1
0
Tuesday 10 May 2011 02:17

پاکستان ملوث ہے یا پھر نااہل

پاکستان ملوث ہے یا پھر نااہل
 تحریر:محمد علی نقوی
اسامہ بن لادن کی ہلاکت سے ایک بار پھر امریکہ کی منافقت سامنے آئي ہے، وہ یوں کہ ایک طرف
امریکہ کے صدر باراک اوباما القاعدہ کے سرغنے کی ہلاکت کی خبر دیتے ہوۓ اس بات کا اعلان کرتے ہیں کہ ان کو اسامہ کی ہلاکت کے سلسلے میں پاکستان کا تعاون حاصل تھا اور دبے لفظوں میں وہ پاکستان کے اس تعاون کو سراہتے ہیں تو دوسری جانب ان کے مشیر پاکستان پر اسامہ کی حمایت کا الزام لگاتے ہیں۔ ادھر امریکی انٹیلی جنس ایجنسی کے سربراہ چیف لیون پنیٹا نے سی آئی اے ہیڈ کوارٹر میں اراکین کانگریس کو بند کمرے میں بریفنگ دی۔ ان کا کہنا تھا کہ اسامہ کے معاملے میں پاکستان ملوث ہے یا پھر نااہل، ابھی اس بارے میں وضاحت سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
کسی نے صحیح کہا ہے کہ اسامہ بن لادن کی ہلاکت کی خبر نشر کر کے امریکی صدر باراک اوبامہ اپنی انتخابی مہم پاکستان سے چلانا چاہتے ہيں، اس سے پہلے بھی امریکہ کے گذشتہ دو صدارتی انتخابات کی مہم بھی پاکستان میں ہی چلائی گئی تھی۔ اتوار اور پیر کی درمیانی شب القاعدہ کے سرغنہ اسامہ بن لادن کو پاکستان کے شہر ایبٹ آباد میں مار ڈالنے کی خبر امریکی صدر اور پھر مغربی ذرائع ابلاغ کی طرف سے بہت تیزی کے ساتھ دنیا تک پہنچانے کی کوشش کی گئی، اس تشہیراتی مہم میں امریکی حکام اور مغربی ذرائع ابلاغ نے اس بات کا بھی خیال نہ رکھا کہ انہوں نے پہلے کیا کہا تھا، اب کیا کہہ رہے ہيں اور آئندہ انہیں کیا کہنا ہے۔ 
یہ بھی دلچسپ بات ہے کہ جب پاکستانی قوم سو رہی تھی اس وقت امریکی فوجی کاکول ملٹری اکیڈمی کے قریب ایبٹ آباد میں ایک گھر میں آپریشن میں مصروف تھے۔ اور اسامہ بن لادن کو ہلاک کرنے کی خبر پاکستان سے نہيں بلکہ امریکہ سے دی گئی۔ جس طرح گیارہ ستمبر کے واقعات کے بارے میں ابھی تک شکوک وشبہات پائے جا رہے ہیں کہ کیسے اتنی بلند و بالا عمارت طیاروں کے ٹکرانے سے زمین بوس ہو سکتی ہے اور کیوں ان حملہ آور طیاروں کی نشاندہی نہ کئی گئی اور ان کا راستہ نہيں روکا گیا، اسی طرح امریکہ کا یہ دعویٰ اگر مان لیا جائے کہ اس نے براہ راست کاروائي کی اور پاکستان کی حکومت اور فوج کو اس سلسلے میں کوئي اطلاع نہيں دی، تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہیلی کاپٹروں کا ملٹری اکیڈمی کے قریب تک پہنچ جانا، پھر کاروائی کرنا اور پاکستانی فوج کا کوئی ردعمل سامنا نہ آنا کیسے ممکن ہے۔؟ یہ ساری باتیں بہت سے سوالوں کو جنم دیتی ہيں۔ علاوہ ازیں ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کی موجودگی کے بارے میں بھی بہت سی متضاد باتيں سامنے آ رہی ہيں کہ وہ کب سے اس علاقے میں روپوش تھا؟ اسامہ بن لادن کو ہلاک کرنے کے بارے میں بھی امریکی حکام کی طرف سے الگ الگ بیانات سامنے آ رہے ہیں، کوئی کہتا ہے کہ اسامہ اسلحہ سے لیس تھا، کوئی کہتا ہے کہ وہ نہتا تھا، کوئي کہتا ہے کہ فائرنگ کا تبادلہ ہوا، کسی کا یہ بیان کہ اسے گرفتار کر کے گولی ماری گئی، کہیں سے یہ بیان سامنے آ رہا ہے کہ اس آپریشن میں اس کی بیوی اور تین بچے بھی مارے گئے ہيں جبکہ پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ اس کے گھر والے اس کاروائی میں محفوظ ہيں۔
 اس سے بھی بڑھ کر اسامہ کی ہلاکت کے بارے میں بھی جو سب سے بڑا ابہام پایا جاتا ہے وہ یہ کہ کیا جو تصویر اسامہ بن لادن کی ذرائع ابلاغ میں دکھائي جا رہی ہے، وہی بن لادن ہے؟ جبکہ بہت سے ذرائع ابلاغ نے اپنے آرکائیو کی وہ تصویریں نشر کر دی ہيں، جو چند ماہ قبل عراق میں مارے جانے والے ایک شخص کی تصویر تھیں جو اسامہ سے کافی شباہت رکھتا تھا، امریکی صدر باراک اوبامہ نے کہا ہے کہ وہ القاعدہ کے سرغنہ بن لادن کی لاش کی تصویر عام نہیں کريں گے۔ امریکی صدر نے دعویٰ کیا ہے کہ اسامہ بن لادن کی لاش کی تصویر ذرائع ابلاغ میں نشر کرنے سے لوگوں کے جذبات بھڑکيں گے اور اس سے امریکی قومی سلامتی کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔ امریکی صدر باراک اوبامہ کے اس تازہ ترین بیان سے ان شکوک و شبہات کو پہلے سے بھی زیادہ تقویت مل رہی ہے کہ ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کو ہلاک کرنے کی امریکی کاروائی محض ایک ڈرامہ ہے، اور اب یہ ابہام مزید جڑ پکڑ جائے گا۔
 اسامہ بن لادن کو مارنے کے حوالے سے جس طرح کی کاروائی کی خبریں مل رہی اور خود امریکی حکام کے بیانات میں جو لاتعداد تضادات پائے جا رہے ہيں ان سے دنیا کے لوگ پہلے ہی مشکوک تھے۔ عالمی ماہرین پہلے دن سے ہی اس پورے واقعہ پر سوالیہ نشان لگا رہے ہيں اور اسامہ کو امریکیوں کے ہاتھوں ہلاک کئے جانے کے دعوے کسی کے بھی حلق سے نیچے نہیں اتر رہے ہيں۔ ماہرین کا امریکہ سے یہ مطالبہ ہے کہ اگر وہ اپنے اس دعوے میں سچا ہے تو اسے چاہئے کہ وہ اس سلسلے میں ٹھوس ثبوت و شواہد پیش کرے۔ بن لادن کے بارے میں بہت سے ماہرین کا کہنا ہے کہ بلاشبہ اسامہ بن لادن ایک شخص اور کردار کا نام ضرور ہے، مگر یہ وثوق سے ہرگز نہيں کہا جاسکتا کہ وہ دو مئی دو ہزار گیارہ تک زندہ تھا، بہت سے ماہرین کا کہنا ہے کہ اسامہ بن لادن شدت مرض کے باعث کافی عرصے پہلے ہی مرچکا تھا اور اس بات کو امریکی حکام بھی اچھی طرح جانتے ہيں، اس سے بھی دلچسپ بات یہ ہے کہ ماہرین کے ایک گروہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ اسامہ بن لادن کو ہلاک ہی نہيں کیا جاسکا ہے بلکہ امریکی حکومت نے ایک ڈرامہ رچا ہے جس کے لئے اس نے اسامہ کی ہلاکت کی خبریں نشر کر دی ہیں۔
 اسی لئے مبصرین کا کہنا ہے کہ ان تمام فرضیات کو اسی وقت جھٹلایا جاسکتا ہے جب امریکی حکام کی طرف سے ناقابل انکار ثبوت و شواہد دنیا والوں کے لئے پیش کئے جائيں گے۔ مگر یہاں تو عالم یہ ہے کہ امریکی صدر باراک اوبامہ یہ کہہ چکے ہيں کہ اسامہ بن لادن کی لاش کی تصویر عام نہيں کی جائے گی، اگر چہ اس سے پہلے سی آئي اے کے سربراہ لیون پنیٹا نے کہا تھا کہ وقت پر تمام ثبوت و تصاویر عالمی رائے عامہ کے لئے پیش کر دی جائيں گي۔ ایک خبر یہ بھی ہے کہ اسامہ کی لاش بحیرہ عرب میں بہا دی گئي ہے۔ امریکی حکام کی کوشش ہے کہ وہ ڈی این اے ٹسٹ کے ذریعہ بن لادن کی ہلاکت کا ثبوت رائے عامہ کے سامنے پیش کریں۔ اس کے علاوہ ابھی تک اس سوال کا جواب نہيں دیا گیا ہے کہ کاروا‏ئی کے وقت اسامہ بن لادن اسلحے سے لیس تھا یا نہیں؟ اور امریکی کمانڈوز نے اسے گرفتار کیوں نہيں کیا؟ یقینی طور پر اگر اسامہ بن لادن کو کیمرے کے سامنے پیش کیا جاتا تو اس وقت اس کی ہلاکت یا موت کو لے کر جو شکوک وشبہات پائے جاتے ہيں وہ بر طرف ہوجاتے۔ 
البتہ یہ بھی امکان تھا کہ بن لادن عدالت کے سامنے ایسے بیانات دے دیتا جو امریکی حکام کی مرضی کے خلاف ہوتے، مگر یہ بھی سوال اٹھتا ہے کہ کیا امریکیوں میں اتنی جرات بھی ہے کہ وہ اسامہ کو عدالت کے سامنے پیش کریں؟ ممکن ہے انہی وجوہات کی بنا پر ہی امریکی کمانڈوز نے اپنے حکام بالا کے کہنے پر اسامہ کو جو غیر مسلح تھے قریب سے پیشانی پر گولی مار دی ( اگر اس فرض کو مان لیا جائے کہ اسامہ دو مئی دوہ زار گیارہ کو ہی مارا گیا ہے)۔ اس کے علاوہ اسامہ بن لادن کی ہلاکت کی خبروں کے بعد پاکستان کے سلسلے میں امریکی حکام کے جو بیانات سامنے آ رہے ہيں، وہ جہاں پاکستانی حکام کے لئے شرمندگی کا باعث ہيں وہیں تشویشناک بھی ہيں۔
 امریکی حکام نے اپنے تازہ ترین بیان میں کہا ہے کہ امریکہ پاکستان کے علاقوں میں کاروائی کا حق محفوظ رکھتا ہے۔ اس بیان سے پاکستان کے اندر یہ اندیشہ بڑھ گیا ہے کہ امریکہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت پاکستان کو دہشت گردوں کی پناہ گاہ قرار دینے کی کوشش کر کے اپنے مذموم مقاصد حاصل کرنا چاہتا ہے۔ 
بہرحال ایسا لگتا ہے کہ گیارہ ستمبر کے واقعات کے حقائق کو چھپانے کے سلسلے میں امریکی حکومت کی کوششیں بدستور جاری ہیں۔ جس طرح امریکہ نے گیارہ ستمبرکے واقعات کی بعض رپورٹوں کو انتہائی حساس اور خفیہ کہہ کر منظرعام پر لانے سے گریز کیا ہے اسی طرح وہ اسامہ بن لادن کی لاش کی تصویر کو بھی نشر کرنے سے انکاری ہے۔ امریکی حکومت کی طرف سے واقعات کی پردہ پوشی اور انہيں چھپانے کا واقعہ صرف گیارہ ستمبر اور بن لادن کے واقعہ سے ہی مخصوص نہيں، بلکہ امریکی تاریخ کے سب سے متنازعہ اور ہنگامہ خیز قتل یعنی سابق امریکی صدر جان ایف کنیڈی کے قتل کا راز بھی ابھی تک امریکی حکومت نے برملا نہيں کیا ہے، اسی لئے گیارہ ستمبر اور بن لادن کی ہلاکت کے واقعات کے بارے میں بھی کہا جا رہا ہے کہ حقائق شاید برسوں سامنے نہ آسکیں۔


خبر کا کوڈ : 70850
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Kewl you should come up with that. Ecxlelnet!
ہماری پیشکش