0
Tuesday 4 Sep 2012 00:28

کوئٹہ پھر لہو رنگ

کوئٹہ پھر لہو رنگ
تحریر: فجر زہرا

کوئٹہ میں دہشت گردی کی تازہ لہر نے ایک بار پھر سر اٹھا لیا ہے اور شہر میں ٹارگٹ کلنگ اور فائرنگ کے مختلف واقعات میں ایک دن میں 7 افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ نواحی علاقے ہزار گنجی میں پیش آنے والے واقعے میں موٹر سائیکل سوار نامعلوم مسلح افراد نے اندھا دھند فائرنگ کی اور ہزارہ قبیلے سے تعلق رکھنے والے ان افراد کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا۔ ہزارہ قبیلے کے لوگوں کی ٹارگٹ کلنگ کے بعد کوئٹہ سمیت بلوچستان بھر میں کشیدگی پھیل گئی اور ہزارہ برادری کے ہزاروں افراد سڑکوں پر نکل آئے اور احتجاج شروع کر دیا۔

محکمہ داخلہ بلوچستان نے صوبے میں امن وامان کی ابتر صورتحال کے پیش نظر پولیس کے اختیارات ایف سی کو دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ بلوچستان میں اسلحہ کی راہداری پر بھی فوری طور پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ دوسری جانب ہزار گنجی میں فائرنگ کے واقعات کے خلاف ہزارہ ڈیمو کریٹک پارٹی کے زیراہتمام آئی جی پولیس کے دفتر کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کیا گیا، اس موقع پر مظاہرین نے شدید نعرے بازی کی اور اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا۔ شرمناک واقعے کے بعد بلوچستان میں پھیلی نفرت کی آگ میں مزید اضافہ ہوگیا ہے، آئے روز مخصوص فرقہ کے لوگوں کی ٹارگٹ کلنگ نے صوبے میں امن و امان کی صورتحال ابتر کر دی ہے، لیکن اس کے باوجود انتظامیہ ابھی تک حرکت میں نہیں آئی۔

بلوچستان میں چار سال سے جاری دہشت گردی میں اب تک 3 ہزار 308 اہلکار اور عام شہری لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ ٹارگٹ کلنگ کے 342 واقعات میں 23 افراد مارے گئے اور  272 زخمی ہوئے ہیں، 2005ء سے 2011ء تک راکٹ باری اور بارودی سرنگ دھماکوں کے 3 ہزار سے زائد واقعات میں 1320 عام شہری، 214 ایف سی اہلکار جاں بحق 683 اور 3070 شہری زخمی ہوئے ہیں۔ اسی طرح 2005ء لے کر 2011ء تک ایف سی کے 214، آرمی کے 35، پولیس کے 181 اور 1320 سویلین مارے جا چکے ہیں۔ اسی طرح 3 سو 39 مرتبہ گیس پائپ لائن، ایک سو 31 ریلوے ٹریک اور ایک سو 85 بجلی کے ٹاورز تباہ کئے گئے ہیں۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 2009ء میں ایک سو 21 واقعات میں 56، 2010ء میں ایک سو 13 واقعات میں 82، 2011ء میں 56 واقعات میں 77 افراد جاں بحق اور سینکڑوں زخمی ہوئے ہیں۔ دہشت گردی کے ان واقعات میں 2 سو 14 ایف سی، 35 آرمی، ایک سو 81 پولیس اور 13 سو 20 سویلین مارے گئے ہیں۔ اسی طرح ایف سی کے 6 سو 83، آرمی کے 52، پولیس کے 2 سو 59 اور سویلین 3 ہزار 70 زخمی ہوئے ہیں۔ بلوچستان میں جاری ٹارگٹ کلنگ، دہشت گردی، تنصیبات پر حملے،اغواء برائے تاوان کی وارداتیں، جبری گمشدگیوں جیسے سنگین اقدامات کے باوجود صوبے میں حکومت نام کی کوئی چیز نظر نہیں آتی، ہمارے حکمران غفلت کی چادر اوڑھ کر سکون کے خراٹے لے رہے ہیں جبکہ صوبہ بلوچستان کو علیحدہ کرنے کیلئے خفیہ عالمی طاقتیں انتہائی سرگرم ہیں۔

ہم یہ پہلے بھی کئی بار نشاندہی کرچکے ہیں کہ بلوچستان میں بھارت کی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘، اسرائیلی خفیہ ادارہ ’’موساد‘‘ اور امریکی سی آئی اے سمیت دیگر یورپی ممالک کی خفیہ ایجنسیاں انتہائی متحرک ہیں اور بلوچستان کے مفلوک الحال، بیروزگار، لاچار لوگوں کو دھڑا دھڑ خرید کر اپنے مذموم مقاصد کیلئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ سپریم کورٹ میں پیش کردہ ایک رپورٹ میں حکومت نے یہ اعتراف کیا تھا کہ بلوچستان میں اقوام عالم کی کئی خفیہ تنظیمیں سرگرم ہیں اور دہشت گردی کیلئے مقامی لوگوں کو استعمال کر رہی ہیں۔ اس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ عالمی طاقتیں بلوچستان کو علیحدہ کر کے خطے پر اپنا تسلط قائم کرنا چاہتی ہیں۔

بلوچستان اور گلگت بلتستان میں اہل تشیع کے افراد کے پے درپے قتل حکومت وقت کیلئے لمحہ فکریہ ہیں اور گزشتہ چار سال سے جاری قتل و غارت گری کو روکنے کیلئے حکومت اپنے فرائض انجام نہیں دے پا رہی۔ حکمرانوں کے رویوں سے تو یہ گمان پیدا ہو رہا ہے کہ وہ اپنے بیرونی آقاؤں کے ایجنڈے پر چل کر بلوچستان کو علیحدہ کرنے کیلئے مکمل تعاون فراہم کر رہے ہیں۔ اگر اب بھی ہمارے حکمرانوں نے ہوش کے ناخن نہ لئے تو پھر خدانخواستہ بلوچستان بھی مشرقی پاکستان کی طرح علیحدہ ہو سکتا ہے۔
 
صدر پاکستان آصف علی زرداری نے اپنی حکومت قائم کرتے ہی بلوچ قوم سے معافی مانگ کر انکے مسائل حل کرنے کی یقین دہائی کرائی تھی، لیکن چار سال گزرنے کے باوجود بلوچستان کے مسائل حل ہوئے ہیں اور نہ ہی وہاں پر امن و امان قائم ہوسکا ہے، بلکہ علیحدگی کی تحریکوں کو مزید ہوا ملی ہے اور اگر یہی سلسلہ برقرار رہا تو پھر حالات مکمل طور پر کنٹرول سے باہر ہوجائیں گے۔
خبر کا کوڈ : 192485
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش