0
Saturday 8 Feb 2014 22:14

انقلاب اسلامی میں خواتین کا کردار

انقلاب اسلامی میں خواتین کا کردار
تحریر: سیدہ گل زہرا 

انقلاب اسلامی کے برپا ہونے سے قبل شہنشاہ ایران کی جانب سے سفید انقلاب برپا کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ علماء کی جانب سے رضا شاہ پہلوی کے ان اقدامات اور فیصلوں کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا جو کہ قطعی طور پر اسلام کے منافی تھے۔ شاہ ایران کی روش میں کوئی تبدیلی رونما نہ ہوئی اور دوسری جانب علماء کی قیادت میں عوام باطل نظام سے بیزاری کا شدت سے اظہار بھی کرچکے تھے۔ پہلوی نے اسلام پسند عوام کو اپنے محور سے ہٹانے کے لیے سفید انقلاب کے نام سے 16 نکاتی پروگرام پیش کیا جس میں عوام کو اس کے اپنے اثاثوں میں سے کچھ حصہ دینے کی حامی بھری گئی۔ امام خمینی رہ نے دیگر علماء کی مشاورت کے بعد اس پروگرام کو یکسر مسترد کردیا۔ 6 جون 1963ء رات 3بجے کی تاریکی میں بدنام زمانہ ساواک غنڈے اپنی پوری طاقت کے ساتھ قم کے اس گھر میں داخل ہوئے جہاں ایران کے نصیب کی روشن صبح نماز شب کا اہتمام کئے ہوئے تھی۔ شاہ کی فورسز نے امام خمینی کو گرفتار کرکے راتوں رات تہران منتقل کر دیا۔ الزام یہ تھا کہ امام خمینی کے 3دن پہلے کے دیئے گئے خطبے کی وجہ سے ایک لاکھ سے زائد لوگوں نے شہنشاہ ایران کے محل کے گرد گھیرا ڈالنے کی کوشش کی تھی اور مجبوراً سرکاری فورسز کو ان پر طاقت کا استعمال کرنا پڑا تھا۔ ساواک کے درندہ صفت غنڈوں نے امام خمینی پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ آپ کیسے شہنشاہ کا مقابلہ کریں گے، آپ کی فوج کو تو تین دن پہلے ہماری فوج نے بڑی حد تک مجروح کردیا ہے۔ جواب میں امام خمینی نے ایک تاریخی جملہ ادا فرمایا ’’میری فوج ابھی ماؤں کی گود میں ہے‘‘ دنیا نے اس بلیغ جملے کا اثرکچھ ڈیڑھ عشرے بعد اپنی نظروں سے یوں دیکھا کہ امام خمینی کی فوج فتحیاب ہو چکی تھی اور شہنشاہ اپنے تمام تر غرور و کروفر کے ہمراہ سرنگوں ہو چکا تھا۔

آج مغرب اور سامراج کی جانب سے ایرانی خواتین اور معاشرے میں ان کے کردار کے حوالے سے منفی تاثر ابھارنے کی کوششیں جاری ہیں۔ کیا ان کو امام خمینی کے اس تاریخی جملے میں معاشرے کے اندر خواتین کے کردار کی وضاحت نہیں ملتی۔ کیا انہیں دکھائی نہیں دیتا کہ انقلاب سے تقریباً 16 سال قبل ہی امام خمینی نے اسلامی معاشرے میں خواتین کے آئیڈیل کردار کا تعین کردیا تھا۔ کیا انہیں یہ بھی سمجھ میں نہیں آتا کہ امام خمینی کا یقین فتح ان بچوں سے وابستہ نہیں تھا جو کہ مستقبل میں اپنی ذمہ داریوں سے نابلد تھے بلکہ فقط ان ماؤں سے وابستہ تھا جن کی گودمیں یہ بچے موجود تھے۔ چونکہ مستقبل شناسی امام خمینی کی شخصیت کا بنیادی وصف تھی لہذا امام جانتے تھے کہ جو مائیں اپنے شیر خوار بچوں کے ہمراہ شاہ کے ظالم سپاہیوں کے سامنے ڈٹ جانے کا حوصلہ رکھتی ہیں وہی اسلامی خطوط پر تربیت کرکے ایسی نسل تیار کرسکتیں ہیں جو نہ صرف انقلاب برپا کریں بلکہ اس انقلاب کی محافظت بھی احسن طریقے سے کر سکیں۔ ان ماؤں نے تربیت کرکے امام کی ایسی فوج تیار کی جس پر طاغوت و سامراج کا کوئی حربہ اثرانداز نہ ہوا۔ یہاں تک ماؤں کی صورت میں خواتین امام خمینی کے یقین فتح کی ایک علامت نظر آتی ہیں۔ اس کے بعد خواتین کا کردار امام کی فوج کے روپ میں جا بجا ملتا ہے جس کی بنیادی وجہ شائد یہی ہے کہ جب امام نے فرمایا ’’میری فوج ابھی ماؤں کی گودمیں ہے ‘‘ تو اس وقت ماؤں کی گود میں صرف پسر نہیں تھے بلکہ ان میں دختران بھی تھیں۔ یہی دختران امام کی فوج کا حصہ بنیں۔ انقلاب کے برپا کرنے میں، انقلاب کی کامیابی میں اور انقلاب کی محافظت میں یہ دختران ہر میدان میں شانہ بشانہ رہیں۔ انقلاب کے برپا ہونے میں شہنشاہ کے جلاد صفت محافظوں کے ہر قسم کے مظالم سہنے کے بعد بھی ثابت قدم رہیں، ایران عراق جنگ میں محاذ، مکان ،ہسپتال ان کے بلند حوصلوں کے گواہ بنے۔ امور خانہ ادا کرنے کے ساتھ ساتھ رضاکارانہ خدمات کا ایک الگ باب رقم کیا۔

عصر حاضر میں انقلاب کے ثمرات اور ایرانی خواتین کے کردار کا جائزہ لیں تو چند حقائق اظہر من الشمس ہیں۔ انقلاب سے قبل خواتین کی شرح خواندگی کا تناسب 34 فیصد تھا۔ آج 5 سے 32 سال تک کی خواتین میں شرح خواندگی کا تناسب 96.6فیصد ہے۔ ایک اور رپورٹ کے مطابق خواندہ خواتین میں 64 فیصد گریجویشن کرتی ہیں۔ پہلوی دور میں جو خواتین فقط سامان عشرت تھیں آج ٹیکسی ڈرائیور سے لیکر ہائی پروفیشنل جابز تک قومی دھارے میں شامل ہیں اور فلمسازی کے میدان سے لیکر اولمپک کھیلوں کے میدانوں تک شرعی پردے میں موجود رہتے ہوئے دنیا کے لیے باعث حیرت بنی ہوئی ہیں۔ دوسری طرف انہی خواتین کے فکری معیار کو مدنظر رکھیں تو چند خوشنما احساسات بھی جنم لیتے ہیں۔ آج کے ایران میں جابز کرنے والی فقط 15 فیصد خواتین ایسی ہیں جو میک اپ کا استعمال کرتی ہیں جو کہ خلیج میں کم ترین ہے۔ جبکہ دنیا میں فقط ان ممالک کے مقابلے میں جو قحط کا شکار ہیں کے مقابلے میں یہ شرح زیادہ ہے۔ طب کے شعبہ میں ایرانی خواتین کی تعداد میں انتہائی تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ اعدادوشمار اس امر کی دلیل ہیں کہ جس انقلاب کے برپا کرنے میں خواتین نے بنیادی کردار ادا کیا۔ اسی انقلاب نے ان کے حقوق کی ادائیگی میں غفلت نہیں برتی بلکہ ان کو مختلف شعبہ ہائے زندگی میں کردار ادا کرنے کے کلیدی مواقع فراہم کئے۔

معاشرے میں خواتین کے کردار و اہداف سے متعلق رہبر معظم فرماتے ہیں کہ ’’ایک ہدف یہ ہے کہ ہم عورت کے اس کے کمال تک پہنچنے کے لئے خود اپنے وجود کو بروئے کار لائیں، جدوجہد کریں، موانع سے مقابلہ کریں، قلم اٹھائیں اور گفتگو کریں۔ یعنی عورت معاشرے میں اولاً اپنے انسانی اور حقیقی حق کو پائے، ثانیاً اس کی استعداد و صلاحیتیں پروان چڑھیں، وہ اپنے حقیقی اور انسانی رشد کو حاصل کرے، نتیجے میں اپنے انسانی کمال تک پہنچے اور معاشرے میں ایک انسان کامل کی صورت میں ظاہر ہو۔ ایک ایسا انسان جو اپنے معاشرے اور عالم بشریت کی ترقی و بہبود کے لئے قدم اٹھائے اور اپنی محدود توانائی کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنی اس دنیا کو خوبصورت جنت اور بہشت بریں میں تبدیل کر دے۔ دوسرا ہدف یہ ہے کہ ہم اپنی اس گفتگو، جدوجہد اور اس مقابلہ کرنے کی وجہ سے چاہیں کہ ان دو جنس، مرد و عورت کے درمیان جدائی، رقابت اور نزاع کی حالت میں پیدا کریں اور رقابت و دشمنی کی بنا پر ایک نئی دنیا کی بنیاد رکھیں۔ گویا اس انسانی معاشرے میں مرد ایک طرف ہیں اور خواتین ان کے مد مقابل اور یہ دونوں کسی نہ کسی مقام تک پہنچنے کے لئے آپس میں لڑ رہے ہیں اور خواتین یہ چاہتی ہیں کہ وہ یہاں مردوں پر غالب آ جائیں۔ کیا ہمارا ہدف یہ ہے؟ پس اس جدوجہد، حرکت یا پھر اس تحریک کے ہدف کے بارے میں دو قسم کے نظریات تصور کئے جا سکتے ہیں۔ ایک ہدف کا نظریہ اسلامی ہے جبکہ دوسرا ہدف، ناقص نظر سے متعلق ہے۔ مغربی ممالک میں ہونے والی اکثر کوششیں سب سے زیادہ اسی دوسرے ہدف کا نتیجہ ہوتی ہیں۔
خبر کا کوڈ : 349738
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش