0
Thursday 25 Jul 2013 00:10

قبلۂ اول کی آزادی

قبلۂ اول کی آزادی
تحریر: ثاقب اکبر

بیت المقدس کو تمام ابراہیمی ادیان میں نہایت احترام کا مقام حاصل ہے۔ سید المرسلین خاتم النبیین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے تو ان کے نزدیک بھی مسجد اقصٰی نہایت محترم قرار پائی۔ یہاں تک کہ قرآن حکیم میں آپ کے واقعۂ معراج کو بیان کرتے ہوئے مسجد اقصٰی کی بھی تجلیل و تحسین کی گئی۔ ارشاد رب العزت ہوا:
سُبْحٰنَ الَّذِیْٓ اَسْرٰی بِعَبْدِہٖ لَیْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَی الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِیْ بٰرَکْنَا حَوْلَہٗ لِنُرِیَہٗ مِنْ اٰیٰتِنَا اِنَّہٗ ھُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ O(۱۷۔بنی اسرائیل:۱)
پاک ہے وہ ذات جو لے گئی اپنے بندے کو راتوں رات مسجد حرام سے مسجد اقصٰی تک، وہی مسجد کہ جس کے ارد گرد کو ہم نے برکت والا بنایا ہے، تاکہ ہم اسے اپنی نشانیاں دکھائیں، بے شک وہ ذات خوب سننے والی اور دیکھنے والی ہے۔
 
ایک عرصے تک آنحضرتؐ مسجد اقصٰی کی طرف رُخ کرکے نماز پڑھتے رہے، یہاں تک کہ ایک روز آپؐ مصروف نماز تھے کہ اللہ کا حکم آیا کہ رُخ مسجد حرام کی طرف کرلیں آپ نے دوران نماز ہی رُخ مسجد حرام کی طرف پھیر لیا۔ مضافات مدینہ میں اس مقام پر آج بھی مسجد قِبلتَین (یعنی دو قِبلوں والی مسجد) موجود ہے۔ زائرین مدینہ عام طور پر اس مسجد میں نماز پڑھنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں۔
ان حقائق سے معلوم ہوتا ہے کہ پیغمبر اسلامؐ اور ان کی امت کے نزدیک مسجد اقصٰی کو نہایت بلند مقام حاصل ہے اور آنحضرتؐ چونکہ مسجد حرام سے پہلے اس کی طرف منہ کرکے نماز ادا کرتے رہے، اس لیے مسلمان اسے اپنا قبلۂ اول جانتے ہیں۔
 
جب اسلام نے ظہور کیا تو بیت المقدس مسیحیوں کے قبضے میں تھا۔ بعدازاں حضرت عمرؓ ابن خطاب کے دور حکومت میں یہ سرزمین مسلمانوں کے ہاتھ آگئی۔ وہاں کے باسیوں کی ایک بڑی تعداد نے اپنی آزاد رائے اور خوشی سے دین اسلام کو قبول کر لیا۔ ایک عرصے سے یہودیوں کو اس سرزمین میں داخل ہونے کی اجازت نہ تھی۔ اسلام کی برکت سے انھیں بھی اس سرزمین میں داخل ہونے اور اپنے مذہب پر آزادی سے عمل کرنے کا موقع ملا۔ وہ لوگ جو مسیحی رہ گئے تھے وہ بھی آزادی سے اپنی مذہبی رسوم کو ادا کرتے تھے۔ آہستہ آہستہ اس سرزمین پر مسلمانوں کی تعداد دوسرے مذاہب کی نسبت بہت زیادہ ہوگئی۔ البتہ صدیوں دیگر مذاہب کے ماننے والے نہایت آزادی کے ساتھ یہاں اپنی عبادات انجام دیتے رہے، یہاں تک کہ مغربی استعماری طاقتوں اور صہیونیوں کے اشتراک اور سازش کے نتیجے میں ترکی میں عثمانی خلافت کے خاتمے کے بعد سرزمین فلسطین پر زبردستی اسرائیل کے نام سے ایک ریاست قائم کر دی گئی۔
 
مسلمانوں کی زمینیں دھونس، دھاندلی،خوف اور ہراس پیدا کرکے ہتھیا لی گئیں۔ مسلمانوں کی کثیر آبادی کو یہاں سے زبردستی بے دخل کر دیا گیا۔ یہودی جن کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر بھی نہ تھی اس سرزمین کا اقتدار ان کے حوالے کر دیا گیا اور ان کی آبادی کو بڑھانے کے لیے ایک عالمی منصوبے کے تحت پوری دنیا سے یہودیوں کو مذہبی انتہا پسندی کو فروغ دے کر اسرائیل میں جا کر آباد ہونے کے لیے تیار کیا گیا۔ یہاں تک کہ اس سرزمین پر یہودیوں کی تعداد لاکھوں میں پہنچ گئی۔ آج بھی فلسطینیوں کی اکثریت اپنے ملک سے باہر دربدر کی ٹھوکریں کھا رہی ہے اور اپنے گھروں کو واپس جانے کے لیے بے قرار ہے، لیکن انسانی حقوق کے نام نہاد چیمپئن اسرائیل کے پشت پناہ ہیں۔
 
اسرائیل چونکہ ظلم و ستم اور تخویف و تحریص کی پیداوار ہے اس لئے وہ قائم بھی انہی ہتھکنڈوں کے ذریعے رہ سکتا ہے۔ اسرائیل اس علاقے میں اگرچہ آبادی کے لحاظ سے چھوٹا سا ملک ہے اور اس کا رقبہ بھی بہت مختصر ہے لیکن اسے اتنا اسلحہ دیا گیا ہے کہ وہ بارود کے ایک ڈھیر میں تبدیل ہوچکا ہے۔ اسرائیل غیر اعلانیہ طور پر ایک ایٹمی طاقت ہے۔ ارد گرد کے ممالک کو بڑی طاقتیں اسرائیل سے ہمیشہ خوفزدہ رکھنے کی کوشش کرتی ہیں۔ علاوہ ازیں سلطنت عثمانیہ کو پارہ پارہ کرنے کے بعد مسلمان خطوں کو چھوٹے چھوٹے ملکوں میں تقسیم کرکے استعماری طاقتوں نے ان پر خاندانی حکومتیں مسلط کر دیں۔ اس طرح یہ تمام خطے کمزور بھی ہوگئے اور بالواسطہ استعماری شکنجوں میں بھی کسے گئے۔
 
آج بھی مغربی استعمار کے پسندیدہ خاندان علاقے کے بیشتر ملکوں پر مسلط ہیں۔ امریکہ کے بحری بیڑے، ہوائی اڈے اور زمینی فوج کی بہت ساری چھاؤنیاں اس علاقے میں موجود ہیں۔ ان کی موجودگی کا بنیادی مقصد سٹیٹس کو (Status quo) کو برقرار رکھنا اور اسرائیل کے تحفظ کو یقینی بنانا ہے، تاکہ اس فضا سے استفادہ کرتے ہوئے اس علاقے کے وسائل پر قبضہ مضبوط سے مضبوط بنایا جاسکے۔ قدرتی وسائل سے مالا مال اس خطے کے بیشتر وسائل آج امریکی اور دیگر مغربی کمپنیوں کے ہاتھ میں ہیں۔ اگر یہ فضا تبدیل ہو جائے اور اس علاقے میں عوامی منشاء کے مطابق حکومتیں قائم ہو جائیں تو پھر نہ فقط یہ وسائل ان عوام کو واپس مل جائیں گے بلکہ اسرائیل کی مسلط کردہ ریاست بھی تحلیل ہو جائے گی۔ 

اس سارے پس منظر کو سمجھنے کے بعد یہ بات سمجھنا آسان ہو جاتا ہے کہ امریکہ اور اس کے حواری کیوں چاہتے ہیں کہ خطے میں عوام کی مرضی کی کوئی تبدیلی اور حقیقی اسلام پسند کوئی حکومت برسراقتدار نہ آئے اور امریکہ کیوں اس بات کو یقینی بنانا چاہتا ہے کہ اسرائیل مخالف کوئی پارٹی یا گروہ خطے کے کسی ملک میں اقتدار اپنے ہاتھ میں نہ لے سکے۔ قطر، سعودی عرب، اردن، متحدہ عرب امارات وغیرہ میں خاندانی حکومتوں کی بقاء میں امریکہ کی دلچسپی اور ان ملکوں میں موجود امریکی فوجی اڈے اسی امر کی حکایت کرتے ہیں۔ ان ملکوں کے گیس اور پٹرول کے بیشتر وسائل امریکی اور دیگر استعماری ملکوں کی کمپنیوں کے ہاتھ میں ہیں۔ جو ایک حصہ حکمران خاندانوں کو دے کر بیشتر ہڑپ کر جاتی ہیں، یا جن سے مغرب کے شہر روشن ہوتے ہیں اور مغربی سرمایہ دار نظام قوی سے قوی تر ہوتا چلا جاتا ہے۔
 
علاقے میں امریکہ کے دوست بیشتر حکمرانوں نے اسرائیل کو تسلیم کر رکھا ہے۔ جنھوں نے اعلانیہ تسلیم نہیں کیا، ان کے بھی اسرائیل کے ساتھ زیر زمین بہت اچھے تعلقات ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اسرائیل کے خلاف اگرچہ کبھی کبھار عوام کے اطمینان کے لیے زبانی بیان تو دیتے ہیں لیکن عملاً کبھی بھی انھوں نے اسرائیل کے خلاف ایک قدم تک نہیں اٹھایا۔ دوسری طرف اگر علاقے میں کوئی ایسی تبدیلی سر اٹھاتی ہے جس سے اسرائیل کو کوئی دور دراز کا بھی خطرہ درپیش ہوسکتا ہے تو امریکہ اس کا رسک لینے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ مصر میں اخوان المسلمین کی حکومت کا خاتمہ اسی حقیقت سے نقاب پلٹتا ہے اور شام میں بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے لیے جاری فساد کا بنیادی مقصد بھی یہی ہے کیونکہ سب جانتے ہیں کہ اخوان المسلمین بنیادی طور پر دین دوست لوگوں کی تنظیم ہے اور اخوان سے وابستہ افراد اسرائیل کی صہیونی حکومت کو کسی صورت بھی دل سے قبول نہیں کرسکتے۔ شام کا ماضی بھی گواہ ہے کہ اس نے تمام تر دباؤ کا مقابلہ کرتے ہوئے اسرائیل کو ایک جائز ریاست تسلیم نہیں کیا بلکہ اسرائیل سے آزادی حاصل کرنے کے لیے سرگرم فلسطینی تنظیموں کا ہمیشہ سے مرکز رہا ہے۔ آج اسے اپنے اسی کردار کی سزا دی جا رہی ہے۔ 

اس پس منظر پر نظر رکھنے کے بعد ایک عام قاری آسانی سے یہ فیصلہ کرسکتا ہے کہ قبلۂ اول کی آزادی خطے میں موجود سٹیٹس کو کے خاتمے کے بغیر ممکن نہیں۔ حکمران عوام کی نہیں بلکہ کسی اور کی ترجمانی کرتے ہیں، جبکہ عوام کے دل اپنے فلسطینی بہن بھائیوں کے ساتھ دھڑکتے ہیں اور وہ اپنے قبلۂ اول کی آزادی کے لیے ایک بھرپور تحریک چلانے کے لیے ہمہ وقت تیار ہیں۔ ان عوام کو دیگر مسائل کی طرف جھونکنا درحقیقت اسرائیل کے تحفظ کا ایک شاخسانہ ہے۔ عرب و عجم کے مسائل، اخوان و سلفیت کے جھگڑے، شیعہ سنی تشنج اور اسلام کے اکابر کی قبور کا انہدام سب اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ مسلمان عوام کو ان ساری سازشوں کو سمجھ کر اپنا دامن ان سے بچانا ہوگا۔ 

اگر مسلمانوں کو کبھی حق و باطل میں تمیز مشکل ہو جائے تو ہماری رائے میں عصر حاضر میں اس کا معیار یہ ہے کہ دیکھا جائے کہ کون حقیقی طور پر اسرائیل کی صہیونی ریاست کے خلاف سینہ تان کر کھڑا ہے اور کون اس کے آقاؤں کا کاسہ لیس ہے۔ اسی طرح سے ہر وہ شخص، گروہ یا حکومت جو مسلمانوں کی صفوں میں انتشار کے درپے ہو وہ یقینی طور پر اسرائیل کے مفادات کے لیے سرگرم عمل ہے اور جو مسلمانوں کی وحدت کا عَلم بلند کرے، درحقیقت وہ اسلام کا حقیقی ترجمان ہے۔ لہٰذا تکفیریت اور اختلاف کی ہر تحریک اور ہر نعرہ بالواسطہ یا بلاواسطہ اسرائیل کو تقویت پہنچاتا ہے اور مسلمانوں کی کمر میں چھرا گھونپنے کے مترادف ہے۔ مسلمانوں کا اتحاد و وحدت اور اسرائیل کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار بننا ہی قبلہ اول کی آزادی کا خواب پورا کرسکتا ہے۔
خبر کا کوڈ : 286428
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش