0
Monday 30 May 2011 13:35

کیا مشرقِ وسطیٰ پر امریکی پالیسی تبدیل ہو رہی ہے؟

کیا مشرقِ وسطیٰ پر امریکی پالیسی تبدیل ہو رہی ہے؟
تحریر:ثاقب اکبر
گذشتہ دنوں امریکی صدر باراک اوباما نے اپنی مختلف تقاریر میں مشرق وسطیٰ میں جمہوری تحریکوں کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ انھوں نے خاص طور پر 19 مئی کو مشرق وسطیٰ کے بارے میں ایک پالیسی بیان دیا۔ باراک اوباما جنھوں نے 2009ء میں قاہرہ میں عالمِ اسلام سے اپنے پچاس منٹ کے خطاب میں ایک مرتبہ بھی ”جمہوریت“ کا لفظ استعمال نہیں کیا تھا اپنے مذکورہ پالیسی بیان میں 9 مرتبہ ”جمہوریت“ کا ذکر کیا۔ انھوں نے کہا کہ اب کوئی مطلق العنان حکومت استحکام فراہم نہیں کر سکتی۔ انھوں نے کہا کہ حالات کو جوں کا توں نہیں رکھا جاسکتا۔ انھوں نے واضح طور پر کہا کہ عام لوگوں کی خواہشات کا ساتھ دینا امریکہ کی اہم ترجیح ہو گی۔ انھوں نے مزید کہا کہ اب زبردستی کی حکومتیں نہیں چل سکتیں۔ ان کی چونکا دینے والی بات یہ تھی کہ فلسطینی ریاست کی سرحدیں وہ ہونی چاہئیں جو 1967ء میں اسرائیلی حملے سے پہلے تھیں۔
صدر باراک اوباما مشرق وسطیٰ میں جمہوریت کی حمایت میں کتنے سنجیدہ ہیں اس پر پوری دنیا میں تبصرے جاری ہیں۔ یہ سوال بھی اہم ہے کہ باراک اوباما واقعاً اس حوالے سے کتنا اختیار رکھتے ہیں۔ اس سوال کا جواب جلد ہی سامنے آ گیا، جب اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے امریکی کانگریس سے خطاب کرتے ہوئے صدر اوباما کے اس نظریے کو مسترد کر دیا۔ وہ جب صدر اوباما کے اس نظریے پر تنقید کر رہے تھے تو کانگریس میں اُن کی حمایت میں زبردست تالیاں بج رہی تھیں اور پوری امریکی قیادت نیتن یاہو کے خطاب پر اس قدر جوش و خروش کا اظہار کر رہی تھی جیسے امریکہ کے صدر باراک اوباما نہ ہوں بلکہ نیتن یاہو ہوں، جو امریکی کانگریس کے جذبات اور افکار کی ترجمانی کر رہے تھے۔ بہت سے سابق امریکی سفارت کاروں اور سیاستدانوں نے بھی صدر اوباما پر تنقید کی۔ یہاں تک کہ صدر اوباما کو پسپائی اختیار کرنا پڑی اور اپنے الفاظ کو نسبتاً نرم معنی پہنانا پڑے۔
یہ سب کچھ اس کے باوجود ہوا کہ انھوں نے اپنے خطاب میں اسرائیل کی زور دار حمایت میں کوئی کمی نہ کی تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل اور امریکہ کا تعلق ایسا ہے، جسے ہلایا نہیں جاسکتا اور ہماری دوستی ہر طرح کے شبہ سے بالاتر ہے۔ اپنے خطاب میں صدر اوباما نے اسرائیل کی سیکورٹی کو امریکی ذمہ داری قرار دیا۔ وہ اسرائیل کی اس سے بڑھ کر ناز برادری کرتے آئے ہیں۔ اس حوالے سے انھوں نے فلسطینیوں کی مظلومیت کو اس حد تک نظر انداز کیا کہ اُن کی اپنی ایڈوائزی کونسل کی ایک سابق رکن ڈالیا موگاہد نے بھی اپنے ایک مضمون میں اس کا نوٹس لیا ہے۔ ڈالیا موگاہد جو اس وقت ابو ظہبی گیلپ مرکز اور گیلپ مرکز برائے مسلم سٹڈیز کی ڈائریکٹر ہیں، نے کامن گراﺅنڈ نیوز سروس کی طرف سے شائع ہونے والے 20 مئی کے اپنے ایک مضمون میں لکھا کہ اوباما نے سیکورٹی سے متعلق اسرائیل کی ضروریات کا ذکر کیا اور ان کے بچوں کے لیے نفرت اور تشدد کے رجحان پر بات کی، تاہم انھوں نے فلسطینیوں کی سیکورٹی ضروریات یا اسرائیلی تشدد کے خطرے کا کوئی ذکر نہیں کیا، جیسے اس تنازع کا نتیجہ صرف اسرائیلی شہریوں کی ہلاکت کی صورت میں نکل رہا ہو۔
جہاں تک مشرق وسطیٰ کے عوام کی جمہوری حقوق کے لیے ابھرنے والی جدوجہد کا تعلق ہے، صدر اوباما نے لیبیا، شام اور ایران کا بالخصوص ذکر کرتے ہوئے دھمکی آمیز لہجے میں کہا کہ کئی ملکوں میں تبدیلی کے مطالبے کا جواب ریاستی تشدد سے دیا جا رہا ہے۔ ان تینوں ملکوں کا اکٹھا ذکر کرنے سے وہ جو مقاصد حاصل کرنا چاہتے تھے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ لیبیا میں اپنی مرضی کی تبدیلی لانے کے لیے امریکہ نیٹو فورسز کے ساتھ مل کر جو کچھ کر رہا ہے اُس پر خود نیٹو کے کئی اتحادی بھی اپنے تحفظات کا اظہار کر چکے ہیں جن میں ترکی بھی شامل ہے۔ حیرت کی بات ہے صدر اوباما نے سعودی عرب کا کوئی ذکر نہیں کیا۔ انھیں سعودی عرب میں نہ ”مطلق العنان حکومت“ دکھائی دیتی ہے نہ ”حالات کو جوں کا توں رکھنے“پر اعتراض ہے۔ شام کی مشکیں کسنے کے لیے تو امریکہ ایک طویل عرصے سے مختلف حربے استعمال کر رہاہے۔ سابق لبنانی وزیراعظم رفیق حریری کے قتل میں امریکہ نے شام کو پھنسانے کے لیے سو جتن کر ڈالے۔ حماس کی حمایت کے جرم میں شام سالہا سال سے ”بدی کا محور“ قرار دیا جا رہا ہے اور اب جمہوریت کے نام پر لگے ہاتھوں شام میں بھی سعودی اور اردنی حمایت سے تبدیلی لائی جاسکے تو امریکہ کے کتنے ارمان پورے ہو جاتے ہیں۔
اگرچہ امریکی صدر نے مشرق وسطیٰ کے بارے میں اپنے پالیسی بیان میں خطے کے عوام کو یقین دلانے کی کوشش کی ہے کہ وہ عام لوگوں کی خواہشات کا ساتھ دیں گے، لیکن خود اس خطے کے عوام کو نہ فقط ان کی اس بات پر اعتبار نہیں بلکہ ان کے خدشات اس یقین دہانی سے بالکل برعکس ہیں۔ ایک حالیہ گیلپ سروے کے مطابق لوگوں کی اکثریت کو یہ خدشہ ہے کہ امریکہ ان کے سیاسی مستقبل میں دخل اندازی جاری رکھے گا۔ سب سے زیادہ خطرہ مصری عوام کو ہے، جنھوں نے حال ہی میں ایک مرتبہ پھر عظیم الشان مظاہرے کیے ہیں۔ انھوں نے اپنی حکومت پر زور دیا ہے کہ اسرائیلی سفیر کو مصر سے واپس بھیجا جائے اور اسرائیل سے سفارتی تعلقات منقطع کیے جائیں۔ انھیں اپنے فوجی جرنیلوں کے امریکہ سے تعلقات کی وجہ سے شدید خدشات لاحق ہیں۔ ایک مصری نے اپنے معاملات میں امریکی مداخلت پر احتجاج کرتے ہوئے پریس ٹی وی سے انٹرویو میں کہا کہ اگر امریکہ مصر میں مداخلت کو جائز سمجھتا ہے تو پھر امریکی کانگریس اور امریکی صدر کے انتخابات میں مصریوں کو بھی ووٹ دینے کا حق دے۔
صدر اوباما نے اپنے خطاب میں مشرق وسطیٰ کے بعض ممالک کی اقلیتوں کے حقوق کا بھی ذکر کیا۔ ڈالیا موگاہد نے اس پر بھی ایک غور طلب نکتے کا اضافہ کیا ہے۔ وہ لکھتی ہیں”صدر نے مصر اور بحرین میں مذہبی اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ کرنے کی نشاندہی بجا طور پر کی لیکن وہ اسرائیل اور سعودی عرب کی اقلیتوں کا ذکر کرنے سے باز رہے۔“
یاد رہے کہ اسرائیل کی اقلیت سے ان کی مراد وہ فلسطینی ہیں جو اسرائیل میں بستے ہیں۔ تاہم صدر اوباما نے بحرین کی کس اقلیت کا ذکر کیا ہے اس پر بھی کچھ کہنے کی ضرورت نہیں تھی۔ بحرین کی اکثریت شیعہ مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ اگرچہ خاندانی حکمرانی اور بادشاہت کا سوائے ”اقتدار“ کے کوئی مذہب نہیں ہوتا، تاہم بحرین کے حکمران آل خلیفہ جس طرح سے عوام کو دبانے کے لیے مذہب کو بے رحمی سے استعمال کر رہے ہیں اُس کا ذکر کرنے کے بجائے صدر باراک اوباما نے بحرین کی ”اقلیت“ کے حقوق کا ذکر کر کے سب کو حیران کر دیا ہے۔
یہ سوال اپنی جگہ پر باقی ہے کہ صدر اوباما نے 1967ء سے پہلے کی سرحدوں کا ذکر کیوں کیا۔ اس میں شک نہیں ہونا چاہیے کہ اُن کی تقریر کی تیاری وائٹ ہاﺅس کے متعلقہ ذمہ دار حکام نے کی ہو گی۔ یہ ممکن نہیں کہ انھوں نے خود سے بیٹھ کر یہ تقریر لکھ لی، کسی سے مشورہ بھی نہ لیا اور پھر خود سے سنا دی۔ امریکہ میں”پالیسی بیان“ یوں تیار نہیں ہوتے۔ جو لوگ مشرق وسطیٰ میں بدلتے ہوئے حالات اور خاص طور پر اسرائیل کو درپیش حقیقی خطرات پر نظر رکھتے ہیں انھیں صدر اوباما کی اس بات کی معنویت کو سمجھنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آنا چاہیے۔ صدر اوباما خطے میں تنہا ہوتے ہوئے اسرائیل کی بقاء اور تحفظ کے لیے علاقے میں فلسطینیوں اور انقلابی عربوں کو ایک نئی امید دینا چاہتے تھے، اگرچہ یہ امید کل کو سو فیصد جھوٹی ثابت ہو جائے۔ صدر اوباما اور اُن کی ٹیم خطے کی صورت حال میں امریکہ کے نزدیک ترین اتحادی کو بچانے کے لیے لفظوں اور تجاویز کا سہارا لینا چاہتی تھی۔ افسوس طاقت کے نشے میں بدمست امریکی نیوکان اور صہیونی وزیراعظم فلسطینیوں کو لفظی رعایت بھی دینے کو تیار نہیں۔
صدر اوباما نے 1967ء سے پہلے کی سرحدوں کے ادل بدل سے فلسطینی ریاست کی حدود کے ذکر سے جس طرح پسپائی اختیار کی ہے انھیں شاید اپنی اور بھی بہت سی باتوں سے پسپائی اختیار کرنا پڑے گی۔ یہاں تک کہ نئے امریکی صدارتی انتخابات کا مرحلہ آ پہنچے گا۔ شاید اس وقت تک دنیا اور بھی بہت بدل چکی ہو گی کیونکہ
سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں
ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں

خبر کا کوڈ : 75572
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش