3
0
Wednesday 18 May 2022 13:02

ملی یکجہتی کونسل کی مجلس قائدین کے اجلاس میں ایک منفرد آواز

ملی یکجہتی کونسل کی مجلس قائدین کے اجلاس میں ایک منفرد آواز
تحریر: سید ثاقب اکبر

16 مئی 2022ء کو ملی یکجہتی کونسل کی مجلس قائدین کا اجلاس اسلام آباد میں کونسل کے صدر جناب ڈاکٹر صاحبزادہ ابو الخیر محمد زبیر کی صدارت میں منعقد ہوا۔ اس اجلاس میں کونسل کی بیس رکن جماعتوں کے قائدین اور اکابرین موجود تھے، جن میں جماعت اسلامی کے امیر جناب سراج الحق، مجلس وحدت مسلمین کے چیئرمین علامہ راجہ ناصر عباس، ملی یکجہتی کونسل کے سیکرٹری جنرل لیاقت بلوچ، اسلامی تحریک کے نائب صدر علامہ عارف حسین واحدی، تحریک اویسیہ کے سربراہ پیر غلام رسول اویسی، اسلامی جمہوری اتحاد کے سربراہ علامہ زبیر احمد ظہیر، امیر جماعت اہل حدیث حافظ عبد الغفار روپڑی، تحریک احیائے خلافت کے امیر قاضی ظفر الحق، جماعت اہل حرم کے سربراہ مفتی گلزار احمد نعیمی، تحریک جوانان پاکستان کے سربراہ عبد اللہ گل، علماء و مشائخ رابطہ کونسل کے سربراہ خواجہ معین الدین کوریجہ، وفاق علمائے شیعہ کے سیکرٹری جنرل مولانا افضل حیدری، ہدیۃ الہادی کے صدر مفتی معرفت شاہ، تحریک اللہ اکبر کے مرکزی راہنماء وحید شاہ، اسلامی تحریک کے سیکرٹری جنرل علامہ شبیر حسن میثمی، مجلس وحدت مسلمین کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل ناصر عباس شیرازی، تنظیم اسلامی کے مرکزی راہنماء راجہ محمد اصغر، جماعت اسلامی کے نائب امیر پروفیسر محمد ابراہیم، امامیہ آرگنائزیشن کے چئرمین سید سجاد نقوی، جمعیت اتحاد العلماء کے سربراہ مولانا عبد المالک اور دیگر شامل تھے۔

اس اجلاس میں دیگر امور کے علاوہ ملک کی موجودہ سیاسی صورتحال بھی زیر بحث آئی۔ اس سلسلے میں مختلف راہنماؤں نے اپنا نقطہ نظر پیش کیا۔ بعض امور روایتی تھے اور بعض باتیں ملک کی موجودہ صورتحال کے حوالے سے کی گئیں۔ سیاسی عمائدین اور قومی قائدین کا طرز عمل بھی زیر بحث آیا۔ تنقید و اعتراض کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ مذہبی جماعتوں کا کیا بیانیہ اور متفقہ لائحہ عمل ہو، اس موضوع پر بھی بات کی گئی۔ اجلاس کے آخر میں جو اعلامیہ جاری کیا گیا، اس کا پہلا نکتہ پاکستان میں اسلام کی بالادستی اور استعمار کی غلامی سے نجات کے متعلق ہے۔ اس نکتے کو اعلامیے کی روح قرار دیا جاسکتا ہے۔ اس میں کہا گیا ہے:
* ملک میں انتشار، فساد، نفسا نفسی کی بڑی وجہ اور بنیاد اسلام، قرآن و سنت، آئین سے انحراف ہے۔ اغیار، استعمار، استکبار کی غلامی سے انکار اور نجات پاکستان میں فقط نظام مصطفیؐ کے قیام سے ممکن ہے۔ ماضی کی تمام حکومتوں نے قوم پر امریکہ، یورپ، عالمی استعماری مالیاتی اداروں کی غلامی مسلط کی۔ ملی یکجہتی کونسل میں شامل دینی جماعتوں کے قائدین کا متفقہ اعلان ہے کہ ان شاء اللہ اپنی قوم اور ملک کی سلامتی حقیقی آزادی اور وقار کے تحفظ نیز غیر اللہ کی غلامی سے نجات تک ہماری جدوجہد جاری رہے گی۔

تمام قائدین اور راہنماؤں کے احترام کے ساتھ راقم کی رائے میں اس اجلاس میں منفرد آواز علامہ راجہ ناصر عباس جعفری چیئرمین مجلس وحدت مسلمین کی تھی۔ اس تحریر میں ہم اپنے قارئین کی خدمت میں اجلاس میں کی گئی ان کی گفتگو کے مطالب پیش کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ آیت اللہ باقر الصدر نے فرمایا: ہر قوم کے لاشعور میں کچھ عزائم، آرزوئیں، ارمان اور حقیقی مقاصد ہوتے ہیں۔ لیڈر شپ ان آرزووں کو زبان دیتی ہے۔ جب وہ بات کرتی ہے تو لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم بات کر رہے ہیں۔ وہ حرکت کرتے ہیں تو لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم حرکت کر رہے ہیں۔ لیڈر شپ  لوگوں کے عزائم، آرزوؤں اور ارمانوں کو پڑھنا اور ان کو عام فہم زبان دینے کا نام ہے۔ وہ زبان جسے عام لوگ سمجھ سکیں۔ پاکستان میں ایک بزرگ عالم دین نے امام خمینی کے بارے کہا تھا کہ امام خمینی کی باتیں بہت سادہ اور عام فہم ہوتی ہیں۔ امام خمینی ایک فقیہ، عارف، مفسر قرآن اور فلسفی تھے، اگر وہ علمی زبان میں لوگوں سے بات کرتے تو عوام کو ان کی کچھ سمجھ نہ آتی۔ اس لیے امام نے عام فہم زبان میں بات کی، جو اللہ نے انسان کے وجود کی زمین میں فطرت کے طور پر رکھی ہے۔ گھر میں روٹی پکانے والی عورت، ایک ان پڑھ عورت بھی اس زبان کو سمجھ سکتی ہے۔ اسی طرح سے بروقت بولنا اور سٹینڈ لینا بھی اہم ہے۔

میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کا دستور ایک ترقی پسند دستور ہے۔ یہ وہ دستاویز بن سکتا ہے، جس پر ہم جدوجہد کی بنیاد رکھ سکتے ہیں۔ اس دستور میں لکھا ہے کہ حاکمیت اعلیٰ اللہ کے لیے ہے۔ پاکستان کے دستور کی روشنی میں اس ملک میں لبرل ڈیموکریسی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ مغرب میں جمہوریت کی تعریف کرتے ہوئے کہا جاتا کہ جمہوریت عوام کے ذریعے عوام پر عوام کی حکومت ہے۔ ہمارے دستور میں کہا گیا ہے کہ یہ اللہ کی حکومت ہے منتخب، صالح، صادق و امین نمائندوں کے ذریعے۔ پس ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم لوگوں کے عزائم، آرزوؤں اور ارمانوں کو پڑھیں، ان کو عام فہم  زبان دیں۔ ہم جانتے ہیں کہ اللہ نے انسان کی فطرت میں آزادی اور استقلال کو رکھا ہے۔ انسان غلامی قبول نہیں کرتا۔ اللہ نے اس کے سر پر تاج کرامت رکھا ہے۔ "ولقد کرمنا بنی آدم" اللہ نے اس کے لیے ایسا کام حرام قرار دیا ہے، جو اس کی عزت نفس کے خلاف ہو۔ ذلت پذیری کو خدا اور اس کے رسول ؐ نے منع کیا ہے۔ مولا علی ؑ اپنے بیٹے سے خطاب کرتے ہوئے فرماتے ہیں: یا بنی لا تکن عبدا غیرک قد جعلک اللہ حرا "اے بیٹا! کسی کی غلامی مت اختیار کرو، اللہ نے تم کو آزاد خلق کیا ہے۔"

پس لوگوں کا لاشعور اور آرزو اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ ہم کسی کے غلام نہ ہوں۔ ہم آزاد ہوں، ہماری انسانی کرامت ہو۔ ایک قوم و ملت کے طور پر بھی ہماری عزت نفس پامال نہ ہو۔ ہمارے فیصلے اسلام آباد میں ہوں، واشنگٹن میں نہ ہوں۔ ہماری خارجہ پالیسی آزاد ہو، ہماری داخلی خود مختاری ہو۔ ہمارے قومی مفادات پر مصلحت پسندی سے کام نہ لیا جائے۔ ہماری قومی سالمیت پر کسی قسم کی آنچ نہ آئے، لیکن ہم اپنی آنکھوں سے گذشتہ کئی دہائیوں سے دیکھ رہے ہیں کہ اس قوم اور ملک کے ساتھ کتنا ظلم اور زیادتی ہوئی ہے۔ آج ہم جو کچھ بھی دیکھ رہے ہیں، اس میں ہم سب برابر کے شریک ہیں۔ خاموش رہ کر، ساتھ دے کر یا لوگوں کو مناسب راستہ نہ دکھا کر۔ کیا وجہ ہے کہ ایک شخص اٹھتا ہے، لوگ مہنگائی کی بات نہیں کر رہے، لوگ اس شخص کے آزادی کے بیانیے کو قبول کر رہے ہیں۔ امریکا مخالف بیانیہ ہمارا تھا ’’امریکہ کا جو یار ہے، غدار ہے غدار ہے‘‘ کے نعرے کئی دہائیوں تک ہم لگاتے رہے۔ یہ ہمارا بیانیہ تھا کہ امریکہ ہمارا دشمن ہے، امریکا قابل اعتماد نہیں ہے۔

جب آپ کہتے ہیں کہ ہم غلام نہیں ہیں تو وہ آپ کو اپنا دشمن سمجھتا ہے۔ اسرائیل کو امریکا اور برطانیہ نے بنایا ہے۔ یہ ممالک جہان اسلام کے دشمن ہیں۔ ہم سب یہ کہتے ہیں، بزرگان دین یہ کہتے تھے، علماء کا یہ کہنا تھا، لیکن کیا وجہ ہے کہ ہمارے فیصلے اسلام آباد کے بجائے لندن اور واشنگٹن میں ہوتے ہیں۔ عوام اس تحقیر کو برداشت نہیں کرسکتے۔ بحیثیت قوم گذشتہ دہائیوں میں پاکستانی قوم کی تحقیر ہوتی رہی ہے۔ یہاں لیاقت علی خان سے لے کر آج تک امریکا نے جو اکھاڑ پچھاڑ کی ہے، حکومتیں گرائی ہیں، لوگ اس پر خاموش رہے۔ بھٹو کو مارا گیا، پیپلز پارٹی چپ ہوگئی، ضیاء الحق کو امریکا نے مروایا، فوج نہیں بولی، بے نظیر کا قتل ایک عالمی سازش تھی، پیپلزپارٹی نہیں بولتی۔ پرویز مشرف کو امریکا نے گرایا، اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی جنرل کیانی اس سازش کا حصہ تھے، کوئی اس بارے میں بات نہیں کرتا۔ امریکا کے سامنے کوئی آواز نہیں اٹھاتا۔

ہمارا ملک ٹوٹا، اس میں امریکا ملوث تھا۔ عالم اسلام میں جتنی بھی اکھاڑ پچھاڑ ہوتی ہے، امریکہ اس سب میں ملوث ہے۔ لیبیا میں حکومت گرائی گئی، آج تک وہاں صورتحال ٹھیک نہیں ہو پائی۔ عوام آگاہ ہیں کہ کس کے کہنے پر دنیا میں تحولات آرہے ہیں۔ امریکہ اپنی گرتی ہوئی ساکھ کو بچانے کے لیے ایک نیا ورلڈ آرڈر لانے کے لیے ملکوں پر جنگیں مسلط کر رہا ہے، غارت گری اور ظلم کر رہا ہے۔ ان اقدامات کی وجہ سے ہم امریکہ سے نفرت کرتے ہیں، یہ ہمارا بیانیہ تھا، جو عوام تک موثر انداز سے نہیں پہنچا۔ ہم آپس میں الجھتے رہے، ہمیں فرقوں میں لڑایا گیا اور ہم لڑے، ملک میں مذہب اور مسلک کے نام پر قتل و غارت گری ہوئی۔ یہ سب دشمن کی منصوبہ بندی تھی۔ ملی یکجہتی کونسل پاکستان نے اس سلسلے میں بڑا کام کیا ہے، اس اتحاد نے نفرتوں کی فضا کو توڑا ہے، تاہم ضرورت اس امر کی ہے کہ یہ اتحاد اس سے بڑا کردار ادا کرے۔ ہمیں قوم و ملت کا ولی اور وارث بننا چاہیے تھا۔ ہم اعتماد کی وہ فضا قائم کرتے، تاکہ لوگ ہماری قریب آتے۔ اب بھی وقت ہے، کہتے ہیں ’’دیر آید درست آید‘‘ جب بھی انسان کار خیر کے لیے قدم اٹھائے "فستبقوا الخیرات" کا مصداق ہے۔

قرآن کریم کا صریح حکم ہے: بسم اللہ الرحمن الرحیم: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَىٰ أَوْلِيَاءَ ۘ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ ۚ وَمَن يَتَوَلَّهُم مِّنكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ ۗ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ ‎﴿٥١﴾‏ فَتَرَى الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ يُسَارِعُونَ فِيهِمْ يَقُولُونَ نَخْشَىٰ أَن تُصِيبَنَا دَائِرَةٌ ۚ فَعَسَى اللَّهُ أَن يَأْتِيَ بِالْفَتْحِ أَوْ أَمْرٍ مِّنْ عِندِهِ فَيُصْبِحُوا عَلَىٰ مَا أَسَرُّوا فِي أَنفُسِهِمْ نَادِمِينَ ‎﴿٥٢﴾ سورہ المائدہ۔ یہ آیت کہتی ہے کہ جو یہود و نصاریٰ سے دوستی کرتا ہے، اس کے دل کو بیماری لگ چکی ہے۔ ہمیں یہود و نصاریٰ کی دوستی سے منع کیا گیا۔ ہمارے علماء اس سلسلے میں کہتے ہیں کہ ’’نہی‘‘ کا ظہور حرمت پر دلالت کرتا ہے۔ اس آیت میں ایک اور نکتہ قابل غور ہے کہ یہاں ایمان والوں کو مخاطب کیا گیا، یعنی ایمان والے بھی یہود و نصاریٰ کی ولا میں گرفتار ہوسکتے ہیں۔ یہ بیماری ان کو بھی لگ سکتی ہے۔ اس آیت میں خداوند کریم نے اہل ایمان کو  متوجہ اور متنبہ کیا ہے۔ ہم امریکہ کے بارے میں واضح موقف رکھتے، اسرائیل کے بارے واضح بات کرتے، اس کے اتحادیوں کے بارے واضح ہوتے۔ ہم میں سے جو بھی امریکہ اور اسرائیل کی جانب جاتا، خواہ ہمارا قریبی ہی کیوں نہ ہوتا، ہمیں اس کے خلاف سٹینڈ لینا چاہیے تھا، تاکہ لوگوں کو محسوس ہوتا کہ ہم جو بات کہتے ہیں دل و جان سے کہتے ہیں۔

آج ہمارا بیانیہ عوام نے اپنایا ہے اور اس کے لیے چھوٹا، بڑا، مرد و زن، پیر و جواں گھروں سے نکلا ہوا ہے، کیونکہ قومیں ہمیشہ کے لیے تحقیر کو برداشت نہیں کرتی ہیں۔ ایک دن وہ بول پڑتی ہیں۔ ہمیں سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اس وقت ہمارا بیانیہ کہیں اور چلا گیا ہے، کچھ اور لوگ اسے کے دعوے دار ہیں۔ اس صورتحال میں ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنی قوم کے ساتھ کھڑے ہوں، ان سے فاصلہ نہ رکھیں، کیونکہ اس وقت جو قوم اور قومی بیانیہ سے فاصلہ رکھے گا، وہ وہاں سمجھا جائے گا، جہاں اس بیانیے کے مخالفین کھڑے ہیں۔ آج کا اعلامیہ ایسا ہونا چاہیے، جو قومی بیانیے کے ساتھ ہم آہنگ ہو۔ یہ ایک فرد، ایک سیاسی پارٹی کا بیانیہ نہیں ہے بلکہ قوم کا بیانیہ ہے۔ ہمیں قوم کے ساتھ کھڑے ہونا چاہیے۔ اگر ہم آج قوم کے ساتھ کھڑے ہوں گے تو لوگ ہم پر اعتماد کریں گے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس تقریر میں فکر انگیز، حوصلہ بخش اور راہ کشا نکات موجود ہیں، جو حریت پسند جوانوں کے دل کی آواز ہیں اور پاکستانی قوم کی بیداری کا بنیادی محرک ہیں۔ ہم ان کے اس حسن خطاب اور اعلیٰ فکر پر ان کی خدمت میں خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 994882
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Iran, Islamic Republic of
بے شک
خدا ناصر ملت کو سلامت رکھے۔
Pakistan
ماشاءاللہ۔ خداوند متعال علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کو حاسدین کے شر سے محفوظ رکھے۔
Pakistan
بہت اعلیٰ، ما شاء اللہ
ہماری پیشکش