0
Sunday 4 Mar 2012 12:54

ایرانی گیس پر امریکی تعصب!

ایرانی گیس پر امریکی تعصب!
تحریر: پروفیسر نعیم مسعود
  
چند ماہ قبل 23 نومبر 2011ء کو پاک ایران گیس پائپ لائن پراجیکٹ کے حوالے سے یہ بات سامنے آئی تھی کہ ایرانی زمین پر 1220 کلو میٹر میں سے 900 کلو میٹر پر پائپ لائن بچھ چکی ہے۔ اسی پراجیکٹ کے لئے پاکستان کو اپنے علاقہ میں 781 کلو میٹر لائن بچھانی ہے، جو دسمبر 2014ء تک بچھ جائے گی۔ ممکن ہے ان چند ماہ میں اعداد و شمار میں کچھ تبدیلی آگئی ہو کیونکہ اس بات کو تین ماہ اور کچھ دن گزر گئے۔ اس وقت پاکستان میں گیس کی ضرورت 5493 (ایم ایم سی ایف ڈی) تھی اور سپلائی 3768 (ایم ایم سی ایف ڈی)۔ بہرحال یہ فرق بڑی آسانی سے ختم ہو سکتا ہے اگر یہ پراجیکٹ مکمل کر لیا جائے۔ سی این جی اور گیس کی لوڈشیڈنگ سے چھٹکارے کے لئے ضروری ہے کہ اس پراجیکٹ کو جلد از جلد مکمل کر لیا جائے۔ صنعت کی قحط سالی میں گیس اور بجلی کی کمی نے پاکستان کی اقتصادیات کی کمر توڑ کر رکھی دی ہے۔
 
ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم قومی ضروریات اور قومی اقتصادیات کو سیاسیات کی بھینٹ چڑھا دیتے ہیں۔ سیاسیات بری چیز نہیں، یہ تو عمرانیات اور انسانیات کو تقویت بخشنے والی چیز ہے مگر بدقسمتی اس وقت ہمارے در و دیوار پر بال کھولے سو جاتی ہے جب یہ سیاسیات کسی ”زرداریات و بے نظیریات، کسی جرنیلیات اور نوازیات“ میں بدل جاتی ہے۔ یہی وہ چیزیں اور غیرسیاسی و غیر جمہوری رویے ہیں جنہیں دیکھ کر امریکہ ہماری سیاست و جمہوریت اور اقتصادیات و عمرانیات پر غالب آ جاتا ہے۔ ہماری تقسیم اسکے پاکستان اور اسلام دشمن رویے کی آبیاری کرتی ہے۔ 

ہمارے ہاں ”رواج“ ہے کہ ہر اپوزیشن امریکہ کے خلاف بات کرتی ہے اور وہی اپوزیشن جب نکیل اقتدار تھامے ہوتی ہے؟ تو امریکہ کے گیت گاتی ہے۔ یوں کہہ لیجئے کہ ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور، جس دن ہمارے سیاستدانوں اور حکمرانوں کے کھانے اور دکھانے کے دانت ایک ہی ہونگے اس دن امریکہ کو جرات نہیں ہو گی کہ ہماری خارجہ پالیسی پر وہ شب خون مارے۔ ہم توانائی کے بحران کی وجہ سے مہنگائی اور بے روزگاری کا شکار ہیں۔
اس بحران کے خاتمہ کے لئے اگر ایران ہماری مدد کر رہا ہے، تو امریکہ کیوں سیخ پا ہو رہا ہے؟ ہیلری کلنٹن کیوں دانت پیس رہی ہے؟ کیا ہم بھوکے مریں اور صنعتی قحط کا شکار رہیں، تو ہلیری کلنٹن اور امریکہ کو خوشی محسوس ہوتی ہے؟ اگر ایسا ہے تو پھر دوستی کس کھیت کی مولی کا نام ہے؟ یہ معاملہ عالمی دہشتگردی یا عالمی جنگ کا نہیں،یہ معاملہ تخریب کا نہیں تعمیر کا ہے، پھر امریکہ کے پیٹ میں مروڑ کیوں؟
شگوفوں کی عزت پہ چھاپے پڑے ہیں
چمن کی لطافت لہو رو رہی ہے
 
ایران اور پاکستان نے 29 مئی 2010ء کو اسلام آباد میں گیس پائپ لائن منصوبے پر دستخط کر دئیے تھے۔ وفاقی وزیر برائے پٹرولیم اور قدرتی وسائل نوید قمر اور سیکرٹری پٹرولیم کامران لاشاری کی موجودگی میں ایران کی نیشنل آئل کمپنی کے ایم ڈی کسائی زادہ اور پاکستان پٹرولیم و قدرتی وسائل کے جوائنٹ سیکرٹری ارشاد کلیمی نے دستاویز پر ایک تقریب میں دستخط کئے تھے۔ اس معاہدے کے تحت پاکستان کو 25 سال تک گیس فراہم کی جائے گی اور اس میں پانچ سال کا اضافہ بھی ممکن ہے۔ 

ایک قابل غور بات یہ کہ اس موقع پر جوائنٹ سیکرٹری ارشاد کلیمی کا کہنا تھا کہ اگر بھارت اور چین نے اس منصوبے میں شامل ہونے کی کبھی خواہش کی، تو ان کا خیرمقدم کیا جائے گا، نہ جانے ہم یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ بھارت کبھی ہمارے ساتھ کسی بھی موقع اور کسی بھی ضرورت میں مخلص نہیں رہا۔ سندھ طاس معاہدہ کی دھجیاں اڑا کر اور ہمیں آنکھیں دکھاتے ہوئے اس بھارت نے کئی ڈیم منقسم پانیوں پر تعمیر کر لئے۔ بھارت لگ بھگ 62 ڈیم تعمیر کر چکا ہے۔ ہم تربیلا اور منگلا جیسا ایک بھی پراجیکٹ مزید نہ بنا سکے۔ کالا باغ ڈیم کے منہ پر ہم نے سیاست کی ”کالک“ مل دی اوپر سے ہماری محبتوں کا عالم یہ ہے کہ اسے پسندیدہ ترین ریاست قرار دیتے ہوئے زبان نہیں تھکتی۔
تری دنیا میں یا رب زیست کے سامان جلتے ہیں
فریب زندگی کی آگ میں انسان جلتے ہیں
 
چلیں پانیوں کے ساتھ جو رہا ہے سو ہو رہا ہے، آخر یہ سیکرٹری اور یہ حکمران دنیا میں ساتویں نمبر پر کوٹہ رکھنے کے باوجود صرف 2 فیصد بجلی بنانے پر کیوں اکتفا کر رہے ہیں۔ ہاں بات ہو رہی تھی کہ بھارت اور چائنہ کے ساتھ منصوبہ سازی اور خواہش کی۔ خواہش پر قابو اور فکر کی ضرورت ہے۔ ہمیں معاہدوں اور بارٹر سسٹم کے حوالے سے اسلامی ممالک، روس اور چائنہ کی طرف قدم بڑھانا چاہئے۔ بھارت، اسرائیل اور امریکہ ہمارا کبھی بھلا نہیں چاہتے۔ یہ صرف ہمارے لئے صرف شکنجہ یہود چاہتے ہیں۔ پھر انکی خواہشات کا خیرمقدم کیوں؟
 
وزیراعظم پاکستان اور وزیر خارجہ نے گیس کے منصوبہ پر جو مستقل مزاجی سے کام لیتے ہوئے امریکی دباو کو ٹھینگا دکھانے کا عندیہ دیا ہے، وہ اس پر کاربند رہیں اور ساتھ ساتھ افغانستان کے حوالے اور نیٹو سپلائی پر جراتمندانہ ردعمل اور عمل بروئے کار لائیں۔ امریکہ کو باور کرایا جائے جب وہ ٹیبل ٹاک پر بڑے بڑے فیصلے کر لیتا ہے تو اس خطے پر غربت، بے روزگاری اور توانائی کے قحط کے سائے کیوں منڈلائیں۔ مسلم ممالک معدنی وسائل سے بھرے پڑے ہیں۔ زرخیزیوں سے دریاوں تک کی موجودگی اس خطے میں بالخصوص وجود رکھتی ہے، پھر ہر چیز میں امریکہ ہی کو کیوں راضی کیا جائے۔ امریکہ کا فیشن ہی عجیب ہے کہ ....
جب بھی آتا ہے میرے دل میں رہائی کا خیال
وہ میرے پاوں کی زنجیر ہلا دیتے ہیں 

سیاستدان حصول اقتدار کی خاطر زنجیروں میں اگر جکڑے بھی ہوئے ہیں اور اقتدار کا امریکہ پر تکیہ کرتے ہیں تو قوم کو کیوں محکوم،مفلوج اور بے بس بتاتے ہیں۔ قوم تو آزاد ہے۔ اسکے پاوں میں زنجیریں کیوں پہناتے ہیں۔ نظریہ اسلام اور نظریہ پاکستان تو کسی یہودی، عیسائی یا ہندو کے کمالات کو نہیں مانتا۔ یہ تو محنت، عظمت، تقویٰ اور خودی کو مانتا ہے۔ پس بھارت کے بجائے ایران، افغانستان، عراق، ملائیشیا، انڈونیشیا، عرب ممالک اور وسط ایشیا کی ریاستیں اپنا بلاک بنائیں اور ایک دوسرے کے لئے پسندیدہ ریاستیں بنیں۔ امریکہ کے نہیں رب کعبہ کے احکامات کے سامنے سر تسلیم خم ہوں،ہاں! ایک ہو مسلم حرم کی پاسبانی اور خودمختار زندگانی کے لئے!!!
"روزنامہ نوائے وقت"
خبر کا کوڈ : 142714
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش