1
0
Wednesday 3 Jul 2013 18:32

مصر میں کیا ہو رہا ہے؟

مصر میں کیا ہو رہا ہے؟
تحریر: سعداللہ زارعی

اسلام ٹائمز- مصر کے حالات انتہائی نازک دور سے گزر رہے ہیں اور موجودہ حکومت کی جانب سے اپنے مخالفین کے ساتھ اپنائے جانے والے رویے کی روشنی میں ایسا دکھائی دیتا ہے کہ اس بحران کے حل کیلئے تمام سیاسی راستے بند ہوتے جا رہے ہیں۔ ایسی صورتحال میں فطری طور پر نگاہیں کسی تیسری قوت کی جانب مڑ جاتی ہیں جو ان دنوں صحیح یا غلط طور پر اور حقیقتا یا ظاہری طور پر "غیرجانبدار" قوت کے طور پر ظاہر ہوئی ہے۔ لہذا یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ مصر آیندہ چند روز میں ایک بالکل جدید صورتحال سے روبرو ہو گا۔ 

گذشتہ چند ہفتوں کے دوران پیش آنے والے واقعات نے حکومت کے حامی اور مخالف دھڑوں کے درمیان موجود خلیج اور تناو میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔ تمام تر توقعات کے برخلاف گزر زمان اور حکومت کی جانب سے ڈرانے دھمکانے اور لالچ دینے جیسے ہتھکنڈوں کا استعمال بھی مفاہمت کی فضا وجود میں نہیں لا سکے۔ جناب محمد مرسی اگرچہ انتہائی قاطعیت کے ساتھ اپنے دفتر میں حاضر رہے اور اپنی مشروعیت پر بھی تاکید کرتے رہے لیکن دوسروں کو اپنی مشروعیت کو تسلیم کرنے پر مجبور نہ کر سکے۔ ان کے بیانات جو زیادہ تر اپنے مخالفین کے خلاف طعنوں اور اپنی قانونی حیثیت کی یاددہانی پر مبنی تھے نے بھی جلتی پر تیل کا کام کیا اور اختلافات کی آگ کو مزید مشتعل کر دیا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جناب محمد مرسی اور اخوان المسلمین ملکی حالات کو صحیح طور پر درک کرنے سے قاصر ہیں اور ان کے ہاتھ صورتحال کو اپنے کنٹرول میں لینے کیلئے مناسب ہتھکنڈوں سے خالی ہیں۔ 

اسی طرح عوامی احتجاج اور مظاہروں کو ختم کرنے میں ناکامی نے حکومت داری سے متعلق صدر جناب محمد مرسی میں مناسب صلاحیتوں کی موجودگی پر بھی سوالیہ نشان کھڑا کر دیا ہے۔ حتی ان کے ساتھی جب اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ وہ صدر مملکت کے طور پر موجودہ صورتحال کو ایک سیاسی راہ حل کی جانب لے جانے میں قاصر ہیں تو ان سے الگ ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ جیسا کہ گذشتہ چند ماہ کے دوران ابوالفتوح اور سلیم العوا جیسے وزراء اور الوسط جسی اتحادی جماعتیں ان کو مشکلات میں تنہا چھوڑ کر ان کے مخالفین کی صفوں میں شامل ہو چکے ہیں۔ یقینا ان کو ووٹ دینے والے افراد میں بھی یہ بدگمانی پیدا ہو چکی ہو گی کہ جناب محمد مرسی میں ملک کو چلانے کیلئے مناسب صلاحیتوں کی کمی ہے جیسا کہ بعض رپورٹس کے مطابق تقریبا 15 ملین مصری شہریوں نے ان کے خلاف عدم اعتماد کی دستاویز پر دستخط کرتے ہوئے ان سے مستعفی ہو جانے کا مطالبہ کیا ہے۔ 

اخوان المسلمین مصر نے بنیادی طور پر راستہ ہی غلط انتخاب کیا ہے۔ مصر میں انقلاب کی کامیابی کے بعد ایک انقلابی سربراہی کونسل کے قیام کی اشد ضرورت تھی جس میں انقلابی جدوجہد میں شریک تمام گروہوں اور سیاسی جماعتوں کے سربراہان کو شریک کیا جاتا اور انقلاب مصر کا مستقبل کا ایجنڈہ اور اہم فیصلے اس سربراہی کونسل کے ذریعے انجام پاتے۔ اسی طرح یہ سربراہی کونسل نئے ملکی آئین کا ابتدائی مسودہ بھی تیار کرتی اور اس کے مزید جائزے اور جانچ پڑتال کیلئے ایک بانی کونسل تشکیل دی جاتی۔ بانی کونسل میں نئے آئین کی منظوری کے بعد اس کی حتمی منظوری کیلئے ایک عوامی رفرنڈم کا انعقاد کیا جاتا اور یوں عوامی منظوری کے بعد اس نئے آئین کی روشنی میں انقلابی سربراہی کونسل کے تعاون سے نیا ملکی نظام معرض وجود میں آ جاتا۔ 

اس صورت میں نیا ملکی آئین، نیا سیاسی نظام اور نئے حکومتی عہدیدار عوامی مقبولیت اور مشروعیت سے برخوردار ہوتے اور انہیں "انقلابی میراث" اور "عوام کی امانت" کے طور پر قومی سطح پر عوامی حمایت بھی حاصل ہوتی اور آج جیسے حالات بھی پیدا نہ ہوتے۔ اگر یہ سب کچھ انجام پا جاتا تو ملک کو پیش آنے والی ہر مشکل کا حل نئے آئین کی روشنی میں بہت آسانی سے مل سکتا تھا۔ اس کے علاوہ مغربی طاقتوں اور بعض مداخلہ جو عرب ممالک کو بھی مصر کے اندرونی مسائل میں مداخلت کا موقع میسر نہ آتا۔ 

محمد مرسی اور اخوان المسلمین مصر نے بدقسمتی سے آغاز سے ہی غلط راستے کا انتخاب کیا ہے۔ اس کی بجائے کہ انقلاب کی کامیابی کے پہلے سال ملکی امور انقلابی جدوجہد میں شریک گروہوں اور جماعتوں کے سربراہان کے ہاتھ میں ہو مصر کی باگ ڈور سابق ڈکٹیٹر حسنی مبارک کی آرمی کے جرنیل "محمد حسین طنطاوی" نے سنبھال رکھی تھی۔ آرمی کمانڈرز نے ہی ملک کے نئے قانون کا ابتدائی مسودہ تیار کیا اور یہ مسودہ پرانے آئین کی نسبت بہت کم تبدیلیاں ہونے کے باوجود منظور کر لیا گیا۔ اسی ناقص آئین کے تحت مصر اسمبلی کے انتخابات برگزار ہوئے جبکہ بنیادی طور پر معلوم ہی نہ تھا کہ منتخب ہونے والی اسمبلی کی ذمہ داری قانون سازی ہے یا پھر نئے آئین کا ابتدائی مسودہ تیار کرنا ہے۔ لہذا ابتدا سے ہی اس اسمبلی کے اصلی وظائف کے بارے میں اخوان المسلمین اور سلفی گروہوں پر مبنی انقلاب کے ذریعے کامیاب ہونے والی جماعتوں اور حکمفرما فوجی کونسل کے درمیان شدید اور بنیادی اختلافات موجود تھے اور جب اخوان المسلمین مصر کے رہنماوں نے جدید اسمبلی کی اصلی ذمہ داری نئے ملکی آئین کا ابتدائی مسودہ تیار کرنا بیان کیا اور اس بنیاد پر 100 اراکین اسمبلی کو یہ بھاری اور اہم ذمہ داری رسمی طور پر سونپی گئی تو حکمفرما فوجی کونسل نے "آئینی عدالت" کے ذریعے اسمبلی کو غیرآئینی قرار دیتے ہوئے اسے تحلیل کرنے کا اعلان کر دیا لیکن اس کے باوجود 100 رکنی کمیٹی نے اپنا کام جاری رکھا۔ 

اسی دوران جب مصر کی منتخب اسمبلی معلق حالت میں تھی، ملک میں صدارتی انتخابات برگزار ہوئے جس میں اخوان المسلمین اور سلفی گروہوں سمیت اسلام پسند قوتیں بھاری اکثریت حاصل کرنے میں ناکام ہوئیں اور صرف 4 لاکھ ووٹوں سے انتخابات جیتنے میں کامیاب ہو گئیں۔ یاد رہے یہ سب کچھ ایسے وقت انجام پایا جب اخوان المسلمین مصر حسنی مبارک دور کے ملکی آئین اور حکمفرما فوجی کونسل کی جانب سے اصلاح شدہ آئین کے مسودے کو مسترد کر چکی تھی اور انہوں نے اتنا تک نہیں سوچا کہ ایک نامشروع آئین کے تحت برگزار ہونے والے انتخابات سے ایک مشروع صدر کیسے برسراقتدار آ سکتا ہے؟

اسی سیاسی فضا میں منتخب ہونے والے نئے صدر جناب محمد مرسی نے اٹارنی جنرل اور آئینی مسودہ تیار کرنے والی کمیٹی کے بعض اراکین کو تبدیل کرنے جیسے اقدامات بھی انجام دیئے اور انہوں نے یہ واضح نہ کیا کہ آخر یہ اقدامات کس قانونی آرٹیکل اور کون سے مشروع آئین کے تحت انجام پائے ہیں؟ صدر محمد مرسی نے اس کے بعد 100 رکنی کمیٹی کی جانب سے تیار شدہ آئینی مسودے پر ملک گیر رفرنڈم برگزار کروایا اور اس بار بھی وہ بھاری اکثریت سے نیا آئین منظور کروانے میں ناکام رہے۔ اس رفرنڈم میں ووٹ دینے کی صلاحیت رکھنے والے افراد میں سے صرف 25 فیصد لوگوں نے حصہ لیا جبکہ ملکی آئین کی اعلی حیثیت کے پیش نظر تقریبا دو تہائی اکثریت کا ووٹ ضروری نظر آتا ہے۔ اس کے باوجود یہ سوال بھی ہو سکتا ہے کہ مصری صدر جناب محمد مرسی نے کس آئین کے تحت یہ رفرنڈم برگزار کروایا ہے۔ 

حکومت مخالف قوتیں جناب محمد مرسی اور اخوان المسلمین کے غیرآئینی اقدامات اور ان کے کمزور ووٹ بینک کو مدنظر رکھتے ہوئے میدان میں آئے اور کچھ مطالبات پیش کئے جن میں وقت کے ساتھ ساتھ اضافہ ہوتا گیا اور آخرکار صدارتی انتخابات کو باطل کرنے اور قومی اسمبلی کے انتخابات کو روکنے کا مطالبہ سامنے آیا۔ مذکورہ بالا حقائق کی روشنی میں جناب محمد مرسی اور اخوان المسلمین کو یہ سمجھ لینا چاہئے تھا کہ وہ بھرپور عوامی حمایت اور مضبوط قانونی حیثیت سے برخوردار نہیں لہذا انہیں اپنے سیاسی مخالفین کے ساتھ مذاکرات اور گفتگو کا راستہ اپنانا چاہئے تھا۔ اگرچہ گذشتہ 6 ماہ کے دوران حکومت اور سیاسی مخالفین کے درمیان مذاکرات کی چند نشستیں منعقد ہو چکی ہیں لیکن وہ کسی نتیجہ تک نہیں پہنچ سکیں۔ اخوان المسلمین نے ان مذاکرات میں آئین کی منظوری کو حتمی قرار دینے اور اسمبلی کے انتخابات کو موخر نہ کرنے پر زور دیا ہے۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ حکومت مخالف قوتوں نے جو اب "جبھہ تمرد" کے نام سے ایک بڑے سیاسی اتحاد میں تبدیل ہو چکی تھیں 30 جون کو فیصلہ کن دن قرار دیتے ہوئے بڑے پیمانے پر مظاہروں کی کال دے ڈالی۔ 

اس دوران بھی صدر محمد مرسی اور اخوان المسلمین مصر کے رہنماوں کے پاس کافی فرصت موجود تھی کہ وہ اپنے سیاسی مخالفین کے ساتھ بات چیت کے ذریعے نئے آئین کو معلق کرنے اور اسمبلی کے انتخابات کو موخر کرنے کے بارے میں کسی مفاہمت تک پہنچ جائیں اور اس طرح اپنے مخالفین کی تعداد کو کم کر سکیں لیکن اخوان المسلمین نے ایسا نہ کیا اور نئے آئین کے نفاذ اور صداتی انتخابات کی صحت پر زور دیتے رہے۔ اس ضد اور اصرار کا نتیجہ یہ نکلا کہ سیاسی مخالفین نے 30 جون کو جناب محمد مرسی اور اخوان المسلمین کے خلاف "ارحلوا" کے نعرے بلند کئے۔ بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ 30 جون کے مظاہروں میں شریک افراد کی تعداد 70 لاکھ سے بھی تجاوز کر چکی تھی جبکہ وہ افراد جو سابق ڈکٹیٹر حسنی مبارک کے خلاف میدان التحریر میں جمع ہوئے تھے انکی تعداد 53 لاکھ سے زیادہ نہ تھی۔ 

جناب محمد مرسی اور اخوان المسلمین مصر گذشتہ ایک سال کے دوران لاتعداد غلطیوں کے مرتکب ہوئے ہیں لیکن اگر ہم ان کی غلطیوں کو ایک لائن میں بیان کرنا چاہیں تو کہیں گے کہ اخوان المسلمین مصر نے اپنی پالیسیوں کی بنیاد "ابہام"، "شک" اور "تاخیر" پر استوار کر رکھی تھی۔ انہوں نے کسی زمرے میں بھی واضح اور قابل قبول موقف اختیار نہیں کیا۔ معیشت کے میدان میں اخوان السملمین مصر کا موقف سرے سے معلوم ہی نہ تھا جبکہ صدر محمد مرسی نے صدارتی انتخابات کے دوران قوم سے یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ صدر بننے کے بعد 100 دن کے اندر عوام کے اقتصادی مسائل کے حل اور بالخصوص زراعت، ٹرانسپورٹیشن اور بلدیاتی امور سے متعلق موثر اقدامات انجام دیں گے۔ اسی طرح خارجہ سیاست کے میدان میں بھی اخوان المسلمین مصر نے کسی واضح موقف اور پالیسی کا اعلان نہیں کیا اور نہ ہی مسئلہ فلسطین کے بارے میں کوئی ایسا انقلابی موقف اپنایا جس سے اس اہم اور بین الاقوامی ایشو پر ان کے اور سابق ڈکٹیٹر حسنی مبارک کے درمیان فرق واضح ہو سکے۔ اخوان المسلمین مصر نے عرب اسپرنگ کے بارے میں بھی سابق ڈکٹیٹر رژیم سے مختلف کسی پالیسی کا اعلان نہیں کیا اور جیسا کہ دیکھا گیا ہے مصری حکومت آج بھی بحرین اور یمن کے مظلوم عرب عوام کے جائز مطالبات پر آنکھیں بند کئے ہوئے ہے۔ 

صدر محمد مرسی نے اب تک واضح انداز میں ایران کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کے بارے میں اپنا موقف بیان کرنے کی جرات نہیں کی۔ اور ایک بار جب ملک میں موجود مشکلات پر قابو پانے کیلئے ایرانی رہنماوں کو مدد کیلئے خط لکھا تو زیادہ دیر اپنے اس موقف پر قائم نہ رہ سکے۔ اسی طرح صدر جناب محمد مرسی شام کے بحران سے متعلق خطے کے دوسرے عرب رہنماوں جیسے ملک عبداللہ اور شیخ زاید سے مختلف موقف اپنانے میں بھی ناکامی کا شکار رہے جبکہ وہ ایک انقلاب کے نتیجے میں برسراقتدار آئے تھے اور ان سے توقع کی جارہی تھی کہ ان کا موقف بھی انقلابی ہو گا۔ 

خطے میں جاری سیاسی تبدیلیوں کی نسبت اخوان المسلمین مصر کے کمزور موقف کی بڑی وجہ ان کی شدید کنزرویٹو نیچر اور ان سیاسی تبدیلیوں کو صحیح طور پر درک نہ کرنا ہے۔ آج اخوان المسلمین مصر اور صدر محمد مرسی شدید سیاسی مشکلات میں ڈوب چکے ہیں اور سرنگونی کی حد تک پہنچ گئے ہیں۔ انہوں نے اپنے اندرونی حامیوں اور بین الاقوامی سطح پر حقیقی دوستوں کو شدید مایوس کیا ہے جبکہ دوسری طرف شدید چاہت اور کوشش کے باوجود یورپی اور عرب حکومتوں کی نظر میں خاطرخواہ مقام حاصل نہیں کر سکے۔ 

یہ ایک یقینی امر ہے کہ مصر ایک عظیم سیاسی تبدیلی کے آستانے پر کھڑا ہے۔ ہو سکتا ہے یہ تبدیلی مثبت اور تعمیراتی نہ ہو اور اس کے نتیجے میں ایک فوجی حکمران کئی سال کیلئے مصر کی حکومت اپنے ہاتھ میں لے لے اگرچہ اس کا عنوان "عبوری" ہی کیوں نہ ہو۔ اس خطرے کے ساتھ ساتھ یہ اہم سوال بھی مطرح ہوتا ہے کہ آیا مصر کی عظیم عوام اپنے اندرونی اختلافات اور زور آزمائی کو اس حد تک بڑھاوا دیں گے کہ ایک بار پھر مغربی طاقتوں کے پٹھو فوجی حکمران ان پر برسراقتدار آ جائیں؟
خبر کا کوڈ : 279311
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

مصر میں نیمہ شعبان کے بے گناہوں کے خون پر مجرمانہ خاموشی اپنا اثر دکھا رہی ہے۔
ہماری پیشکش