1
0
Thursday 8 May 2014 23:18

فرقہ وارانہ دہشتگردی اور پاکستان

فرقہ وارانہ دہشتگردی اور پاکستان
تحریر: تصور حسین شہزاد

پاکستان پہلے دن سے ہی استعمار کی آنکھ کا کاٹنا بن گیا تھا، قائداعظم محمد علی جناح نے پاکستان کا مطلب کیا، لا الہ الا اللہ کا نعرہ لگا کر بہت سے ممالک کو پریشان کر دیا۔ اوپر سے پاکستان کا یہ تعارف کہ یہ اسلام کا قلعہ ہوگا، دنیا میں واحد ریاست ہے جو اسلام کے نام پر معرض وجود میں آئی، وغیرہ وغیرہ، تحریک آزادی کے مجاہدین کی جانب سے یہ نعرے جہاں مسلمانان ہند کے لئے دلکش تھے وہاں دشمنان اسلام کے لئے بھی خطرے کی گھنٹی تھے، اگر نہیں تھے تو بھی انہوں نے یہی سمجھ لیا تھا کہ مسلمانوں کی یہ ریاست معرض وجود میں آتے ہی ہاتھ میں تلوار تھام لے گی اور دنیا کو فتح کرنے چل پڑیں گے۔ اسی خوف کے تابع بہت سے دشمنان اسلام نے سر جوڑ لئے اور پاکستان کے خلاف سازشیں شروع ہو گئیں۔ پاکستان کے خلاف جہاں اور بہت سی سازشیں کی گئیں، وہاں سب سے بڑی اور موثر سازش یہود وہنود نے مل کر کی اور وہ فرقہ واریت تھی۔ اس سازش کو پاکستان میں اس وقت جلا ملی جب استعمار کے اپنے حکمرانوں نے زمام اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ پاکستان کی بدقسمتی کہ اسے ضیاءالحق جیسے آمر اور چاپلوس حکمران نصیب ہوئے، جنہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کی چاپلوسی کے ساتھ ساتھ امریکی حکمرانوں کے تلوے بھی چاٹے اور ان کی آشیر باد سے اپنے اقتدار کو گیارہ برسوں تک طول دیا۔

امریکہ کی ضرورت ختم ہوچکی تھی ورنہ ضیاءالحق مزید پاکستان پر آسیب کی طرح مسلط رہتا، امریکہ نے اپنے دو بندوں کی ’’زکواۃ‘‘ دے کر ضیاءالحق کو اس کے طیارے میں ہی راکھ کر ڈالا۔ پاکستان میں فرقہ واریت کے بیج ضیاءالحق نے 80 کی دہائی میں بوئے۔ جس کی فصل ہم آج 2014ء میں بھی کاٹ رہے ہیں۔ پاکستان میں فرقہ واریت کا آغاز 1983 میں کراچی سے ہوا، جب دیوبندی مکتب فکر کے دو مولویوں مولانا سمیع اللہ اور اسفند یار نے شیعہ مخالف سواد اعظم اہلسنت بنائی اور قتل و غارت کا سلسلہ شروع کر دیا۔ اس وقت ان مولویوں کو عراق اور سعودی عرب کی مالی حمایت حاصل تھی۔ اس کے فوری بعد اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے پنجاب کے ضلع جھنگ میں انجمن سپاہ صحابہ کی بنیاد رکھی گئی، جس کا بانی مولانا حق نواز جھنگوی تھا۔ مولوی جھنگوی چھوٹے قد کا مولوی تھا، جس نے اپنی شعلہ بیانی اور سرکاری سرمائے سے ملک بھر شیعہ کافر کا نعرہ پھیلایا۔ سپاہ صحابہ کی اس شیعہ کافر تحریک کا نتیجہ بہت بھیانک نکلا، کشمیر اور افغان جہاد کے نام پر آوارہ اور بے روزگار نوجوانوں کو عسکری تربیت دی جانے لگی اور وہ نوجوان ٹریننگ لینے کے بعد اہل تشیع کے قیمتی ترین افراد کو نشانہ بناتے، جن میں ڈاکٹرز، انجینئرز، پروفیسرز، سیاست دان اور بیوروکریٹ سمیت علماء کی کثیر تعداد شامل ہے۔

دہشت گردی کا یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔ افغان جہاد کی آڑ میں ملک میں ہیروین اور کلاشنکوف کلچر در آیا اور ملک میں خانہ جنگی کی فضا پیدا ہوگئی۔ دیوبندی مکتب فکر کے مدارس دہشت گردی کی ٹریننگ کے مراکز بن گئے اور جہاد کے نام پر شیعہ نسل کشی کی تربیت دی جانے لگی۔ اہل تشیع کی مساجد اور امام بارگاہوں کو خون میں نہلا دیا گیا، ایک ایک واردات میں 24، 24 افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ ملت جعفریہ کی قیادت نے لاشوں پر بھی امن کی بات کی اور پاکستان کی سلامتی کو مقدم سمجھا۔ شیعہ قیادت کی اسی امن پسندی نے ملت کے اندر اختلافات کو بھی جنم دیا۔ دہشت گردی کے عفریت نے ملک کو چولیں ہلا دیں۔ دہشت گردوں نے یہاں بس نہیں کی بلکہ اہل تشیع کے بعد ان کا رخ اہل سنت کی جانب ہوگیا۔ شیعہ کافر کے نعرے کے بعد ان کا اگلا ہدف سنی کافر تھا، دیوبندیوں کا یہ گروہ مزارات پر جانے کے عمل کو شرک تصور کرتا ہے اور اسی پاداش میں اہل سنت حضرات کے درجنوں درباروں اور مزاروں پر حملے کئے گئے۔ کراچی میں عبداللہ شاہ غازی کے دربار سے لاہور میں داتا دربار تک اہم درگاہوں پر بم دھماکے کرائے گئے۔ اب ان دہشت گردوں کا ہدف صرف شیعہ نہیں تھے بلکہ اہل سنت بھی تھے۔

دہشت گردوں کے عزائم دیکھتے ہوئے اہل سنت اور اہل تشیع نے باہمی اتحاد کا فیصلہ کیا اور دہشت گردی کا مشترکہ پلیٹ فارم سے مقابلہ کرنے کی ٹھانی گئی۔ اہل سنت کی جماعتوں کے اتحاد سنی اتحاد کونسل نے شیعہ جماعتوں کے پلیٹ فارم مجلس وحدت مسلمین کے ساتھ دہشت گردی کے خلاف اتحاد کیا۔ اب تک سنی اتحاد کونسل اور مجلس وحدت مسلمین کامیاب جلسے کرکے اپنی قوت کا مظاہرہ کرچکے ہیں۔ سنی اور شیعہ حضرات کے اس اتحاد نے جہاں دہشت گردی کے سامنے ایک بند باندھا ہے، وہاں انہوں نے دہشت گردوں کو بھی بے نقاب کیا ہے۔ شیعہ سنی اتحاد سے دہشت گرد ٹولہ بے نقاب ہوا ہے اور دنیا جان گئی ہے کہ کون سا مخصوص گروہ دشمنان اسلام و دشمنان پاکستان کے ہاتھوں میں کھیل رہا ہے۔ شیعہ سنی اتحاد سے ایک اور بات بھی واضح ہوگئی کہ فرقہ واریت کی لڑائی شیعہ سنی نہیں یا شیعہ دیوبندی لڑائی نہیں بلکہ یہ دیوبندی کی دیوبندی کے ساتھ لڑائی ہے، جس کا واضح ثبوت لاہور سے پکڑے جانے والے 6 ٹارگٹ کلرز ہیں، جنہوں نے شیعہ ڈاکٹر سید علی رضا اور شیعہ عالم دین علامہ ناصر عباس ملتان کو اپنی جارحیت کا نشانہ بنایا اور ساتھ ہی سپاہ صحابہ پنجاب کے صدر شمس معاویہ کو بھی قتل کر دیا، تاکہ فرقہ وارانہ فساد کی آڑ میں شیعہ علامہ ناصر عباس آف ملتان کا الزام دیوبندیوں اور دیو بندی علامہ شمس معاویہ کا الزام اہل تشیع پر دھر کر لڑتے رہیں۔ شمس معاویہ کے جنازہ میں یہی کچھ ہوا، مسلسل 4 گھنٹے شیعہ کافر کے نعرے لگتے رہے۔ انتظامیہ نے روکا نہ پولیس نے کوئی کارروائی کی۔

پاکستان دشمن قوتوں کے یہ آلہ کار اس وقت کوٹ لکھپت جیل ہیں، جنہیں شمس معاویہ کے ڈرائیور نے شناخت بھی کر لیا ہے کہ یہی وہ درندے تھے جنہوں نے سپاہ صحابہ پنجاب کے صدر کو اپنی گولیوں کا نشانہ بنایا۔ دہشت گردی کا یہ عفریت دوبارہ سر اٹھا رہا ہے اس مقصد کے لئے پاکستان دشمنوں نے کالعدم تحریک طالبان کو ٹاسک سونپا ہے۔ طالبان کا ایک رہنما اس بات کا اعتراف بھی کرچکا ہے کہ ہم فی الحال شام میں مصروف ہیں، وہاں سے فراغت کے بعد پاکستان میں اہل تشیع کو نشانہ بنائیں گے، یہی ہمارا جہاد ہے۔ تو اس جہاد میں اگر اہل تشیع نشانہ بنتے ہیں تو دوسرا ہدف اہل سنت ہوں گے۔ پاکستان میں فرقہ واریت کے خاتمہ کے لئے  1990ء میں قاضی حسین احمد کی کوششوں سے ملی یکجہتی کونسل کا وجود عمل میں لایا گیا، جس کے خاطر خواہ فوائد بھی حاصل ہوئے، اب بھی اس پلیٹ فارم کو زندہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اس حوالے سے جماعت اسلامی کے نئے سربراہ سراج الحق کے نظریات بھی قاضی حسین احمد سے ملتے جلتے ہیں، وہ اس حوالے سے بھی اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ 

پاکستان میں فرقہ واریت روکنے کے لئے حکومت کو بھی کردار ادا کرنا ہوگا۔ پاکستان میں کچھ عرب ملکوں کا بہت عمل دخل ہے، جو پاکستان کے مدارس کے ساتھ رابطے میں ہیں، اس حوالے سے ان عرب ممالک کے اپنے مفادات ہیں۔ حکومت کو ملکی بقا کے لئے ان عرب ممالک کے ساتھ واضح انداز میں بات کرنا ہوگی۔ اس حوالے سے اگر حکومت بیرونی مداخلت روکنے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو ملک میں امن قائم ہوجائے گا، بصورت دیگر کالعدم تحریک طالبان کی جانب سے جن عزائم کا اظہار کیا گیا ہے، اسکے نتائج بھیانک ہوسکتے ہیں۔ جہاں یہ حکومت کی ذمہ داری ہے، وہاں شیعہ سنی علماء کی بھی ذمہ داری میں اضافہ ہوجاتا ہے کہ وہ اپنے اپنے پیروکاروں میں برداشت کا شعور بیدار کریں اور دہشت گردوں کے خلاف نفرت پیدا کریں، تاکہ جن صفوں میں بھی شرپسند عناصر ہیں، وہ انہیں نکال باہر کریں۔ پاکستان ہمارا ملک ہے، جسے ہم نے بہت سی قربانیوں سے حاصل کیا ہے، اسے ہم کس طرح پلیٹ میں رکھ کر مٹھی بھر دہشت گردوں کے حوالے کر دیں۔ ہم اگر ہندو بنیا کے منہ سے یہ ملک چھین سکتے ہیں تو اس کی حفاظت بھی کرسکتے ہیں، جس کے لئے ہمیں انفرادی اور اجتماعی طور پر ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہوگا، سکیورٹی اداروں کو بھی شرپسندوں کی سرکوبی کے لئے کوئی دبائو خاطر میں نہیں لانا چاہیے۔
خبر کا کوڈ : 380606
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
سلام
ماشاء اللہ بہت اچھا کالم لکھا گیا ہے۔
مگر یہ بات لازمی کہوں گا کہ تصور حسین شہزاد صاحب آپ نے انصاف نہیں کیا۔ بہت معذرت کے ساتھ پاکستان میں اتحاد و وحدت کی جتنی کاوشیں نمائندہ ولی فقیہ قائدِ ملتِ جعفریہ علامہ سید ساجد علی نقوی کی ہیں، اتنی کسی اور کی نہیں ہیں، مگر ان کا کہیں ذکر نہ کرکے آپ نے اپنے مقالے کو ادھورا کر دیا ہے اور لگتا ہے کہ یہ جان بوجھ کہ کیا گیا ہے جو کہ آپ جیسے لکھاری کو زیب نہیں دیتا۔ امید ہے آئندہ اس کا خیال رکھا جائے گا۔ میری کوئی بات ناگوار گذری ہو تو معذرت۔
والسلام
عباس
ہماری پیشکش