0
Thursday 27 Oct 2011 12:59

ایران سے گیس پائپ لائن منصوبہ ترک کرنے اور بھارت سے بجلی خریدنے کا عندیہ

ایران سے گیس پائپ لائن منصوبہ ترک کرنے اور بھارت سے بجلی خریدنے کا عندیہ
پاکستان نے ایران سے گیس پائپ لائن منصوبہ پر بیک آﺅٹ کرنے کا عندیہ دے دیا ہے۔ اس سلسلہ میں وفاقی وزیر پٹرولیم ڈاکٹر عاصم حسین نے گزشتہ روز امریکی نشریاتی ادارے کو انٹرویو میں کہا کہ ایران سے قدرتی گیس درآمد کرنے کے لئے مجوزہ گیس پائپ لائن بچھانے کے منصوبے پر پیش رفت بین الاقوامی برادری سے ہم آہنگی کو مدنظر رکھ کر کی جائیگی۔ انکے بقول ایران نے پاکستان کو بجلی کے بحران پر قابو پانے کیلئے 10 ہزار میگاواٹ بجلی فراہم کرنے کی پیشکش بھی کی ہے جس کی درآمد کیلئے ٹرانسمیشن لائن بچھانے کا ایک منصوبہ بھی زیر غور ہے۔ اسکے برعکس ایم ڈی پیپکو رسول خان محسود نے بتایا ہے کہ بھارت سے پانچ سو میگاواٹ بجلی کی خریداری کیلئے تکنیکی بات چیت مکمل ہو گئی ہے اور ٹیرف اور دیگر معاملات طے کرنے کیلئے بھارتی اعلٰی سطح کا وفد دسمبر میں پاکستان آئیگا۔ انہوں نے گزشتہ روز پیپکو ہیڈکوارٹر لاہور میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستان کو دس ہزار میگاواٹ بجلی کی فراہمی کیلئے ایران کی پیشکش کی بھی تصدیق کی، جو بھارت کے مقابلہ میں نسبتاً سستے نرخوں پر دستیاب ہو سکتی ہے۔
موجودہ دور حکومت کے آغاز ہی سے پاکستان کو بجلی اور گیس کی قلت کی صورت میں توانائی کے بحران کا سامنا کرنا پڑا، جو اس وقت انتہائی سنگین صورتحال اختیار کر چکا ہے۔ بالخصوص پنجاب میں صنعتوں کیلئے بجلی اور گیس دستیاب نہیں، بجلی کی روزانہ دس سے 16 گھنٹے تک کی لوڈشیڈنگ نے بھی صنعتی شعبے پر انتہائی منفی اثرات مرتب کئے جبکہ گیس کی لوڈشیڈنگ سے سی این جی سٹیشنوں کے علاوہ صنعتی سیکٹر بھی بری طرح متاثر ہوا۔ اب موسم سرما میں مسلسل تین ماہ تک صنعتی شعبہ کو گیس سے محروم رکھنے کا فیصلہ بھی منظر عام پر آچکا ہے، جس سے پہلے ہی تباہ حال اس شعبہ میں سر اٹھانے کی سکت بھی نہیں رہے گی جبکہ دیہاڑی دار مزدوروں کے علاوہ دوسرے ملازمین کی فراغت کی صورت میں بے روزگاری کا نیا طوفان کھڑا ہو جائیگا۔
حکومت کیلئے دانشمندی کا تو یہی تقاضہ تھا کہ توانائی کے بحران پر قابو پانے کیلئے ملک میں موجود وسائل اور قدرت کے خزانوں سے فائدہ اٹھایا جاتا اور بجلی، گیس کی وافر پیداوار کیلئے خودانحصاری پر مبنی پالیسی تیار کر کے اس پر پیش رفت شروع کر دی جاتی، مگر حکمرانوں کی بے تدبیریوں، دولت سمیٹنے کی ہوس اور کک بیکس کے حصول کیلئے ملکی اور قومی مفادات کو پس پشت والے طرز عمل نے توانائی کے بحران کو سنگین سے سنگین تر کر دیا۔ حکمرانوں نے سستی ہائیڈل بجلی کے حصول کیلئے اپنے دریاﺅں پر ڈیمز تعمیر کرنے کی حکمت عملی کی جانب کسی قسم کی پیشرفت کرنے کے بجائے اپنے منافع اور کک بیکس کی خاطر تھرمل پاور پلانٹس اور رینٹل پاور پلانٹس کے ذریعے مہنگی ترین تھرمل بجلی کا حصول اپنی اولین ترجیحات میں شامل کر لیا، نتیجتاً بجلی کی لوڈشیڈنگ پر بھی قابو نہ پایا جا سکا اور آئے روز قیمتوں میں اضافے کی شکل میں عوام پر بجلی بم چلانے کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا۔ ایسی ہی بے تدبیری کا مظاہرہ گیس کے حصول کے معاملہ میں بھی کیا گیا۔
ایران کے ساتھ پاکستان نے 23 مئی 2009ء کو ساڑھے 70 کروڑ ڈالر کا گیس پائپ لائن بچھانے کا معاہدہ طے کیا، مگر اس معاہدے کے پانچ روز بعد 28 مئی کو زاہدان کی ایک مسجد میں خودکش دھماکہ کے نتیجہ میں 20 افراد جاں بحق ہو گئے اور ایران نے اس شبہ میں پاکستان سے ملحقہ اپنی سرحد بند کر دی کہ خودکش حملہ آور پاکستان سے آئے ہیں۔ نتیجتاً پاک ایران گیس پائپ لائن کے منصوبے پر کام کا آغاز ہی نہ ہو سکا۔ اگرچہ وزیر خارجہ ایران کے دورہ پاکستان کے موقع پر پاکستانی حکام نے زاہدان تخریب کاری کے حوالے سے پاکستان کے بارے میں ایران کی پیدا ہونیوالی غلط فہمی دور کر دی اور ایران نے اس حقیقت کو تسلیم کر لیا کہ یہ کارروائی امریکی سرپرستی میں جنداللہ گروپ نے کی تھی، جس کا مقصد ہی پاکستان اور ایران کے مابین غلط فہمی پیدا کرنا تھا۔ جس کے بعد پاک ایران گیس پائپ لائن کے منصوبے پر عملدرآمد میں کوئی رکاوٹ باقی نہیں رہنی چاہیے تھی اور یہ حقیقت کھلنے کے بعد منصوبے پر فوری عملدرآمد شروع ہو جانا چاہیے تھا۔
مگر امریکہ نے اپنے مفادات کے تحت پاکستان پر دباﺅ ڈال کر اس منصوبے کا آغاز نہ ہونے دیا جو ترکمانستان،افغانستان کے راستے پاکستان اور بھارت کے مابین گیس پائپ لائن کے سابقہ منصوبے کو بحال کرانے کا خواہش مند تھا جبکہ اس منصوبے سے ملک کی سالمیت کو بھی سخت خطرہ لاحق ہو سکتا ہے کیونکہ افغانستان اور ترکمانستان کے راستے سے پاکستان اور بھارت لائی جانیوالی گیس پائپ لائن کو بھارت بڑی آسانی کے ساتھ تخریب کاری کے مقاصد کیلئے استعمال کر سکتا ہے جبکہ یہ ویسے ہی گیس کے حصول کا مہنگا ترین منصوبہ ہے، مگر وزیر پٹرولیم کے بیان سے یہی عندیہ ملتا ہے کہ امریکی دباﺅ پر یا اسکی خوشنودی کی خاطر پاکستان ایران کے بجائے بھارت، ترکمانستان، افغانستان والے گیس پائپ لائن کے منصوبہ کو ہی عملی جامہ پہنانا چاہتا ہے اور اسکے ساتھ ساتھ بھارت کو تجارتی مقاصد کیلئے پسندیدہ ترین ملک قرار دیکر اسکے ساتھ پانچ سو میگاواٹ ہائیڈل بجلی کے حصول کا بھی معاہدہ کرنے کا مصمم ارادہ کئے بیٹھا ہے، جو اس خطے میں بھارت کی بالادستی تسلیم کرانے کے امریکی ایجنڈے کا حصہ ہے جبکہ یہ صورتحال ملک کی آزادی اور خودمختاری کو باندھ کر اپنے مکار دشمن بھارت کے آگے پھینکنے کے مترادف ہو گی۔
توانائی کے سنگین بحران کے پیش نظر بلاشبہ ہمیں بجلی اور گیس کے حصول کی اشد ضرورت ہے، مگر یہ کیسی حکمت عملی ہے کہ یہ ضرورت اس دشمن ملک کا پیٹ بھر کے پوری کی جائے جو ہمیں صفحہ ہستی سے مٹانے کی مذموم منصوبہ بندی کئے بیٹھا ہے۔ اس وقت ایران ہی نہیں، برادر اسلامی ملک ترکی اور برادر پڑوسی ملک چین بھی توانائی کے بحران پر قابو پانے کیلئے ہماری بے لوث معاونت کو تیار ہیں، جن کی جانب سے سستی بجلی کی فراہمی کی متعدد مواقع پر پیشکش کی جا چکی ہیں، مگر اس خطے میں اپنے بے لوث ساتھیوں کو چھوڑ کر مکار دشمن پر تکیہ کرنا ملک کی سالمیت کو دانستاً داﺅ پر لگانے کے مترادف ہو گا۔ 
کیا حکمرانوں کو صورتحال کی اس نزاکت کا احساس نہیں کہ اگر اس مرحلہ پر بجلی اور گیس کے حصول کیلئے بھارت کو ترجیح دی گئی تو ہم اپنے بے لوث پڑوسیوں چین اور ایران کی حمایت اور ہمدردیوں سے محروم ہو سکتے ہیں، جبکہ امریکی احکام کی تعمیل کرنے کی ہماری روش سے چین اور ایران کی نگاہوں میں ہمارا کردار بھی مشکوک ہو سکتا ہے، کیونکہ اس وقت خطہ میں امریکہ بھارت کے جاری توسیع پسندانہ جارحانہ عزائم سے ایران ہی نہیں، چین بھی اپنی سالمیت کو خطرہ محسوس کر رہا ہے۔
یہ طرفہ تماشا ہے کہ ایک جانب تو ہماری حکومتی اور عسکری قیادتیں امریکی دھمکیوں کے جواب میں قومی خودداری پر مبنی ٹھوس موقف اختیار کر رہی ہیں اور دوسری جانب عملی اقدامات امریکی خوشنودی والے اٹھائے جا رہے ہیں، جن سے ہماری ملکی سالمیت مزید خطرات سے بھی دوچار ہو سکتی ہے۔ اس تناظر میں ہمارے حکمرانوں کو ہر قدم سوچ سمجھ کر اٹھانا ہو گا اور خود کو امریکی غلامی کے شکنجے سے نکالنا ہو گا۔ اگر امریکی بھارتی جارحانہ توسیع پسندانہ عزائم کو بھانپتے ہوئے خطے کے تمام مسلم ممالک اسلامی بلاک تشکیل دیکر چین کے ساتھ دفاعی، تجارتی اور اقتصادی روابط استوار کر لیں تو ایک دوسرے کے وسائل اور تجربات سے بھی اور چین کی معاونت سے بھی ہم بجلی اور گیس کی پیداوار میں خودکفیل ہو سکتے ہیں اور اپنی سرحدوں کے دفاع کو بھی مستحکم بنا سکتے ہیں، اس لئے بہتر یہی ہے کہ ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن کے منصوبے کو ترک کرنے کا ارادہ ترک کر دیا جائے اور امریکہ بھارت کو اپنا دشمن سمجھتے ہوئے توانائی کے کسی بھی منصوبے کیلئے ان پر تکیہ نہ کیا جائے۔ اس سے بہتر ہے کہ ہم دیا جلا کر کچھ روز گزار لیں۔ یہ ہماری اقتصادی ہی نہیں، دفاعی ضروریات کا بھی تقاضا ہے۔
"روزنامہ نوائے وقت"
خبر کا کوڈ : 109651
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش