0
Thursday 17 Jul 2014 00:04

غزہ کے مظلوم روزے دار اور پاکستان

غزہ کے مظلوم روزے دار اور پاکستان
تحریر: ثاقب اکبر
 
غزہ کے مظلوم روزے داروں پر آسمان اور زمین دونوں کی طرف سے آگ اور خون کی بارش کا سلسلہ جاری ہے۔ بچوں، عورتوں، بوڑھوں اور جوانوں کی کٹی پھٹی لاشیں ہیں۔ ایسی لاشیں کہ پہچانی نہ جائیں کہ کن مظلوموں کی ہیں۔ غزہ کی وزارت صحت کی ترجمان اشرف القدرہ نے اناطولیہ نیوز ایجنسی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہسپتال میں جن شہداء کے جسم لائے گئے ہیں وہ جلے ہوئے اور ٹکڑے ٹکڑے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ زخمیوں اور شہداء کو دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ صہیونی حکومت نے جان بوجھ کر ایسے اسلحے کا استعمال کیا ہے جس سے بدن ریزہ ریزہ ہوجائیں اور ٹوٹ پھوٹ جائیں۔ انھوں نے کہا کہ اس یکطرفہ جنگ میں اسرائیل جو ہولناک اسلحہ استعمال کر رہا ہے، اس پر عالمی سطح پر پابندیاں عائد ہیں۔ اناطولیہ نیوز ایجنسی نے عینی شاہدین کے توسط سے یہ بات بیان کی ہے کہ اسرائیلی جنگی ہوائی جہاز آگ لگانے والے اور اس طرح سے قتل کرنے والے بم استعمال کر رہے ہیں کہ جن سے انسانی بدن ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے اور جل کر پہچانے جانے کے قابل نہ رہے۔ سوشل میڈیا پر ان شہیدوں اور زخمیوں کی جو خبریں شائع ہو رہی ہیں، انہیں ہر آدمی دیکھنے کا حوصلہ نہیں رکھتا۔ یہاں تک کہ بعض تصویروں کے اوپر یہ لکھا جاتا ہے کہ دل کی بیماری میں مبتلا افراد انہیں نہ دیکھیں۔

آج (16 جولائی 2014ء) جب ہم یہ سطور لکھ رہے ہیں، غزہ کی چھوٹی سی پناہ گزین پٹی پر اسرائیل کے جنگی طیارے ہزاروں مقامات پر بمباری کرچکے ہیں۔ اس کے نتیجے میں 207 سے زیادہ افراد شہید ہوچکے ہیں اور زخمی اس سے کئی گنا زیادہ ہیں۔ سینکڑوں گھر، ہوٹل، ریسٹوران، سکول، کالجز، حتی کہ مساجد اور ہسپتال بھی اسرائیلی دہشت گردی کا نشانہ بن چکے ہیں اور صہیونی ریاست کے وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو مصری تجویز پر جنگ بندی قبول کرنے کے اعلان کے باوجود اپنی سفاکیت کے ثبوتوں میں اضافہ کرتے چلے جا رہے ہیں۔ وہ پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ ہم کوئی عالمی دباؤ قبول کرکے اپنی فوجی کارروائیوں کو نہیں روکیں گے۔ اسرائیلی وزیراعظم ہر طرح کی دھمکی دے سکتے ہیں اور اپنی مرضی کی کارروائیاں جاری رکھ سکتے ہیں، کیونکہ انہیں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی سرپرستی حاصل ہے۔ البتہ جنگ بندی کی تجویز میں فلسطینیوں کے حقوق کی کوئی بات شامل نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حماس نے اسے مسترد کر دیا ہے۔

امریکی محکمہ خارجہ نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ وہ تمام فریقوں پر کشیدگی کے خاتمے پر زور دے رہے ہیں، لیکن ساتھ ہی اس نے یہ بھی کہا کہ اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے۔ اسرائیل کے اس ’’حق‘‘ کو امریکی صدر نے بھی دہرایا ہے۔ اسے اسرائیل کے لیے ایک تھپکی قرار نہ دیا جائے تو اور کیا ہے۔ اس بیان میں ’’تمام فریقوں‘‘ کے الفاظ بھی قابل غور ہیں۔ دوسرے فریق کون ہیں کہ جن کے راکٹ حملوں سے ابھی تک اسرائیل کو کسی قسم کا کوئی قابل ذکر نقصان نہیں پہنچا۔ اسی طرح سوال پیدا ہوتا ہے کون سی جنگ بندی، کس کس کے مابین جنگ ہو رہی ہے۔ جب امریکہ کے نزدیک اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے تو وہ ثالثی کس معنی میں کروانے کی پیش کر رہا ہے۔ امریکہ ہی اسرائیل کا سب سے بڑا سرپرست ہے اور وہی ثالثی کروانے کی بھی پیشکش کر رہا ہے۔ دنیا میں انصاف کا خون اور کس کو کہتے ہیں۔ 
ع وہی قتل بھی کرے ہے وہی لے ثواب الٹا

شاید عالمی راہنماؤں میں غزہ کے مظلوموں کی حمایت میں جاری ہونے والے پیغامات اور بیانات میں سے پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف کے بیانات کو ایک حد تک حوصلہ افزا قرار دیا جاسکتا ہے، جنھوں نے کہا کہ فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کی وحشیانہ کارروائیاں جنگی جرائم ہیں۔ پاکستانی قوم غزہ کے عوام کے ساتھ ہے اور ہم آزاد اور خود مختار فلسطینی ریاست کے قیام کی حمایت کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل نے ہمیشہ نہتے فلسطینیوں کے خلاف بہیمانہ طاقت کا استعمال کیا ہے، جس کی ہم سخت مذمت کرتے ہیں۔ فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی جارحیت ناقابل قبول اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے، جس کا عالمی برادری اور اسلامی ممالک کو بھی نوٹس لینا چاہیے۔

انہوں نے اپنے ایک اور بیان میں کہا کہ کھلی اسرائیلی جارحیت پر عالمی برادری کی خاموشی سمجھ سے بالاتر ہے جبکہ مسلم امہ کی خاموشی نے بھی اسرائیل کو جارحیت کا موقع دیا۔ ایکسپریس نیوز کے مطابق وزیراعظم نواز شریف نے اسرائیلی جارحیت کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل غزہ میں نہتے فلسطینیوں سمیت بچوں اور خواتین پر بدترین ظلم کر رہا ہے اور یہ جارحیت نسل کشی کے مترادف ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ معصوم فلسطینیوں پر اسرائیلی مظالم کی حالیہ تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی، جبکہ اسرائیل کے مظالم پر عالمی برادری کی خاموشی پر انتہائی دکھ ہے اور یہ خاموشی سمجھ سے بالاتر ہے۔ وزیراعظم نواز شریف نے کہا کہ مسلم امہ کی خاموشی نے بھی اسرائیل کو جارحیت کا موقع دیا اور عالمی برادری اسرائیل کی ننگی جارحیت فوری طور پر بند کرائے۔

پاکستان کی وزارت خارجہ کی ترجمان تسنیم اسلم نے بھی اس موضوع پر اظہار خیال کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کو غزہ میں ہونے والی اسرائیلی جارحیت میں انسانی جانوں کے ضیاع اور وہاں تشدد کے بڑھنے پر گہری تشویش ہے۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان نے فلسطینی تحریک بالخصوص دو ریاستی حل جس کے ذریعے 1967ء سے قبل کی سرحدوں کی بنیاد پر القدس شریف کو دارالحکومت رکھنے والی آزاد فلسطینی ریاست کا قیام ہو، کی مستقل حمایت کی ہے۔

ہم سمجھتے ہیں کہ اس بیان میں بین السطور اسرائیل کو تسلیم کئے جانے کا عندیہ ملتا ہے۔ جبکہ پاکستان نے اب تک سرکاری سطح پر اسرائیل کے وجود کو جائز تسلیم نہیں کیا۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم نہیں ہیں، لیکن فلسطین کا دفتر پاکستان میں موجود ہے۔ اس پس منظر میں 1967ء کی بنیاد پر دو ریاستی نظریے کو تسلیم کرنا پاکستان کی طے شدہ تاریخی حکمت عملی اور موقف کے خلاف ہے۔ نیز یہ نقطۂ نظر بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح اور مصور پاکستان حکیم الامت علامہ اقبال کے نظریات کے بھی منافی ہے۔ اسرائیل کی ریاست ناجائز طور پر فلسطین کی سرزمین پر عالمی استعمار کی مدد سے قائم کی گئی ہے۔ اگر 1967ء سے ماقبل کی حدود کو درست تسلیم کر لیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ صہیونی ریاست کا وجود جائز ہے جبکہ پاکستان کا یہ موقف کبھی نہیں رہا۔ یہی وجہ ہے کہ وزارت خارجہ کی ترجمان تسنیم اسلم کے بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے ملی یکجہتی کونسل کے سیکرٹری جنرل لیاقت بلوچ نے بجا طور پر کہا کہ وزارت خارجہ کی ترجمان متضاد بیانات دے کر کنفیوژن پھیلا رہی ہیں، جس سے پاکستان کا چہرہ مسخ ہو رہا ہے۔

تاریخی طور پر پاکستان کا موقف جاننے کے لیے ویسے تو بہت سی شہادتیں موجود ہیں، جن سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان کی بانی مسلم لیگ اور برصغیر میں مسلمانوں کی قیادت پہلے دن سے اسرائیل کے قیام کی سازش کو بھانپ کر اس کے خلاف آواز اٹھاتی رہی ہے۔ قائداعظم محمد علی جناح 1923ء سے صہیونی ریاست کے قیام کی سازش کے خلاف اپنے مضبوط موقف کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ 23 مارچ 1940ء کو جب لاہور میں قرارداد پاکستان منظور ہوئی تو اسی موقع پر فلسطینیوں کے حقوق کی حمایت اور صہیونی ریاست کے قیام کی سازش کے خلاف بھی ایک قرارداد منظور کی گئی۔

پاکستان کے بننے کے بعد بھی 1947ء میں جب قائداعظم پاکستان کے گورنر جنرل تھے تو اسرائیلی وزیراعظم ڈیوڈ بن گورین نے سفارتی تعلقات کے قیام کی خواہش پر مبنی ایک ٹیلی گرام قائداعظم کے نام بھجوایا۔ جس کا جواب بانی پاکستان نے سرکاری طور پر ان الفاظ میں دیا:
Every man and woman of the Muslim world will die before Jewry seizes Jerusalem. I hope the Jews will not succeed in thier nefarious designs and I wish Britain and America should keep their hand off and then i will see how the Jews conquer Jerusalem. The Jews, over half a million, have already been accommodated in Jerusalem against the wishes of the people. May i know which other country has accommodated them? if domination and exploition are carried now, there will be no peace and end of wars.
دنیا کا ہر مسلمان مرد و زن بیت المقدس پر یہودی تسلط کو قبول کرنے کے بجائے جان دے دے گا۔ مجھے توقع ہے کہ یہودی ایسے شرمناک منصوبوں میں کامیاب نہیں ہوں گے۔ میری خواہش ہے کہ برطانیہ اور امریکہ اپنے ہاتھ اٹھا لیں اور پھر میں دیکھوں کہ یہودی بیت المقدس پر کیسے قبضہ کرتے ہیں۔ عوام کی آرزوؤں کے خلاف پہلے ہی 5 لاکھ یہودیوں کو بیت المقدس میں بسایا جاچکا ہے۔ میں جاننا چاہوں گا کہ کیا کسی اور ملک نے انہیں اپنے ہاں بسایا ہے؟ اگر تسلط قائم کرنے اور استحصال کا سلسلہ جاری رہا تو پھر نہ امن قائم ہوگا اور نہ جنگیں ختم ہوں گی۔

پاکستان کی موجودہ قیادت کو بانی پاکستان اور پاکستان کی خالق جماعت کے نقطۂ نظر سے انحراف ہرگز زیب نہیں دیتا۔ پاکستان کو چاہیے کہ وہ آگے بڑھ کر فلسطینیوں کی حمایت کے لیے عملی اقدامات کرے۔ ملی یکجہتی کونسل کے مرکزی راہنماؤں نے چند روز قبل حکومت پاکستان سے جو مطالبات کئے ہیں، ہم اپنی تائید کے ساتھ انھیں ذیل میں نقل کرتے ہیں:
1۔ ملی یکجہتی کونسل حکومت پاکستان کی جانب سے ناجائز صہیونی ریاست کی جارحیت پر زبانی احتجاج کو ناکافی سمجھتی ہے اور حکومت وقت سے تقاضا کرتی ہے کہ وہ عوام کے جذبات کی درست نمائندگی کرتے ہوئے اپنے سفارتی اثر و رسوخ کو استعمال کرے اور فی الفور ان حملوں کو بند کروانے کے لیے اقدامات کرے۔ 
2۔ حکومت پاکستان اسرائیل کے خلاف 18 جولائی کو ملی یکجہتی کونسل کی طرف سے اعلان کئے گئے یوم مذمت میں بھرپور شرکت کا اعلان کرے۔
 3۔ ملک کی پارلیمینٹ اسرائیلی جارحیت کے خلاف مشترکہ قرارداد منظور کرے۔ 
4۔ حکومت پاکستان او آئی سی کو متحرک کرنے کے لیے بھی اپنا کردار ادا کرے۔

14 جولائی 2014ء کو اسلام آباد میں منعقد ہونے والی پریس کانفرنس کے آخر میں ملی یکجہتی کونسل کے مرکزی راہنماؤں نے اعلان کیا کہ ہم عالمی سطح پر جمعۃ الوداع کے موقع پر منائے جانے والے یوم القدس کو پاکستان بھر میں مل کر منانے کا اعلان کرتے ہیں اور حکومت نیز تمام ملکی جماعتوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اس روز فلسطینیوں کے حقوق کی بازیابی اور ان سے اظہار یکجہتی نیز قبلہ اول کی آزادی کے لیے مل کر آواز بلند کریں۔
خبر کا کوڈ : 399867
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش