0
Thursday 5 Dec 2013 01:06

دہشتگردی اور شیعہ سنی اتحاد

دہشتگردی اور شیعہ سنی اتحاد
تحریر: تصور حسین شہزاد

ہمارے ملک کی بدقسمتی ہے یا کیا ہے کہ جب بھی یہاں امن کی راہ کھلنے لگتی ہے کوئی نہ کوئی ایسی اندوہناک واردات ہو جاتی ہے کہ دل دہل جاتے ہیں۔ ملک بھر میں سکیورٹی کے سخت ترین انتظامات کے باوجود وارداتیں ہیں کہ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہیں۔ سانحہ راولپنڈی کی مثال ہی لے لیجئے، نہتے عزاداروں پر پتھراؤ کیا گیا اور پھر ایسا گھمسان کا رن پڑا کہ آن کی آن میں پوری مارکیٹ کو جلا کر راکھ کر دیا گیا۔ اس میں جو بھی بیرونی قوت تھی اس نے انتہائی منظم انداز میں واردات کی۔ الزام نہتے عزاداروں پر آ گیا اور اب تک تین سو سے زائد بےگناہ لوگوں کو پکڑ کر سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا گیا ہے۔ راولپنڈی سے شروع ہونے والا سلسلہ وہیں نہیں رکا بلکہ مزید دو تین شہر بھی اس کی لپیٹ میں آ گئے اور اب یہ آگ پھیلتے ہوئے کراچی میں پہنچ گئی ہے۔ کراچی ایک بار پھر لہو رنگ ہے۔

پاکستان کا معاشی حب کراچی ایک مرتبہ پھر خون میں نہلایا جا رہا ہے۔ اس مرتبہ تخریب کار عناصر فرقہ وارانہ فسادات کی آگ بھڑکانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ گذشتہ روز شہر کے مختلف علاقوں میں ٹارگٹ کلنگ کے متعدد واقعات میں مجلس وحدت المسلمین کراچی ڈویژن کے سیکرٹری جنرل اور تبلیغی جماعت کے ارکان سمیت پندرہ سے زیادہ افراد کو موت کی وادی میں دھکیل دیا گیا۔ اہم بات یہ ہے کہ تبلیغی جماعت کے قتل ہونیوالے افراد میں 2 کا تعلق مراکش سے تھا جو رائیونڈ کے تبلیغی اجتماع میں شرکت کے بعد گذشتہ روز ہی کراچی پہنچے تھے، جہاں وہ اپنی تبلیغی جماعت کے دیگر لوگوں کے ہمراہ مسجد کے باہر کھڑے ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بن گئے۔ واقعہ کے نصف گھنٹے بعد سخی حسن چورنگی کے قریب کچھ نامعلوم افراد نے ایک ڈبل کیبن گاڑی پر فائرنگ کر کے پانچ افراد کو موقع پر قتل کر دیا جس پر شہر بھر میں سراسیمگی اور خوف کی لہر دوڑ گئی۔ بیشتر علاقوں جن میں ابوالحسن اصفہانی روڈ، انچولی سوسائٹی، سمن آباد، سہراب گوٹھ، ملیر، کھوکھرا پار سمیت کئی علاقوں میں نامعلوم افراد نے فائرنگ کر کے دکانیں بند کرا دیں۔ شاہراہ پاکستان، نیشنل ہائی وے، شاہراہ فیصل، سپر ہائی وے سمیت شہر کی بیشتر شاہراہوں پر بدترین ٹریفک جام رہا اور پورا شہر ہنگاموں کی لپیٹ میں آ گیا۔

یہ صورتحال خاص طور پر غیرملکی باشندوں کی ہلاکت کا سانحہ پورے پاکستان کیلئے نہایت تشویش کا باعث ہے۔ وزیراعظم میاں محمد نوازشریف نے ابھی کچھ روز پہلے ہی اس خوش گمانی کا اظہار کیا تھا کہ کراچی میں جاری آپریشن کے مثبت نتائج سامنے آ رہے ہیں اور جلد ہی اس شہر کی رونقیں بحال کر دی جائیں گی۔ وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان بھی اسی قسم کے امید افزاء بیانات دیتے رہے کہ کراچی کو بہت جلد جرائم پیشہ عناصر سے پاک کر دیا جائے گا مگر گذشتہ روز رونما ہونیوالے واقعات حکومت اور دیگر پاکستانیوں کی امیدوں پر اوس ڈالنے کیلئے کافی ہیں۔ حالانکہ کراچی کو جرائم پیشہ عناصر سے پاک کرنے کیلئے رینجرز کو خصوصی اختیارات تفویض کر کے منفی عناصر کا قلع قمع کرنے کیلئے فری ہینڈ دیا گیا اور ساتھ ہی جدید ترین گاڑیوں اور ہتھیاروں سے مسلح کر کے یہ ذمہ داری سونپی گئی ہے کہ وہ بلا خوف و خطر پاکستان کی معاشی حب کو بچانے کیلئے آخری حد تک جانا چاہے تو جائے لیکن حالات اس بات کے غماز ہیں کہ پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنیوالے عناصر پاکستان کو بچانے والی سکیورٹی ایجنسیوں سے زیادہ منظم انداز میں کارروائیوں میں مصروف ہیں۔

اس سلسلے میں آئی جی سندھ کا یہ انکشاف مزید چونکا دینے والا ہے کہ کراچی میں افغانستان کی طرح جنوبی افریقہ کی غیرقانونی سمیں بھی استعمال کی جا رہی ہیں۔ حال ہی میں عدالت عظمیٰ نے کراچی رجسٹری میں شہر کی امن عامہ کی صورتحال پر ازخود نوٹس کے تحت کارروائی کے دوران حکومت کو ہدایت کی تھی کہ ملک بھر میں غیرقانونی سموں کا فوری طور پر سدباب کیا جائے کیونکہ جرائم کی افزائش میں ان کا استعمال پاکستان کیلئے نہایت مہلک ثابت ہو رہا ہے۔ پہلے تو صرف افغانستان کے حوالے سے ہی یہ غیرقانونی سمیں استعمال کی جا رہی تھیں مگر آئی جی سندھ کا جنوبی افریقہ کی غیرقانونی سمیں استعمال کرنے کا انکشاف وزارت داخلہ کیلئے ایک کھلا چیلنج ہے کیونکہ کراچی میں سماج دشمن عناصر جس طرح اپنی مجرمانہ سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں ان کے راستے میں بند باندھنے کیلئے وفاقی و صوبائی حکومتوں کو زیادہ عرق ریزی کے ساتھ چوکنا ہو کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ شہر میں جاری آپریشن اس وقت تک مکمل طور پر کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو سکتا جب تک ان عناصر کی سرپرستی کرنے والوں پر ہاتھ نہیں ڈالا جاتا۔

اطلاعات ہیں کہ کراچی شہر میں امن عامہ خراب کرنے کے درپردہ وہ ہاتھ ہیں جن کی شناخت قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کو تو ہے مگر وہ نادیدہ قوتوں کے دباؤ پر ان ہاتھوں کو جکڑنے سے عاجز ہیں۔ کراچی میں بھتہ خوری، اغواء برائے تاوان اور دن دیہاڑے لوٹ مار کے جرائم میں کراچی میں جاری آپریشن کے بعد کسی حد تک کمی آنے سے صورتحال کے بہتری کی طرف جانے کی امید تھی کہ گزشتہ روز فرقہ وارانہ فسادات کی آگ بھڑکانے کیلئے کی گئی وارداتوں کے باعث یہ امید دم توڑنے لگی ہے۔ بعض شرپسند عناصر کراچی میں مختلف فرقوں کے لوگوں کی دہشت گردوں کے ہاتھوں ہلاکت کے ڈانڈے راولپنڈی میں راجہ بازار میں ہونیوالے حادثے سے ملا رہے ہیں جو کہ سوائے شرانگیزی کے اور کچھ نہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ شہر کراچی میں دیگر مجرمانہ عناصر کیساتھ ساتھ طالبانائزیشن بھی اپنا کام دکھا رہی ہے جس کی طرف متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما الطاف حسین نے بھی اشارہ کیا۔ لیکن کراچی میں ٹارگٹڈ آپریشن کے دوران پکڑے جانے والے بہت سے ٹارگٹ کلرز کا تعلق مبینہ طور پر ایم کیو ایم سے بھی ملایا جا رہا ہے۔

آئی جی سندھ کا تازہ ترین بیان بھی اس بات کی نشاندہی کر رہا ہے کہ بڑی بڑی جماعتوں سے وابستہ افراد جرائم پیشہ سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔ ان کے بقول پانچ سو ثابت شدہ جرائم پیشہ افراد کا تعلق ایسی بڑی بڑی سیاسی جماعتوں سے ہے جو شہر پر اپنی سیاسی بالادستی کی جنگ لڑنے میں مصروف ہیں۔ گو کہ سکیورٹی ایجنسیاں ان لوگوں پر بلاتفریق ہاتھ ڈال رہی ہیں کہ پہلی بار پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت اور مسلم لیگ (ن) کی وفاقی حکومت باہمی رابطے کے ذریعے کراچی کو جرائم پیشہ عناصر سے پاک کرنے کے عزم سے سرشار ہو کر کام کر رہی ہیں۔ اسی تناظر میں سکیورٹی ایجنسیوں کے سربراہان بار بار دیگر سیاسی جماعتوں سے بھی تعاون کے طلب گار ہیں اور یہ خواہش رکھتے ہیں کہ اگر ساری سیاسی جماعتیں جرائم پیشہ عناصر سے لاتعلقی کا برملا اظہار کر دیں اور جرائم میں ملوث افراد کو پناہ دینے سے گریز کریں تو انسداد دہشت گردی کی نئی عدالت بننے سے جرائم پیشہ عناصر کے خلاف مقدمات چلانے میں مدد مل سکتی ہے۔

کراچی کی بدترین صورتحال کے تناظر میں سپریم کورٹ آف پاکستان پہلے ہی اپنی فائنڈنگز میں کہہ چکی ہے کہ شہر میں جرائم کی شرح میں ہونے والا اضافہ سیاسی جماعتوں سے وابستہ افراد کی کارستانی کا شاخسانہ ہے۔ اگر اس شہر کو امن کا گہوارا بنانا ہے تو سیاسی جماعتوں کو جرائم پیشہ عناصر کی سرپرستی سے ہاتھ کھینچنا ہوگا۔ دریں حالات فرقہ وارانہ فسادات کی سازش ناکام بنانے کیلئے مذہبی جماعتوں پر بھی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ حالات کا ادراک کریں اور ملک دشمن عناصر کے پھیلائے ہوئے جال میں آنے کی بجائے ان کی مذموم سازشیں ناکام بنانے کے لئے عامتہ الناس کو بیدار کریں۔ پاکستان میں کئی برسوں سے شیعہ سنی فساد کروانے کی مکروہ سازشیں ہوتی رہی ہیں مگر عوام کے درمیان مذہبی رواداری اور ہم آہنگی کی وجہ سے بحمدللہ یہ سازشیں ہمیشہ ناکام بنائی جاتی رہیں۔ اب بھی انشاءاللہ ایسا ہی ہو گا۔۔۔!!
خبر کا کوڈ : 327496
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش