0
Saturday 19 Jan 2013 12:35

کیا حکومت نے ڈاکٹر صاحب کو محفوظ راستہ دیا؟

کیا حکومت نے ڈاکٹر صاحب کو محفوظ راستہ دیا؟
تحریر: طاہر یاسین طاہر

ہمیں اس امر میں کلام نہیں کہ سیاست ایک آرٹ ہے اور صدر زرداری اس میں اپنی مہارت گاہے گاہے دکھاتے رہتے ہیں۔ اب یہ تسلیم کر لینے میں کیا حرج ہے کہ قادری صاحب کو حکومتی مطالبات تسلیم کرکے جانا پڑا۔ یہ بالکل سامنے کی بات ہے، ڈاکٹر صاحب 23 دسمبر سے 17 جنوری تک جو مطالبات کرتے رہے اور انہیں تسلیم کروانے کے لیے جو لہجہ اختیار کرتے رہے وہ اب تاریخ کا حصہ ہے۔ البتہ اس امر کی گنجائش موجود ہے کہ دیکھا جائے حکومت نے منظور کیا کیا؟ اور اس کے آئندہ کی سیاست پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ حکومت نے اسمبلیوں کی فوری تحلیل، عام انتخابات کا اعلان، الیکشن کمیشن آف پاکستان کی تشکیلِ نو اور نگران حکومت کے قیام کے لیے فوج اور عدلیہ سے مشاورت کے لیے تحریکِ منہاج القرآن کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری کے تمام مطالبات کو مسترد کرتے ہوئے ایک تین صفحاتی معاہدہ کیا۔

آپ کا پہلا مطالبہ یہ تھا کہ فوری طور پر قومی اور صوبائی اسمبلیاں تحلیل کرکے عام انتخابات کا اعلان کیا جائے۔ ڈاکٹر صاحب کا یہ ایک مسلسل مطالبہ تھا، جسے حکومت نے بالکل تسلیم نہیں کیا۔ البتہ اسلام آباد کے ’’کنٹینر معاہدے‘‘ میں یہ طے پایا کہ قومی اسمبلی اپنی مقررہ مدت یعنی 16 مارچ 2013ء سے پہلے تحلیل کر دی جائے گی اور عام انتخابات 90 دن کے اندر کرائے جائیں گے، مگر اس میں فوری تحلیل کا کہیں بھی ذکر نہیں، نہ اس میں ڈاکٹر صاحب کے مطالبے کی منظوری کی کہیں جھلک ہے۔ آئین کی دفعہ 224 کے تحت اگر اسمبلی اپنی مقررہ مدت پوری کرے گی تو انتخابات60 دن کے اندر کرائے جائیں گے اور اگر اسمبلی کو مقررہ مدت سے پہلے تحلیل کر دیا جائے تو انتخابات 90 دنوں کے اندر کرائے جائیں گے۔ 

میرا خیال ہے کہ پی پی پی بھی تو یہی چاہتی ہے کہ انتخابات 90 دنوں کے اندر کرائے جائیں۔ حکومت اور اس کے اتحادی عوامی رابطوں کے لیے 60 کے بجائے 90 دنوں کو ترجیح دے رہے ہیں اور پہلے سے ان کا ارادہ ہے کہ اسمبلی کو 16 مارچ سے ایک آدھ دن قبل تحلیل کر دیا جائے۔ اگر مان لیا جائے کہ اسمبلی 16 مارچ سے قبل کسی بھی وقت قادری صاحب کے مطالبے کے تحت تحلیل کی جائے گی تو یہ درست بات نہ ہوگی، کیونکہ ان کا مطالبہ بڑا واضح تھا کہ اسمبلیوں کی فوری تحلیل کی جائے، بلکہ ان کے مطالبے کے تحت تو اب تک اسمبلی تحلیل ہوچکی ہوتی، مگر ایسا نہیں ہوا، صدر نے 21 جنوری کو قومی اسمبلی کا اجلاس بلا لیا۔ 

ڈاکٹر صاحب کا دوسرا مطالبہ یہ تھا کہ دو جماعتوں کے مک مکا سے نہیں بلکہ فوج اور عدلیہ کی مشاورت سے نگران وزیرِ اعظم بنایا جائے۔ حکومت نے ان کا یہ مطالبہ بھی مسترد کر دیا اور انہیں سمجھایا کہ آئین میں اس کی گنجائش نہیں، البتہ انہیں یوں مطمئن کیا گیا کہ حکومتی اتحاد اور پاکستان عوامی تحریک (جس کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری ہیں) کی مشاورت سے پیش کیا جائے گا، جبکہ آئین میں یہ پہلے ہی طے ہے کہ نگران وزیرِاعظم کے لیے، قومی اسمبلی میں قائدِ ایوان یعنی وزیرِ اعظم اسمبلی کے اندر اور باہر اپنی اتحادی اور ہم خیال جماعتوں سے، جبکہ قومی میں قائد حزبِ اختلاف، اسمبلی کے اندر اور باہر اپنی اتحادی اور ہم خیال جماعتوں سے مشاورت کے بعد اپنے اپنے امیدواروں کے نام پیش کریں گے۔ اس میں بھی مجھے کہیں نظر نہیں آتا کہ قادری صاحب کے مطالبے کو اہمیت دی گئی ہو اور نگران سیٹ اپ کے لیے فوج اور عدلیہ کی مشاورت کو تسلیم کیا گیا ہو۔

آپ کا تیسرا مطالبہ یہ تھا کہ الیکشن کمیشن کو فوری تحلیل کرکے اس کی تشکیلِ نو کی جائے۔ حکومت نے ان کا یہ مطالبہ بھی مسترد کر دیا اور طے پایا کہ اس حوالے سے ان کے ساتھ مشاورت جاری رکھی جائے گی۔ آئینی ماہرین پر مشتمل ایک کمیٹی بھی تشکیل دے دی گئی۔ آپ یقین جانیے کہ موجودہ الیکشن کمیشن تحلیل نہیں ہوگا۔ آپ کا چوتھا مطالبہ یہ تھا کہ انتخابات کو صاف اور شفاف بنانے کے لیے انتخابی قوانین میں اصلاحات کی جائیں۔ حکومتی جواب یہ تھا کہ سپریم کورٹ کے 8 جون 2012ء کے فیصلے کے مطابق ان اصلاحات کے لیے پارلیمان کے دونوں ایوانوں کی تجاویز الیکشن کمیشن کے حوالے کی جاچکی ہیں۔ 

ڈاکٹر صاحب نے ’’کنٹینر معاہدے‘‘ کے بعد اپنے خطاب میں بھی اس بات کا اعتراف کیا کہ انتخابی قوانین میں اصلاحات کے لیے آٹھ ماہ پہلے سپریم کورٹ ایک تفصیلی فیصلہ دے چکی ہے، ہم چاہیں گے کہ فیصلے کے مطابق اس پر عمل ہو۔  آپ کا ایک مطالبہ یہ تھا کہ انتخابات میں حصہ لینے والے امیدواروں کے کاغذات کی جانچ پڑتال آئین کی دفعہ 62،63 کے تحت ہو، اور جو کوئی بھی ان دفعات میں بیان کی گئی اہلیت پر پورا نہیں اترے گا، وہ انتخابات میں حصہ لینے کے لیے اہل نہیں ہوگا۔ اہلیت کا یہ معیار تو پہلے ہی آئین میں درج ہے اور ماضی میں ان دفعات کے تحت وہ لوگ بھی نااہل ہوئے جو انتخابات جیت کر آئے تھے۔ حکومت نے ڈاکٹر صاحب کو یقین دہانی کرائی کہ آپ کا یہ مطالبہ بھی تسلیم ہے، مگر دلچسپ بات تو یہ ہے کہ مذکورہ دفعات کے تحت کارروائی کا اختیار الیکشن کمیشن اور عدلیہ کو ہے۔ یوں دیکھا جائے تو قادری صاحب ہی حکومتی مطالبات تسلیم کرتے نظر آتے ہیں۔ 

اس امر میں کلام نہیں کہ اس لانگ مارچ کا حیرت افروز پہلو شرکاء کی استقامت اور امن پسندی تھی، جس کا اعتراف مخدوم امین فہیم کو بھی کرنا پڑا۔ جس نظم و ضبط اور ثابت قدمی سے لوگوں نے چار دن گزارے وہ لائقِ توجہ ہے، لیکن ’’کنٹینر معاہدے‘‘ کا دوسرا مگر اصل پہلو شرکاء کی ثابت قدمی کے سامنے ڈھیر نہیں کیا جاسکتا۔ جس طرح ڈاکٹر صاحب کے ’’مطالبات‘‘ کو حکومت اور اس کے اتحادیوں نے’’تسلیم‘‘ کیا اور جس طرح بحفاظت انھیں حکومتِ پنجاب نے اسلام آباد روانہ کیا، یہ ہماری قومی سیاست کاری کا ایک تسلیم شدہ باب ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے اسلام آباد میں قدم رنجہ فرماتے ہی اعلان کیا کہ، صدر اور اسمبلیاں سب ’’سابق‘‘ ہوچکے مگر جس طرح انھوں نے ان ہی ’’سابقین‘‘ کے ساتھ معاہدہ کیا، یہ ان کی شعلہ بیانی کو قدغن لگا گیا۔ 

معاہدے کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ وہ ’’ضامن‘‘ کہیں نظر نہ آئے، جن کی ڈاکٹر صاحب توقع کئے بیٹھے تھے۔ کیا یہ تصور کر لیا جائے کہ ’’ضامنوں‘‘ کی عدم توجہی کے باعث ڈاکٹر صاحب نے جھنجھلا کر کہہ دیا کہ، ہے کوئی جو آج شام تک معاہدہ کرلے؟ حکومت ڈاکٹر صاحب سے کبھی بات نہ کرتی اگر شرکاء میں عورتیں اور بچے شامل نہ ہوتے۔ مگر جب بات کی تو یہ یقین کر لیا کہ منہاج القرآن کا ہیڈ کوارٹر مستقبل میں پی پی پی اور اس کے اتحادی دھڑے کی سیاسی سرگرمیوں کا ایسا مرکز رہے، جو پنجاب میں مخالفین پر برتری حاصل کرنے کے کام آسکے، کیا آپ دیکھ نہیں رہے کہ لانگ مارچ اور دھرنا تو منہاج القرآن کے پلیٹ فارم سے دیا گیا، مگر معاہدہ آخرِ کار ’’پاکستان عوامی تحریک‘‘ نے کیا۔ صدر زرداری کی سیاست کاری پہ ایک دنیا حیران ہے، مفاہمتی سیاست کا جو نمونہ ’’کنٹینر معاہدے‘‘ میں نظر آیا اس کی رو سے ڈاکٹر صاحب ن لیگ کے لیے پی پی پی کے نئے کوثر نیازی بھی ثابت ہوسکتے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 232563
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش