیاسی رہنماؤں کی ملاقات کو بے معنی اور غیر موثر قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ جو لوگ پہلے سے ہی کشمیری عوام کے  بجائے ہندوستان کے ترجمان ہیں، وہ مودی سرکار کے سامنے کشمیریوں کی کیا ترجمانی کریں گے اور ان سے کشمیریوں کو کسی قسم کی توقعات بھی نہیں ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ کشمیری ایک نظریاتی جنگ لڑ رہے ہیں اور اس جنگ کو باہمی اتحاد اور وحدت کے ساتھ ہی جیتا جا سکتا ہے۔

انہوں نے اپنے وسیع تر تجربے کی روشنی میں تحریکِ آزادی کشمیر کے اتار چڑھاو کو بیان کرتے ہوئے ان عوامل کا بھی جائزہ لیا، جنہوں نے تحریک آزادی کشمیر کو متاثر کیا ہے۔ ان کے مطابق اس عوامی و سیاسی اور جمہوری جدوجہد میں شدت پسند عناصر کے داخلے نے تحریکِ آزادی کو زِک پہنچائی ہے۔ انہوں نے کہا کہ آزاد کشمیر کا نام اس لئے آزاد کشمیر رکھا گیا تھا، چونکہ اُس وقت کشمیری قیادت کو یقین تھا کہ بہت جلد باقی کشمیر بھی آزاد ہو جائے گا۔ چنانچہ ایک حصے کا نام آزاد کشمیر اور دوسرے کا مقبوضہ کشمیر انتخاب کیا گیا۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کے حوالے سے انتہائی ماہرانہ اور ٹھوس جواب دیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ سوال آج کا نہیں بلکہ بہت پرانا ہے اور اس پر ماضی میں بھی بحث ہوتی رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ آئینی طور پر گلگت و بلتستان پاکستان کا حصہ نہیں ہے۔ اگر اسے پاکستان میں شامل کیا جاتا ہے تو اس کیلئے پاکستان کے آئین میں ترمیم کرنی پڑے گی۔

انہوں نے وضاحت کی کہ جب ماضی میں گلگت بلتستان کے عوام نے صوبے کا تقاضا کیا تو وہاں کے بعض متشدد سُنی عوام نے یہ سوچا کہ اگر یہ منطقہ صوبہ بن گیا تو اس سے وہاں کے اکثریتی فرقے اہل تشیع کو فائدہ پہنچے گا۔ چنانچہ انہوں نے آزاد کشمیر حکومت کا سہارا لیا اور آزاد کشمیر کے سیاستدان بھی اس مسئلے میں بہت حساس ہیں کہ گلگت بلتستان کو پاکستان کا حصہ بنایا جائے۔ اس وقت ایک تجویز یہ سامنے آئی تھی کہ آزاد کشمیر اور گلگت و بلتستان کا صدر ایک ہو جائے اور اسمبلی و  وزیراعظم اپنے اپنے ہو جائیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر گلگت بلتستان کو الگ صوبہ بنایا جاتا ہے تو ایک تو پاکستان کے آئین میں ترمیم ضروری ہے اور دوسرے یہ کہ اقوامِ متحدہ کی قراردادوں میں جس منطقے کو حق خود ارادیت دینے کی بات کی گئی ہے، اس میں گلگت و بلتستان بھی شامل ہے۔ اگر اس سے اقوامِ متحدہ کی قراردادیں متاثر نہیں ہوتیں تو گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

23 جولائی 2021ء کی شب کو بائیسویں آن لائن سیشن میں ہمارے مہمان اور تجزیہ کار محترم عبدالحمید صاحب تھے۔ وہ ایجوکیشن کے لحاظ سے ڈبل ماسٹر ہیں، ایم اے انگریزی ادب و ایم اے اردو ادب ہونے کے ساتھ ساتھ ایف سی کالج لاہور میں انگریزی کے لیکچرار بھی رہے ہیں۔ انہوں نے  پاکستان آرمی میں کمیشن بھی حاصل کیا اور آرمی کی ملازمت سے بطور میجر سبکدوش ہوئے۔ علاوہ ازیں انہوں نے سی ایس ایس کرکے سول سروس بھی کی اور دوران سروس جدہ، بنکاک اور سٹاک ہوم بھی رہے۔ سول سروس سے بطور فیڈرل سیکرٹری ریٹائرڈ ہونے کے بعد اکیڈمی ادبیات کے چیئرمین بھی بنے۔ پھر مقتدرہ قومی زبان میں کچھ عرصہ رہے۔ اسی طرح تین سال تک وفاقی محتسب میں سینیئر ایڈوائزر کی خدمات بھی انجام دیں۔ دنیائے ادب  اور جہانِ مذہب کے حوالے سے دو کتابوں کے مصنف بھی ہیں۔

انہوں نے مسئلہ کشمیر پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ابتدائی چالیس سالوں میں خود مقبوضہ کشمیر کی قیادت تحریکِ آزادی کے حوالے سے سنجیدہ نہیں تھی۔ بعد ازاں بھارتی مظالم پر عوامی ردعمل، جوانوں کی شہادتیں، بچوں اور خواتین کی قربانیاں اس تحریک کی حیاتِ نو  کا باعث بنیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ تحریک اب مقبوضہ کشمیر کے لوگوں کی عوامی اور مقامی تحریک میں بدل چکی ہے۔ انہوں نے اس موقع پر علامہ اقبال کا یہ شعر بھی پڑھا کہ
فطرت کے مقاصد کی کرتا ہے نگہبانی
یا بندہ صحرائی یا مرد کہستانی

ان کے تجزیے کے مطابق آزادی کشمیریوں کا فطری حق ہے۔ لہذا اب کشمیریوں کو مردِ کہستانی کا کردار ادا کرنا چاہیئے۔ اس حوالے سے انہوں نے آزاد کشمیر اور پاکستان کے عوام سے یہ بھی کہا کہ وہ دنیا میں جہاں جہاں ہیں، وہاں مسئلہ کشمیر کے حوالے سے آگاہی مہم چلائیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے پاکستانی سفارتخانوں کو فعال کرنے کی ضرورت پر زور دیا، ان کا کہنا  تھا کہ یہ پاکستانی سفارتخانوں کی اولین ذمہ داری ہے، جس سے کوتاہی برتی جا رہی ہے۔ اس موقع پر انہوں نے کہا کہ مسئلہ کشمیر کو دو اہم خدشات لاحق ہیں۔ ایک مرکزی اور مطلوبہ قیادت کا نہ ہونا اور دوسرے میڈیا لیس ہونا۔ ان کے مطابق اگر پاکستانی سفارت خانے  اور پاکستانی کمیونٹی فعال ہو جائے تو میڈیا کا مسئلہ تو حل ہوسکتا ہے لیکن کشمیریوں کیلئے مرکزی قیادت پر متفق ہونا بہت محال اور پیچیدہ لگ رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ کشمیریوں کو ایک مرکزی قیادت پر جلد از جلد متفق ہونے کی ضرورت ہے۔ اس موقع پر ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ مودی سرکار کے پانچ اگست والے اقدام سے مسئلہ کشمیر کو نقصان کے بجائے فائدہ پہنچا ہے اور یہ مسئلہ ایک مرتبہ پھر بین الاقوامی سطح پر ابھرا ہے۔ آخر میں انہوں نے مقبوضہ کشمیر کے عوام کو یہ تجویز دی ہے کہ وہ دنیا کے جن ممالک میں بھی موجود ہیں، وہاں کانفرنسز کریں اور ان میں یہ قرارداد منظور کریں کہ وہ ہندوستانی نہیں ہیں اور ہندوستان سے الگ ایک مستقل قوم  ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایسی قرادادیں نہایت اہمیت کی حامل ہیں۔
خبر کا کوڈ : 944914
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش