1
0
Monday 2 Jan 2012 23:16

اسٹبلشمنٹ پارا چنار کیلئے اپنا ایک خاص منصوبہ رکھتی ہے جسکی وجہ سے مسائل حل نہیں ہو رہے، سید علی شاہ کاظمی

اسٹبلشمنٹ پارا چنار کیلئے اپنا ایک خاص منصوبہ رکھتی ہے جسکی وجہ سے مسائل حل نہیں ہو رہے، سید علی شاہ کاظمی
سید علی شاہ کاظمی کا تعلق پارا چنار سے ہے اور وہ یوتھ آف پارا چنار کے فعال افراد میں سے ہیں، انہی کی کوششوں سے یوتھ آف پارا چنار معرض وجود میں آئی ہے۔ اسلام ٹائمز نے اُن سے یوتھ آف پارا چنار کے اہداف و مقاصد اور پارا چنار کی موجودہ صورتحال پر گفتگو کی ہے، جو قارئین کے لیے پیش کی جا رہی ہے۔

اسلام ٹائمز:یوتھ آف پارا چنار کے قیام کے اہداف و مقاصد کیا ہے۔؟
سید علی شاہ کاظمی: یوتھ آف پارا چنار، پارا چنار کرم ایجنسی کے حقوق کے تحریک کا نام ہے جو پارا چنار کی 6 لاکھ سے زیادہ آبادی کے حقوق کی جنگ لڑ رہی ہے۔ اپریل 2007ء میں طالبان دہشتگردوں نے مقامی خائن اور دہشتگرد قبائل کی مدد سے کرم ایجنسی پر حملوں کا سلسلہ شروع کیا اور مسلسل پانچ سالوں تک یہ حملے مختلف شکلوں اور صورتوں میں جاری ہیں۔ مختلف ملکی و غیر ملکی ایجنسیاں ڈائریکٹ یا ان ڈائریکٹ ملوث ہونے کی وجہ سے مسئلہ بہت گھمبیر ہو گیا۔ اس کے علاوہ پولیٹکل انتظامیہ اور خفیہ ایجنسیوں کی غلط رپورٹنگ نے پارا چنار مسئلے کو قبائلیوں کی لڑائی قرار دیا تو کبھی فرقہ واریت کی جنگ قرار دیا، لیکن حقیقت اسکے برعکس ہے۔

پارہا چنار کا مسئلہ خالصتاََ دہشتگرد طالبان (جسکی پشت پناہی ملکی و غیر ملکی خفیہ ایجنسیاں کر رہی ہیں) اور مقامی محب وطن شیعہ طوری و بنگش قبائل کی لڑائی ہے، ایجنسیوں کی غلط رپورٹنگ اور میڈیا میں غلط پرزنٹیشن کی وجہ سے پارا چنار کے مسئلہ کی حقیقت کو عوام الناس سے چھپایا گیا۔ یوتھ آف پارا چنار کے بنیادی اہداف و مقاصد یہی ہیں کہ پارا چنار مسئلے کی حقیقت کو دنیا کے سامنے آشکار کیا جائے، جن قوتوں نے مسئلے کو پیدا کیا ہے اُنکے کردار کو عوام کے سامنے ظاہر کیا جائے۔
 
ہم نے محب وطن طوری و بنگش قبائل کے کردار اور قربانیوں کو پوری قوم کے سامنے واضح کیا، ہم نے 1600 سے زیادہ شہداء اور 5000 سے زیادہ زخمیوں اور اُنکے خاندانوں کی قربانیوں کو دنیا کے سامنے پیش کیا۔ ہم نے پولیٹکل انتظامیہ اور FC کے منافقانہ کردار کو واضح کیا۔ ٹل، پارا چنار روڈ کی بندش کی وجہ سے بنیادی انسانی حقوق جو حکومت نے سلب کئے تھے اُنکو میڈیا کے ذریعے عوام الناس کے سامنے ظاہر کیا۔ الغرض یوتھ آف پارا چنار کے 110 دنوں کی طویل احتجاجی کیمپ، ریلیوں، مظاہروں اور دھرنوں میں پارا چنار مسئلے کی حقیقت سے پردہ اُٹھایا۔ تمام کرداروں کو واضح کیا۔

اسلام ٹائمز:اب تک یوتھ آف پارہ چنار کی کارکردگی کیا ہے۔؟
سید علی شاہ کاظمی: یوتھ آف پارا چنار، پارا چنار کے باشعور جوانوں کی ایک تحریک ہے، جو تحریک چلا رہے ہیں اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرتے ہوئے چلا رہے ہیں اور اپنی ذمہ داریوں پر عمل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ دیکھئے پارا چنار کرم ایجنسی پاکستان کا جغرافیائی اور فوجی لحاظ سے اہم ترین علاقہ ہے اور وہاں کی 6 لاکھ سے زیادہ آبادی محب وطن پاکستانی ہیں اور یہ کسی بھی اسٹیٹ اور حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے شہریوں کی جان و مال اور بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کی ضمانت دے۔ اسٹیٹ اور حکومت کو احساس دلانے کیلئے ہم نے میڈیا کے ذریعے اپنی آواز اُٹھائی۔ 

ملکی و غیر ملکی میڈیا کے ذریعے ہم نے پارا چنار مسئلے کو اُٹھایا۔ قومی اسمبلی کے انسانی حقوق کی اسٹینڈنگ کمیٹی اور سینٹ کے انسانی حقوق کی فنکشنل کمیٹی میں ہم نے پارا چنار مسئلے کو تصاویر اور ویڈیو ثبوت کے ساتھ ایک تفصیلی رپورٹ کی صورت میں پیش کیا۔ دونوں کمیٹیوں نے اہم سفارشات پیش کیں، جس میں طالبان کے خلاف فوجی آپریشن، 33 مغوی افراد کی رہائی، ٹل پارا چنار روڈ کھولنا، اور آرمی چیک پوسٹیں قائم کرنا، کرم ایجنسی کو ترقیاتی پیکج، طلباء کیلئے مفت تعلیم اور صحت کی سہولیات شامل ہیں۔ 

اسی طرح سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس کے بیحاف پر جسٹس جاوید اقبال نے ہمیں کورٹ بلایا اور ہم نے تصاویر اور ویڈیو ثبوت کے ساتھ تفصیلی رپورٹ سپریم کورٹ کے سامنے پیش کی۔ اُنھوں نے ہمیں بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور ٹل پارا چنار روڈ کو کھولنے کے حوالے سے اور اہم سول اور فوجی ذمہ داران کو اپنے چیمبر میں طلب کرنے کی یقین دہانی کرائی۔ اور اُنھوں نے کہا تھا کہ آپ لوگ چند ہفتوں میں تبدیلی دیکھیں گے۔ ان دونوں اداروں کے اقدامات سے ہم کافی حد تک مطمئن ہوئے۔

قومی اسمبلی کی انسانی حقوق کی کمیٹی نے وزیرِاعظم کے مشیر برائے وزارت انسانی حقوق مصطفٰی نواز کھوکھر کی سربراہی میں تین رکنی کمیٹی بنائی تھی جو وزارت داخلہ کے سیکرٹری اور وزارت دفاع کے سیکرٹری پر مشتمل تھی اور پارا چنار کے مسئلے کے حل کیلئے اقدامات کریں گی۔ مصطفٰی نواز کھوکھر نے اہم ترین کردار ادا کیا۔ پاکستان بھر کی تمام یونیورسٹیوں میں پڑھنے والے پارا چنار کے طلباء کیلئے مفت تعلیم کیلئے تمام یونیورسٹیوں کے سربراہان کو لیٹرز لکھوائے اور اُسکے مثبت نتائج آ رہے ہیں۔ اسکے علاوہ ہم نے تمام سیاسی پارٹیوں کے سربراہان، قومی اسمبلی، اور سینٹ کے ممبران سے رابطہ اور ملاقاتیں کیں اور پارا چنار کے مسئلے کی حقیقت سے آگاہ کیا۔

اسلام ٹائمز:پارا چنار کے موجودہ حالات کیا ہیں اور کیا مسائل درپیش ہیں۔؟

سید علی شاہ کاظمی: پارا چنار کی موجودہ صورتحال کافی حد تک بہتر ہوئی ہے۔ ٹل پارا چنار روڈ بندش کی وجہ سے جو مسائل درپیش تھے اس میں کافی حد تک کمی ہوئی۔ لیکن حکومت اور اسٹبلشمنٹ کی یکطرفہ کارروائیاں جاری ہیں۔ طوری و بنگش قبائل کو دیوار سے لگانے کی مسلسل کوشیش جاری ہیں، فاٹا میں جہاں بھی فوجی آپریشن ہوا ہے حکومت کے علاوہ فوج نے وہاں علاقے کی ترقی کیلئے مختلف تعلیمی، صحت انفراسٹرکچر کے ترقیاتی منصوبے شروع کیے ہیں۔ اسکی مثال آپ وزیرستان میں دیکھ سکتے ہیں، لیکن پارا چنار کرم ایجنسی میں ایسا کچھ کرنے کے آثار دور دور تک نظر نہیں آتے۔ بالخصوص پارا چنار کے عوام کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک کیا جا رہا ہے۔ 

پارا چنار جو کہ کرم ایجنسی کا ہیڈ کوارٹر ہے، تمام ڈیپارٹمنٹ کے ہیڈ آفسز یہاں ہیں اور ہونے چاہیے، لیکن ایک خاص سوچی سمجھی سازش کے تحت پارا چنار سے ہیڈ آفسز کو تحصیل صدہ میں منتقل کیا جا رہا ہے، جسکی مثال سی این ڈبلیو کی شکل میں ہمارے سامنے ہیں۔ پارا چنار میں طالبان کے حملوں کی وجہ سے مختلف اسکولوں اور بنیادی مراکزِ صحت اور انفراسٹرکچر تباہ ہو چکے ہیں اُن کیلئے کوئی اقدامات تاحال نہیں کئے گئے ہیں۔ موبائل سروس پچھلے دو تین سالوں سے آرمی والوں نے بند کی ہوئی ہے۔ عوام کا بیرونی ممالک اور اندرون ملک میں اپنے عزیز و اقارب سے رابطہ منقطع ہے اور بہت پریشانی کا سامنا کر رہے ہیں، جان بوجھ کر موبائل سروس کو کھولنے کیلئے کوئی اقدامات نہیں کئے جا رہے۔
 
1600 سے زیادہ طوری و بنگش قبائل کے شہداء جو ملک دشمن طالبان سے لڑتے ہوئے اور 5000 سے زیادہ افراد زخمی ہوئے ہیں، ان میں کچھ ایسے ہیں جن کے ہاتھ پائوں کٹ چکے ہیں۔ اُن کی ریہیبلیٹیشن کیلئے کوئی ایک مرکز بھی نہیں کھولا گیا اور اُن کی مشکلات کے حل کیلئے کوئی اقدامات نہیں کیے جا رہے ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق صرف طوری و بنگش قبائل کا 45 ارب کا نقصان ہوا ہے، یہ نقصانات انفرادی و ذاتی نقصانات کے علاوہ ہے، جبکہ حکومت نے جو ریہیبیلیٹشن کے پیکج کا اعلان کیا ہے وہ صرف 1 ارب 70 کروڑ ہے، آج کل پارا چنار میں سخت ترین سردی پڑ رہی ہے، پولیٹکل انتظامیہ اور ایف سی نے افغانستان بارڈر نشہ آور اشیاء اسمگل کرنے کیلئے کھول رکھا ہے، جبکہ افغانستان سے جلانے کیلئے استعمال ہونے والی لکڑیوں پر سخت پابندی لگائی گئی ہے۔ وزیراعظم نے جو پارا چنار کرم ایجنسی کو گیس کی فراہمی کا وعدہ کیا تھا وہ ابھی تک پورا نہیں ہو سکا۔

اسلام ٹائمز:پارا چنار کے مسائل کے حل کیلئے کونسے اقدامات ہونے چاہئے۔؟

سید علی شاہ کاظمی: پارا چنار کے مسائل کچھ اندرونی ہیں اور کچھ بیرونی، لیکن آپس میں مربوط ہیں اور گہرا تعلق رکھتے ہیں، اندرونی مسائل پولیٹکل انتظامیہ اور اسٹبلشمنٹ کے پیدا کردہ ہے، اور مقامی خائن اور ملک دشمن قبائل کو استعمال کر کے اپنے مقاصد حاصل کرتے ہیں، اور بیرونی مسائل غیر ملکی ایجنسیوں موساد، سی آئی اے اور را کے پیدا کردہ ہیں اور زیادہ تر افغانستان سے مربوط ہیں۔ 80 ء  اور 90ء کی دہائیوں میں غیر ملکی ایجنسیوں نے پاکستانی اسٹبلشمنٹ کے ساتھ مل کر مقامی خائن قبائل کو استعمال کر کے کرم ایجنسی کو تختہ مشق بنایا اور طوری و بنگش قبائل کا قتل عام کیا اور طوری و بنگش قبائل کی زمینوں پر قبضہ کیا، بالکل اسی طرح 2007ء سے تا حال لڑائی میں یہی قوتیں ملوث ہیں اور طوری و بنگش قبائل کا قتل عام کیا جا رہا ہے، جو تاریخ میں ہلاکو خان کی یاد کو تازہ کئے ہوئے ہیں۔

پارا چنار کے چند اہم مسائل اور انکا حل 
کرم ایجنسی کے شمال و مشرق میں ایک علاقہ ہے جو ایف آر کے نام سے جانا جاتا ہے یہ اورکزئی ایجنسی کا علاقہ ہے۔ 1971ء میں ایک سوچھی سمجھی سازش کے تحت اسکو کرم ایجنسی میں شامل کیا گیا، اور ایک جعلی مردم شماری کرائی، تاکہ کرم ایجنسی میں آباد شیعہ طوری و بنگش قبائل کو اقلیت میں تبدیل کیا جائے اور مزید ستم ظریفی یہ ہوئی گورنر خیبر پختونخواہ افتخار حسین شاہ نے اُسکو باقاعدہ طور پر کرم ایجنسی کا حصہ بنا دیا اور اسے وسطی کرم کا نام دیا، یہ علاقہ ہمیشہ سے دہشتگردوں کا گڑھ رہا ہے اور آج بھی یہ علاقہ طوری و بنگش قبائل کے خلاف ایک بیس کیمپ کے طور پر استعمال ہو رہا ہے۔ طوری و بنگش قبائل کا یہ مطالبہ ہے کہ چونکہ یہ علاقہ اورکزئی ایجنسی اور ہنگو سے متصل ہے اُس کو یا تو ایف آر اورکزئی یا ایف آر ہنگو بنایا جائے اور کرم ایجنسی کے حدود کو واضح کیا جائے، تاکہ سکیورٹی کے حوالے سے کرم ایجنسی کو محفو ظ بنایا جائے اور ترقیاتی بجٹ جو ایف آر کو ملتا رہا ہے پارا چنار کرم ایجنسی کو مکمل حصہ ملنا چاہئے۔

پارا چنار کرم ایجنسی کو ہمیشہ کیلئے امن و امان کا مسئلہ رہا ہے اور یہ مسئلہ ہمیشہ بیرونی دشمنوں نے پیدا کیا ہے۔ کرم ایجنسی کی سکیورٹی کیلئے طوری ملیشیاء بنائی گئی تھی جب تک یہ طوری ملیشیاء کرم ایجنسی میں تعینات تھی پارا چنار کرم ایجنسی افغانستان، وزیرستان، خیبر اور اورکزئی ایجنسی کے حملہ آوروں سے محفوظ تھی، جب سے طوری ملیشیاء کو پارا چنار کرم ایجنسی سے باہر وزیر ستان اور دیگر فاٹا میں تعینات کیا گیا ہے، تب سے پارا چنار کے عوام کو امن و امان کا مسئلہ رہا ہے، واضح رہے کہ طوری ملیشیاء میں کرم ایجنسی میں آباد قبائل آبادی کے تناسب سے بھرتی ہوتی رہی ہے اور تمام قبائل کی نمائندگی شامل ہے۔ لہذا طوری ملیشیاء کو کرم ایجنسی میں تعینات کیا جائے، تاکہ امن و امان کا مسئلہ ہمیشہ کیلئے حل ہو۔

کرم ایجنسی میں دو انتظامی ادارے ہیں، ایک پولیٹکل انتظامیہ اور دوسرا کرم ملیشیاء اور آرمی ہے۔ پولیٹکل انتظامیہ کے سربراہان پولیٹکل ایجنٹ اور اسسٹنٹ پولیٹکل ایجنٹ ہوتے ہیں، ایف سی اور آرمی کے سربراہان کرنل ہوتے ہیں، ان دونوں اداروں کے اقدامات ہمیشہ طوری و بنگش قبائل کے خلاف اور یکطرفہ رہے ہیں۔ کرم ایجنسی کی تاریخ میں آج تک ایک بھی شیعہ پولیٹکل ایجنٹ اور اسسٹنٹ پولیٹکل ایجنٹ تعینات نہیں کیا گیا اور نہ ہی ایف سی اور آرمی کا ایک کرنل شیعہ تعینات کیا گیا ہے۔ لہذا اس مسئلے کا بہترین حل یہ ہو سکتا ہے کہ محب وطن آفیسرز کو تعینات کیا جائے۔ اگر پولیٹکل ایجنٹ سنی ہو تو اسسٹنٹ پولیٹکل ایجنٹ شیعہ ہونا چاہئے اسی طرح اگر آرمی کرنل سنی ہو تو ایف سی کرنل شیعہ ہونا چاہئے۔

کرم ایجنسی طوری قبیلے کی ملکیت ہے، لیکن کرم ایجنسی کے دونوں انتظامی اداروں کے متعصب اقدامات کی وجہ سے طوری و بنگش قبائل کی زمینوں پر سنی قبائل کو آباد کرایا ہے اور ان کی آباد کاری میں دونوں اداروں کے سربراہان نے بھرپور مدد کی ہے۔ مثلا صدہ، خار کلے اور بالش خیل کے درمیان شمال کی جانب 900 ایکڑ زمین طوری قبیلے کی ملکیت ہے لیکن اس پر قبضہ مخالف قبیلے کا ہے۔ اسی طرح ضلع ہنگو کی تحصیل ٹل سے کرم ایجنسی کی طرف جاتے ہوئے جنوب کی طرف ہزاروں ایکڑ زمین طوری قبیلے کی ملکیت ہے۔ لیکن قبضہ مخالف قبیلے کا ہے۔ 

اس طرح مختلف علاقوں میں پہاڑ طوری قبیلے کے ہیں، لیکن قبضہ مخالفین کا ہے۔ یہ مسائل حل طلب ہیں، اُن کے حل میں کوئی مشکلات بھی نہیں ہے۔ لیکن متعصب انتظامی ادارے نہیں چاہتے کہ مسائل حل ہوں کیونکہ انتظامی ادارے انہی مسائل کو استعمال کر کے شیعہ سنی فسادات کراتے ہیں اور مستقبل کیلئے اپنا آپشن کھلا رکھتے ہیں کہ پانچ سال یا دس سال بعد اس علاقے میں کیا کرنا ہے کیونکہ اسٹبلشمنٹ پارا چنار کیلئے اپنا ایک خاص منصوبہ رکھتی ہے۔ لیکن خدا کا یہ وعدہ ہے کہ تم اپنی چال چلو اور ہم اپنی چال چلتے ہیں بیشک اللہ بڑا چال چلنے والا ہے۔
خبر کا کوڈ : 126713
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

بہت اچھی انفارمیشن ہے۔ اگر اسی طرح پاراچنار اور مظلوم طبقے کی کم از کم انفارمیشن بھی عام لوگوں تک پہنچائی جائیں تو یہ عوام کے شعور کو بلند کرنے میں کافی حد تک سازگار ثابت ہو سکتی ہیں اور انشاءاللہ عوام کو ایک عظیم انقلاب کی طرف لے جا سکتی ہیں۔
ہماری پیشکش