0
Wednesday 6 May 2009 13:29

کیا مزید امریکی فوج افغان مزاحمت ختم کر سکتی ہے؟

کیا مزید امریکی فوج افغان مزاحمت ختم کر سکتی ہے؟
ثروت جمال اصمعی 
افغانستان کی صورت حال کو امریکا کی مرضی کے مطابق ڈھالنے کے لیے صدر اوباما کا نسخہ کیمیا مزید امریکی فوج کی ترسیل ہے۔ اس ستم رسیدہ ملک کو اوباما تحفے کے طور پر اپنے اکیس ہزار فوجیوں کا پارسل بھیج رہے ہیں۔ وائٹ ہاوٴس فروری کے وسط میں پنٹاگون کو یہ حکم دے چکا
ہے۔ جس میں 17ہزار سپاہی بھیجنے کے لیے کہا گیا تھا مگر مارچ کے آخر میں صدر اوباما نے” بگڑتی ہوئی صورت حال“ پر قابو پانے کے لیے چار ہزار امریکی فوجیوں کو افغان سپاہیوں کی تربیت کے لیے بھیجنے کا اعلان بھی کیا ہے۔ اس طرح مجموعی تعداد اکیس ہزار بنتی ہے۔ امریکا کی 38ہزار فوج افغانستان میں پہلے سے موجود ہے۔ گویا مزید فوج بھیج کر اس تعداد کو پچاس ہزار تک بڑھایا جارہا ہے۔ جبکہ نیٹو ملکوں کی فوج اس کے علاوہ ہے۔ مگر کیا اس طرح اس سرزمین پر امریکا کے دائمی قبضے کا خواب شرمندہٴ تعبیر ہوسکتا ہے؟
اس بارے میں کسی نتیجے تک پہنچنے کے لیے تھوڑا سا پیچھے دیکھنا ہوگا۔ 2005ء میں برطانیہ کے لیفٹنٹ جنرل ڈیوڈ رچرڈز نے جو اس وقت جنوبی افغانستان میں نیٹو افواج کے کمانڈر تھے،قندھار اور ہلمند کے صوبوں میں شورش کو کچلنے کے لیے افواج میں اضافے اور طوفانی کارروائی(surge) کا یہی نسخہ تجویز کیا تھا جس پر اب صدر اوباما عمل کر رہے ہیں۔ جنرل رچرڈز کا دعویٰ تھا کہ بہت جلد ”طالبان میرے اشاروں پر رقص کرنا شروع کردیں گے“ یہ بات انہوں نے 16ستمبر 2006ء کو طالبان کے خلاف نئی طوفانی مہم کے آغاز پر کہی تھی۔ان کا کہنا تھا کہ طالبان کو شکست دینے میں تین سے پانچ سال لگیں گے۔لیکن فارن پالیسی ان فوکس نامی امریکی تھنک ٹینک کی ایک تازہ ترین تجزیاتی رپورٹ کے مطابق اس دعوے کو تین سال کی مدت گزر جانے اور اس دوران اتحادی فوج کی تعداد کے چار گنا سے زیادہ بڑھ جانے کے باوجود قندھار طالبان کے گھیرے میں ہے اور ہلمند ملک کا سب سے خطرناک صوبہ بن چکا ہے، جبکہ امریکی اور اتحادی افواج کابل کو بچانے کے لیے پریشان ہیں۔ برطانوی وزارت خارجہ کے ایک سابق افسر روری اسٹیوارٹ نے 22نومبر 2008ء کو نیویارک ٹائمز میں ”اچھی جنگ لڑے جانے کے قابل نہیں ہے“ کے عنوان سے اپنے ایک تجزیے میں لکھا تھا کہ ”2005ء میں جب افواج میں اضافے کا فیصلہ کیا گیا تھا تو وہاں کوئی مقامی بغاوت نہیں تھی۔“ فارن پالیسی ان فوکس کے تجزیہ کار Conn Hallinan اس حوالے سے لکھتے ہیں کہ ”در حقیقت یہ جارحانہ مہم اور اس کے نتیجے میں شہریوں کی ہلاکتیں،موجودہ تحریک مزاحمت کو مہمیز دینے کا سبب بنیں۔جب یہ مہم شروع ہوئی تو ملک کا 54 فی صد علاقہ طالبان کے کنٹرول میں تھا مگر آج یہ تناسب 72 فی صد تک پہنچ چکا ہے اور اس میں اضافہ ہو رہا ہے۔“ امریکی تھنک ٹینک کے فاضل تجزیہ کار نے اپنے حکمرانوں سے کہا ہے کہ اگر وہ اس خوش فہمی کا شکار ہیں کہ پچاس ہزار امریکی اور پچاس ہزار نیٹو افواج مل کر افغانوں کی مزاحمت ختم کرنے میں کامیاب ہو جائیں گی تو انہیں جلد از جلد اس سے باہر آ جانا چاہیے اور ویت نام میں عوامی مزاحمت کے ہاتھوں اپنی افواج کا ذلت آمیز انجام یاد کرنا چاہیے۔صرف 67ہزار مربع میل اور دو کروڑ سے کم آبادی والے اس ملک میں امریکا کی پچاس ہزار فوج کو شرمناک ہزیمت اٹھانی پڑی تھی۔جبکہ سنگلاخ زمینوں کے ملک افغانستان کا رقبہ ویت نام کے مقابلے میں تقریباً چار گنا اور آبادی لگ بھگ ڈیڑھ گنا ہے۔ڈھائی لاکھ مربع میل پر پھیلے ہوئے اور سوا تین کروڑ آبادی والے اس ملک پر مستقل تسلط کا خواب اوباما اکیس ہزار مزید فوج بھیج کر کسی طرح پورا نہیں کر سکتے۔ امریکا کے لیے مزید پریشانی کی بات یہ ہے کہ اس کے نیٹو اتحادی اب اپنی افواج کی تعداد بڑھانے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ پولینڈ میں نیٹو کے حالیہ اجلاس میں یورپی ملکوں نے امریکی اور برطانوی وزرائے دفاع رابرٹ گیٹس اور جان ہٹن کی دلیلوں کے باوجود یہ بات واضح کر دی ہے کہ وہ افغانستان میں مزاحمت کو کچلنے کے لیے کسی نئی طوفانی مہم میں شریک نہیں ہوں گے۔ فنانشل ٹائمز کے آن لائن ایڈیشن میں 20 جنوری کو شائع ہونے والی رائے عامہ کے جائزوں پر مشتمل ایک رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ 60فی صد جرمن، 57 فی صد برطانوی، 53 فی صد فرنچ اور 53فی صد اطالوی مزید فوج افغانستان بھیجنے کے مخالف ہیں۔ اس طرح امریکا کے لیے آنے والے دنوں میں افغانستان میں مشکلات بڑھنے کے امکانات بہت واضح ہیں۔ امریکا کو خاک نشین افغانوں کے مقابلے میں اس صورت حال کا سامنا اس لیے ہے کیونکہ افغانستان پر اس کی فوج کشی کی کوئی اخلاقی بنیاد نہیں ہے۔ امریکا نے اپنی استعماری پالیسیوں کے ذریعے پوری دنیا میں اپنے لیے نفرتوں کی فصل کاشت کی ہے اور اب اس کے کڑوے پھل بہر صورت اس کا مقدر ہیں۔

خبر کا کوڈ : 4389
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش