0
Wednesday 17 Mar 2010 13:08

عراق انتخابات،ایک جائزہ

عراق انتخابات،ایک جائزہ
 آر اے سید
عراق کے دوسرے پارلیمانی انتخابات امریکہ اور سعودی عرب کی تمام تر بدنیتوں کے باوجود انتہائي کامیابی سے منعقد ہوئے،ایک عرب ملک بالخصوص صدام کی طویل آمریت اور امن و امان کی بدترین دھمکیوں کے باوجود انتخابات کا اتنے بھرپور انداز سے منعقد ہونا ایک معجزے سے کم نہیں۔انتخابات کے دن اور اس سے پہلے تشدد کی متعدد کاروائیاں انجام دی گئیں،لیکن عراقی عوام اور حکومت نے دہشت گردوں اور عراق مخالف قوتوں کے آگئے گھٹنے ٹیکنے سے انکار کر دیا اور بالآخر سات مارچ کو عراق کے تاریخی انتخابات منعقد ہوئے،جس میں الیکشن کمیشن کی رپورٹ کے متعلق باسٹھ فیصد عوام نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔سات مارچ کو منعقد ہونے والے عراق کے دوسرے پارلیمانی انتخابات میں تقریبا" بارہ مختلف سیاسی اتحادوں نے شرکت کی اور یوں پارلیمنٹ کی 325 نشستوں کے لئے تقریبا" ایک سو اسی سیاسی گروہوں اور جماعتوں نے اپنے امیدوار میدان میں اتارے۔
انتخابات کی پانچ لاکھ کے قریب ملکی،بین الاقوامی اور تمام سیاسی گروہوں کے نمائندوں نے نظارت کی جبکہ دو ہزار کے نزدیک ملکی اور غیر ملکی اخباری نمائندوں نے اس الیکشن کو کوریج دی۔عراقی ذرائع کے مطابق بارہ سو عراقی صحافیوں اور آٹھ سو غیرملکی اخباری نمائندون نے عراقی انتخابات کی لمحہ بہ لمحہ رپورٹنگ کی۔دہشت گردی کے خطرے کے پیش نطر انتخابات سے ایک ہفتہ پہلے دو لاکھ سیکوریٹی اہلکاروں کو حفاظتی انتظامات پر مامور کیا گيا تھا سخت حفاظتی انتظامات کے باوجود الیکشن کے دن چند تشدد کے واقعات رونما ہوئے،جس کی وجہ سے چار انتخابی حلقوں میں الیکشن ملتوی کرنے پڑے عراق کے وزير اعظم نے عوام کی بھرپور شرکت کو قومی معرکہ قرار دیا اور کہا ہے کہ عراقی عوام نے بھرپور شرکت سے دہشت گردی کو شکست دے دی ہے اور ان قوتوں کو مایوس کر دیا ہے،جو عراق میں جمہوریت پر ناراض ہیں۔عراق کے صدر نے بھی الیکشن کو کسی جماعت یا پارٹی کی بجائے عراقی عوام کی کامیابی قرار دیا ہے۔
عراق کے دوسرے پارلیمانی انتخابات میں چار بڑے گروپ ایک دوسرے کے مقابل رہے ابھی تک کی اطلاعات کے مطابق ان چار سیاسی اتحادوں میں نوری المالکی کے اتحاد"حکومت قانون"،عمار حکیم اور مقتدی صدر کے الائنس "عراقی قومی اتحاد"، ایاد علاوی کے اتحاد"العراقی"اور کردوں کے اتحاد "کرد اتحاد" کو عوام نے بالترتیب سب سے زیادہ ووٹ دیئے ہیں۔
عراق کے انتخابات کے مکمل نتائج ابھی تک سامنے نہیں آۓ ہیں لیکن ووٹوں کے رجحان سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ نوری مالکی کا اتحاد سرفہرست رہے گا البتہ کرکوک،صلاح الدین،دیالہ، الانبار اور نینوا صوبوں میں ایاد علاوی کے اتحاد کو کامیابی ملے گی جبکہ نجف اشرف،کربلا،بابل،بصرہ، واسطہ،المثنی اور بغداد صوبے میں نوری مالکی واضح اکثریت کے ساتھ جیت رہے ہیں۔
انتخابات کے نتائج سے بخوبی اندازہ ہو رہا ہے کہ کامیابی نوری مالکی کے اتحاد کو ہو گی لیکن یہ بات بھی طے شدہ ہے کہ نوری مالکی اکیلے حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں ہونگے انہیں دوسرے اتحادیوں کو اپنے ساتھ ملانا ہوگا۔نوری مالکی انتخابات سے پہلے اور بعد کے بیانات میں اس بات کا عندیہ دے چکے ہیں کہ وہ سب گروپوں کو ساتھ لیکر چلنا چاہتے ہیں،عراق کے موجودہ وزير اعظم کے اس واضح اعلان کے باوجود طارق ہاشمی اور ایاد علاوی خفیہ سرگرمیوں میں معروف ہیں وہ نوری مالکی کی بجائے سیکولر اتحادوں کو ملا کر ایسی حکومت بنانے کے خواہاں ہیں جس میں نوری مالکی کو وزارت عظمی نہ مل سکے۔طارق ہاشمی اس وقت نائب صدر ہیں انہوں نے انتخابات سے پہلے بھی انتخابات کے عمل کو تاخیر میں ڈالنے بلکہ سپوتاژ کرنے کے لئے پارلیمنٹ کے تیار کردہ نئے انتخابی قوانین کو چند بار مسترد کر کے اپنے خباثت باطنی کا اظہار کیا تھا۔لیکن پارلیمنٹ کی اکثریت،عراق کے صدر اور دوسرے نئے صدر کے اصرار پر بالآخر چند ترامیم کے بعد طارق ہاشمی پارلیمنٹ کے فیصلے کو ماننے پر تیار ہو گئے تھے۔طارق ہاشمی جسے امریکہ اور سعودی عرب کی کھلی حمایت حاصل ہے،نوری مالکی بلکہ اکثریتی شیعہ پارٹی کو حکومت میں آنے سے روکنے کے لئے ہر طرح کے حربے استعمال کر رہا ہے،انتخابات کے بعد ایاد علاوی کے اتحاد کی سنی صوبوں میں کامیابی نے طارق الہاشمی کی امیدوں کو ایک بار پھر زندہ کر دیا ہے وہ اس وقت ایاد علاوی کے ساتھ ملکر سیاسی جوڑ توڑ میں مصروف ہے اس نے کردوں کو ساتھ ملانے کی بھی بات کی اور باقی گروہوں کو بھی لالچ اور دھمکیاں دیکر اپنا ہم نوا بنانے میں مشغول ہے۔
نوری مالکی نے امریکی اصرار کے باوجود بعثیوں کو اقتدار میں شامل کرنے سے انکار کیا تھا۔نوری مالکی سے انتقام لینے اور عراق میں ایک کمزور حکومت کے قیام کے لئے امریکہ نوری مالکی کے مخالفین کو مضبوط کرنے میں مصروف ہے۔دوسری طرف سعودی عرب بھی عراق میں پنپنے والی جمہوریت سے خوش نہیں ہے،سعودی عرب کے حکام کو نوری مالکی سے اسقدر دشمنی ہے کہ اس نے ابھی تک ریاض میں نہ صرف عراقی سفارتخانہ کھولنے کی اجازت نہیں دی ہے بلکہ عراقی وزیر اعظم کی خواہش کے باوجود انہیں سعودی عرب کا دورہ کرنے کی دعوت نہیں دی ہے۔
سعودی عرب کو عراق کے انتخابات سے سب سے بڑا خوف یہ ہے کہ ایران کے بعد علاقے میں ایک عرب ملک میں جمہوریت کو جسطرح پذیرائی مل رہی ہے اسکے اثرات سعودی عرب سمیت دیگر عرب ممالک پر بھی پڑیں گے اور سعودی عرب اور دیگر عرب شیوخ کو ابھی سے اپنی بادشاہتیں خطرے میں نظر آرہی ہیں۔
عراق میں جمہوریت کا تجربہ جسقدر کامیاب ہو گا ان ملکوں میں آمریت کے خلاف اور جمہوریت کے حق میں اتنی فضا ہموار ہوگی۔عرب ریاستوں کی نئی نسل عراق اور ایران سے متاثر ہو کر ایک جمہوری نظام کا مطالبہ کر سکتی ہے جبکہ سعودی عرب سمیت ان ملکوں میں نہ جمہوری روایات ہیں نہ جمہوری سسٹم،عوام کو بھیڑ بکریوں کی طرح سمجھا جاتا ہے اور ان ریاستوں پر قابض عرب حکمران اور انکے شہزادے عوام اور ریاست کی دولت کو دونوں ہاتھ سے لوٹ رہے ہیں اور انکو کوئی پوچھنے والا نہیں۔
سعودی عرب کو عراق میں جہاں اکثریتی پارٹی کے شیعہ ہونے پر اعتراض ہے وہاں عراق میں جمہوریت بھی سعودی عرب کے لئے قابل قبول نہیں،یہی وجہ ہے کہ اس نے انتخابات سے پہلے تشدد کی مختلف کاروائیوں اور انتخابات کے بعد سیاسی جوڑ توڑ سے عراق کے جمہوری نظام کو تباہ کرنے کا بیڑا اٹھا لیا ہے،لیکن جسطرح عراقی عوام نے انتخابات میں بھرپور شرکت کر کے انتخابات کو ناکام بنانے کی سعودی کوششوں کو ناکام بنایا،عراق کے سیاستدان بھی عراق کے بہتر مستقبل کے لئے ایک ایسی حکومت کے قیام اور ایک ایسے اتحاد کو بر سر اقتدار لائیں گے جو عراقی عوام کی خواہشوں اور امنگوں کی ترجمان ہو۔
خبر کا کوڈ : 22133
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش