0
Tuesday 11 Jun 2013 12:21

تقسیم اسکوائر، طیب اردگان کی سیاسی شکست کا آغاز

تقسیم اسکوائر، طیب اردگان کی سیاسی شکست کا آغاز
اسلام ٹائمز- فارس نیوز ایجنسی کے مطابق ممتاز عرب تجزیہ نگار محمد نورالدین نے ترکی میں جاری حکومت مخالف احتجاج اور ہنگاموں کا جائزہ لیتے ہوئے ایک انتہائی دلچسپ اور معلوماتی مقالہ تحریر کیا ہے جس میں وہ کہتے ہیں:

"ترکی کے وزیراعظم رجب طیب اردگان بھی ان صدور مملکت اور تیسری دنیا کے ممالک کے بادشاہوں کی صف میں شامل ہو گئے ہیں جو اپنے ملک میں موجود اندرونی مشکلات کی ذمہ داری بیرونی قوتوں پر ڈالتے ہیں اور ملک میں رونما ہونے والے "انقلاب" کو محض ایک حکومت مخالف سازش قرار دیتے ہیں"۔ 

یاد رہے ترک وزیراعظم جناب طیب اردگان نے حال ہی میں ایک تقریر کے دوران اپنی حکومت کے خلاف جاری مظاہروں میں شریک افراد کو "بعض چور اور دہشت گرد" کا خطاب دیا تھا۔ جناب رجب طیب اردگان نے اب تک یہی ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے کہ وہ استنبول اور انقرہ سمیت دسیوں شہروں میں سڑکوں پر آئے سینکڑوں غصے میں بھرے مظاہرین کے مقابلے میں ڈٹے ہوئے ہیں اور ان مظاہروں اور احتجاج نے ان کے دل میں ذرہ بھر پریشانی یا خوف ایجاد نہیں کیا ہے۔ 

لیکن دوسری طرف ترکی کے صدر جناب عبداللہ گل سمیت ملک کی کئی بلندپایہ شخصیات کے بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ملک میں عوامی اعتراضات اور مظاہروں کے جاری رہنے سے شدید پریشانی کا شکار ہیں اور مظاہرین کی مشکلات کو سمجھنے اور ان کے مطالبات کو جاننے کی کوشش میں مصروف ہیں تاکہ درپیش مشکلات کو باہمی مفاہمت کے ذریعے حل کر کے ان مظاہروں کو ختم کروایا جا سکے۔ 

لیکن اکثر سیاسی ماہرین جو جناب رجب طیب اردگان کے ضدی پن اور ان کی غیرلچک دار طبیعت سے واقف ہیں، کا کہنا ہے کہ مستقبل قریب میں ان عوامی مظاہروں اور احتجاج کی شدت میں مزید اضافہ ہونے کے قوی امکانات پائے جاتے ہیں۔ 

اگر ترکی کی موجودہ صورتحال کا بغور جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہاں رونما ہونے والے عوامی مظاہروں اور احتجاج نے اپنے آغاز میں ہی کئی اہم اہداف حاصل کر لئے ہیں۔ مثال کے طور پر ان مظاہروں اور احتجاج کا ایک اہم نتیجہ جناب رجب طیب اردگان کی بارعب شخصیت اور انکے اقتدار کو شدید دھچکا پہنچنے کی صورت میں ظاہر ہوا ہے۔ کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ آج ہم ترکی میں جن حالات کا مشاہدہ کر رہے ہیں وہ جناب طیب اردگان کیلئے ایک ایسی بڑی شکست محسوب ہوتی ہے جسکی وہ بالکل توقع نہیں رکھتے تھے۔ 

ترکی کے اخبارات نے ان اعتراضات اور مظاہروں کا جائزہ لیتے ہوئے اس بات پر تاکید کی ہے کہ مظاہرین نے جناب طیب اردگان کے مقابلے میں بڑی کامیابیاں حاصل کی ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ انہوں نے "تقسیم اسکوائر" کو ترک حکومت سے واپس لے کر مکمل طور پر اپنے قبضے میں لے رکھا ہے۔

ترک اخبارات میں شائع ہونے والے اکثر تجزیوں اور مقالات میں ان عوامی مظاہروں اور اعتراضات کی اصل وجہ جناب رجب طیب اردگان کی شخصیت اور ان کی پالیسیوں کو قرار دیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ ان کی غلط داخلہ اور خارجہ پالیسیوں نے ملک کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے جس کے باعث ملکی حالات ایک ٹائم بم کی صورت اختیار کر چکے ہیں۔ اسی طرح یہ پالیسیاں عالمی سطح پر بھی ترکی کا چہرہ مسخ ہونے کا باعث بنی ہیں۔  ہم اس تحریر میں ترکی کے بعض اخبار اور مجلات کے نکتہ نظر کو بیان کرتے ہیں۔

اخبار حریت: ایک منٹ، اجازت دیں، ترکی کے مظاہروں کی حقیقی وجہ یہ ہے
ترکی کے معروف صحافی چنگیز چاندار نے اخبار حریت میں ایک مقالہ شائع کیا ہے جس کا عنوان ہے "پوسٹ ماڈرنیزم مزاحمت"۔ وہ اس مقالے میں لکھتے ہیں:

"جناب رجب طیب اردگان اپنی ضدی طبیعت کو دور نہیں کر سکے اور اس ضدی پن کا واضح نمونہ تقسیم اسکوائر میں دیکھا جا سکتا ہے۔ لیکن ان کی بات کا لہجہ تبدیل ہو چکا تھا اور ان کی آواز پہلے کی طرح گرج دار اور طاقتور نہ تھی"۔

چنگیز چاندار مزید لکھتے ہیں:
"بہت آسانی سے دیکھا جا سکتا تھا کہ جناب طیب اردگان اب ماضی والی طاقت، اقتدار اور محبوبیت کے حامل نہیں رہے۔ لہذا ہم جس زاویے سے بھی ترکی کے موجودہ حالات پر نظر دوڑائیں یہ نتیجہ نکال سکتے ہیں کہ استنبول کے واقعات میں سب سے بڑی ہار جنب طیب اردگان کو نصیب ہوئی ہے"۔

معروف ترک صحافی جناب چنگیز چاندار مزید لکھتے ہیں:
"استنبول اور انقرہ سمیت ترکی کے مختلف شہروں میں جاری مظاہروں اور احتجاج کو محض ایک درخت کاٹنے یا حتی حکمران پارٹی جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ کے خلاف قرار نہیں دیا جا سکتا بلکہ یہ احتجاج درحقیقت جناب رجب طیب اردگان کی شخصیت کے خلاف اعتراض ہے"۔

جناب چنگیز چاندار کا دعوی ہے کہ استنبول اور ترکی کے دوسرے شہروں کے جوان چاہے ان کا تعلق جس طبقہ سے بھی ہو، حکومت کی جانب سے حقارت آمیز رویے اور اپنی طرز زندگی سے تنگ آ چکے ہیں۔ وہ اس لئے تقسیم اسکوائر میں اکٹھے ہوئے ہیں تاکہ طیب اردگان سے کہ سکیں: ایک منٹ۔ اور یہ وہی جملہ ہے جو جناب طیب اردگان نے جنوری 2009ء میں ڈیوس میں برگزار ہونے والی کانفرنس کے دوران اسرائیلی صدر شیمون پرز کو ٹوکتے ہوئے 2008ء اور 2009ء کے دوران غزہ پر وحشیانہ حملے پر اعتراض کے طور پر کہا تھا۔

اس ترک صحافی کے بقول جناب رجب طیب اردگان نے گذشتہ 10 برس کے دوران پہلی بار شکست کا مزہ وہ بھی اپنے شہر میں چکھا ہے۔ استنبول وہ شہر ہے جو یہ محسوس کر رہا ہے کہ اسے آزادی کی آکسیجن نہیں مل رہی اور اسی وجہ سے وہ جناب طیب اردگان کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا ہے تاکہ انہیں کہ سکے: ایک منٹ۔ اور تمام احتجاج کی حقیقت بھی یہی ہے۔
 

اخبار ریڈیکل: جناب طیب اردگان مغرور اور خودپسند نہ ہوں

ایک اور ترک صحافی اوزگر مومجو اخبار ریڈیکل میں ترکی میں جاری ہنگاموں اور مظاہروں کے بارے میں یوں لکھتے ہیں:

"طیب اردگان نے 2002ء کے انتخابات سے پہلے اپنے بیٹے بلال کو نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ بیٹا کبھی مغرور نہ ہونا، لیکن خود برسراقتدار آنے کے بعد اس نصیحت پر عمل نہیں کیا"۔

اخبار ریڈیکل کے اس صحافی کے بقول اگر ترکی کے نئے نظام کو کوئی نام دینا چاہیں تو اسے رجب طیب کا نظام کہا جا سکتا ہے۔ اسی وجہ سے ملک میں انجام پانے والے ہر واقعے کی ذمہ داری انہیں کے کندھوں پر پڑتی ہے اور تمام ملکی امور کی مسئولیت بھی انہیں کی گردن پر ہے۔ لیکن وہ اور ان کے حامی اس سازش کی تلاش میں ہیں جو ان کی حکومت کے خلاف بنائی گئی ہے جبکہ نہ وہ اور نہ ان کے حامی اس طرف متوجہ نہیں ہیں کہ تقسیم اسکوائر میں سب موجود ہیں، فٹبال کے کھلاڑیوں سے لے کر یونیورسٹی کے پروفیسرز تک اور گھریلو خواتین سے لے کر عام ہوٹل والوں تک اور کردوں سے لے کر وطن پرست عناصر تک، سب میدان میں حاضر ہیں۔ 

صحافی اوزگر مومجو مزید لکھتے ہیں:
"مظاہرین اور احتجاج کرنے والے افراد کے خلاف سیکورٹی فورسز اور پلیس کی جانب سے انتہائی بے رحمانہ انداز میں طاقت کے وسیع استعمال کے بارے میں کہوں گا کہ ان تمام اقدامات کی مکمل ذمہ داری طیب اردگان کی گردن پر ہے۔ اب وہ وقت آ پہنچا ہے جب رجب طیب اردگان کو اپنے بیٹے کو کی گئی نصیحت یاد دلانی چاہئے اور انہیں کہنا چاہئے کہ اتنے مغرور نہ ہوں"۔

اخبار اقتشام: کافی ہو چکا
ترکی کے اخبار اقتشام میں "اب کافی ہو چکا" کے عنوان سے شائع ہونے والے مقالے میں آیا ہے کہ ترکی میں جاری مظاہروں کے بارے میں ملک کے طول و عرض سے کافی کچھ سننے کو ملا ہے اور اس بارے میں بہت تجزیئے شائع ہو چکے ہیں لیکن ہمیں جان لینا چاہئے کہ ترک عوام تقسیم اسکوائر کے مظاہروں میں اس لئے شریک ہوئے ہیں کہ ترکی کے ان 50 فیصد ووٹرز کے حقوق کا دفاع کریں جنہوں نے جناب طیب اردگان اور انکی پارٹی جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ کو ووٹ نہیں دیا تھا اور انہیں کہ دیں کہ "بس اب کافی ہو چکا"۔ 

اخبار اقتشام مزید لکھتا ہے:
"ان مظاہرین نے درحقیقت خوف، وحشت اور طیب اردگان کے دوغلے پن کی دیواریں توڑ ڈالی ہیں اور آزادی کے نعرے لگاتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے ہیں تاکہ عوامی اشیاء کی فروخت اور شہروں کا تجارتی مراکز میں تبدیل ہو جانے کے عمل کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتے ہوئے اسے روک سکیں۔ یہ افراد اس لئے سڑکوں پر نکل آئے ہیں تاکہ رجب طیب اردگان کو کہیں کہ بس اب کافی ہو چکا"۔ 

اخبار ملیت: مظاہرین کا پیغام یہ ہے کہ 50 فیصد عوام کو نظرانداز کرنا ممکن نہیں
اخبار ملیت کے صحافی قدری گرسل نے اپنے مقالے "ترک مظاہرین کا پیغام" میں لکھا ہے:
"ترک مظاہرین اور احتجاج کرنے والے افراد کا اصلی ہدف رجب طیب اردگان کی حکومت کو سرنگون کرنا نہیں جو 50 فیصد ووٹ لے کر برسراقتدار آئی ہے۔ احتجاج کرنے والے عوام کا حکومت کو یہ پیغام ہے کہ ایسی حکومت جو 50 فیصد ووٹرز کی حمایت سے محروم ہے، انہیں نظرانداز کر کے اپنی حکومت کو جاری نہیں رکھ سکتی"۔

جناب قدری گرسل اپنے مقالے میں جناب رجب طیب اردگان سے یہ سوال پوچھتے ہیں کہ "آیا 50 فیصد ترک عوام کا پیغام ان تک پہنچ چکا ہے؟" اور پھر لکھتے ہیں:
"مجھے نہیں معلوم اردگان نے یہ پیغام وصول کیا ہے یا نہیں، لیکن آیندہ چند روز میں واضح ہو جائے گا کہ اردگان نے پیغام وصول کر لیا ہے یا نہیں"۔ 

ترک عوام کے انقلاب نے جناب رجب طیب اردگان کی جانب سے اپنائی جانے والی پارٹی بازی پر مبنی سیاست کا خاتمہ کر دیا ہے۔ جیسا کہ شام کے بارے میں جناب طیب اردگان کی پالیسی صرف اس ملک میں بدامنی، بحران اور عدم استحکام پیدا کرنے پر مبنی تھی اور اس میں ناکامی پر ترک حکومت اپنی خارجہ پالیسیوں پر نظرثانی کرنے پر مجبور ہو گئی اسی طرح ایسا دکھائی دیتا ہے کہ جناب طیب اردگان کو اپنی سیاست داخلہ پر بھی نظرثانی کی ضرورت ہے۔

نتیجتا کہا جا سکتا ہے کہ ترکی میں رونما ہونے والے عوامی احتجاج اور ہنگاموں نے جناب رجب طیب اردگان کو ان کی سیاسی زندگی میں پہلی شکست کا مزہ چکھا دیا ہے۔
 
خبر کا کوڈ : 272388
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش