0
Tuesday 13 Apr 2010 12:20

ناقابل اعتماد اور غیر ذمہ دار کون؟

ناقابل اعتماد اور غیر ذمہ دار کون؟
 آر اے سید
تہذیبوں کے درمیان مکالمہ کے مقابلے میں تہذیبوں کے درمیان ٹکراؤ کے نظریے کو تیزی سے آگے بڑھانا شروع کر دیا گیا ہے۔باراک اوباما کے ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کے حوالے سے حالیہ بیانات اس نظریے پر عمل درآمد کرانے کا ایجنڈا محسوس ہو رہا ہے۔آج مغرب نے جو ثقافتی یلغار شروع کر رکھی ہے اس کا بنیادی ہدف امریکہ مخالف اقوام کی تہذیب و ثقافت اور انکی سامراج اور اغیار مخالف اقدار کو ختم کرنا ہے۔امریکہ اور اسکے حواری فوجی اقتصادی،سیاسی اور ثقافتی ہتھکنڈوں سے دوسرے ملکوں میں تبدیلیاں لاتے ہیں۔امریکہ اپنی تسلط پسندانہ خو کے تحت تمام دنیا کو اپنا زير نگر کرنا چاہتا ہے۔
جب تک دنیا پر دو قطبی نظام رائج رہا،امریکہ نے اسطرح کھل کر دنیا پر قبضے کے خواب کو عملی بنانے کی کوشش نہیں کی،لیکن گزشتہ ایک عشرے میں جب سے نیوکان بر سر اقتدار آئے،انہوں نے باضابطہ طور پر دنیا کو فتح کرنے کا پروگرام بنایا۔سابق امریکی صدر جارج ڈبلیو بش اور انکے جنگ پسند ٹولے رائس اور ڈگ چینی نے جس جنگي حکمت کو عملی طور پر لاگو کرنے کی کوشش کی تھی مزاحمتی قوتیں اور معروضی عالمی حالات ان کوششوں کے راستے میں رکاوٹ بن گے۔کچھ لوگ یہ توقع کر رہے تھے کہ بش کے جانے کے بعد تبدیلی کے نعرے کے نتیجے میں وائٹ ہاؤس میں پہنچنے والے سیاہ فام باراک اوباما سابقہ حکومت کی جنگ پسندانہ پالیسیوں کو تبدیل کریں گے،لیکن ڈھاک کے وہی پات کے مصداق امریکی پالیسیوں میں بال برابر تبدیلی نہیں بلکہ بعض حوالے سے باراک اوباما بش سے بھی دو ہاتھ آگے نکل گئے۔
دنیا کے بدلتے ہوئے حالات میں اگر یہ کہا جائے کہ لوگ سیاسی،سماجی،ثقافتی لحاظ سے دگرگونی کی طرف جا رہے ہیں تو بے جا نہ ہو گا اور اسی چیز کے پیش نظر ایرانی صدر ڈاکٹر احمدی نژاد دنیا پر مسلط سامراجی نظام کے خاتمے کی نوید دیتے رہتے ہیں۔اپنے ایک بیان میں انہوں نے تاکید کے ساتھ کہا ہے کہ دنیا کو ایک نئے سماجی نظام کی ضرورت ہے۔احمدی نژاد نے تہران میں شعبہ سیاحت سے تعلقات رکھنے والے اہلکاروں کی خدمات کو سراہتے ہوئے اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہ نوروز کےسلسلے میں کانفرنسیں ہونی چاہئے اور شعراء و ادیبوں کو اس سلسلے ميں اظہار خیال کرنا چاہئے اور دنیا کو اسی قسم کے ماحول کی ضرورت ہے۔ڈاکٹر احمدی نژاد نے مغرب کی ثقافتی تسلط کے ہوتے ہوئے دنیا کے مستقبل کے بارے میں خبردار کیا اور مغربی ممالک کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ تم دنیا کو ایٹم بم کا تحفہ دے رہے ہو۔
اس سے قبل رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای بھی اپنے ایک خطاب میں ایٹمی ہتھیاروں کے حوالے سے امریکیوں کے عزائم کا پردہ چاک کر چکے ہیں۔رہبر انقلاب اسلامی نے امریکہ کی نئی ایٹمی پالیسی کو شر پسندی سے تعبیر کرتے ہوئے فرمایا کہ آج کی دنیا میں جنگ پسند لوگ امن و صلح کا ڈھونگ رچا رہے ہیں اور یہی لوگ،جو انسانوں کے لئے کسی حق اور اعتبار کے قائل نہیں ہیں،انسانی حقوق کے بھی نعرے لگا رہے ہیں۔آپ نے فرمایا کہ اس کی مثال امریکی صدر کا حالیہ اظہار خیال ہے،جس میں انہوں نے ملت ایران کو اشارے و کنائے میں ایٹمی حملے کی دھمکی دی ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ یہ بیان بڑا حیرتناک ہے اور دنیا کو چاہئے کہ اسے نظر انداز نہ کرے کیونکہ اکیسویں صدی میں،جو انسانی حقوق کی حمایت اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دعوؤں کی صدی ہے،ایک ملک کا سربراہ ایٹمی حملے کی دھمکی دیتا ہے۔رہبرانقلاب اسلامی کے بقول اس طرح کے بیان امریکا کے نقصان میں ہیں،آپ نے فرمایا کہ اس طرح کے بیانوں کا مطلب یہ ہے کہ امریکی حکومت ایک شر پسند اور نا قابل اعتماد حکومت ہے۔رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ امریکیوں نے گزشتہ برسوں میں یہ پرچار کرنے کے لئے کہ اسلامی جمہوریہ ایران ایٹمی مسئلے میں قابل اعتماد نہیں ہے،ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا جبکہ آج واضح ہو گيا کہ ناقابل اعتماد وہ حکومتیں ہیں کہ جن کے پاس ایٹم بم موجود ہیں اور جو بڑی بے حیائی سے دوسروں کو ایٹمی حملے کی دھمکی دیتی ہیں۔
بنابریں امریکی صدر کا یہ بیان شرمناک ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ لوگ جو ایٹمی ہتھیاروں کے ناقابل اعتماد اور غیر ذمہ دار ہاتھوں میں جانے کے مخالف ہیں وہ امریکہ کے بارے میں کیا فیصلہ کرتے ہیں کیونکہ امریکی صدر نے اپنے حالیہ بیان سے ابنے آپ کو ناقابل اعتماد اور غیر ذمہ دار ثابت کر دیا ہے۔
خبر کا کوڈ : 23566
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش