0
Friday 12 Apr 2013 19:52

الیکشن 2013ء اور مذہبی جماعتیں

الیکشن 2013ء اور مذہبی جماعتیں
تحریر: تصور حسین شہزاد

ملک بھر میں الیکشن کی تیاریاں عروج پر ہیں، ہر جماعت اپنے امیدوار فائنل کرنے کی دوڑ میں مصروف ہے، لیکن ایک صورتحال ایسی خوفناک ہے جس کا سن کر ہر محب وطن پاکستانی پریشان ہوسکتا ہے، وہ یہ کہ اس بار اسلام اور پاکستان دشمن قوتوں نے فیصلہ کیا ہے کہ پارلیمنٹ میں سیکولر مائنڈ امیدواروں کو بھیجا جائے اور ان کی پارلیمنٹ میں موجودگی سے مطلوبہ فوائد حاصل کئے جائیں۔ اس مقصد کے لئے افسوسناک صورت یہ ہے کہ ’’بیرونی آقا‘‘ نے اپنی غلام تمام سیاسی جماعتوں کو خبردار کیا ہے کہ وہ کسی بھی مذہبی جماعت کے ساتھ اتحاد نہ کریں اور اگر کرچکے ہیں تو اسے فوری طور پر توڑ دیں۔ اس حکم نامے کے بعد پیپلز پارٹی اور قاف لیگ نے سنی اتحاد کونسل کے ساتھ ہونے والی سیٹ ایڈجسٹمنٹ کو مکمل طور پر فراموش کر دیا ہے اور انتہائی سرد مہری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے آپ کو اس ’’باہمی اتحاد‘‘ سے کنارہ کش کر لیا ہے۔

مسلم لیگ نون اور جماعت اسلامی میں بھی اس حوالے سے مذاکرات چل رہے تھے، واقفان حال کا کہنا ہے کہ جماعت اسلامی اور نواز لیگ میں معاملات آخری مراحل میں تھے کہ ’’اوپر‘‘ سے حکم آ گیا اور میاں نواز شریف نے سید منور حسن کو جھنڈی کروا دی، یوں یہ بیل بھی منڈھے نہ چڑھ سکی۔ پاکستان تحریک انصاف اور مجلس وحدت مسلمین کے درمیان بھی داستان محبت رقم ہونے جا رہی تھی، عمران خان دو تین بار اسلام آباد میں مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی سیکرٹریٹ کا دورہ بھی کر چکے تھے، ان کے درمیان بھی معاملات فائنل ہونے کے قریب ہی تھے کہ سیمی فائنل میں میچ ہی ختم کر دیا گیا۔

جمعیت علماء اسلام (ف) کے بھی نواز لیگ کے ساتھ معاملات چل رہے تھے، لیکن وہ کشتی بھی کنارے نہ لگ سکی اور بیچ دریا ڈوب گئی۔ سنی تحریک بھی میاں نواز شریف کے ساتھ اپنے ڈانڈے ملانے کے لئے بے تاب تھی لیکن انہیں بھی انکار سننا پڑا۔ اسلامی تحریک پاکستان کے سربراہ علامہ ساجد نقوی نے بھی اعلان کیا کہ کسی بھی سیاسی جماعت کے ساتھ اتحاد کرنے کے لئے تیار ہیں لیکن انہیں بھی کسی سیاسی جماعت نے ایڈجسٹ کرنے سے انکار کر دیا۔ تمام سیاسی جماعتوں کا یہ رویہ مشترک ہے۔ اس سے ایک بات تو واضح ہے کہ جماعت کوئی بھی ہو ان کا ’’منشور‘‘ ایک ہی ہے اور وہ ہے امریکہ کی غلامی۔ مذہبی جماعتوں نے الیکشن کے اعلان سے قبل ایسے بیانات دینا شروع کر دیئے تھے کہ ’’امریکہ کے غلاموں سے مقابلہ ہوگا‘‘ امریکہ کے غلاموں کو پاکستان کی مقدس زمین سے نکال دیں گے، وغیرہ وغیرہ۔

لیکن یہاں گنگا الٹی چل پڑی ہے۔ امریکہ اور اس کے پاکستان مخالف اتحادیوں کا مشترکہ منصوبہ یہ ہے کہ سیکولر قوتوں کو پارلیمنٹ میں بھیج کر آئین میں ترامیم کروا لی جائیں، سب سے اہم ترمیم جس کے لئے وہ بے تاب ہیں وہ توہین رسالت ایکٹ ہے، اس کے بعد پاکستان کے اسلامی تشخص کو تبدیل کرنا ہے، یعنی اس کا نام ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ سے تبدیل کرکے ’’عوامی جمہوریہ پاکستان‘‘ رکھنا مقصود ہے۔ اس مقصد کی تکمیل کے لئے ہی پاکستان میں دو بڑی سازشوں پر عمل جاری ہے۔ ایک پاکستان کے اہل تشیع کو اقلیت قرار دلوانا اور دوسرا مسیحی برادری کو نشانہ بنا کر اس کا الزام پاکستان کی دینی قوتوں پر دھرنا ہے۔

بیرونی ایجنڈے کے ان دونوں نقاط پر عمل جاری ہے۔ اہل تشیع کی ٹارگٹ کلنگ اور مسیحی برادری کے گھروں اور بستیوں کو جلانا اور ان کیساتھ امتیازی سلوک اسی ایجنڈے کی تکمیل ہے۔ اس سازش کا سادہ سا حل ہے، اس کیلئے تمام مذہبی جماعتوں کو باہمی اتحاد کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ شیعہ سنی کے حصار سے نکل کر مسلمان بننا ہوگا۔ ایک دوسرے کے عقائد کا احترام کرنا اور انہیں برداشت کرنا ہوگا۔ اس حوالے سے جماعت اسلامی کی قیادت لائق تحسین ہے، جس نے اس سازش کا ادراک کرتے ہوئے تمام دینی جماعتوں کو لیاقت بلوچ کی رہائش گاہ پر جمع کیا اور انہیں صورت حال سے آگاہ کرتے ہوئے کوئی موثر لائحہ عمل تشکیل دینے کا کہا۔ اس حوالے سے اکثر جماعتوں نے اپنی اعلٰی قیادت سے مشاورت اور سوچ کر بتانے کا کہا ہے اور آئندہ اجلاس میں اس بات پر متفقہ طور پر کوئی لائحہ عمل پیش کیا جائے گا کہ کیسے بیرونی سازشوں کا مقابلہ کیا جائے۔

اسلام اور پاکستان دشمن قوتوں کی ان سازشوں کی تکمیل کیلئے ان دشمنوں نے بندوق چلانے کیلئے ہمارے دوستوں کا کندھا استعمال کیا ہے۔ اس حوالے سے ترکی اس وقت پاکستان میں انتہائی اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ ترقیاتی منصوبوں کی آڑ میں ہم نے ترکی کو اپنے ملک میں داخل تو کر لیا ہے لیکن اس کے مقاصد انتہائی خطرناک ہیں۔ پنجابی کی ایک کہاوت ہے کہ دشمن اگر گُڑ کھانے سے مرتا ہے تو اُسے زہر دینے کی کیا ضرورت ہے۔ تو ترکی کی شکل میں ہمیں گُڑ دیا جا رہا ہے۔ جس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، اس کے ساتھ ہی دو اور بھی ہمارے دوست ملک ہیں جو ’’کردار‘‘ ادا کر رہے ہیں۔ بہرحال اس صورت حال میں مذہبی جماعتوں کو مستقل طور پر اس کا حل نکالنا ہوگا، بیرونی مداخلت روکنے کے لئے سنجیدہ کوششیں کرنا ہوں گی، ورنہ سیکولر قوتیں ہمارے تمام اداروں میں اپنی جڑیں مضبوط کرچکی ہیں، جن کے نتائج انتہائی خطرناک ہوسکتے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 253679
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش