0
Friday 24 Jul 2009 11:38

صدر اوباما سے وابستہ امیدوں کا سورج گہنا گیا

صدر اوباما سے وابستہ امیدوں کا سورج گہنا گیا
آصف جیلانی
21 جولائی کو صدر اوباما کے اقتدار کے چھ ماہ بیت گئے۔ یہ چھ مہینے جس برق رفتاری سے گزرے اسی تیزی سے وہ توقعات اور امیدیں بھی معدوم ہو گئی ہیں جو اِس سال 21 جنوری کو اُن کے صدارت پر فائز ہوتے وقت امریکی اور دنیا بھر کے عوام نے اُن سے وابستہ کی تھیں۔ اُس وقت ہر سُو یہ ڈنکا بجا تھا کہ امریکا کی تاریخ میں ایک سیاہ فام صدر قدامت پسند اور جنگجو بش کے دور کی سامراجی تسلط اور توسیع پسند پالیسیوں کے خاتمہ کا نقیب ثابت ہو گا۔ اس حقیقت سے بہت کم لوگ انکار کرتے ہیں کہ چھ ماہ قبل صدر اوباما سے نئی توقعات اور نئی امیدوں کا جو سورج طلوع ہوا تھا وہ اب گہنا گیا ہے اور وہ دور ختم ہو گیا ہے جسے اوباما کا ہنی مون کہا جاتا تھا۔ مشرق وسطیٰ میں امن مذاکرات کی تجدید اور عرب اسرائیل تنازعہ کے منصفانہ حل کی امیدیں اسی وقت ختم ہو گئی تھیں جب صدر اوباما نے اپنے اردگرد ایسے افراد جمع کیے تھے جن پر شکوک و شبہات کے گہرے سائے چھائے ہوئے تھے اور جن کے بارے میں یہ رائے تھی کہ ان کے وہائٹ ہاﺅس میں ہوتے ہوئے مشرق وسطیٰ میں قیامِ امن کے بارے میں صدر اوباما اپنے اہداف حاصل نہ کر سکیں گے۔ ان میں سرفہرست وہائٹ ہاﺅس کے یہودی چیف آف اسٹاف راہم ایمینول ہیں جن کے کھلم کھلا اسرائیل کے صہیونیوں سے قریبی روابط ہیں۔ پھر ایک اور کٹّر صہیونی نواز ہیلری کلنٹن کو وزیر خارجہ کے عہدے پر فائز کیا گیا۔ ہیلری کلنٹن خود تو یہودی نہیں لیکن وہ یہودیوں کے گڑھ نیویارک سے دو بار سینیٹر رہ چکی ہیں۔ اس دوران وہ اسرائیل کی زبردست حامی مانی جاتی تھیں اور انہیں کبھی فلسطینیوں کا ہمدرد تصور نہیں کیا گیا۔ ان کے علاوہ صدر اوباما نے صدر بش کے پرانے معتمدین کو چن چن کر اپنا مشیر مقرر کیا، جن میں مشرق وسطیٰ کے لیے بش کے ناکام ایلچی ڈینس راس،رچرڈ ہالبروک، کرسٹوفر ہل اور کشمیری فرح پنڈت نمایاں ہیں۔ بش کے دور کی وہائٹ ہاﺅس کی پرانی مشیر فرح پنڈت کو عالم اسلام کے لیے خاص ایلچی مقرر کیا گیا ہے۔ بش کے وزیر دفاع رابرٹ گیٹس کے تقرر پر بہت سے لوگوں کا ماتھا ٹھنکا تھا اور یہ خطرہ ظاہر کیا جارہا تھا کہ افغانستان اور عراق کی جنگ کے سلسلے میں بش کی حکمت عملی کا تسلسل جاری رہے گا۔ پچھلے چھ ماہ کے دوران مشرق وسطیٰ کے لیے اوباما کے خاص ایلچی جارج مچل نے دورے تو طوفانی گھن گرج کے ساتھ بہت کیے لیکن ایک قدم بھی انہیں پیش رفت نہیں ہوئی۔ اسرائیل سے امن مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کی بات منوانا تو دور کی بات ہے،اب تک صدر اوباما اسرائیلی رہنماﺅں سے یہ بات بھی نہیں منوا سکے کہ یروشلم اور غرب اردن میں یہودی بستیوں کی توسیع روک دی جائے کیونکہ یہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی ہے۔ اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نیتن یاہو نے اس بارے میں صدر اوباما کی درخواست یکسر ٹھکرا دی ہے اور کھلم کھلا کہا ہے کہ یہودیوں کو یروشلم میں ہر جگہ آباد ہونے کا حق ہے۔ اسرائیل کے بارے میں صدر اوباما کی دوغلی پالیسی اور ابہام کا پردہ اُس وقت چاک ہو گیا جب ایران میں صدارتی انتخاب کے بعد بھڑکنے والے فسادات میں چند اموات پر تو صدر اوباما نے ایسا شور مچایا جیسے قیامت آگئی،لیکن اِس سال جنوری میں غزہ میں امریکا کے جدید اسلحہ کی مدد سے اسرائیل نے جو تباہی مچائی تھی اس میں پندرہ سو سے زیادہ فلسطینی جاں بحق ہو گئے تھے،اُس وقت صدر اوباما نے اس تباہ کن جنگ کی مذمت میں ایک لفظ بھی نہیں کہا۔ اپنے اقتدار کے افتتاح کے موقع پر صدر اوباما نے ایران کے ساتھ مفاہمت کی خواہش کا اظہار کیا تھا لیکن اسرائیل کا شدید دباو ان کی راہ میں ایسی فصیل بن گیا کہ اسے عبور کرنے کی ان میں ہمت نہ ہو سکی۔ اوباما انتظامیہ کے لیے ایران کے صدارتی انتخاب پر ہنگامے غیبی مدد ثابت ہوئے جن کے بہانے ایران کے ساتھ مفاہمت کے کواڑ فوراً بند کر دیئے گئے۔ اب خطرہ یہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ کہیں اسرائیل صدر اوباما کو ایران کے خلاف فوجی طالع آزمائی کی طرف نہ دھکیل دے۔ صدارتی انتخاب کی مہم کے دوران بارک اوباما نے نہایت واضح الفاظ میں یہ پیمان کیا تھا کہ وہ برصغیر میں پائیدار امن کے قیام کے لیے کشمیر کے مسئلے کے تصفیے کی خاطر مصالحت کے لیے اقدامات کریں گے۔ اور جب اقتدار سنبھالنے کے بعد انہوں نے رچرڈ ہالبروک کو برصغیر کے لیے اپنا ایلچی مقرر کیا تھا تو ہندوستان نے اپنی لابی کے ذریعے رچرڈ ہالبروک کے مشن سے ہندوستان کو حذف کرا دیا اور انہیں محض پاکستان اور افغانستان کے لیے ایلچی کے فرائض سونپے گئے۔ یہ صدر اوباما کی پہلی سفارتی شکست تھی جو انہیں ہندوستان کے ہاتھوں اٹھانی پڑی۔ بلاشبہ صدر اوباما کو افغانستان کی جنگ پاکستان کی سرزمین پر منتقل کرنے کی حکمت عملی میں خاصی کامیابی ہوئی ہے۔ گزشتہ اپریل سے اوباما انتظامیہ پاکستان کے حکمرانوں کو سوات اور ملاکنڈ ڈویژن میں طالبان کے خلاف بھرپور فوجی کارروائی شروع کرنے پر آمادہ کرنے میں کامیاب رہی ہے اور اب حال میں جنوبی افغانستان میں پاکستان کی سرحد سے ملحق علاقوں میں بڑی تعداد میں امریکی فوج جھونک کر سرحد کے دونوں جانب مشترکہ فوجی کارروائی کی راہ ہموار کی جا رہی ہے۔اسی کے ساتھ پاکستان پر زبردست دباو ہے کہ وہ شمالی اور جنوبی وزیرستان میں بھی سوات او ر ملاکنڈ کی طرح بڑے پیمانے پر فوجی کارروائی شروع کرے۔ پچھلے چھ ماہ کے دوران صدر اوباما کو سب سے بڑی مایوسی گوانتانامو بے کے کیمپ کے خاتمے کے پیمان پر عمل درآمد میں ناکامی کی بنا پر ہوئی ہے۔ صدر اوباما نے اپنے عہدے کا حلف اٹھانے کے دوسرے دن اعلان کیا تھا کہ گوانتانامو بے کا کیمپ ایک سال کے اندر اندر بند کر دیا جائے گا،اور انہوں نے اس میں قید 245 افراد کے خلاف فوجی عدالت میں مقدمات کی سماعت معطل کرنے کا حکم نامہ جاری کیا تھا،لیکن اس کے سات روز بعد گوانتاناموبے کیمپ کے فوجی جج نے وہائٹ ہاﺅس کا حکم مسترد کر دیا اور اسی کے ساتھ امریکی سینیٹ نے کیمپ بند کرنے کے لیے فنڈ کی منظوری روک دی۔ صدر اوباما نے گزشتہ جنوری میں کیمپ بند کرنے کے بارے میں چھ ماہ کے اندر اندر رپورٹ تیار کرنے کے لیے ایک کمیٹی مقرر کی تھی،اب چھ ماہ گزرنے کے بعد اس کمیٹی نے رپورٹ پیش کرنے سے معذوری ظاہر کی ہے اور اس کی میعاد میں مزید چھ ماہ کی توسیع کر دی گئی ہے۔ دراصل خود امریکی انتظامیہ میں بااثر عناصر گوانتاناموبے کے عقوبت خانے بند کرنے کے خلاف ہیں،لہٰذا بڑا مشکل نظر آتا ہے کہ صدر اوباما اگلے سال جنوری تک یہ کیمپ بند کرنے کے بارے میں اپنا وعدہ پورا کرسکیں۔ صدر اوباما نے اپنے افتتاحی خطاب میں جوہری اسلحہ کی تخفیف اور بالآخر اس کے خاتمے کے لیے اقدامات کا وعدہ کیا تھا،لیکن ابھی تک اس ضمن میں کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی ہے۔ عراق کا جہاں تک تعلق ہے وہاں سے امریکی فوجیوں کی واپسی کے پروگرام پر فی الحال عمل ہو رہا ہے۔ ویسے اس پروگرام کے پہلے مرحلے میں امریکی فوجیں شہری علاقوں سے نکل رہی ہیں اور کنٹرول عراقی فوجوں کو سونپ رہی ہیں لیکن بہت کم لوگوں کو توقع ہے کہ اگلے سال کے آخر تک امریکی فوجوں کا عراق سے انخلاء شروع ہوسکے گا۔ صدر اوباما کی انتظامیہ کی سب سے مایوس کن کارکردگی داخلی پالیسیوں کے سلسلے میں رہی ہے۔ آٹھ سو ارب ڈالر کی مالی امداد کے باوجود ملک کی معیشت میں بہتری کے کوئی آثار نظر نہیں آتے۔ واشنگٹن سمیت پندرہ ریاستوں میں بے روزگاری کی شرح دس فیصد تک اور بجٹ خسارہ ایک ہزار ارب ڈالر تک پہنچ گیا ہے۔ اس وقت سب سے بڑی آزمائش صدر اوباما کے لیے ان کا صحت کا منصوبہ ہے جس پر اندازہ ہے کہ پچاس سے پینسٹھ ارب ڈالر سالانہ خرچ آئے گا۔ اس منصوبے کے لیے بش کے دور میں ڈھائی لاکھ ڈالر سے زیادہ آمدنی پر ٹیکس کی جو چھوٹ دی گئی تھی وہ واپس لے لی جائے گی اور دس لاکھ ڈالر سے زیادہ کی آمدنی پر ساڑھے پانچ فیصد ٹیکس نافذ کیا جائے گا۔ اسی بنا پر مالدار لوگوں اور انشورنس کمپنیوں کی طرف سے منصوبے کی شدید مخالفت کی جا رہی ہے۔ اسی منصوبے پر جیت ہار کی بنیاد پر یہ فیصلہ ہوگا کہ صدر اوباما اگلے ساڑھے تین سال کتنے بااثر صدر ثابت ہوں گے۔ یہ بات یقینا صدر اوباما کے لیے تشویش کا باعث ہے کہ ان کی مقبولیت اس وقت صدر بش کی مقبولیت سے بھی کم ہے جب انہوں نے اقتدار میں چھ ماہ مکمل کیے تھے۔ اس کا انکشاف یو ایس ٹوڈے اور گیلپ سروے میں ہوا ہے۔

خبر کا کوڈ : 8627
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش