0
Friday 30 Mar 2012 23:10

برکس سربراہی اجلاس کی اہمیت

برکس سربراہی اجلاس کی اہمیت
 تحریر: جاوید عباس رضوی

برازيل، روس، ہندوستان، چين اور جنوبی افريقا پر مشتمل برکس گروپ کا چوتھا سربراہی اجلاس جو بھارت کی راجدھانی دہلی میں  وقوع پزیر ہوا، اپنی ایک خاص اہمیت و افادیت کا حامل ہے، یہ اجلاس ایسے ایام میں انجام پایا ہے کہ جب استعماری طاقتیں اپنے پورے وجود کے ساتھ اپنا الو سیدھا کرنے میں مصروف و مگن ہیں اور یہ طاغوتی قوتیں عالم اسلام خاص کر بحرین و شام میں قتل عام کو جاری رکھے ہوئے ہیں، امریکہ اور اسکے اتحادی ایسے نازک ایام میں کسی بھی ملک میں کوئی بھی ایسی کانفرنس نہیں چاہتے کہ جس میں انکے ناپاک کارناموں کا ذکر ہو یا مظلومین جہاں کا دفاع ہوتا ہوا دکھائی دے۔
 
واضح رہے کہ اجلاس میں برازیل کی صدر ڈیلما روسائیف، روس کے صدر ڈمٹری میدویدیف، جنوبی افریقہ کے صدر جیکب زوما اور چین کے صدر ہو جنتاؤ کے علاوہ بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ شامل تھے، اس اجلاس کی دوسری بڑی اہمیت یہ ہے کہ پانچوں رہنماؤں نے ایک مشترکہ ترقیاتی بینک تشکیل دینے کی ضرورت پر بھی زور دیا، جس کا بظاہر مقصد یہ ہے کہ مغربی ممالک کی قیادت والے بین الاقوامی مالیاتی اداروں کی اجارہ داری کو ختم کرنے کے لیے ایک متوازی نظام قائم کیا جاسکے، اس اقتصادی مرکز جس کا نام  غالباً برکس بینک ہوگا کے بارے میں مبصرین کا کہنا ہے کہ اس بنک سے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر اور ترقیاتی منصوبوں کے لیے سرمایہ کاری فراہم ہوگی اور یہ بینک ترقی پذیر ممالک میں بنیادی ڈھانچے کے پراجیکٹوں کے لیے فنڈز فراہم کرے گا۔ کہا جاتا ہے کہ اس بنک کی تشکیل سے دنیا میں روزگار کے نئے مواقع پیدا کرنے میں مدد ملے گی اور ساتھ ہی ساتھ  اس بنک سے استعمار کی اجارہ داری بھی ختم ہوگی۔ 
  
جمعرات کو دہلی میں منعقدہ برکس سربراہی اجلاس ميں باہمی تجارت ميں فروغ کی راہوں اور موجودہ حالات ميں گروپ کے کردار کا جائزہ ليا گيا، اجلاس سے خطاب ميں ہندوستان کے وزير اعظم نے کہا کہ برکس ممالک کو موجودہ حالات ميں عالمي نظام کی خامياں دور کرنے کے لئے مشترکہ کوشش کرنی چاہئے، انہوں نے سلامتي کونسل کے ڈھانچے ميں اصلاح کی ضرورت پر زور ديتے ہوئے کہا کہ عالمی اقتصادی اور سياسی ادارے ساٹھ سال پہلے تشکيل پائے ہيں اور ان ميں دنيا کے تغيرات کے ساتھ اصلاح نہيں کی گئی ہے، اجلاس سے خطاب ميں ديگر سربراہان مملکت نے بھی باہمی تعاون کي تقويت اور عالمی مسائل ميں مشترکہ موقف کی ضرورت پر زور ديا، اجلاس کے دوران رکن ممالک کے درميان تجارت ميں مقامی کرنسی کے استعمال پر بھی اتفاق ہوا ہے۔

 برکس ممالک کی تنظیم کو مغربی دنیا کی قیادت والے بین الاقوامی اقتصادی اور سیاسی نظام کے ممکنہ متبادل کے طور پر دیکھا جانا چاہئے، من موہن سنگھ نے کہا ہے کہ برکس ممالک کو عالمی انتظام حکومت کے اختلافات سے نمٹنے کے لیے ساتھ مل کر کام کرنا ہوگا تاکہ اپنی اقتصادیات کو مضبوط کیا جاسکے اور درپیش مسائل سے نپٹا جاسکے، بھارتی وزیر اعظم نے ایسے سیاسی تنازعات سے بچنے کی بھی ضرورت پر زور دیا جن سے تیل کی عالمی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے، انہوں نے کہا کہ عالمی دہشتگردی کی روک تھام کے لیے تعاون میں اضافہ کیا جانا چاہیے۔ 

 اس اجلاس کی ایک اور اہم بات یہ رہی کہ اجلاس کے اختتام پر ايک اعلاميہ جاري کيا گيا جس ميں پرامن ايٹمی توانائی کو ايران کا حق قرار ديا گيا اور اعلان کيا گيا کہ ايران کا ايٹمی مسئلہ صرف مذاکرات کے ذريعے ہی حل ہوسکتا ہے، برکس گروپ کے سربراہوں نے حوصلے کا مظاہرہ کر کے اپنے اعلامیہ ميں ايران کے خلاف خودسرانہ پابنديوں کی مخالفت کرتے ہوئے اعلان کيا ہے کہ اس گروپ کے رکن ممالک ايران کے خلاف مغرب کي جانب سے عائد کی جانے والی پابنديوں کو تسليم نہيں کرتے اور اس پر عمل ہرگز نہيں کريں گے، اعلامیہ میں مزید کہا گیا ہے کہ اگر ایران کے جوہری پروگرام پر جاری تعطل لڑائی کی شکل اختیار کرتا ہے تو اس کے تباہ کن مضمرات ہوں گے۔

برکس گروپ کے دہلی سربراہی اجلاس کے اعلامیہ ميں اسی طرح شام ميں فوجی مداخلت کی مخالفت کے ساتھ اس بات پر زور ديا گيا ہے کہ شام کا بحران حکومت اور مخالفين کے درميان مذاکرات کے ذريعے دور کرنے کی کوشش ہونی چاہئے نہ کہ قتل و غارت سے اور ہر قسم کي يک طرفہ کاروائی سے اجتناب اشد ضروری ہے، اعلامیہ کے مطابق پانچوں رہنماؤں نے شام میں قیام امن کے لیے اقوامِ متحدہ کے سابق سیکرٹری جنرل کوفی عنان کے تجویز کردہ منصوبے کی حمایت کا بھی فیصلہ کیا ہے، غرض کہ اعلامیہ میں ایران اور شام کی مکمل حمایت کا اعلان کیا گیا جو مغرب اور اسکے اتحادیوں کے لئے برکس کی جانب سے ایک زور دار طمانچے کی حیثیت رکھتا ہے۔

برکس ممالک دنیا کی تقریباً چالیس فیصد آبادی کی نمائندگی کرتے ہیں، اور دنیا کا پچاس فی صد اقتصاد ان کے ساتھ منسلک ہے، بھارت کے سیاست دانوں نے اس بات پر بہت خوشی ظاہر کی ہے کہ یہ برکس کانفرنس بھارت میں منعقد ہوئی ہے اور یہ تمام برکس ممالک کے لیے ان نازک ایام میں بہت زيادہ حوصلہ کی بات ہے، بھارت کا یہ کہنا بھی خوش آئند ہے کہ اس برکس کانفرنس کے لیے ہمارے پاس بہت وسیع ایجنڈا ہے، اور یہ کہ ہمیں اہمیت کے حامل بڑے امور پر تعاون کو مزید بہتر بنانے کی ضرورت ہے، ایک جمہوری اور مساوی عالمی نظام، عالمی گورننس ریفارم اور امور جیسے غذائی اور توانائی کا تحفظ اور موسمیاتی تبدیلی، جو ہمارے عوام کی اقتصادی حالت کو بہتر بنا سکیں۔
 
مثال کے طور پر ہم بڑے شہروں کے انتظام سے متعلق اپنے تجربات کو ایک دوسرے سے بانٹ سکتے ہیں، ہمیں اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل میں تمام برکس ممالک کی موجودگی کے موقع سے بھی فائدہ اٹھانا چاہیے تاکہ ہم اپنی اہمیت کے امور پر عالمی سوچ کو ایک نئی جہت عطا کرسکیں، یہ تمام چیزیں برکس ممالک کے تعاون کو نئی اور ٹھوس شکل دینے میں مدد فراہم کریں گے، اور اگر یہ ممالک برکس کے طور پر اپنی ترقی میں رول ادا کر سکتے ہیں اور بین الاقوامی فورم پر اس کی ترجیحات کو اجاگر کر سکتے ہیں، تو اس سے نہ صرف کسی ایک خاص ملک کو فائدہ ہوگا بلکہ پوری دنیا کو فائدہ حاصل ہوگا۔
خبر کا کوڈ : 149121
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش