0
Wednesday 17 Jul 2013 20:21

سرکاری اداروں کی خستہ حالی

سرکاری اداروں کی خستہ حالی
تحریر: جنرل (ر) عبدالقیوم

پاکستان ایڈمنسٹریٹو اسٹاف کالج (PASC) اور نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف پبلک ایڈمنسٹریشن (NIPA) کو ملا کر چند سال پہلے نیشنل مینجمنٹ کالج (NMC) بنا دیا گیا۔ اس ادارے میں مرکزی اور صوبائی سول سروس کے اعلٰی آفیسران کو قومی پالیسیاں بنانے اور پھر ان کو لاگو کرنے کی حکمت عملی کی باقاعدہ تربیت دی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ ان آفیسران کو Strategic Management، لیڈر شپ اور حکمرانی کے بہترین معیار کے لئے ضروری بنیادی اصولوں سے روشناس بھی کروایا جاتا ہے۔
 
چند دن پہلے مجھے کالج کی انتظامیہ کی طرف سے 72 افسران پر مشتمل مینجمنٹ کالج کے تیرویں "Senior Management Course" کو خطاب کرنے کے لئے لاہور آنے کی دعوت دی گئی اور کہا گیا کہ میں "Strategic Governance of State Owned Enterprises (SOEs)" کے موضوع پر اظہار خیال کروں اور سینئر آفیسران کے ذہنوں میں اٹھنے والے سوالات کے جوابات بھی دوں۔ اپنے اظہار خیال میں دوران گفتگو میں نے جن نکات کو اٹھایا ان کا مختصر تذکرہ میں آج کے کالم میں بھی کر رہا ہوں۔ سینئر مینجمنٹ کورس کے ممبران کو بتایا گیا کہ SOEs وہ قانونی ادارے ہیں جن کو حکومتیں خود تشکیل اس لئے دیتی ہیں تاکہ وہ خود ملک کے اندر کمرشل سرگرمیوں میں حصہ لے سکیں، ان میں سے بہت سے ادارے مکمل یا جزوی طور پر حکومت کی ملکیت ہوتے ہیں۔ پاکستان میں اس وقت کوئی 200 سے زیادہ ایسے کاروباری چھوٹے بڑے ادارے ہیں جن کے چلانے میں حکومت خود ملوث ہے۔ ان میں قابل ذکر ادارے پی آئی اے، ریلوے، اسٹیل ملز، یوٹیلٹی اسٹورز، واپڈا، این ایچ اے اور ٹریڈنگ کارپوریشن وغیرہ ہیں، جن کی حالت ناگفتہ بہ ہے، چونکہ یہ سالانہ سرکاری خزانے سے پبلک کے تقریباً 500 ارب روپے یا 5 بلین ڈالرز چاٹ رہے ہیں۔
 
زمانہ قدیم سے ہی حکومتیں کاروباری ادارے چلانے میں ملوث رہی ہیں، مثلاً رومن دور حکومت میں پوری آبادی کے لئے گندم اگانے کا کام سرکاری طور پر ملکی سطح پر کیا جاتا تھا۔ ہم پاکستان میں ایسے اداروں کو SOEs کہتے ہیں جبکہ کچھ کامن ویلتھ ممالک مثلاً کینڈا اور سویٹزرلینڈ میں ان کو "Crown Corporations (CC)" کہا جاتا ہے۔ آسٹریلیا میں ان کو "Government Business Enterprises (GBE)" کہہ کر پکارتے ہیں۔ لاطینی امریکہ میں میکسکو کی سب سے بڑی تیل کمپنی Pemex حکومتی کنٹرول میں ہے۔ OPEC کے ممالک میں سعودی نیشنل آئل کمپنی یا سعودی ایئر لائن حکومتی مشینری کے ہاتھ میں ہیں۔ برطانیہ اور امریکہ میں بھی SOEs تھیں، جو زیادہ تر اب نجی شعبوں میں چلی گئیں اور صدر اوباما نے صدارتی منصب سنبھالتے ہی کچھ نجی کمپنیوں کو ڈوبنے سے بچانے کے لئے 700ارب ڈالرز جھونک دیئے اور گھریلوں صنعت سے متعلق کمپنیوں اور کچھ بینکوں کو نجی شعبے سے نکال کر دوبارہ SOEs بنا دیا۔
 
لیکن موجودہ جدید معاشی دور کا جو Buzz Word ہے وہ نجکاری ہی ہے اور کہا یہ جاتا ہے کہ Governments have no business to do business یعنی حکومتوں کو ہر حال میں خود کاروبار میں ملوث ہونے سے اجتناب کرنا چاہیئے، اسی لئے ہی یہ بھی کہا جاتا ہے کہ Governments should be invisible۔ نجکاری ملکی معیشت کو موثر طریقے سے چلانے کے لئے ایک ہردلعزیز فلاسفی ہے۔ حکومتوں کو اچھی حکمرانی کرکے ملکی حالات کو بہترین اور سازگار بنانا چاہیئے، تاکہ صاف ستھرے پرامن ماحول میں بیرونی سرمایہ کار آکر سرمایہ کاری کریں اور ملکی صنعت کار بھی ملکی معیشت میں اہم کردار ادا کرسکیں۔
 
قومی سطح پر بڑے پیمانے پر نجکاری کے عمل کی ابتدا سب سے پہلے ہزاروں سال قبل چین کی Han Dynasty نے کی۔ اس کے علاوہ سلطنت روم میں ٹیکس اکٹھا کرنے کا نظام بھی نجی ہاتھوں میں تھا۔1950ء میں سر ونسٹن چرچل نے برطانیہ کی اسٹیل انڈسٹری کو نجی شعبے میں دے دیا، لیکن 80ء کی دہائی میں مارگریٹ تھیچر نے تو برٹش ائیر ویز، برٹش گیس، برٹش پٹرولیم اور برٹش ٹیلی کمیونیکیشن سمیت سارے اداروں سے حکومت کو الگ کر لیا۔ بعد میں برطانوی وزیراعظم جان میجر نے 1993ء میں برٹش ریل کو بھی Privatize کیا۔ امریکہ میں صدر ریگن بھی نجکاری کے حامی تھے۔
 
پاکستان میں نجکاری کے تصور کو میاں محمد نواز شریف نے 1991ء میں اپنے سب سے پہلے دور حکومت میں روشناس کروایا۔ جس کی امریکی صدر نکسن نے اپنی کتاب "Seize The Moment" میں تعریف کی۔ اس کے بعد بے نظیر بھٹو کے دور میں بھی نجکاری کی پالیسی پر عملدرآمد جاری رہا۔ 1997ء میں میاں نواز شریف نے اپنے دوسرے دور حکومت میں بھی نجکاری کو ملکی معیشت کے لئے مفید سمجھا۔ شوکت عزیز بھی ہمیشہ نجکاری، فری مارکیٹ معیشت اور ڈی ریگولیشن کی بات کرتے رہے، لیکن ساتھ ہی مخصوص ملکی حالات کی بدولت گورنمنٹ یوٹیلیٹی اسٹورز پر آٹا، چینی اور دالیں بھی بیچتی رہی۔ ان کے دور حکومت میں بینکوں، پی ٹی سی ایل اور پاکستان اسٹیل ملز کی نجکاری ہوئی، جو متنازع اس لئے نہیں بنی کہ لوگ نجکاری کے اصول کے خلاف تھے، بلکہ اس لئے کہ نجکاری کا عمل شفاف نہ تھا۔ 

لیکن آج بھی ایک طبقہ فکر ایسا ہے جو آنکھیں بند کرکے ملک کے ہر ادارے کو بیچ دینے کے حق میں نہیں۔ ان لوگوں کے دلائل کچھ یوں ہیں۔
1) جو کرپٹ اور نالائق حکومتیں ادارے چلا نہیں سکتیں وہ نجکاری کے عمل میں بھی ضرور ڈنڈی مارتی ہیں۔
 2) کسی بھی ادارے کے نفع بخش ہونے یا نہ ہونے کا دارومدار اس بات پر نہیں ہوتا کہ وہ پبلک یا پرائیویٹ سیکٹر میں ہے بلکہ پبلک اور پرائیویٹ سیکٹر کے سارے اداروں کے منافع بخش ہونے کا دارومدار اچھی اور قانون کی حکمرانی پر ہوتا ہے۔ پی آئی اے، پاکستان ریلوے اور اسٹیل ملز جیسے ادارے سرکاری ہاتھوں میں رہ کر بھی منافع بخش رہے اور KESC ،Zeal Pak Cement اور PTCL جیسے ادارے نجکاری کے بعد بھی خستہ حالی کا شکار ہیں۔
4) امریکہ جیسے ملک میں بھی Unicol Oil Company اور سیمی کنڈکٹر کی کمپنی کی چین کے ہاتھوں فروخت امریکی حکومت نے اس لئے رک دی کہ یہ حساس کمپنیاں ہیں۔

 5) دیکھنا یہ بھی پڑتا ہے کہ غریب ممالک کے سارے کاروبار پر اگر ایسٹ انڈیا کمپنی جیسے بیرونی غاصبوں کا قبضہ ہوجائے تو وہ ملکوں کی سیاسی آزادی بھی سلب کرسکتے ہیں۔
6) آخری نکتہ یہ دیا جاتا ہے کہ جو جمہوری حکومتیں For the People ہوتی ہیں وہ چترال اور اسکردو جیسے سیکٹروں پر غریب لوگوں کے لئے سستے ہوائی ٹکٹ اور لنڈی کوتل، کوہاٹ، چمن، نارووال اور چکوال جیسے علاقوں تک رسائی کے لئے خسارے پر بھی ریل گاڑیاں چلا دیتی ہیں۔ یہ ادارے اگر نجی سیکٹر میں چلے گئے تو روپے سے محبت کرنے والے کاروباری لوگ غریب عوام کی ہڈیوں سے گوشت بھی نوچ کر کھا لینگے۔
 
پاکستان میں سرکاری اداروں کی نہایت تکلیف دہ تباہ حالی کی بڑی وجوہات کچھ یوں ہیں۔
1) گذشتہ ادوار میں مرکز میں کرپٹ قیادت کی موجودگی، جس کی وجہ سے سرکاری اداروں میں میرٹ کے بغیر غیر موزوں لوگ فرنٹ مین کے طور پر تعینات ہوئے۔
 2) اداروں میں نالائق لوگوں کی تقریباً سو فیصدی سیاسی بھرتیاں ہوئیں۔
 3) لیبر یونینز کی صفوں میں اداروں کے باہر سے آئے ہوئے 25 فیصدی غیر مخلص لوگوں کی شمولیت نے اداروں میں لوٹ مار کا بازار گرم رکھا۔
 4) پلانٹس، جہازوں اور ریلوے انجنوں کی مرمت میں تاخیر بھی تباہی کا سبب بنی۔
 5) مقابلے کی سپرٹ کا فقدان اداروں کو لے ڈوبا۔ 

مذکورہ بالا قباحتوں کی وجہ سے اسٹیل ملز 80 ارب روپے کی مقروض ہوچکی ہے۔ پی آئی اے کا سالانہ خسارہ 305 ملین ڈالرز ہے اور پچھلے پانچ سالوں میں 100 ارب روپے کے قرضوں کے نیچے دب چکی ہے۔ ایک جہاز کو Maintain رکھنے کے لئے اگر بین الاقوامی معیار کے مطابق 120 ملازمین درکار ہیں تو پی آئی اے میں فی جہاز 552 ملازمین تنخواہیں لے رہے ہیں۔ آج پی آئی اے کو تقریباً 70 جہازوں کی ضرورت ہے، جبکہ اس وقت پی آئی اے کے پاس صرف 42 جہاز ہیں جن میں سے صرف 21 قابل پرواز ہیں۔
 
ریلوے کی حالت بھی اتنی ہی خراب ہے۔ 2003ء میں 69 ناقص انجن درآمد ہوئے۔ 465 انجنوں میں سے صرف 50 قابل استعمال بتائے جاتے ہیں۔ پندرہ ہزار گڈز ویگینز بے کار کھڑی ہیں۔ ریلوے کے بڑے بڑے Bridges میں سے 86 فیصد ایسے ہیں جو 100 سال سے بھی زیادہ پرانے ہونے کی بدولت اپنی زندگی پوری کرچکے ہیں۔
کورس کے شرکاء نے جب مجھ سے اسٹیل ملز اور پی او ایف کی میری موجودگی میں کامیابی کا راز پوچھا تو میں نے غرض کیا کہ اپنے رزق کو حلال کرنے کے لئے محنت، ٹیم ورک، میرٹ، شفافیت، ISO سرٹیفیکیشن، ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل سے رضاکارانہ Integrity Pact، اسٹیل ملز کی روزانہ کی پیداوار، اس کی فروخت سے متعلق ضروری معلومات اور اس دن کے ریٹس سب کچھ ہر روز شام کو انٹرنیٹ پر پوری دنیا کے سامنے عیاں کر دئیے جاتے تھے۔ حدید ویلفیئر ٹرسٹ کا قیام، ورکرز کے لئے بونس اور صاف ستھری رہائشی سہولتوں کے انتظام نے بھی کارپوریشن کے وقار کو بلند کیا۔ آج اگر حالات دگرگوں ہیں تو ذمہ دار بھی ہم خود ہیں۔
 شاعر نے بالکل ٹھیک کہا تھا۔
بے وجہ تو نہیں ہیں چمن کی تباہیاں
 کچھ باغبان ہیں برق و شرر سے ملے ہوئے
خبر کا کوڈ : 283816
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش