0
Thursday 22 Nov 2012 22:30

پاکستانی دانشوروں سے ایرانی صدر کی ملاقات

پاکستانی دانشوروں سے ایرانی صدر کی ملاقات
تحریر: ہما مرتضٰی

انسان چند عوامل کی بنیاد پر کوشش کے بعد کامیابی و سلامتی کے مقام تک پہنچ سکتا ہے۔ پہلا نقطہ توحید ہے، توحید سے باہر کوئی خوبصورتی نہیں ہے۔ اللہ کے تمام پیغمبروں نے توحید کی دعوت دی۔ توحید انسان کی عظمت کا ستون ہے۔ دوسرا نقطہ عدالت ہے۔ عدالت واحد راستہ ہے جس میں انسان کی کامیابی ہے، اگر عدل نہ ہو تو انسان کی صلاحیتیں ظاہر نہیں ہوسکتیں۔ اللہ کے پیغمبروں کی ذمہ داری عدالت کا قیام تھا۔ عدالت انسان کو کمال تک پہنچانے کا نقطہ عروج نہیں نقطۂ آغاز ہے۔ عدالت کے قیام سے انسان کی انسانیت جنم لیتی ہے۔ تیسرا نقطہ انسانیت سے محبت و عشق کرنا ہے، اگر انسان کے دل میں تمام انسانوں کے لیے محبت و عشق نہ ہو تو وہ انسانیت کی معراج تک نہیں پہنچ سکتا۔
 
یہ سب کسی اسلامی کتاب کا متن ہے نہ کسی عالم دین کی مجلس کا خطاب۔ یہ ایرانی صدر ڈاکٹر محمود احمدی نژاد کی پاکستان میں D-8 کانفرنس کے سلسلے میں اسلام آباد آمد کے فوراً بعد ایرانی سفارتخانے میں ایڈیٹروں، سیاستدانوں اور دانشوروں میں سے چیدہ چیدہ لوگوں کے اجتماع سے خطاب کا ایک حصہ ہے۔ ایک ایسے صدر کا خطاب جو سادگی اور شفقت کا بھرپور نمونہ ہے، جس کے چہرے کی مسکراہٹ اس کے عوام کو ہر وقت امید کی روشنی سے منور کرتی ہے۔ آگے بڑھنے اور ترقی کی منازل طے کرنے کا پیغام لے کر وہی مسکراہٹ چہرے پر سجائے وہ پاکستان کے عوام کو بھی اسلام آباد کے ایرانی سفارت خانے میں اپنے مسحور کن خطاب کے ذریعے روحانی سکون اور روشن مستقبل کی نوید دے رہے تھے۔
 
انھوں نے کہا کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ استعمار کی بنیادیں منہدم ہو رہی ہیں اور خوش خبری یہ ہے کہ اللہ کا وعدہ ہے کہ ظلم کا خاتمہ ہوگا۔ اس کے لیے انھوں نے قرآنی آیات اور احادیث نبوی سے شواہد پیش کئے۔ ایک ایسے وقت انھوں نے یہ نوید دی جب پاکستان میں آئے دن ٹارگٹ کلنگ، خودکش حملے، بم بلاسٹ کی خوفناک فضا چھائی ہوئی ہے اور دہشت و وحشت کی اس خونبار کیفیت نے عوام کا سکون غارت کرکے رکھ دیا ہے۔ ایسے میں ایرانی مسیحا نے پاکستان کے عوام کو یہ کہہ کر حوصلہ دیا کہ آج پاکستان کی سرزمین پر آکر مجھے بے حد خوشی ہوئی ہے اور میرے ہاتھوں میں عقیدت و احترام کے جو پھول ہیں، وہ سارے کے سارے میں پاکستان اور اس کے عوام پر نچھاور کرتا ہوں کیونکہ دونوں برادر اسلامی ممالک ہیں۔ 

دونوں ملکوں کے عوام کے دل ایک ساتھ دھڑکتے ہیں۔ ایران کے عوام پاکستان کی شیر دل قوم کو بڑا ذہین، محنتی، باصلاحیت اور جرأت والا سمجھتے ہیں، جس نے حالات کا مقابلہ ہمیشہ بہادری سے کیا اور ظلم کے سامنے ڈٹ گئی اور ظالم کو دندان شکن جواب دے کر کیفر کردار تک پہنچایا۔ اس قوم نے ہمیشہ اپنے اللہ پر بھروسا کیا ہے اور جو قومیں اپنے خداوند کریم پر یقین رکھتی ہیں وہ کبھی بے توقیر اور مایوس نہیں ہوتیں، اللہ تعالٰی ان قوموں کو سرخرو کرتا ہے۔ 

دنیا میں کیا ایسے بھی سربراہان مملکت ہوتے ہیں جو کسی دوسرے ملک کے عوام کو اس قدر حوصلہ دیں، ان کی ہمت بڑھائیں اور ان کے صبر کی داد دیں۔ خطاب نسبتاً طویل تھا، جسے ترجمے نے اور بھی طویل کر دیا تھا، لیکن اس خطاب کو سن کر کوئی بھی اکتایا نہیں۔ ان کی یہ تقریر تقریباً سوا گھنٹہ جاری رہی، جسے حاضرین جن میں دانشور، صحافی، مختلف مسالک کے علماء اور سیاستدان موجود تھے، نے بڑی دلچسپی اور انہماک سے سنا اور سب کی یہ خواہش ان کے چہروں پر عیاں تھی کہ کاش یہ ہمارا صدر ہوتا۔
 
سابق سیکرٹری جنرل خارجہ اکرم ذکی نے اس تقریب میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ احمدی نژاد اسلامی دنیا کے عظیم راہنما ہیں، جن پر اسلامی دنیا کے غیرت مند افراد فخر کرتے ہیں، کیونکہ وہ سپر طاقت کے دباؤ کو مسترد کرنے اور اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کی جرأت رکھتے ہیں۔ پاکستان کے عوام صدر احمدی نژاد کو سلام پیش کرتے ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ پاکستان کے حکمران آپ کی طرح استعمار کا مقابلہ کریں، لیکن ہمارے حکمران ڈرون حملوں کے خلاف صرف قراردادیں پاس کرتے ہیں، جو اپنے ہی ملک کے دہشت گردوں کو روک نہیں سکتے، وہ امریکہ جیسے شیطان بزرگ دہشت گرد کو کیا روکیں گے۔ اس کے لیے ایسا شیر دل، دلیر لیڈر چاہیے جو پرہیز گار بھی ہو اور صرف خدا سے ڈرنے والا مجاہد بھی، جو وقت پڑنے پر صرف اپنی فوج کو آگے نہ کرے، خود بھی جرأت مندانہ طریقے سے دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اسے جواب دے۔

صدر احمدی نژاد نے کہا کہ میں نے دنیا کے سو سے زیادہ ممالک دیکھے ہیں، مختلف طبقات سے گفتگو کی ہے۔ جب بھی گفتگو گہرائی میں جاتی ہے تو یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ تمام قوموں کا مطالبہ اور نعرہ ایک ہے۔ سب دنیا سے استعمار اور لوٹ کھسوٹ کے نظام کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ انھوں نے کہا دنیا میں ہونے والی حالیہ تبدیلیاں استعمار کی تباہی کا موجب بنیں گی۔ انھوں نے کہا کہ خود امریکہ اور یورپ کے عوام اس نظام سے تنگ ہیں۔ 

ایرانی صدر نے اپنی سحر انگیز تقریر میں کہا کہ امریکہ، یورپ کے حکمران ہمیں عرب و عجم میں تقسیم کر رہے ہیں، جبکہ ہمارے تمام پیغمبروں نے قومیتوں کو ختم کیا۔ قومتیوں میں بانٹنا نفاق کا ایک راستہ ہے اور نفاق کا دوسرا راستہ مذہبی ہے۔ جب ہمارا خدا ایک ہے، پیغمبر (ص) ایک ہے اور کعبہ ایک ہے تو پھر کون سنی اور کون شیعہ؟ ہم سب بھائی بھائی ہیں۔ فرقہ واریت اصل میں دشمن ملک پھیلا رہے ہیں۔ مسلمانوں کی تیل کی دولت سے لے کر خود مسلمان ملکوں میں تفرقہ پیدا کیا جا رہا ہے۔ یہ صہیونیت کی سازش ہے۔ اگر آج پاکستان، ایران، عراق اور افغانستان ایک ہو جائیں تو دنیا کا کوئی ملک ہمارا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ 

کاش ہمارے حکمران ہوش کے ناخن لے کر اپنے دوست اور دشمن کی پہچان کر یک جان ہو جائیں۔ سمندر پار دوست نما دشمن جو باہر سے ڈرون کے تحفے بھیجتا ہے وہ ٹھیک ہے یا وہ ہمسایہ جو پاکستانی عوام پر عقیدت کے پھول نچھاور کرتا ہے، جو پاکستان کے حالات پر پریشان ہے۔ ایرانی صدر نے کہا کہ جس طرح آپ کو ایران کے حالات پر تشویش ہے، ہمیں پاکستان کے حالات پر تشویش ہے۔ میں کوشش کر رہا ہوں کہ پاک ایران روابط انتہائی سطح پر پہنچاؤں۔ انھوں نے پاکستان کے تمام مسالک کے علماء کو دعوت دی کہ وہ ایران آئیں، نہ صرف علماء بلکہ سیاستدان اور میڈیا کے افراد بھی ایران آئیں۔
 
یہ ہے وہ صدر جس نے کہا کہ میں پاکستانیوں سے محبت کرتا ہوں۔ اگر ہم متحد ہو جائیں تو جسد واحد بن سکتے ہیں۔ یہ ہے ایران کا صدر جو ہر ملک میں اپنی قومی زبان فارسی میں بات کرتا ہے۔ ایرانی ثقافت کی چلتی پھرتی تصویر اور سادگی کا نمونہ۔ جو حکومت ایران سے کوئی معاوضہ بھی نہیں لیتا بلکہ تقریباً 15 ہزار روپے میں اپنا گھر چلاتا ہے۔ وہ جب کبھی دوروں کے دوران ہوٹل میں ٹھہرتا ہے تو چھوٹے سے بیڈ والا نارمل سا کمرہ لیتا ہے۔ امریکہ نیوز چینل’’فوکس‘‘ پر ایرانی صدر سے جب پوچھا گیا کہ جب آپ صبح اٹھ کر آئینے میں خود کو دیکھتے ہیں تو خود سے کیا کہتے ہیں۔؟ احمدی نژاد نے جواب دیا ’’میں آئینے کے سامنے کھڑا ہو کر جس شخص کو دیکھتا ہوں اسے کہتا ہوں یاد رکھنا! تم ایک خدمت گار ہو اور تمھارے اوپر ایرانی قوم کی خدمت کرنے کی بھاری ذمہ داری ہے۔ خدا پاکستان کے حکمرانوں کو بھی آئینے میں ان کا اصل چہرہ اوران کی ذمے داری دکھائے، تاکہ ہمیں بھی ایک ایسی قیادت نصیب ہو جو اپنی مثال آپ ہو، جسے احساس ذمہ داری ہو۔ 

21 نومبر کی یہ شب پاکستان کے ان چنیدہ اہل دانش کو یاد رہے گی جو مسجمۂ حیرت بنے۔ دلربا انداز میں گوہر بکھیرتے ہمسایہ ملک کی سادگی اور خلوص کے پیکر صدر کی باتوں میں جذب ہوگئے تھے۔ تقریر ختم ہوتی تو گویا لذت تقریر اور شیرینئ سخن میں کھویا ہوا ہر شخص چاہ رہا تھا کہ یہ سلسلہ کچھ دیر اور قائم رہتا۔ ان یادگار تاریخی لمحوں میں زندگی کے تمام شعبوں کی نمایاں شخصیات موجود تھیں۔ سینیٹر مولانا عبدالغفور حیدری جنرل سیکرٹری جمعیت علمائے اسلام (ف)، مولانا سمیع الحق سربراہ دفاع پاکستان کونسل، جنرل حمید گل، پروفیسر فتح محمد ملک، مہتاب خاں چیف ایڈیٹر روزنامہ اوصاف، ثاقب اکبر ڈپٹی سیکرٹری جنرل ملی یکجہتی کونسل، مولانا محمد امین شہیدی ڈپٹی سیکرٹری جنرل مجلس وحدت مسلمین، ایر مارشل قیصر حسین، آغا مرتضٰی پویا، آصف لقمان قاضی، ڈاکٹر عابد رؤف اورکزئی، کرنل نادر حسن، علامہ علی غضنفر کراروی، مولانا سید افتخار حسین نقوی رکن اسلامی نظریاتی کونسل، ڈاکٹر غضنفر مہدی، مولانا عامر صدیق، حاجی ابو شریف اور سرزمین پاکستان کے بہت سے روشن ستارے، گویا ایک کہکشاں سجی تھی۔ پھول کھلے تھے اور ڈاکٹر محمود احمدی نژاد گل سر سبد بنے بیٹھے تھے۔
خبر کا کوڈ : 214582
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش