0
Tuesday 15 May 2012 13:21

فلسطین ماضی و حال کے آئینہ میں!

فلسطین ماضی و حال کے آئینہ میں!
تحریر: ارشاد حسین ناصر 

انبیاء کی سرزمین فلسطین اور قبلہء اول بیت المقدس پر صیہونیوں کے ناجائز قبضہ کو چونسٹھ برس گذر چکے ہیں۔ 15 مئی 1948ء کو دنیا پر ناجائز وجود پانے والی ریاست جسے امام راحل امام خمینی رہ نے مسلمانوں کے قلب میں خنجر سے تعبیر کیا تھا، مئی 2008ء کے وسط میں اپنے غاصبانہ قیام کی ساٹھویں سالگرہ منا چکی ہے۔۔۔۔۔۔یہ تمام عرصہ ایک طرف تو عالم اسلام کی اجتماعی بے حسی اور مظلوم فلسطینیوں سے مسلم حکمرانوں کے منافقانہ رویوں کی طویل اور دردناک داستانوں سے بھرا ہوا ہے تو دوسری طرف یہ 64 برس ظلم و بربریت وحشت و درندگی کی قدیم و جدید تاریخ سے بھرپور اور سفاکیت کے انمٹ مظاہروں کی پردرد و خوفناک کہانی کے عکاس ہیں ۔۔۔۔۔۔ ان چو نسٹھ برسوں میں ارضِ مقدس فلسطین میں ہر دن قیامت بن کر آیا ہے، ہر صبح ظلم و ستم کی نئی داستان لے کر طلوع ہوئی، ہر لمحہ بے گناہوں کے خون سے، گھر بار، سڑکیں، بازار، مساجد و عبادت گاہیں، سکول و مدارس کو رنگین کرنے کا پیامبر بن کر آیا ہے ۔۔۔۔۔۔

ناجائز ریاست اسرائیل کے حکمرانوں نے ان ساٹھ برسوں میں خون آشامیوں کی جو تاریخ رقم کی ہے اس کی مثال تاریخ کے صفحات بیان کرنے سے قاصر ہیں۔۔۔۔۔۔ کون سا ظلم ہے، جو بے گناہ، معصوم اور مظلوم قرار دیئے گئے ارض مقدس فلسطین کے باسیوں پر روا نہیں رکھا گیا۔۔۔۔۔۔ آج فلسطین کی دختران کی عزتوں کی پائمالی کا حساب نہیں، کتابیں اور بیگ اُٹھائے سکول جاتے معصوم بچوں پر بموں کی یلغار اور گولیوں کی بوچھاڑ کے واقعات سے کئی دفتر مرتب ہو چکے ہیں، سنہرے مستقبل کے خواب آنکھوں میں سجائے تعلیمی اداروں میں جانے والے، والدین کی اُمید، نوجوانوں کی خون میں اٹی لاشیں اور نوحہ و ماتم کرتی ماؤں اور بہنوں کی چیخ و پکار اور نالہ و فریاد کے مناظر دنیا کے باضمیر انسانوں کو ہر روز جھنجھوڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔!
 
یہ دلدوز مناظر، خون آشام داستانیں، روح فرسا کہانیاں، گولیوں سے چھلنی لاشیں، بہتے لہو کی دھاریں۔۔۔۔۔۔ یہ اُجڑتے سہاگ، یتیمی کا لباس پہنے معصوم بچے، ضعیفی و ناتوانی کے چھینے گئے سہارے۔۔۔۔۔۔ یہ تاراج بستیاں، برباد کھیت و کھلیان، ٹوٹی سڑکیں، اُداس یونیورسٹیاں اور خوف، وحشت اور ڈر کا چہار سُو راج ۔۔۔۔۔۔ یہ ایک دن، ایک مہینہ اور ایک برس کا قصہ و کہانی نہیں ۔۔۔۔۔۔ بلکہ صیہونی ریاست کے وجود میں آنے کے بعد سے یہ سب کچھ ہو رہا ہے ۔۔۔ ہر آنے والا دن ان مظالم میں اضافہ لاتاہے ۔۔۔۔۔۔ ظلم و زیادتی اور تشدد کی نئی داستان رقم کی جاتی ہے ۔۔۔۔۔۔ اس قتل و غارت، سفاکیت و بربادی کے پیچھے دراصل ایک فلسفہ و فکر کار فرما ہے ۔۔۔۔۔۔ 

اسی فلسفہ و فکر کے حامل صیہونی یہودیوں نے بیسویں صدی کے اوائل میں فلسطین کی جغرافیائی اہمیت کے پیش نظر اسے اپنے قبضہ میں لینے کا پروگرام ترتیب دیا۔ پہلی جنگ عظیم میں برطانیہ نے فلسطین پر قبضہ کر لیا اور اپنی بالادستی قائم کر لی۔ جنگ ختم ہوئی تو برطانیہ نے وہ اعلان کیا جسے "اعلان بالفور" کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ یہ اعلان 2 نومبر 1917ء کو سامنے آیا اور اس میں سرزمین فلسطین یہودیوں کو بطور قومی وطن عطا کرنے کا وعدہ کیا گیا۔ عالمی طاقتوں کی سرپرستی میں اس وقت یہ سازش عملی شکل اختیار کر گئی، جب دنیا کے نقشے پر مسلمانوں کے قلب میں واقع اسرائیل نامی ناجائز صہیونی ریاست کا اعلان 15 مئی 1948ء کو کیا گیا۔ 

تسلط و طاقت کے فلسفہ پر قائم اس ناجائز ریاست کے ساتھ ہی ظلم و جور اور سفاکیت و بربریت کا یہ سلسلہ ہر آنے والے دن کے ساتھ دراز تر ہو جاتا ہے۔ توسیع پسند و تسلط و طاقت کے نشہ میں مدہوش اسرائیل نے 1967ء میں تمام فلسطین پر قبضہ کر لیا اور مقامی باشندوں کو بے دخل کر دیا، یوں اس سرزمین کے اصل وارث لاکھوں کی تعداد میں اردن،لبنان اور شام میں پناہ لینے پر مجبور ہوگئے، مگر سامراجی اور استعماری ہتھکنڈوں نے انہیں یہاں سے بھی نکالنے کی سازش کی، چنانچہ ستمبر 1975ء میں اردن کی شاہی افواج نے یہاں پر مقیم فلسطینیوں پر ظلم کی انتہا کر دی۔ ان کا قتل عام کیا گیا، اس کے بعد ان فلسطینیوں کو لبنان میں پناہ پر مجبور کر دیا گیا۔ اس بھیانک ظلم کو سیاہ ستمبر کے عنوان سے یاد کیا جاتا ہے۔ 

درماندہ، ظلم و ستم کی چکی میں پسنے والے اور اپنے وطن، گھر اور آبائی سرزمین کے حصول کی خواہش رکھنے والے فلسطینیوں نے استعماری سازشوں کا مقابلہ اور اسرائیلی مفادات کو نقصان پہنچانے کیلئے کارروائیاں جاری رکھیں۔ دوسری طرف اسرائیل کو عالمی طاقتوں بالخصوص امریکہ نے بہت زیادہ مالی و فوجی امداد دی اور ہر قسم کا تعاون کیا، حتیٰ کہ اقوام متحدہ میں پیش ہونے والی اسرائیل مخالف قراردادوں کو ویٹو کرنا بھی امریکہ نے اپنا وطیرہ بنا لیا، جبکہ امریکہ، اسرائیل کے خلاف اقوام متحدہ کی پاس کردہ قراردادوں پر عمل درآمد بھی نہیں ہونے دیتا۔۔۔۔۔۔ اس کشمکش میں اسرائیل نے لبنان پر بھی حملے کئے اور لبنان کے کئی علاقوں پر بھی قابض ہو گیا۔ یوں تحریک آزادی فلسطین کے بعد مزاحمت اسلامی لبنان نے بھی جنم لیا اور اسرائیل کی توسیع پسندی و تشدد پسندی کے خلاف قربانیوں کی داستانیں رقم کرنے کا سلسلہ شروع کیا۔
 
ایک طرف تو یہ ظلم و ستم بڑھتا رہا اور دوسری طرف ظلم و سازشوں اور اپنوں کی بزدلی و منافقت کے شکار ارضِ مقدس فلسطین اور لبنان کے باسیوں میں ظالموں جابروں، ستم گروں اور منافقوں سے نفرت اور حقیقی قیادت و صالح مقاصد کے حصول کا جذبہ فروغ پاتا رہا۔ لبنان میں امریکی، فرانسیسی اور صیہونی فوجیوں کے خلاف خودکش دھماکوں کا سلسلہ شروع ہوا تو یہ لوگ دُم دبا کر بھاگ کھڑے ہوئے اور فلسطین میں جہادی تحریکوں نے رفتہ رفتہ زور پکڑا اور آپس کے اختلافات کو پسِ پشت ڈال کر غاصب یہودیوں کے خلاف کارروائیوں کو تیز کیا۔۔۔۔۔۔  اسرائیل کے غاصبانہ قبضے کے خلاف نہتے فلسطینیوں کی پتھر سے شروع ہونے والی تحریک غلیل سے ہوتی ہوئی کلاشنکوف اور راکٹ لانچر کے بعد میزائلوں تک پہنچ چکی ہے۔
 
64 برس میں فلسطینیوں نے یہ سیکھ لیا ہے کہ گولیوں کی بوچھاڑ میں،  بارود کی بارش میں، تاراجی اور بربادی میں، منافق اور بزدل لیڈروں، استعماری سازشوں، خوراک کی قلت، محاصرے، گھروں سے نکالے جانے اور مہاجر بنا دیئے جانے کی صورت میں کیسے زندہ رہنا ہے، اپنی مظلومیت کو اپنی طاقت میں کیسے بدلنا ہے۔ استعمار کے مسلط کردہ حکمرانوں سے کیسے نمٹنا ہے اور استعمار کو کیسے ناکوں چنے چبانے پر مجبور کرنا ہے۔ شہادتوں کو کیسے اپنی قوت اور طاقت میں تبدیل کرنا ہے۔ درد کو کیسے دوا بنانا ہے۔
 
آج فلسطین کی غیور ملت نے مزاحمت اور جہاد و شہادت کے جوہر عظیم کی شناخت کر کے عزت و سعادت کا راستہ اختیار کر لیا ہے۔ ارض فلسطین کی آزادی کیلئے ان 64 برسوں میں ہزاروں قیمتی لوگ اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر چکے ہیں، ان میں عام لوگ بھی ہیں اور تحریک آزادی کے قائدین اور مجاہدین بھی۔ گذشتہ برسوں میں شیخ احمد یٰسین، ڈاکٹر رنتیسی اور حماس و جہاد اسلامی کے قائدین کی عظیم قربانیوں نے شجاعت کی جو داستانیں رقم کی ہیں وہ راہنمائی کا درجہ رکھتی ہیں۔
 
آج فلسطین کے اندر یا باہر پیدا ہونے والے فلسطینی بچے کو جہاد و شہادت کی گھٹی دی جاتی ہے، ان کے کانوں میں شہادت و جہاد کے شعار کی اذان دی جاتی ہے۔ فلسطین کی عظیم مائیں ایثار و قربانی کے جذبہ سے سرشار ہو کر اپنے بچوں کی تربیت کرتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تمام تر عالمی سازشوں، ظلم و تشدد اور منافقت کے پروردوں کی غداری کے باوجود یہاں پر ارضِ مقدس فلسطین کی آزادی اور یہودیوں کو یہاں سے مکمل طو ر پر نکال باہر کر دینے کے جذبات اور احساسات غالب آچکے ہیں۔ آج ہر فلسطینی بچہ، بزرگ، نوجوان، خواتین، اس عزم پر آمادہ و تیار نظر آتے ہیں کہ وہ اپنی گردنیں تو کٹوا سکتے ہیں، لیکن ارضِ مقدس فلسطین پر ناپاک صہیونی قبضہ کسی صورت برداشت نہیں کریں گے اور اپنی دھرتی کا ایک ایک انچ اسرائیلی قبضے سے آزاد کرائیں گے۔ 

تاریخ گواہ ہے کہ جو قومیں اپنے مقصد کے حصول کیلئے قربانیاں پیش کرنے اور جانوں پر کھیلنا سیکھ جاتی ہیں، انہیں زیادہ دیر تک غلام اور زیر نگیں نہیں کیا رکھا جاسکتا۔ ویسے بھی ظلم و طاقت کے زور پر کب تک یہ تاریکی چھائی رہے گی ۔۔۔۔۔۔ جوان اپنی جوانیاں لٹا کر اور بہنیں اپنی عزتوں کو قربان کر کے بھی اس تاریکی کو صبح نو میں تبدیل کر کے چھوڑیں گی۔ ظلم کی یہ سیاہ رات جسے اسرائیل کی صورت میں برطانیہ و امریکہ نے دنیا پر مسلط کیا، ایک دن چھٹ کر رہے گی۔۔۔۔۔۔ آج نہیں تو کل ۔۔۔۔۔۔ دنیا اس صیہونی ریاست کے وجود سے پاک ہو گی ۔۔۔۔۔۔اور وہ دن کتنا خوبصورت اور خوشگوار ہوگا جب دنیا کے نقشہ سے اسرائیل کا وجود مٹ جائے گا اور ہم سب مل کر ارض مقدس میں قبلہء اول کے اندر نماز ادا کریں گے اور دنیا پر امن و سلامتی کا راج ہو گا۔
خبر کا کوڈ : 162126
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش