0
Sunday 2 May 2010 10:25

حزب اللہ کو اسلحہ کیوں نہیں دیا جا سکتا؟

حزب اللہ کو اسلحہ کیوں نہیں دیا جا سکتا؟
مظفر اعجاز
امریکا اور اسرائیل نے الزام لگایا ہے کہ ایران اور شام حزب اللہ کو میزائل فراہم کر رہے ہیں۔یہ تباہ کن میزائل ہیں اور ایرانی اور شامی میزائلوں کے حصول کے بعد حزب اللہ اب دنیا کی کئی حکومتوں سے زیادہ راکٹوں اور میزائلوں سے لیس ہو گئی ہے۔اس سے قبل اسرائیل شام پر حزب اللہ کو اسکڈ میزائل فراہم کرنے کا الزام لگا چکا ہے۔ابھی ایران کا ردعمل تو نہیں آیا،لیکن شامی وزیر خارجہ ولید معصم نے کہا ہے کہ اگر دنیا نے اسرائیلی اور امریکی الزامات تسلیم کر لیے تو یہ افسوس ناک بات ہو گی،دنیا کے امن کو تہہ و بالا کرنے والے امریکا و اسرائیل کی جانب سے حزب اللہ کو الزام دینا اور اس کو اسلحہ کی فراہمی کے نتیجے میں اس کی قوت کئی حکومتوں سے زیادہ ہونے کی دعویٰ کرنا،دراصل آئندہ کے کسی منصوبے کی تیاری ہے۔اس قسم کے الزامات وہ دونوں ممالک لگا رہے ہیں جن کی وجہ سے آدھی دنیا کا امن تباہ ہے۔ 
دنیا بھر میں امریکی اسلحہ کے بڑے خریداروں اور بلاقیمت اسلحہ بھاری مقدار حاصل کرنے والے ممالک میں اسرائیل سرفہرست ہے اور اسرائیل کی وجہ سے مشرق وسطیٰ کا امن تباہ ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم نے امریکا کی جانب سے گزشتہ دنوں فلسطین میں تعمیرات بند کرنے کے رسمی مطالبہ کو بھی مسترد کر دیا ہے۔اس کا واضح مطلب ہے کہ اسرائیل خطے کے امن کو مزید خطرے میں ڈال رہا ہے اور اس ضد کے نتیجے میں جب حزب اللہ کوئی ردعمل ظاہر کرے گی تو اس کے خلاف کوئی بڑی کارروائی کرنے کے لیے پہلے فضا بنانا ضروری تھا چنانچہ امریکا و اسرائیل نے ایران اور شام پر الزام لگا دیا۔اب کوئی ان ممالک سے پوچھے کہ امریکا کے بارے میں دنیا کیوں نہیں کہتی کہ وہ اسرائیل کو اسلحہ فراہم کر رہا ہے اور اسرائیل اتنا چھوٹا ملک ہونے کے باوجود کئی بڑے ممالک سے زیادہ اسلحہ رکھتا ہے۔کوئی یہ کیوں نہیں کہتا کہ امریکا اسرائیل کو تباہ کن اسلحہ فراہم کر رہا ہے۔ کوئی یہ بھی نہیں کہتا کہ بھارت کو کیوں اسلحہ دیا جا رہا ہے جو کشمیر میں نہتے افراد پر بمباری کرتا ہے۔امریکا سے یہ سوال کیوں نہیں کیا جاتا کہ دنیا بھر میں اپنے ہی ملکوں میں اپنے ہی لوگوں پر بمباری کروانے کے لیے وہ اربوں ڈالر کیوں دے رہا ہے۔پاکستان میں جنرل پرویز مشرف کی حکومت کو دس ارب ڈالر کس خوشی میں دیے تھے،اپنی ہی بیٹی ڈاکٹر عافیہ کو چند ڈالروں کے عوض امریکیوں کے حوالے کر گئے۔آج روزانہ ڈرون حملے معصوم شہریوں کو ہلاک کر رہے ہیں ان حملوں کی ذمہ داری کن پر ہے۔اتنے لوگ تو دنیا میں کہیں بھوک اور بیماری سے نہیں مر رہے۔امریکی ڈرون حملوں سے معصوم شہری ہی مارے جا رہے ہیں۔
ہمیں حیرت ہے کہ اسرائیل اور امریکا حزب اللہ کو اسلحہ فراہم کرنے کا الزام ایران اور شام پر لگا رہے ہیں۔یہ وقت ہے کہ ساری دنیا کو سوال کرنا چاہیے کہ امریکا دنیا بھر میں اربوں ڈالر کا اسلحہ عام شہریوں کو ہلاک کرنے کے لیے کیوں دے رہا ہے۔ عراق،افغانستان اور پاکستان میں امریکی اسلحہ، امریکی فوجی اور امریکی سرپرستی میں ناٹو اتحادی انسانوں کو قتل کر رہے ہیں تو کوئی ان سے یہ سوال نہیں پوچھتا کہ وہ ایسا کیوں کر رہے ہیں۔ہمارا خیال ہے کہ شامی وزیر خارجہ معصم کو بھی یہ بات نہیں کہنی چاہیے تھی کہ امریکی و اسرائیلی الزامات تسلیم کر لیے گئے تو افسوس ناک ہو گا۔ ہمارا تو خیال ہے کہ دنیا کو یہ موقف اختیار کرنا چاہئے کہ اگر اسرائیل کو اربوں ڈالر کا امریکی اسلحہ سستے داموں،مفت اور امداد کے نام پر بھی دے سکتا ہے تو ایران اور شام کیا حزب اللہ کے ہمدرد دنیا بھر سے اس کو میزائل اور دیگر اسلحہ دے سکتے ہیں بلکہ دینا چاہیے۔جیسا کہ ایران کھل کر کہتا ہے اور حزب اللہ کی حمایت بھی کرتا ہے۔مغرب کایہ وتیرہ رہا ہے کہ چور مچائے شور کے مصداق پہلے سے اس بات کا شور کرنا شروع کر دیتے ہیں جو ان کے مستقبل کے منصوبوں کا حصہ ہوتا ہے۔
 حزب اللہ پر میزائلوں کے حصول کا الزام یہ بتانے کے لیے کافی ہے کہ آنے والے دنوں میں مشرق وسطیٰ میں کیا ہونے جا رہا ہے۔اسرائیل نے مقبوضہ فلسطین میں تعمیرات کا کام روکنے سے انکار کر دیا ہے اور اس کے نتیجے میں فلسطینیوں کا احتجاج زور پکڑ رہا ہے۔یہ احتجاج لبنان اور شام تک پہنچ چکا ہے اگر اسرائیل نے اپنا رویہ تبدیل نہیں کیا تو فلسطین کی آگ پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے گی اور الزام حزب اللہ کو دیا جائے گا۔آخر ایسا کیوں ہے۔؟سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا دنیا میں آزاد مملکتوں کی زبانیں بھی قید کر دی گئی ہیں؟کیا ان کا آزادی کا دعویدار میڈیا بھی اندھا ہو گیا ہے۔؟کیا اسے موٹی موٹی باتیں نظر نہیں آرہی ہیں۔؟
ہمارا خیال ہے ہاں یہ میڈیا اندھا ہو گیا ہے۔مسلم دشمنی میں اندھا.... اس لیے سامنے کی چیز نہیں دیکھ پاتا بلکہ ہر بات کو مغرب کی آنکھوں سے دیکھتا ہے،ہر فیصلہ اس کی روشنی میں کیا جاتا ہے جس طرح امریکا میں حکام اب 9/11 کے تناظر میں دوستی اور دشمنی کرتے ہیں اسی طرح دوسرے ممالک بھی یہی کرتے ہیں۔اس پیمانے کو سامنے رکھیں تو ایک اور خطرہ پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں کے لیے بھی کھڑا کیا جا رہا ہے۔اسامہ بن لادن کے کسی سابق گارڈ نصیر البحری کے حوالے سے خبر شائع ہوئی ہے یا کر دی گئی ہے کہ اسامہ بن لادن ایٹمی اسلحہ استعمال کرنا چاہتے تھے۔گارڈ کا بیان القدس العربی میں شائع ہوا ہے،جو لندن سے شائع ہوتا ہے۔اس قسم کے بیانات شائع کرانے کے لیے لندن محفوظ جگہ ہے۔اس خبر کے بعد یہ جملہ چپکایا گیا ہے کہ امریکا نے اس ماہ کے اوائل میں انتباہ کیا تھا کہ ایٹمی اسلحہ کے حصول میں القاعدہ کی دلچسپی موجود ہے اور ایٹمی دہشت گردی کا خطرہ موجود ہے۔ 
اس کے بعد صدر اوباما کے مشیر جان برمین کا بیان ہے جس میں وہ کہتے ہیں کہ القاعدہ 15 سال سے ایٹمی اسلحہ کے حصول کے لیے کوشاں ہے،تاہم میرے پاس اس کے شواہد نہیں کہ اس نے ایٹمی ہتھیاروں کی صلاحیت حاصل کر لی ہے۔نصیر البحری کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہ 2000ء میں القاعدہ چھوڑ چکے تھے اور اب یمن میں دو بیویوں کے ساتھ رہتے ہیں.... یہ خبر بتا رہی ہے کہ کس کے ایٹمی ہتھیار اسامہ بن لادن کے ہاتھ لگ سکتے ہیں۔افغانستان کے پاس ایٹمی ہتھیار ہی نہیں۔ بھارت سے القاعدہ کا کوئی تعلق نہیں،لے دے کر پاکستان کے ایٹمی ہتھیار ہی غیر محفوظ ہیں۔گویا ان کو حفاظت میں لینے کے لیے کچھ کیا جاسکتا ہے۔اس کہانی کا جھوٹ اس جملے سے پکڑا گیا کہ نصیر نے کہا کہ ”ہمیں“ حکم تھا کہ اسامہ کی گرفتاری یقینی ہو جائے تو انہیں قتل کر دیا جائے تاکہ وہ زندہ حالت میں دشمن کے ہاتھ نہ لگ سکیں۔بھلا کوئی بتائے گا کہ 9/11 سے قبل اسامہ کی گرفتاری کا کیا خطرہ تھا اور یہ کہ جو آدمی اسامہ کا گارڈ رہا ہو وہ فرانسیسی مصنف کے ساتھ مل کر کتاب کیسے لکھ رہا ہے۔یہ ساری باتیں ملی بھگت ہی تو ہیں۔
" روزنامہ جسارت"




خبر کا کوڈ : 24908
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش