0
Thursday 12 Jan 2012 02:29

خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کا سونامی!

خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کا سونامی!

تحریر:رشید احمد صدیقی

اسلام ٹائمز۔ پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی چئیرمین عمران خان کی کرشماتی شخصیت قومی کرکٹ ٹیم کے کپتان کی صورت میں اس وقت ابھری، جب ان کی قیادت میں پاکستان ایک نسبتاً کمزور ٹیم کے ساتھ کرکٹ کا عالمی چمپئن بنا۔ انھوں نے موقع کا خوب فائدہ اٹھایا اور اپنی والدہ کے نام پر عالمی شہرت کا حامل شوکت خانم کینسر ہسپتال لاہور میں قائم کیا۔ اس کے بعد انھوں نے سیاست کے میدان میں قدم رکھا لیکن یہاں ان کی شخصیت کا کرشمہ اتنی جلدی اثر نہ کر سکا اور انھیں سولہ سال انتظار کرنا پڑا۔

29 اکتوبر 2011ء کو لاہور کے تاریخی جلسہ عام کے بعد پیپلزپارٹی کے انتہائی اہم رہنماء شاہ محمود قریشی اور بعد ازاں ملتان ہی سے تعلق رکھنے والے جاوید ہاشمی ان سے جا ملے۔ کراچی میں بھی عمران خان کا جلسہ تاریخی رہا۔ سیاست کے پنڈت ان کامیابیوں کو عمران خان کی کرشماتی شخصیت کا کرشمہ گردانتے ہیں۔ صوبہ خیبر پختونخوا میں بھی لوگ اسی جانب دیکھ رہے ہیں اور چند ایک نامی گرامی سیاست دان ان کے ساتھ شمولیت بھی کر چکے ہیں۔ لیکن یہاں کا سیاسی ماحول ملک کے دیگر صوبوں سے مختلف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عمران خان نے ابھی تک پشاور میں بڑے جلسہ عام کا اعلان نہیں کیا ہے اور ماضی میں سب سے زیادہ اگر انہیں کہیں سے کامیابیاں ملنے کی توقع تھی تو وہ یہی صوبہ تھا لیکن حال میں شاید ان کا مرکز نگاہ پنجاب اور شریف برادارن کا ووٹ بینک ہے۔ 

خیبر پختونخوا میں عمران خان کس پارٹی کا ووٹ بینک توڑیں گے اور کس جماعت کے رہنمائوں پر اپنے سحر کا جال پھینکیں گے۔ اس کا ابھی انتظار ہے، فی الوقت ان کی جماعت کا اس صوبہ میں پس منظر ملاحظہ ہو:
جب انھوں نے اپنی جماعت بنا لی تو نوابزادہ محسن علی خان نے پہلے پہل اس میں شمولیت اختیار کی۔ اویس غنی ایبٹ آباد سے عمران خان سے جا ملے۔ وہ سردار عبدالرب کے خاندان کے چشم و چراغ تھے۔ اس کے علاوہ قوم ان کے بارے میں کچھ زیادہ نہ جانتی تھی۔ نوابزادہ محسن علی خان مسلم لیگ میں رہے تھے۔ جنوبی اضلاع کے اہم سیاسی خاندان سے تعلق رکھنے والے کرک کے نوابزادہ مسلم لیگ کی صوبائی حکومت میں وزیر خزانہ رہے تھے۔ ان کے علاوہ ہزارہ سے اہم سیاسی شخصیت شہزادہ گستاسپ خان اور چارسدہ سے شیرپائو خاندان کے ڈاکٹر عماد شیرپائو بھی تحریک انصاف میں شامل ہو گئے۔ شہزادہ گستاسپ خان ماضی میں سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے کے لیے مشہور تھے۔ 

اویس غنی 12 اکتوبر 1999ء کو جنرل مشرف کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سرحد کابینہ میں وزیر مقرر کیے گئے۔ اس کے بعد انھوں نے پیچھے دیکھا نہ عمران خان کو گھاس ڈالی اور صوبائی کابینہ سے مرکزی کابینہ اور پھر بلوچستان کے گورنر اور بالآخر صوبہ سرحد کے گورنر بنے۔ جنرل مشرف کے اقتدار کا سورج غروب ہونے کے بعد بھی وہ کافی عرصہ تک صوبائی گورنر کے منصب پر فائر رہے۔ آج کل ریٹائرمنٹ کی زندگی کا لطف اٹھا رہے ہیں۔ نوابزادہ محسن علی خان 2002ء میں غیر گریجویٹ ہونے کی وجہ سے صوبائی اسمبلی کا انتخاب لڑنے کے اہل نہ تھے تو کرک میں اپنے حلقہ سے اپنی جماعت کے میاں نثار کو رکن سرحد اسمبلی منتخب کرانے میں کامیاب ہوئے۔
 
یہ تحریک انصاف کے لیے اہم سیاسی کامیابی تھی کیونکہ 2002ء کے انتخابات میں ایم ایم اے کے طوفان میں بڑے بڑے برج الٹ گئے تھے اور نوآموز میاں نثار گل اسمبلی میں جگہ بنانے میں کامیاب ہوئے تھے۔ جب سرحد اسمبلی ٹوٹنے اور استعفیٰ دینے کی بات آئی تو عمران خان کے کہنے پر جنرل مشرف کے دوبارہ انتخاب سے قبل انھوں نے استعفیٰ نہیں دیا۔ 2008ء کے انتخابات میں وہ آزاد حیثیت سے دوبارہ رکن سرحد اسمبلی منتخب ہوئے اور بعد ازاں اے این پی میں شامل ہو کر صوبائی وزیر جیل خانہ جات بن گئے، دریں اثناء ایک اغواء برائے تاوان کے مقدمہ میں وزارت سے مستعفی ہوئے۔ آج کل دوبارہ اس منصب پر براجمان ہیں، لیکن تحریک انصاف سے ناطہ توڑ چکے ہیں۔

نوابزادہ محسن علی خان ایک طویل وقفہ کے بعد سیاسی افق پر دوبارہ نمودار ہوئے تو اے این پی میں شامل ہونے کو ترجیح دی اور آج کل اس کے مرکزی ڈپٹی سیکریٹری جنرل کے عہدے پر فائز ہیں۔ انھوں نے عمران خان سے سابقہ تعلق کو نبھاتے ہوئے ان کے آبائی ضلع میانوالی میں اے این پی کا جلسہ بھی کرایا، ڈاکٹر عماد شیرپائو سیاست میں غیر معروف تھے۔ جلد ہی گمنامی میں چلے گئے، شہزادہ گستاسپ خان جنرل مشرف کے ضلعی نظام میں ایبٹ آباد کے نائب ضلع ناظم بنے اور پھر تحریک انصاف کی جانب پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔
 
2002ء کی اسمبلی میں چوں چوں کے مربہ اپوزیشن کے قائد بن بیٹھے۔ اسمبلیاں ختم ہونے کے بعد ق لیگ میں شامل ہوئے، نوابزادہ محسن علی خان کی تحریک انصاف سے کنارہ کشی کے بعد اکبر خان مٹہ نے تحریک کی قیادت سنبھالی۔ لیکن وہ متحرک سیاسی مزاج کے آدمی نہ تھے اور زیادہ مؤثر ثابت نہ ہو سکے۔ یوں تحریک انصاف کے بانیوں میں کوئی بھی صوبہ خیبر پختونخوا میں ٹک نہ سکا اور صوابی کے نوجوان اسد قیصر نے تحریک کی قیادت سنبھالی۔ وہ عمران خان کے بااعتماد ساتھی ثابت ہوئے۔ پارٹی کو فعال رکھنے میں خاصے کامیاب رہے۔ ان کی اٹھان جماعت اسلامی سے ہے۔ پاسبان کے راستے عمران خان سے جا ملے ہیں۔ 

لاہور جلسہ کے بعد سے تحریک انصاف کا دوسرا جنم شروع ہوا تو خیبر پختونخوا میں بھی قد آور لوگوں کی آمد کی جانب نگاہیں اٹھیں۔ یاسین خلیل پشاور سے شامل ہونے والے پہلے لیڈر تھے جن کو ٹائون تھری کی نظامت میں بہت زیادہ الزامات (کرپشن ) کا سامنا تھا اور اسی وجہ سے ان کا پی پی پی سے ناطہ ٹوٹ گیا تھا۔ دوسرے اہم آدمی افتخار خان جھگڑا تھے جو کئی بار صوبائی وزیر اور ایم پی اے رہے ہیں اور سیاسی جمود کے اہم کل پُرزے کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ تیسرے اہم رہنماء پرویز خٹک ہیں جو پی پی پی کے اہم ترین لیڈر رہے پھر شیرپائو گروپ کے کرتا دھرتا بنے۔ صوبائی وزیر اور ضلع نوشہرہ کے ناظم رہے، پی پی پی سے ناراض رہے۔ شیرپائو گروپ سے ایم پی اے بنے۔ پی پی پی کے پھر قریب آئے اور صوبائی وزیر بنے۔ لیکن اب کی بار وزارت چھوڑ کر عمران خان کو قائد بنا لیا۔ اسلام آباد میں ان کی شمولیت کے موقع پر تحریک انصاف کے کارکنوں نے ان کو قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے ہلڑ بازی بھی کی، لیکن اسے سیاست کی ناگزیر برائی قرار دے کر پردہ پوشی کی گئی۔

خیبر پختونخوا میں عمران خان کی جماعت میں شمولیت اختیار کرنے والے سب سے اہم رہنماء خواجہ محمد خان ہوتی ہیں۔ وہ ضیاء الحق دور میں صوبائی وزیر رہے تھے۔ پھر پی پی پی میں چلے گئے۔ 1988ء میں ایم پی اے بنے اور صوبائی وزیر بھی۔ کئی بار ایم پی اے رہے۔ پی پی پی کے صوبائی صدر بھی رہے اور ان ہی کی صدارت میں آفتاب شیرپائو کو پارٹی سے خارج کیا گیا۔ ذاتی طور پر شریف النفس سیاست دان ہیں۔ پی پی پی میں رہتے ہوئے جنرل مشرف کی کچھ پالیسیوں کے حامی تھے۔ 

بعد میں اپنی جماعت سے ناراض ہوئے تو اے این پی میں چلے گئے۔ مردان سے وہ رکن قومی اسمبلی بنے۔ موجودہ وزیراعلیٰ امیر حیدر خان ہوتی کا صوبائی حلقہ ان کے قومی اسمبلی کے حلقے میں آتا ہے۔ ان کو حیدر ہوتی کے والد اعظم خان ہوتی سے کافی شکایات (کرپشن کی) تھیں۔ اس بناء پر انھوں نے اصولوں کی سیاست کرتے ہوئے وفاقی وزارت سے استعفیٰ دیا۔ اے این پی کے حلقوں نے قومی اسمبلی کی سیٹ سے استعفٰی کی بات کی تو جواب میں انھوں نے کہا کہ میرے ساتھ ایم پی اے بننے والے حیدر ہوتی بھی مستعفی ہو جائیں۔ اپنی جماعت سے ناراضگی کے دوران سننے میں آتا تھا کہ مسلم لیگ ن کے ساتھ ان کے روابط ہیں، لیکن لاہور کے جلسہ کے بعد وہ عمران خان کو قائد بنانے کے قائل ہو گئے۔ 

تحریک انصاف کے قافلے میں شامل ہونے والے ایک اور رہنماء چارسدہ کے محمد نثار خان ہیں۔ نیشنل عوامی پارٹی سے سیاست کا آغاز کیا تھا اور لوگ انھیں نے لالا کہتے چلے آ رہے ہیں۔ بعد میں ضیاءالحق اور جونیجو دور میں مرکزی وزیر رہے ہیں۔ مسلم لیگ ن میں نواز شریف کے خاصے قریب رہے، پھر ق لیگ کے صوبائی صدر اور بعد میں ہم خیال کے اہم رہنماء قررا پائے۔ ان کے حال ہی میں جماعت اسلامی میں شامل ہونے والے صاحبزادے نصیر محمد خان آخری انتخابات میں پی پی پی کے قومی اسمبلی کے امیدوار تھے۔ اس سے قبل وہ ق لیگ کے ساتھ تھے اور ضلع چارسدہ کے ناظم کا انتخاب جیتے ہوئے تھے۔ 

ہزارہ سے اعظم خان سواتی سینٹ کی نشست سے مستعفی ہو کر تحریک انصاف میں آئے ہیں۔ ان کا تعلق جمعیت علمائے اسلام سے رہا ہے۔ وہ وفاقی وزیر اور ضلع مانسہرہ کے ناظم رہے ہیں۔ خاصے متمول اور منہ پھٹ سیاسی رہنماء ہیں۔ جمعیت علمائے اسلام میں کافی وقت گزارہ۔ پی پی پی کے وزیر مذہبی امور اب سابق وزیر اور اب پابند سلاسل حامد سعید کاظمی پر حج سکینڈل کے سرعام الزامات لگانے کے بعد وہ اپنے عہدہ سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے اور سواتی صاحب کی بھی وزارت چلی گئی تھی۔ اب وہ خود پارٹی رکنیت اور سینٹ رکنیت چھوڑ چکے ہیں۔ اگر وہ سینٹ سے مستعفی نہ بھی ہوتے تو مارچ میں ان کی مدت ختم ہو رہی تھی۔ ان کے بھائی لائق محمد خان ابھی تک جے یو آئی میں ہیں اور رکن قومی اسمبلی ہیں۔ اپنے انتخاب سے قبل تک وہ مسلم لیگ ن میں تھے اور پارٹی ٹکٹ نہ ملنے پر جے یو آئی میں چلے گئے تھے۔ اگلے انتخابات میں معلوم نہیں وہ جے یو آئی ہی میں رہیں گے یا اپنے بھائی کے ساتھ تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کریں گے یا پھر مقامی سیاسی صف بندی میں جگہ بنائیں گے۔ 

کرک سے شریف خٹک تحریک انصاف میں شامل ہوئے ہیں۔ وہ ایک قومی انٹیلی جنس ایجنسی کے سربراہ رہے ہیں، بے نظیر بھٹو سے تعلق کے حوالے سے ان کا خاصا نام تھا۔ لیکن سیاسی میدان میں اپنی پارٹی میں بھی کبھی نیک نامی نہیں کمائی۔ پی پی پی سے ہوتے ہوئے عمران خان کی چھتری کے نیچے آ گئے ہیں۔ 2002ء کے انتخابات میں عمران خان نے کافی زور لگایا تھا لیکن قومی اسمبلی میں ان کی اپنی ایک سیٹ کے سوا کرک پورے ملک میں واحد حلقہ تھا جہاں سے ان کو صوبائی اسمبلی کا ایک حلقہ ملا جو بعد میں رکن سمیت گنوا دیا۔
 
خیبر پختونخوا اور قبائلی علاقوں کو عمران خان کی حمایت کے حوالے سے زیادہ موزوں سمجھا جاتا تھا، لیکن حالیہ لہر جس کو عمران خان خود سونامی کہتے ہیں، اس کا زور پنجاب میں نظر آ رہا ہے اور خیبر پختونخوا میں ان کا ساتھ دینے والے رہنماء ایسے نہیں ہیں جن کے بل بوتے پر یہاں سونامی کی امید کی جا سکے۔ خیبر پختونخوا کی سیاست ملک کے دوسر حصوں سے الگ انداز کی ہے۔ یہاں سے 1990ء میں بے نظیر بھٹو صاحبہ الیکشن ہار گئی تھیں۔ یہاں مولانا فضل الرحمان اور ولی خان بھی شکست کھا چکے ہیں۔ اسفند یار آخری انتخابات میں اپنے سب سے مضبوط گڑھ صوابی سے ہار گئے۔ یہاں پر کسی بھی حلقہ پر کسی بھی لیڈر کی پوزیشن مستحکم نہیں، کسی بھی وقت کوئی بھی جیت سکتا ہے اور کسی کو بھی شکست ہو سکتی ہے۔ چنانچہ خیبر پختونخوا میں فی الحال عمران خان کی سونامی کے اتنے واضح آثار نہیں ہیں۔

خبر کا کوڈ : 129472
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش