0
Monday 23 May 2022 18:49

بلوچستان عوامی پارٹی کا مستقبل کیا ہوگا؟

بلوچستان عوامی پارٹی کا مستقبل کیا ہوگا؟
تحریر: اعجاز علی

وطن عزیز پاکستان کے تین صوبوں پر تو کسی ایک سیاسی جماعت نے فتح حاصل کرلی ہے اور وہ حکومت بنانے کے قابل بن گئی ہے۔ مگر بلوچستان میں حکومت قائم کرنا اور اسے قائم رکھنا، کسی بھی سیاسی جماعت کیلئے ایک بڑا چیلنج بن چکا ہے۔ بلوچستان میں جب مخلوط حکومت بنتی ہے تو وزیراعلیٰ پر شدید دباؤ ڈالا جاتا ہے کہ وہ اپنی اتحادی جماعتوں کی گزارشات کو مانیں، وگرنہ حکومت کا تختہ الٹنے میں زیادہ وقت نہیں لگتا۔ آخری انتخابات میں راتوں رات وجود میں آنے والی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی نے اکثریت حاصل کی اور پاکستان تحریک انصاف سمیت دیگر جماعتوں کے ساتھ اقتدار سنبھال لیا۔ اس وقت یوں لگا تھا کہ شاید بلوچستان عوامی پارٹی ہی وہ سیاسی جماعت ہے، جو بلوچستان کے مستقل کو سنبھالے گی، کیونکہ پارٹی کے اراکین وہ پارلیمانی اراکین تھے، جن کے جیتنے کے چانسز زیادہ تھے۔ مگر ایک مسئلہ یہ تھا کہ وہ نظریاتی اعتبار سے ایک دوسرے سے بہت دور تھے۔

نظریات کسی بھی جماعت کی بنیادوں کو مضبوط کرنے کیلئے کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر جماعتیں طلباء یونینز کا قیام کرکے اپنی جماعت کے مستقبل کیلئے طلباء کی تربیت کرتے ہیں۔ اگر پارٹی کے تمام اراکین صرف الیکشن کو مدنظر رکھ کر جماعت کا حصہ بنیں اور ان کا مقصد صرف اور صرف اسمبلی تک پہنچنا بن جائے، تو ایسے میں وہ جماعت چار دن سے زیادہ نہیں چل سکتی۔ بلوچستان عوامی پارٹی کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ جب یہ نئی جماعت تھی تو تمام اراکین کے درمیان بے تحاشہ محبت تھی۔ اراکین ایک دوسرے کی ذہانت، سیاست اور سیاسی بصیرت کی تعریفیں کرتے نہیں تھکتے تھے۔ مگر جونہی مفادات آپس میں ٹکرا گئے، مختلف اراکین نے ایک دوسرے کو صوبے اور عوام کے مفادات کا دشمن قرار دینا شروع کر دیا۔

صوبہ بلوچستان میں اقتدار سنبھالنے والی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی نے عام انتخابات کے بعد اپنے رہنماء اور سینیئر سیاستدان جام کمال خان کو وزیراعلیٰ منتخب کیا۔ اس سے قبل جام کمال کے والد بھی اقتدار سنبھال چکے تھے۔ وہ خاندانی اعتبار سے کافی مضبوط سیاستدان ہیں۔ دوسری جانب موجودہ وزیراعلیٰ میر عبدالقدوس بزنجو تھے۔ جنہوں نے مسلم لیگ نون کی حکومت کے دور میں اس وقت کے وزیراعلیٰ نواب ثناء اللہ زہری کا تختہ گرا کر وزارت اعلیٰ کا منصب سنبھالا تھا۔ عام انتخابات کے بعد وہ بھی وزیراعلیٰ بننے کے خواہاں تھے۔ مگر پارٹی کا انتخاب جام کمال خان تھا۔ اس کی مختلف وجوہات ہیں۔

بی اے پی کے اراکین نے جام کمال کا انتخاب کرکے اچھا فیصلہ کیا تھا، کیونکہ جام کمال خان نئی سوچ کے حامل سیاستدان ہیں۔ انہوں نے وزارت اعلیٰ کی کرسی پر بیٹھ کر صوبے میں ڈیجیٹل سہولیات متعارف کرانا شروع کیا۔ انہوں نے اپنے دور حکومت میں صوبے کے تمام سرکاری اداروں کے وٹس ایپ گروپس بنائے اور سرکاری ملازمین کو اپنی کارکردگی وہاں شیئر کرنے کے احکامات دیتے ہوئے بذات خود ان کی ڈائریکٹ نگرانی شروع کی۔ انہوں نے سرکاری اداروں کیلئے ایک ویب سائٹ بھی بنائی، جہاں پر سرکاری دفتر میں آنے والے ہر فائل کا اندراج ہوتا اور وقت مقرر کیا جاتا۔ اگر مقررہ وقت پر سرکاری دفتر اس فائل کے کام کو آگے نہ بڑھاتا تو وزیراعلیٰ جام کمال اس محکمہ سے جواب طلب کرتے تھے۔ انہوں نے صوبے میں ہنرمند افسران کو اچھے عہدوں پر لانے کی کوشش بھی کی۔ انہی کے دور میں آئی جی پولیس کا عہدہ سنبھالنے والے محمد طاہر رائے کی مثالیں آج بھی دی جا رہی ہیں۔

جام کمال خان میں جہاں کچھ خوبیاں تھیں، وہی کچھ ایسی خامیاں بھی تھیں، جو ان کے اقتدار کا دشمن بن گئیں۔ وہ دیگر وزرائے اعلیٰ کی طرح تمام جماعتوں کو ساتھ لے کر چلنے والے شخص نہیں تھے۔ ان کی کارکردگی سے کسی کو خاص شکوہ نہیں تھا، مگر اسمبلی کے بیشتر اراکین فنڈز اور بجٹ کے معاملے پر ان سے نالاں تھے۔ ان کے دور اقتدار میں فقط ان کے حامیوں نے ہی ان کے خلاف بیانات نہیں دیئے، بلکہ ان کی اپنی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی کے بعض اراکین نے بھی ان کے خلاف بیانات دیئے۔ یوں اختلافات مسلسل بڑھنے لگے اور نتیجتاً بلوچستان عوامی پارٹی دو حصوں میں تقسیم ہوگئی اور خود بلوچستان عوامی پارٹی کی جانب سے جام کمال خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کر دیا گیا۔ کچھ دن سیاسی ہلچل کے بعد جام کمال خان نے اپنا استعفیٰ پیش کیا اور وزیراعلیٰ ہاؤس کو الوداع کہہ دیا۔

بلوچستان عوامی پارٹی کے عبدالقدوس بزنجو نئے وزیراعلیٰ بنے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ اپوزیشن اور حکومت دونوں کو ساتھ لے کر چلیں گے اور کسی کو شکایت کا موقع نہیں ملے گا۔ مگر سیاست میں سب کو ساتھ لے کر چلنا سننے میں جتنا اچھا لگتا ہے، درحقیقت ایسا کرنے میں اتنا ہی مشکل کام ہے۔ عبدالقدوس بزنجو نے خود کو اچھا وزیراعلیٰ ثابت کرنے کی بہت کوششیں کیں۔ انہوں نے اداروں کو متحرک کیا، ہر واقعہ کا نوٹس لیتے ہوئے رپورٹس طلب کیں، اچانک دورے کرکے عوام کا دل جیتنے کی کوشش کی، پروٹوکول کے بغیر بھی علاقوں میں گئے اور اسی طرح دیگر مختلف طریقوں سے خود کو عوامی نمائندہ ثابت کرنے کی کوشش کی۔ مگر وہ اتنا کامیاب نہیں ہوسکے اور عوام کی اکثریت انہیں دیگر سیاستدانوں سے الگ نہیں سمجھتی۔ عبدالقدوس بزنجو کے خلاف بھی تحریک عدم اعتماد جمع کروا دی گئی ہے۔ اب آگے یہ دیکھنا باقی ہے کہ تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوگی کہ نہیں۔

بہرحال بلوچستان عوامی پارٹی اس طرح آگے نہیں بڑھ سکے گی۔ ابھی حکومت سنبھالے کچھ عرصہ ہی ہوا ہے کہ اتنے اختلافات سامنے آگئے ہیں۔ اگر بلوچستان عوامی پارٹی ایک ایسی جماعت ہوتی، جو شروع ہی دن سے نظریاتی بنیادوں پر اکٹھے ہونے والے افراد کی مسلسل کاؤشوں سے وجود میں آتی، تو شاید حکومت سنبھالنے کے بعد اسے چلانا اتنا بڑا مسئلہ نہ ہوتا جتنا آج بن گیا ہے۔ بلوچستان عوامی پارٹی دو گروپس میں واضح طور پر تقسیم ہوگئی ہے۔ جن میں سے ایک کی قیادت سابق وزیراعلیٰ اور بی اے پی کے صدر جام کمال خان کر رہے ہیں تو دوسرے کی قیادت موجودہ وزیراعلیٰ اور بی اے پی کے پارلیمانی لیڈر عبدالقدوس بزنجو کر رہے ہیں۔ دونوں راہنماء آمنے سامنے ہیں اور وزارت اعلیٰ کی کرسی کی جنگ جاری ہے۔ ایک طرف جام کمال خان بطور پارٹی صدر بی اے پی کے پارلیمانی اراکین کو نوٹسز بھیج کر تحریک عدم اعتماد کے حق میں ووٹ دینے کا حکم دیتے ہیں، تو دوسری طرف عبدالقدوس بزنجو بطور پارلیمانی لیڈر بی اے پی تحریک عدم اعتماد پر دستخط کرنے والے اراکین کو نوٹسز بھیج کر جواب طلب کر رہے ہیں۔ جس جماعت کے نظریات نہیں ہوں گے، ان کا یہی حال ہوگا، وہ زیادہ دیر نہیں رہے گی۔
خبر کا کوڈ : 995696
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش