0
Wednesday 6 Mar 2013 00:22

پاکستان کا اللہ حافظ؟؟

پاکستان کا اللہ حافظ؟؟
تحریر: تصور حسین شہزاد

مولانا فضل الرحمن کی اے پی سی کے اعلامیے کے فوراً بعد طالبان کا ردعمل آیا کہ پاکستانی فوج اس ملک کی اصل اسٹیک ہولڈر ہے اس لئے اے پی سی کے اعلامیہ کی توثیق کرے تو امن کا ماحول بنایا جا سکتا ہے مگر گذشتہ روز کراچی میں خونیں وارداتوں میں انسانی ہلاکتوں کا جو بےرحم کھیل کھیلا گیا وہ ایک طرح سے مقتدرہ قوتوں کو پیغام تھا کہ ہمارے ساتھ بیٹھو وگرنہ دیکھو ہم کیا کرتے ہیں اور دھمکی کو عملی طور پر پیش کرنے کیلئے گھروں میں بیٹھے بےگناہ انسانوں کو جن میں عورتیں، بچے اور بوڑھے بھی شامل تھے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ 150 کلو وزنی کیمیکل دھماکہ خیز مواد سے عباس ٹاؤن میں قیامت برپا کر دی گئی ہر طرف عمارتوں کا ملبہ اور بکھرے انسانی اعضاء انسانیت کے خلاف اس گھناؤنے جرم کے ثبوت بنے، جو قیامت ڈھانے والوں کے خلاف عالمی ضمیر کو جھنجھوڑ رہے ہیں۔

خوفناک دھماکے سے شہر لرز اٹھا، عمارتیں زمین بوس ہو گئیں، زندگیوں کے چراغ بجھ گئے اور انسانیت دم توڑ گئی۔ مردہ ضمیر لوگ اس عالم وحشت میں بھی بربریت کے اس دہشت ناک مظاہرے سے بےخبر کلفٹن کے پوش علاقے میں ایک تقریب مسرت میں خوشیوں کا جام لنڈھاتے رہے۔ شہر کی تمام ’’معزز ترین‘‘ ہستیاں اور اشرافیہ ایک منگنی کی تقریب میں خوش گپیوں میں اپنے موبائلز پر ملنے والی اس اندوہناک خبر کو بھی نہ پڑھ سکے جس نے پوری دنیا کے ٹیلی ویژن چینلز پر بریکنگ نیوز کے طور پر تہلکہ مچا دیا تھا۔ عباس ٹاؤن میں ہونے والے دھماکے نے بلند و بالا عمارتوں کو پل بھر میں کھنڈر میں تبدیل کر کے ہنستے بستے گھرانوں کے لئے قبرستان بنا دیا۔ شرمناک بات یہ ہے کہ پولیس اور رینجرز اس سانحے کے مقام پر کئی گھنٹے بعد پہنچی۔ زخمیوں کو طبی امداد کے لئے ایمبولینسیں تک دستیاب نہ ہو سکیں اسی لئے انہیں بروقت طبی امداد کے لئے مقامی ہسپتالوں تک نہ لے جایا جا سکا اور بہت سے زخمی راستوں میں ہی اللہ کو پیارے ہو گئے۔

اب تک کی اطلاعات کے مطابق 51 لوگ جاں بحق اور 150 سے زیادہ شدید زخمی ہیں مگر عمارتوں کے ملبے تلے دبے لوگوں میں سے کتنے زندہ اور کتنے جاں بحق ہو چکے اس کے بارے میں امدادی کارروائیاں مکمل ہونے کے بعد ہی پتہ چلے گا۔ فی الحال تو اس افسوسناک حادثے پر قوم دل گرفتہ ہے۔ شہداء کے ورثاء سکتے میں ہیں، لوگ غمزدہ ہیں، اہل نظر رنجیدہ ہیں، سوگ کا عالم ہے، مارکیٹیں، ٹرانسپورٹ، پٹرول پمپس اور تمام تعلیمی ادارے بند ہیں۔ حکومت نے اشک شوئی کیلئے شہداء کے گھرانوں کو پندرہ لاکھ اور زخمیوں کو فی کس دس، دس لاکھ دینے کا اعلان کیا ہے مگر کیا اس بےوقت راگنی سے ملول چہروں پہ خوشی کی لہر کا سامان ہو سکے گا؟ کتنے دکھ کی بات ہے کہ شہر کی پولیس کا چیف اپنی نااہلی اور نالائقی پر شرمندہ ہونے کی بجائے میڈیا کے سامنے کہہ رہا ہے کہ اس قسم کے واقعات کراچی میں پہلے بھی ہو چکے ہیں۔ رینجرز پر حملے میں بھی اسی قسم کا کیمیکل استعمال ہوا تھا جو عباس ٹاؤن میں استعمال کیا گیا۔ عباس ٹاؤن والے اس قیامت خیز حادثے میں سندھ اسمبلی کی ڈپٹی اسپیکر بھی ذاتی طور پر سخت صدمے سے دوچار ہوئی ہیں ان کی بھاوج، بہنوئی اور بھانجا بھی جاں بحق ہو گئے ہیں۔ ظالموں نے صرف دھماکوں پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ مبینہ طور پر بعدازاں فائرنگ بھی کی جس میں دس سے زیادہ لوگ جان سے چلے گئے۔ ایک مرتبہ پھر لشکر جھنگوی پر الزام ہے کہ اس نے یہ سب کیا ہے۔

ایک طرف یہ سب ہو رہا ہے دوسری طرف میدان سیاست سے وابستہ افراد ان انسانیت سوز مظالم کی زبانی مذمت کرنے کے ساتھ ساتھ سیاسی مخالفین کو ہدف ملامت بنانے میں بھی جتے ہیں۔ خاص طور پر وفاقی وزیر داخلہ رحمن ملک پنجاب حکومت پر مسلسل تابڑ توڑ حملے کر رہے ہیں کہ وہ لشکر جھنگوی کے خلاف کارروائی کرے، جواباً رانا ثناءاللہ اور پرویز رشید ان پر برس رہے ہیں۔ پرویز رشید نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ ملک اسحاق پنجاب پولیس کے زیرحراست ہے، رحمن ملک اپنی تحویل میں لے کر کارروائی کریں۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ دہشت گرد کتنے خطرناک اور طاقت ور ہیں کہ حکومت میں شامل افراد بھی ان سے خوفزدہ ہیں۔ سکیورٹی ایجنسیوں کے لوگ مجرموں کو پکڑ کر بھی ان سے لرزہ براندام ہیں کہ کہیں ان شدت پسندوں کے انتقام کا نشانہ نہ بنا لئے جائیں۔ یوں دیکھا جائے تو پاکستان اس وقت ایک ایسی ریاست کا روپ دھار چکا ہے جہاں حکومتی رٹ نام کی کوئی چیز نہیں، قانون بےبس اور حکمران لاچار ہیں۔ عوام کا کوئی پرسان حال نہیں، ملک کا کوئی والی وارث نہیں، ثروت مند لوگ یہاں سے جا چکے ہیں، باقی جو ہیں تیار بیٹھے ہیں۔

حکمرانوں نے قومی خزانہ لوٹ کر بیرون ملک بینک اکاؤنٹس میں جمع کر رکھا ہے، غیرمنقولہ جائیدادوں پر بڑے بینکوں سے بھاری رقوم قرض لے کر ایک طرح سے ان کی قیمت پیشگی جیبوں میں ڈال لی ہے دریں حالات کون ذی شعور شخص ہو گا جو اس خوفناک صورت حال پر سنجیدگی سے سوچتے ہوئے افسردگی سے دوچار نہ ہو۔ عالم سوگواری میں غموں کی ردا اوڑھے لوگ ماتم یک شہر آرزو میں نوحہ کناں ہیں مگر ان کی چیخیں، آہ و بکا ہوا کے دوش پر سفر کر کے ان سماعتوں تک نہیں پہنچ پاتیں جو اس ساری خطرناک صورتحال پر گرفت کرنے پر قادر ہیں مگر بوجوہ اسے نظرانداز کئے ہوئے ہیں۔ وہ چاہیں تو کراچی کو بیروت بننے سے روک سکتے ہیں، اگر یہ ہاتھ بالائی اورکزئی میں شدت پسندوں کے ٹھکانوں پر بمباری کر سکتے ہیں، شمالی وزیرستان میں کرفیو لگا سکتے ہیں، ایک ہفتے میں شدت پسندوں کیخلاف سخت ترین کارروائی کر کے چالیس کا قلع قمع کر سکتے ہیں، علاقے کو ان دہشت گردوں سے پاک کرنے کیلئے گھر گھر تلاشی لے سکتے ہیں، مشتبہ افراد کو پکڑ سکتے ہیں، اسلحہ، گولہ بارود قبضے میں لے سکتے ہیں تو یہ آہنی ہاتھ کراچی میں ابھی تک دستانے چڑھائے کس انتظار میں ہیں؟

وفاقی وزیر داخلہ رحمن ملک کو کراچی میں خطرناک کھیل تو نظر آتا ہے مگر اس کے سدباب کیلئے وہ کچھ کرنا ہی نہیں چاہتے۔ ان کی باتوں سے پتا چلتا ہے کہ وہ اس خطرناک کھیل کے پورے اسکرپٹ، کرداروں اور موجودہ صورت احوال کی ساری جزئیات سے پوری طرح آگاہ ہیں اور جانتے ہیں کہ یہ سکرپٹ کس نے، کہاں بیٹھ کر اور کس کے کہنے پر لکھا اس کی ریہرسلز، ریکارڈنگ اور منظر کشی میں رنگ بھرنے کی ہدایات کون دے رہا ہے۔ رحمان ملک نے اس کے باوجود ملک کی معاشی شہ رگ کو بچانے کیلئے کوئی پیش بندی کر کے دہشت گردی کے منصوبوں کو ناکام بنانے کیلئے کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا، سکیورٹی فورسز کو باقاعدہ جوابی کارروائی کی منصوبہ سازی کیلئے رہنمائی نہیں دی ،اس سے یہ صاف ظاہر ہے کہ کراچی کو بچانے کیلئے حکومت خود ہی سنجیدہ نہیں۔ مقتدر لوگ کسی کے خاص ایجنڈے پر اقتدار میں بیٹھے ہیں اور یہ بعید نہیں کہ وہ کسی سنسنی خیز خبر کے انتظار میں ہی ہوں کہ جونہی یہ خبر ان کے موبائلز پر نیوز الرٹ کے طور پر نمودار ہو اور ان کی گاڑیاں فراٹے بھرتی ہوائی اڈوں پر کھڑے جہازوں کی سیڑھیوں تک پہنچا دیں۔ دھماکوں سے لرزیدہ ستم رسیدہ لوگوں کے کانوں میں قوم کو دہشت گردی کی جنگ میں دھکیلنے والے آمر کا آخری جملہ ابھی تک پگھلے ہوئے سیسے کی طرح سماعتوں میں آگ لگائے ہوئے ہے کہ ’’پاکستان کا اللہ ہی حافظ ہے‘‘۔
خبر کا کوڈ : 244363
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش