0
Tuesday 26 May 2009 10:57

پاک ایران گیس منصوبہ پاکستان کے روشن مستقبل کی ضمانت ہے

پاک ایران گیس منصوبہ پاکستان کے روشن مستقبل کی ضمانت ہے
پاکستان اور ایران نے ایک ایسے موقع پر گیس پائپ لائن منصوبے پر دستخط کیے ہیں جب پاکستانی فوج مالاکنڈ ڈویژن میں اپنی تاریخ کے ایک انوکھے اور مشکل آپریشن میں مصروف ہے۔ دستخطوں کی تقریب کے تاریخی موقع پر پاکستانی صدر اور ان کے ایرانی ہم منصب نے اس بات پر اتفاق کیا کہ دونوں پڑوسی ملکوں کو باہمی تعاون میں اضافہ کرنا ہوگا اور مل کر مشکلات کا حل نکالنا ہوگا۔ پاکستان نے بھارت کو بھی دعوت دی ہے کہ اگر وہ چاہے تو اس منصوبے میں شریک ہوسکتا ہے۔ پائپ لائن بچھنے کے بعد ایران،پاکستان کو یومیہ 23 ملین کیوبک میٹر گیس فراہم کرے گا اور یہ سلسلہ 25 برسوں تک جاری رہے گا۔ توقع رکھنی چاہئے کہ اس عرصے میں پاکستان کے اندر کئی نئے ذخائر بھی د ریافت ہو جائیں گے او ر ہم اس معاملے میں خودکفیل ہو جائیں گے۔ پاکستان اور ایران دونوں ملکوں پر امریکی دبائو تھا کہ وہ گیس پائپ لائن منصوبے پر دستخط نہ کریں۔ امریکہ کو یہ بات بھی پسند نہیں تھی کہ پا کستان اور ایران کے درمیان باہمی تعاون موجودہ سطح سے آگے بڑھے لیکن دونوں ملکوں نے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ دونوں ملکوں میں اقتصادی تعاون کو مزید فروغ دیا جائے گا۔ امر واقعہ یہ ہے کہ ایک طویل عرصے بعد پاکستانی عوام کو کوئی اچھی خبر سننے کو ملی ہے جس کے لئے وہ صدر آصف علی زرداری اور احمدی نژاد کے شکر گزار ہیں۔ درحقیقت وطن عزیز میں گیس کی ضروریات جس تیزی سے بڑھی ہیں اور مسلسل بڑھ رہی ہیں اس سے سوئی کے ذخائر پر دبائو بڑھ رہا تھا اور جس تیز رفتاری سے ہم گیس خرچ کر رہے ہیں خدشہ تھا کہ اس سے سوئی کے ذخائر اگلے چند برسوں میں ختم ہو جائیں گے اور معیشت کا پہیہ جام ہو کر رہ جائے گا۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ انڈسٹری کا ایک قابل لحاظ حصہ گیس پر چلا گیا ہے۔ بجلی کو تھرمل اور فرنس آئل سے گیس پر منتقل کیا جا رہا ہے۔ نجی اور پبلک ٹرانسپورٹ کا ایک بڑا حصہ گیس پر منتقل ہو چکا ہے اور متعدد نئے منصوبوں کے تحت مختلف شہروں دیہاتوں اور قصبہ جات کو بھی گیس دی جا رہی ہے۔ اس منصوبے سے بڑے شہروں میں اربن روٹس پر سی این جی بسیں چلائی جاسکیں گی جس سے کرایوں میں نمایاں کمی ہوگی اور عوام کو ریلیف ملے گا۔ ایران،پاکستان ،گیس پائپ لائن منصوبہ کئی نازک مراحل سے گزرا۔ ایک وقت تک بھارت بھی اس منصوبے میں شامل تھا لیکن جب اس نے دیکھا کہ امریکہ کو یہ معاہدہ ناپسند ہے تو اس نے بڑی خاموشی سے خود کو اس منصوبے سے الگ کر لیا۔ بعض ناقدین پاکستان کے بارے میں بھی یہ کہتے رہے کہ وہ امریکی دبائو کو برداشت نہیں کر پائے گا اور خاموشی سے پیچھے ہٹ جائے گا۔ ایک طویل عرصے تک پاکستانی اور ایرانی حکام کے درمیان گیس کے نرخوں کا معاملہ زیر بحث رہا۔ پاکستان ،ایران کو جو نرخ آفر کر رہا تھا،ایرانی حکام کو ان نرخوں پر اعتراض تھا۔ ایک عرصہ تک دونوں ملک اپنے اپنے موقف پر جمے رہے لیکن دونوں نے مذاکرات کا سلسلہ ٹوٹنے نہ دیا اور بات چیت کا سلسلہ کبھی رینگتا ،کبھی چلتا اور کبھی دوڑتا ہوا آگے بڑھتا رہا۔ امر واقعہ یہ ہے کہ نامساعد حالات میں مذاکرات کے سلسلے کو جاری رکھنا ہی بہت بڑی خوبی ہوتی ہے اور اس کا کریڈٹ پچھلی اور موجودہ حکومت دونوں کو جاتا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس معاہدے پر دستخط ہو جانا صدر زرداری کی بہت بڑی کامیابی ہے اور انہوں نے ایک ایسا سنگ میل عبور کیا ہے جس کے بعد منزل پر پہنچنا چنداں مشکل نظر نہیں آتا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ مشکل ترین وقت میں ایران نے بھی سچی دوستی کا ثبوت دیا ہے اور ایک ایسے وقت پاکستانی عوام کی طرف دوستی اور خیر سگالی کا ہاتھ بڑھایا ہے جب یہ چاروں طرف سے دشمنوں کے بیچ گھر چکا ہے اس کے تمام دشمن اکٹھے ہو چکے ہیں اور یہ ملک عملاً حالت جنگ میں ہے۔ ہماری رائے میں ایران کے ساتھ مضبوط دوستی کا جو ایک نیا سفر شروع ہوا ہے اسے جاری رہنا چاہئے۔ دونوں برادر پڑوسی ملکوں کو چھوٹے موٹے واقعات کی پرواہ کیے بغیر روشن مستقبل کی طرف دیکھنا چاہئے۔ ہمیں خدشہ ہے کہ گیس منصوبے پر دستخطوں کے بعد پاکستان اور ایران کے مشترکہ دشمن دونوں ملکوں کے پرجوش تعلقات میں دراڑ ڈالنے کی پوری کوشش کریں گے لیکن ہمیں یقین ہے کہ د ونوں ملکوں کی قیادت اور عوام اس طرح کے تمام منصوبوں کو خاک میں ملا دیں گے۔

خبر کا کوڈ : 5676
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش