1
0
Saturday 3 Aug 2013 15:48

فلسطین پیمانہ حق و باطل!

فلسطین پیمانہ حق و باطل!
تحریر: بہلول بلتی

عالم اسلام میں پہلی مرتبہ عالمی صیہونیزم کے خطرناک عزائم کا ادراک کرتے ہوئے انقلاب اسلامی ایران کے بانی و رہبر کبیر حضرت امام خمینی (رہ) نے مظلوم فلسطینیوں کی بین الاقوامی حمایت کے حصول اور زندہ ضمیر انسانوں کو جھنجھوڑنے کے لئے رمضان مبارک کے آخری جمعہ کو یوم القدس قرار دینے کا اعلان کیا۔ آج سے تین عشرہ قبل بانی انقلاب اسلامی کی جانب سے کئے گئے اس اعلان کو اب عالمی سطح پر پذیرائی مل چکی ہے جبکہ دوسری طرف اسرائیل اور اسکے سب سے بڑے حمایتی امریکہ اور مغربی دنیا کے صیہونی ایجنٹ حکمرانوں کے ساتھ مشرق وسطیٰ اور مسلم ممالک میں حکمران امریکہ کا امن سکون بھی روز بہ روز غارت ہوتا جا رہا ہے۔ اسی لئے حضرت امام خمینی (رہ) نے فرمایا تھا کہ یوم القدس یوم الاسلام ہے کہ جس کے ذریعے مظلوم فلسطینیوں کو صیہونی چنگل سے آزادی دلائی جا سکتی ہے۔ امام خمینی (رہ) کی جانب سے یوم القدس کے اعلان سے قبل اسرائیلی یہودی ریاست، عالمی صیہونی عزائم اور اس کے دوررس خطرناک اثرات کے بارے میں عالم اسلام میں آگہی نہ ہونے کے برابر تھی۔ جبکہ عالم اسلام کے قلب میں اس ناجائز اور سرطانی ریاست کو قائم ہوئے کئی عشرے گزر چکے تھے۔ دراصل عالمی استعمار اور استثمار کی ڈیڑھ صدی سے قبل یہ سازش جاری تھی کہ قدرتی، معدنی اور سیاسی وسائل کے لحاظ سے مالا مال مشرق وسطیٰ پر کنڑول حاصل کر کے باالاخر پوری دنیا پر اپنی حکومت قائم کریں۔ اس مقصد کے لئے عالمی صیہونی سازش کاروں نے دوسری جنگ عظیم برپا کر کے " ہولوکاسٹ" کا افسانہ اس منظم انداز سے تراشا کہ ساری دنیا یہودیوں پر ہٹلر اور نازیوں کے ہاتھوں ہونے والے افسانوی ظلم و ستم کا قائل ہو گیا۔

اسی جھوٹی ہولوکاسٹ کے افسانے کو بنیاد بنا کر ساری دنیا کے یہودیوں کو ایک منظم سازش کے تحت مشرق وسطیٰ کے قلب یعنی فلسطین میں جمع کیا گیا اور وہاں ان صیہونی مہاجرین کو اس طرح منظم اور طاقتور بنا دیا گیا کہ مقامی فلسطینی مسلمان انکے مقابلے میں کمزور ہو کر در بدر کی ٹھوکریں کھانے لگے۔ جبکہ اعلان بالفور کے تحت 1948ء میں صیہونی ریاست اسرائیل کو سراسر غیر قانونی طور پر فلسطین میں قائم کیا گیا۔ اپنے ناجائز قیام سے اب تک یہ ریاست امریکہ اور مغربی دنیا کی مکمل سرپرستی اور مشرق وسطیٰ میں قائم ایجنٹ حکومتوں کی مدد سے سرطانی غدود کی طرح اپنی حدود اور سرحدوں کو پھیلانے میں مصروف ہے اور اب وہ عظیم تر اسرائیل کا راگ بھی الاپنے لگا ہے۔ ایران کے انقلابی دانشوروں کا یہ اعتراض اب دنیا بھر میں تسلیم کیا جانے لگا ہے کہ ہولوکاسٹ کا افسانہ مکمل طور پر جعلی ہے اور اگر جرمنی، آسٹریا، ہنگری یا یورپ کے کئی علاقوں میں یہودیوں پر ظلم ہوا ہے تو اس ظلم کی تلافی کے لئے یہودیوں کیلئے الگ ریاست یورپ کے اپنی ممالک میں قائم ہونا چاہیئے تھی جہاں پر انہیں ظلم کا نشانہ بنایا گیا۔ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ یہودیوں پر ظلم جرمنی میں ہو اور اس کی تلافی کے لئے ریاست فلسطین میں تشکیل دی جائے۔ آج مسلمانوں کی تسلسل کے ساتھ بڑھتی ہوئی بیداری اور اس میں انقلاب اسلامی ایران کی ہمہ جہتی فعالیت سے خوفزدہ ہو کر اسرائیلی اور امریکی کارپردازوں نے نہ صرف ایران اور تشیع کے خلاف پوری دنیا میں محاذ کھڑا کر دیا ہے بلکہ پورے عالم اسلام میں فرقہ وراریت اور نسلی و لسانی اختلافات کو ہو ادینے کیلئے اربوں ڈالر خرچ کرنا شروع کر دیئے ہیں۔

اپنے مقاصد کے حصول کے لئے اور عالم اسلام کو کمزور کرنے کیلئے القائدہ اور طالبان جیسے تکفیری گروہ تشکیل دے کر جہاں ایک طرف عالمی سطح پر اسلام کو بدنام کرنے میں کامیابی حاصل کر رہا ہے تو دوسری طرف مسلمان ممالک میں فرقہ واریت کی آگ بھڑکا کر عام مسلمانوں کے قتل عام کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ ان تکفیریوں نے امریکی صیہونی پشت پناہی کے علاوہ سعودی، قطری اور ترک حکومتوں کے مدد سے نائجیریا، مال، الجزائر، تیونس، عراق، افغانستان، پاکستان اور شام میں فرقہ واریت کی آگ لگائی ہوئی ہے۔ خصوصاً شام جو کہ صیہونیت کے خلاف فرنٹ لائن کا مورچہ سمجھا جاتا تھا کو کمزور کرنے کیلئے دنیا بھر سے تکفیری گروہوں کو جمع کرکے بشارالاسد کی حکومت کے خلاف ۵ سال سے خون ریزی کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ اس کے لئے لیبیا، سعودی عرب کے بعد اب پاکستان سے بھی جیلیں منظم انداز سے توڑ کر سینکڑوں تکفیری دہشت گرد قیدیوں کو چھڑا کر شام لے جایا جا رہا ہے۔ جس کی واضح مثال ڈی آئی خان جیل کی من گھڑت کہانی ہے۔

اس صورتحال میں جب مسلم دنیا میں آگ لگانے اور فرقہ ورانہ جنگ و جدل برپا کرنے کے لیے صیہونی اور مغربی دنیا اور ان کے مقامی ایجنٹ حکمران طبقہ پہلے سے زیادہ سرگرم ہو چکا ہے۔ یوم القدس کی اہمیت پہلے سے کہیں بڑھ گئی ہے، یوم القدس کے ذریعے نہ صرف دنیا کے مسلمانوں کو صیہونی عزائم کے خلاف بیدار کیا جا سکتا ہے بلکہ یورپ اور امریکہ میں باضمیر اور انسانیت کا درد رکھنے والے عیسائی اور صیہونی نظریے کے مخالف یہودی بھی یوم القدس کے ان جلوسوں میں شریک ہو کر نہ صرف لاکھوں مظلوم فلسطینیوں کی حمایت کرنے لگے ہیں بلکہ عالمی سطح پر امریکی استعمار اور صیہونی ناپاک عزائم کو آشکار تر بنانے اور دنیا بھر کے مظلوموں کی حمایت پر کمر بستہ نظر آنے لگے ہیں۔ غزہ کے پندرہ لاکھ مظلوم فلسطینیوں کے اسرائیلی محاصرہ کے خلاف عالمی رائے عامہ ہموار کرنے میں بھی یوم القدس کے جلوسوں کا ایک مسلمہ کردار رہا ہے۔ موجودہ عالمی حالات و واقعات کے تناظر میں یوم القدس ایک ایسا پیمانہ بنتا جا رہا ہے کہ جس سے ہر کوئی واضح شناخت کر سکتا ہے کہ کون کونسے ممالک اور کون کون سے مذہبی گروہ یا فرقے صیہونی اور امریکی ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں۔ آج دنیا کے ساتوں بر اعظموں میں بسنے والے انصاف پسند افراد بلااستثنائے رنگ و نسل و مذہب یوم القدس کی ریلیوں میں شریک ہو کر ظلم و ستم اور نسلی تفریق کی علامت اسرائیل اور امریکہ کے خلاف نفرت کا اظہار کر رہے ہیں جبکہ ایک طبقہ ان کا بھی ہے جو یوم القدس کی مخالفت کرکے صیہونی اسرائیلی امریکی استعمار، مغربی استکبار اور انکے ایجنٹ مقامی حکمران سے وفاداری میں سرتا پا غرق نظر آتے ہیں۔ یوم القدس کے اس عالمی پیمانے اور معیار کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہے کہ ہم اپنے آپ کو کس طبقے سے منسلک کرنا چاہتے ہیں، صیہونی یا اسلام محمدی۔۔۔۔۔
خبر کا کوڈ : 289421
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
nice
ہماری پیشکش