0
Thursday 25 Jun 2009 14:49

صدر احمدی نژاد کی کامیابی پر اصلاح پسندوں کا ردِ عمل

صدر احمدی نژاد کی کامیابی پر اصلاح پسندوں کا ردِ عمل
حافظ محمد ادریس
ایران کے صدارتی انتخابات ہو چکے ہیں ۔صدر محمود احمدی نژاد چار سال بعد دوسری مرتبہ صدارتی انتخابات جیتنے میں کامیاب ہو گئے ہیں ۔صدر احمد ی نژاد کو اپنی سادگی،قناعت اور جرات مندانہ موقف کی وجہ سے ترقی پذیر اور مسلم ممالک کے عوام میں بڑی مقبولیت حاصل ہے ۔ امریکا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر باتیں کرنے والے چند ایک ہی حکمران ہیں،ان میں سے ایک یہ ایرانی صدر ہے ۔اپنی صدارت کے دوران یو این او کے اجلاس میں جس طرح سابق امریکی صدر جارج بش کو احمدی نژاد للکارتا رہا ہے وہ یادگار ہے ۔اپنی دوسری میقات کے لیے جب احمد ی نژاد نے کاغذات داخل کرائے تو شمالی تہران کے متمول علاقوں کے ووٹرز نے ناک بھوں چڑھائی مگر مجموعی طور پر ایران کے طول و عرض بالخصوص غریب عوام میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ۔میڈیا پر اظہار رائے کرنے والوں کی اکثریت شمالی تہران سے تعلق رکھتی ہے اس لیے انہوں نے یہ فضا بنا رکھی تھی کہ احمدی نژاد کمزور امیدوار ہے ۔اس مرتبہ بھی سابقہ انتخاب کی طرح احمدی نژاد کا مقابلہ اصلاح پسندوں کے اتحاد سے تھا ۔ مقابلے پر یوں تو ایک مضبوط سیاسی شخصیت کی صورت میں میر حسین موسوی امیدوار تھے مگر عملاً سابق صدور علی اکبر ہاشمی رفسنجانی اور محمد خاتمی کی حمایت بھی موسوی صاحب کو حاصل تھی ۔ میر حسین موسوی صاحب اس سے قبل وزیر اعظم بھی رہ چکے ہیں ۔ان کی وازارتِ عظمیٰ کا دور 1981ء سے 1989ء کے درمیان تھا ۔اس زمانے میں ملک کے موجودہ روحانی پیشوا آیت اللہ علی خامنائی ملک کے صدر تھے اور بابائے انقلابِ ایران آیت ا للہ روح اللہ خمینی بھی زندہ تھے ۔موسوی (67) اور خامنائی (69 )تقریباً ہم عمر بھی ہیں اور آپس میں رشتہ دار بھی ۔اپنے دورِ اقتدار میں دونوں کے درمیان کم ہی کبھی اتفاقِ رائے ہوا تھا ۔شاید بعض لوگوں کے لیے یہ بات بڑی عجیب ہو کہ اس زمانے میں خامنائی اعتدال پسند اور اصلاحات کے حامی شمار ہوتے تھے جبکہ میر حسین موسوی انقلاب ایران اور قدامت پسند سیٹ اپ کی حمایت میں شدید حد تک سخت موقف کے حامل تھے ۔موسوی صاحب خمینی صاحب کے زیادہ قریب تھے ،اس لیے اختلافی امور میں عموماً انھی کی بات چلا کرتی تھی ۔ خمینی صاحب کی وفات (1989ء)کے بعد انقلابی عناصر اور حکومتی مشینری کے لیے ان کے جانشین کا انتخاب ایک مشکل مرحلہ تھا، مگر اس میں قرعہ فال آیت اللہ علی خامنائی کے نام نکلا ۔اس کے نتیجے میں موسوی صاحب براہِ راست اقتدار سے محروم ہو گئے مگر اقتدار کے ایوانوں اور اداروں میں ان کا عمل دخل موجود رہا ۔ اب عجیب بات یہ ہوئی کہ روحانی پیشوا خامنائی نے یہ منصب ملنے کے بعد رجعت پسندانہ اور انقلاب کی حفاظت کے لیے سخت رویہ اپنا لیا اور موسوی صاحب انتہا پسندی اور قدامت پرستی سے جدت پسندی کی طرف لڑھک گئے ۔ایران میں چلنے والے نظام کے مطابق کئی اداروں کو بڑی قوت حاصل ہے لیکن انقلابِ ایران کے اصول و مبادی اور فقہ جعفریہ کے اصولِ ولایت فقیہہ کی بدولت روحانی پیشوا کا مقام و مرتبہ بہر حال سب سے فائق ہے ۔گذشتہ انتخابات میں احمدی نژاد پہلے راﺅنڈ میں اول پوزیشن حاصل نہ کر سکے مگر پہلے نمبر پر آنے والے امیدوار علی اکبر ہاشمی رفسنجانی بھی پچاس فیصد کا ہدف عبور نہ کر پائے ۔دوسرے راﺅنڈ میں براہِ راست مقابلہ ہوا تو تہران کا درویش منش نوجوان میئر احمد ی نژاد جو کسی بڑے خاندان سے تعلق رکھنے کے بجائے ایک معمولی بڑھئی کا بیٹا ہے ،عوامی تائید حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا ۔محمد علی رجائی کے بعد یہ دوسری مثال ہے کہ کسی اعلیٰ ترین منصب پر ایک عامی شخص فائز ہوا ہے ۔ انتخابات سے قبل اور بعد صدر احمدی نژاد کو روحانی پیشوا آیت اللہ خامنائی کی مکمل حمایت حاصل رہی ۔اگرچہ کبھی کبھار صدر کے بعض بیانات پر روحانی پیشوا نے سرزنش بھی کی مگر یہ سرزنش بھی ایسے ہی تھی جیسے کوئی بزرگ اپنے کسی عزیز کو تادیباً کسی معاملے میں متوجہ کرتا ہے ۔اس کے نتیجے میں تلخی کی بجائے افہام و تفہیم کی فضا میں معاملات سلجھائے جا تے رہے ۔ اس مرتبہ کے انتخابات میں مغربی تجزیہ نگار اور سروے کرنے والے ادارے جن بنیادوں پر نتائج اخذ کر رہے تھے ،مشہور برطانوی صحافی رابرٹ فسک کے بقول ان کے تجزیے جزوی،یک طرفہ اور ناقص تھے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایران کا رقبہ چھ لاکھ انسٹھ ہزار دو سو اٹھتر659278  مربع میل ہے جو برطانیہ کے حجم سے 7 گنا زیادہ ہے ۔اس کے 71 ملین شہریوں سے متناسب سروے کرنے کے بجائے لوگ عموماً تہران اور اس کے گرد و نواح کا سروے کر کے نتائج اخذ کرتے رہے ۔اس سروے کی روشنی میں وہ اپنی خوش فہمی میں مگن رہے اور کہتے رہے کہ موسوی جیت رہا ہے ۔رابرٹ فسک اپنے کالم میں لکھتا ہے کہ چینل فور ٹیلی ویژن کے کچھ نمائندے تہران سے چلے اور اصفہان پہنچے ۔وہاں لوگوں سے بات چیت کی اور سروے کے نتائج مرتب کیے تو واپسی پر انہوں نے پورے عزم کے ساتھ کہا کہ احمدی نژاد جیت چکا ہے ۔خود تہران کے بارے میں رابرٹ فسک کہتا ہے کہ جس سرمایہ دارانہ ٹھاٹ باٹ کے حامل شمالی تہران کے فائیو اسٹار ہوٹلوں میں میڈیا کے نمائندے قیام پذیر ہوتے ہیں ، اس سے ذرا ہٹ کر تہران ہی کی کچی آبادیوں کی طرف کوئی نکل جائے تو دارالحکومت کی کم و بیش سوا کروڑ آبادی میں سے تمام کچی آبادیاں ایک مختلف منظر نامہ پیش کرتی ہیں ۔ انتخابی نتائج 12 جون کی رات کو سامنے آئے تو مغربی دنیا ،تجزیہ نگار اور اصلاح پسندوں کا پورا طبقہ حیران رہ گیا ۔نتائج کے مطابق احمدی نژاد نے 62فیصد ووٹ لیے جبکہ موسوی صاحب کو 33 فیصد ووٹ پڑے ۔نتائج آتے ہی ایران کے روحانی پیشوا آیت اللہ خامنائی نے صدر کے انتخابات کی تصدیق کر دی لیکن نتائج سن کر میر حسین موسوی اور ان کے تمام حامی بپھر گئے ۔ان کے نزدیک انتخابات میں زبردست دھاندلی کی گئی تھی ۔غیر جانب دار اور غیر متعصب ذرائع کا کہنا یہ ہے کہ ایران کے انتخابات دھاندلی سے بالکل پاک تو نہیں ہوتے لیکن وہاں پر ابھی تک اتنی بڑی دھاندلی کرنا کسی کے بس میں نہیں ،جس سے اکثریت کو اقلیت میں بدلا جاسکے ۔اگر بہت زیادہ شک کا فائدہ بھی موسوی صاحب کو دیا جائے تو ذرائع کا کہنا یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ 2یا 3 فیصد کا فرق پڑ سکتا ہے ۔ بعد از انتخابات ہنگاموں کے نتیجے میں بہت سے لوگ جاں بحق ہو گئے ہیں ۔اب ریاستی مشینری نے اعلان کیا ہے کہ دوبارہ کاﺅنٹنگ کا مطالبہ بھی مان لیا گیا ہے اور عدالتوں میں جانے اور پٹیشن دائر کرنے کا راستہ بھی کھلا ہے پھر بھی مزید ہنگامہ آرائی اور توڑ پھوڑ کی ہرگز اجازت نہ دی جائے گی اور تخریبی کاروئی کے ساتھ سختی سے نمٹا جائے گا ۔امریکا نے ایرانی انتخابات پر شروع میں بہت محتاط رویہ اپنایا مگر اب امریکی کانگریس بھی میدان میں کود پڑی ہے ،جبکہ اسرائیلی حکمرانوں نے احمدی نژاد کی کامیابی کی خبر سنتے ہی اس کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے ۔ اسرائیلیوں کے نزدیک احمدی نژاد کی دوسری ٹرم میں ایران خطرناک ایٹمی قوت بن سکتا ہے ۔اسرائیلی خفیہ ادارے موساد کا سبکدوش ہونے والا سربراہ جس کی آٹھ سالہ مدت پوری ہو چکی تھی ،دوبارہ اسی منصب پر لگا دیا گیا ہے ۔وزیر اعظم بن یامین نیتن یاہو کا کہنا ہے کہ ایران کے موجودہ حالات میں اسرائیل کے لیے خطرات اور ذمہ داریاں بڑھ گئی ہیں ۔ ایران میں قدامت پسندوں اور جدت پسندوں کے درمیان تصادم نیا نہیں بلکہ کئی سال پرانا ہے۔اس سے قبل محمد خاتمی اصلاح پسندوں کے نمائندے تھے، رفسنجانی صاحب بھی اس گروہ کے حامی ہیں ۔اب میر حسین موسوی صاحب ان کے راہ نما کے طور پر سامنے آئے ہیں ۔ ناکام صدارتی امیدوار نے جو اسٹینڈ لیا ہے ،اس کے بارے میں بعض شواہد ایسے سامنے آ رہے ہیں ،جن سے معلوم ہو رہا ہے کہ امریکا نے انتخابات کے دوران بھی اپنی ایجنسیوں کے ذریعے یہاں بھاری رقوم بھیجی ہیں اور اب مظاہروں کے لیے بھی وہ مالی امداد دے رہی ہیں ۔ شوریٰ نگہبان نے مختلف علاقوں میں 10 فیصد ووٹوں کی دوبارہ گنتی کا اعلان کر دیا ہے ،اس کے باوجود میر حسین موسوی اور ان کے حامیوں کی طرف سے مظاہرے جاری ہیں۔اسی دوران ایک بڑا واقعہ یہ ہوا کہ 20جون کو امام خمینی کے مزار پر دھماکا ہوا ،جس سے کئی لوگ زخمی ہو گئے ۔ میر حسین موسوی کی حمایت میں امریکی کانگریس ،یورپی یونین،برطانوی حکومت اور یو این او کے ادارہ حقوقِ انسانی نے کھل کر بات کی ہے تاہم امریکی صدر بارک اوباما ابھی تک محتاط رویہ اختیار کیے ہوئے ہے۔ بر طانیہ نے تو ایرانی سفیر کو وازرتِ خارجہ میں طلب کر کے ان سے سرکاری سطح پر احتجاج بھی کیا ہے ۔ ایران کے روحانی راہ نما آیت اللہ خامنائی نے 19جون کو تہران میں اپنے خطابِ جمعہ میں شکست خوردہ عناصر کی توڑ پھوڑ پر شدید تنقید کی ۔ان کی طرف سے نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کی پر زور مذمت کرتے ہو ئے روحانی پیشوا نے کہا کہ عوام نے اپنا فیصلہ صادر کر دیا ہے اور اتنی بڑی اکثریت کو قبول نہ کرنا بے اصولی اور عوامی مینڈیٹ کے خلاف بغاوت ہے ۔منتخب ہو نے کے بعد صدر احمدی نژاد نے بھی پہلی بار ایک پبلک ریلی میں گذشتہ روز اپنے حامیوں سے خطاب کیا،جنہوں نے بہت پرجوش نعروں سے ان کا استقبال کیا ۔ایران میں تبدیلی کے لیے مغربی طاقتیں بہت بے قرار ہیں لیکن بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ ابھی رائے عامہ کسی بہت بڑی تبدیلی اور مغرب کی جانب جھکاﺅ کے لیے تیار نہیں ہے ۔آیت اللہ علی خامنائی نے اپنی گفتگو میں اس جانب اشارہ کرتے ہو ئے کہا کہ مغربی قوتیں ،سفارتی آداب کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ہمارے اندرونی معاملات میں مداخلت کر رہی ہیں۔ہم انہیں متنبہ کرنا چاہتے ہیں کہ وہ ہمارے اداروں میں بے جا مداخلت کی پالیسی ترک کر دیں ۔ موسوی صاحب کا معاملہ یہ ہے کہ انتخابی نتائج آنے کے بعد ان کے حامیوں کی ایک بڑی تعداد احتجاج کے لیے سڑکوں پر آئی، پھر انہوں نے چند ہی دنوں میں دیکھا کہ مظاہرین کی تعداد بہت کم ہو گئی ہے تو احتجاج ملتوی کرنے کا فیصلہ کر لیا ۔اب تازہ ترین اعلان میں انہوں نے پھر یہ کہا ہے کہ وہ احتجاج جاری رکھیں گے اور اپنے حامیوں کو تلقین کی ہے کہ اگر وہ اس جدو جہد میں مارے گئے تو ان کے بعد تحریک جاری رکھی جائے ۔کئی تجزی نگاروں کا کہنا یہ ہے کہ شکست خوردہ صدارتی امیدوار کا یہ اعلان مغربی قوتوں کی مداخلت کی غمازی کرتا ہے ۔ایک قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ 2008ءکے انتخابات میں منتخب ہو نے والی پارلیمان میں ارکان کی اکثریت موجودہ صدر کی حامی ہے ۔حیران کن امر یہ ہے کہ تہران سے منتخب ہونے والے اکثر ارکان بھی قدامت پسندوں کے حامی ہیں۔


خبر کا کوڈ : 7201
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش