0
Sunday 30 Dec 2012 21:55

پشاور سے کوئٹہ تک، پاکستان تشدد اور مفاد پرستی کے گرداب میں

پشاور سے کوئٹہ تک، پاکستان تشدد اور مفاد پرستی کے گرداب میں
تحریر: سردار تنویر حیدر بلوچ 
 
پاکستان میں زندگی تیزی سے مہنگی ہوتی جا رہی ہے جبکہ موت سستی۔ بم دھماکوں، ڈرون حملوں اور ٹارگٹ کلنگ میں مرنے والوں کی خبریں تو ایک معمول بن گیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اس حکومت اور ریاست کے مختلف عہدوں پر فائز افراد گدھ بن چکے ہیں جو مردوں کا گوشت نوچتے ہیں۔ ایسے وقت کہ جب پی پی حکومت کے وزیر داخلہ رحمان ملک کا یہ کہنا ہے کہ حکیم اللہ محسود کی جانب سے جو بیان سامنے آیا ہے اگر وہ تشدد کا راستہ چھوڑ کر ڈائیلاگ کا راستہ اختیار کریں تو خوش آمدید کہا جائے گا۔ بلوچستان کے علاقے مستونگ میں شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والے زائرین کی بسوں کو نشانہ بنایا گیا ہے، جس کے نتیجے میں پینتیس افراد شہید اور پچیس زخمی ہوئے ہیں، اور پشاور کے قریب نیم قبائلی علاقے حسن خیل میں اکیس مغوی لیویز اہلکاروں کی لاشیں ملی ہیں، جنہیں فائرنگ کرکے قتل کر دیا گیا ہے۔

زائرین کی تین بسیں کوئٹہ سے ایران جا رہی تھیں جب ان کو نشانہ بنایا گیا۔ زخمی ہونے والوں میں چار خواتین بھی شامل ہیں۔ دھماکے کے بعد بس کو آگ لگ گئی اور مکمل طور پر جل گئی۔ لاشیں جل چکی ہیں، جس کے باعث شناخت میں مشکل ہو رہی ہے۔ کوئٹہ میں زائرین کی بسوں کو کئی بار نشانہ بنایا جا چکا ہے اور یہ حملے زیادہ تر مستونگ ہی کے علاقے میں کیے جاتے ہیں۔ دوسری جانب پشاور سے کوئی چالیس کلومیٹر دور جنوب کی جانب نیم قبائلی علاقے حسن خیل میں اکیس مغوی لیویز اہلکاروں کی لاشیں ملی ہیں، جنہیں فائرنگ کرکے قتل کر دیا گیا ہے۔ مقامی قبائل کے ذریعے تمام لاشیں پولیٹکل انتظامیہ کے دفتر تک پہنچائی گئی ہیں اور انتظامیہ نے لاشیں ان کے گھروں تک پہنچا دی ہیں۔ قتل ہونے والے تمام اہلکار مقامی تھے، جن کو دو دن پہلے ماشو خیل میں واقع ایک کمپاؤنڈ سے نامعلوم شدت پسندوں نے ایک حملے کے بعد اغواء کرلیا تھا۔ رواں مہینے میں پشاور اور اس کے گرد و نواح میں ہونے والا تیسرا بڑا حملہ تھا۔ دو ہفتے قبل پشاور کے ہوائی اڈے پر ایک خودکش حملے میں چار افراد جان بحق ہوگئے تھے جبکہ گزشتہ ہفتے خیبر پختونخوا کی حکمراں جماعت عوامی نیشنل پارٹی کے سینیئر رہنما بشیر بلور کو ایک خودکش حملے میں قتل کر دیا گیا تھا۔ اس حملے میں سات دیگر افراد بھی مارے گئے تھے۔

پاکستان میں شیعہ نسل کشی اور فرقہ وارانہ تشدد کی بات ہوگی تو جنرل ضیاءالحق کا ذکر ضرور آئے گا، کیونکہ یہ ضیاءالحق تھے جنہوں نے دو قومی نظریے کو عملی جامہ پہنانے کے نام پر شریعت کا نفاذ کرنے کا دعویٰ کیا اور ریاستی قوانین کو حنفی فقہ کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کی۔ ضیاءالحق نے جماعت اسلامی کی مدد سے پاکستان کا اسلامی تشخص بنانے کے لیے اقدامات کئے، تاکہ پاکستان کی آزادی کی خاطر لاکھوں جانیں قربان کرنے والے مسلمانوں کے خون کا حق ادا کیا جا سکے اور برصغیر کے مسلمانوں نے اسلام کی خاطر جو مصائب برداشت کیے ان کا مداوا ہو جائے، لیکن مارشل لاء کے ذریعے زکواۃ کمیٹیوں، ناظمیں صلاۃ اور دیگر نمائشی اقدامات سے انہیں گیارہ سال تک حکومت کرنے کا موقع تو مل گیا لیکن اسلام لانے کا یہ نعرہ پاکستانی معاشرے کے زخموں کو مندمل کرنے کی بجائے زبان، نسل اور مذہب کی بنیاد پر تقسیم در تقسیم کے عذاب میں مبتلا کر گیا۔

دوسرا کام اسلام کے نام پر افغان جنگ میں ڈالروں کے عوض امریکہ کا اتحادی بننا تھا۔ القاعدہ، طالبان اور دفاع پاکستان کونسل کی جماعتیں آج بھی اسلام کے نام پر جھوٹی نعرہ بازی کے شور میں اپنے انتہا پسندانہ ایجنڈے کو آگے بڑھا ر ہی ہیں، حالانکہ اپنے مفادات کے لیے امریکی سامراج نے کئی مرتبہ اسلامی بنیاد پرستی کی پشت پناہی کرتے ہوئے اسکی مالی امداد کی ہے اور اپنے سامراجی مقاصد کے لئے اسے استعمال کیا ہے۔ اسی طرح بدقسمتی کے ساتھ مذہبی جماعتیں بھی پاکستانی عوام کے حقیقی سامراج مخالف جذبات کو استعمال کر رہی ہیں، لیکن ان کا مقصد اس جذبے کو مکمل طور پر اپنے مفادات کے لیے استعمال کرنا ہے۔ اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے سابق جرنیل اور دیوبندی اور سلفی عسکریت پسند جماعتوں کے راہنما حقیقت میں سامراج مخالف نہیں، لیکن عوام کے غصے اور نفرت کو اپنے مقصد کے حصول کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

سمجھنے اور سمجھانے کی بات یہ ہے کہ امریکہ میں ٹیری جونز جیسے جنونی عیسائی اور مسلمان ممالک میں القاعدہ، طالبان اور سپاہ صحابہ جیسے دہشت گرد گروہ درحقیقت ایک دوسرے پر انحصار کرتے ہیں۔ امریکہ میں موجود سازشی عناصر کی جانب سے حالیہ اشتعال انگیز کارروائیاں مسلمان ممالک میں موجود بنیاد پرستوں کو وہ آتش گیر مواد فراہم کرتی ہیں، جس سے امریکہ مخالف جذبات کو ابھارا جا سکے۔ اس کے جواب میں آنے والے ردعمل کو امریکہ کے عیسائی بنیاد پرست امریکہ سے نفرت کرنے والی ’’اسلامی دنیا‘‘ کی تصویر کشی کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ دونوں کا مقصد مسلمانوں اور غیر مسلم دنیا کو دو متحارب گروہوں میں تقسیم رکھنا ہے، دونوں عالم اسلام کے خلاف کام رہے ہیں اور یہ دونوں انسانیت کے دشمن ہیں۔

اب تو نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ طالبان کے سرغنہ حکیم اللہ محسود کا دعویٰ ہے کہ وہ پاکستان میں خالص اسلامی حکومت کے قیام کے لیے ہونے والی جدوجہد کے حامی اور پشت پناہ ہیں۔ خدا جانے وہ کس اسلام کی بات کرتے ہیں جب کہ ان کی معیشت کا انحصار اغواء برائے تاوان، ڈاکہ زنی، سمگلنگ اور منشیات کے کاروبار پر ہے۔ رپورٹس بتاتی ہیں کہ دنیا میں سالانہ 68 ارب ڈالر کی منشیات کا کاروبار ہوتا ہے۔ افغانستان سے ہر سال 30 ارب ڈالر سے زائد رقم کی منشیات پاکستان کے ذریعے بیرونی ممالک میں بھیجی جاتی ہے، جس میں سے ڈیڑھ ارب ڈالر کی منشیات ملک میں ہی استعمال ہوتی ہیں۔ یہ رقم پھر دہشت گردی، اسلحہ کی خریداری اور دیگر عوام دشمن کارروائیوں میں استعمال کی جاتی ہے۔

رہی بات باقی سیاسی قوتوں کی تو پاکستان مسلم لیگ (ن) اپنے وژن کا اظہار کرچکی ہے کہ وہ تو طالبان ڈاکٹرائن کی حمایت کرتے ہیں، لیکن پی پی پی تو اپنی قیادت کی شہادت کا ذمہ دار ضیاءالحق کی پیداوار اسی سوچ کو گرداتنی ہے اور مغربی قوتوں کے سامنے اپنے آپ کو لبرل نظریات کا نمائندہ اور بنیاد پرستی کے خلاف جدوجہد کا علمبردار سمجھتی ہے، لیکن مفاہمت کی جس منافقانہ پالیسی کے تحت پیپلز پارٹی پانچ سال قبل اقتدار میں آئی تھی، وہ اس پیپلز پارٹی کی مکمل ضد تھی، جس کے لیے ذوالفقار علی بھٹو، بینظیر بھٹو شہید سمیت ہزاروں جیالوں نے جانوں کی قربانیاں دیں۔ ضیاءالحق کے دور میں ایک لاکھ بیالیس ہزار لوگوں نے قید وبند کی صعوبتیں برداشت کیں اور کوڑے کھائے۔ پی پی کے دور حکومت میں دہشت گردی کے خلاف اداروں کی کارکردگی کا جائزہ لیں تو صورتحال مایوس کن ہے۔

پاکستان کے چاروں صوبوں میں شدت پسندی اور بم دھماکوں سے متعلق گذشتہ تین برس میں درج کیے گئے ڈھائی سو سے زائد مقدمات میں سے صرف انتیس مقدمات کا فیصلہ سنایا جاسکا ہے جبکہ باقی ماندہ مقدمات انسداد دہشت گردی اور دیگر عدالتوں میں زیر سماعت ہیں، جبکہ گرفتار ہونے والے افراد کی بڑی تعداد کو عدم ثبوت کی بنا پر بری کر دیا گیا ہے۔ جی ایچ کیو، واہ آرڈیننس فیکٹری، پاکستانی فوج کے سرجن جنرل اور کامرہ میں فضائیہ کی بس پر ہونے والے خودکش حملوں کے مقدمات میں گرفتار ہونے والے متعدد افراد رہا ہو چکے ہیں۔ ایسے حالات میں کیا توقع رکھی جا سکتی ہے کہ دہشت گردوں سے مذاکرات یا ان کے خلاف موثر کارروائی کے ذریعے حکمران ملکی مسائل کا حل تلاش کرنے میں مخلص ہیں۔

جماعت اسلامی کے سابق امیر جناب قاضی حسین احمد کا یہ کہنا ہے کہ سیکولر ہندوستان تو موجود تھا اور موجود ہے۔ مسلمانوں کا الگ ملک بنانے کا مقصد تو سیکولر ملک بنانا نہیں تھا۔ وہ آج بھی اسلام کو ٹھیک طریقے سے سمجھنے کی اور اس کا فہم پیدا کرنے کی کوشش میں ہے۔ اسلام تو اعتدال پیدا کرنے والا مذہب ہے اور لوگوں کو قتل اور خونریزی پر آمادہ کرنے والا مذہب نہیں ہے۔ ادھر جماعت اسلامی نے اپنے منشور کا اعلان کرتے ہوئے جہاں ملک کو سیاسی اور معاشی بحرانوں سے نکالنے کے لیے اپنا ایجنڈا دیا ہے، وہیں اس میں اٹھارہ سے پینتس برس کے تمام شہریوں کے لیے عسکری تربیت لازمی قرار دینے کی تجویز بھی شامل ہے۔
 فرید پراچہ کے مطابق منشور مدینہ کی فلاحی ریاست اور خوشحال پاکستان کے تصور کو سامنے رکھ کر بنایا گیا ہے اور لازمی عسکری تجویز کا مقصد فوج پر انحصار کو کم کرنا ہے، تشدد معاشرے میں اسی لیے ہوتا ہے کہ ایک طرف مرنے والے ہوتے ہیں اور ایک طرف مارنے والے، اگر لوگوں کے پاس تربیت ہو تو وہ اپنا ذاتی دفاع بھی کرسکتے ہیں اور اگر قوم پر کوئی وقت آئے تو ملک کا دفاع بھی ہوسکے گا۔ ویسے بھی فوج پر بہت زیادہ اخراجات ہوتے ہیں اور فوجی بجٹ کا آڈٹ بھی نہیں ہوسکتا تو ہم چاہتے ہیں کہ اسے کم کرکے فلاحی کاموں پر صرف کیا جائے۔

اس کے پیچھے جماعت اسلامی کی کوئی بھی منطق ہو لیکن ظاہر یہی ہوتا ہے کہ مذہبی جماعتیں آج بھی ضیاءالحق کے دور سے ملٹری الائنس میں شامل ہو کر اپنی آرزووں کی تکمیل چاہتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ سوچ تشدد اور دہشت کے شکار پاکستانی معاشرے کو مزید تباہی کی طرف دھکیلے گی یا کس قسم کی تبدیلی لائیگی؟ اور اس وقت جبکہ یہاں عسکریت پسندی عروج پر ہے اور لسانیت اور فرقہ واریت سے تعلق رکھنے والی عسکریت پسند تنظیمیں پورے ملک میں متحرک ہیں، تو کیا جماعت کے لوگوں نے یہ سوچا ہے کہ ہم جنہیں عسکری تربیت دیں گے تو وہ لوگ ان نتظیموں میں شامل نہیں ہوں گے۔؟
خبر کا کوڈ : 226520
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش