2
0
Friday 27 Jul 2012 23:32
اسلامی تحریکوں کے اقتدار میں آنے میں سب سے بڑی رکاوٹ آپس کے اختلافات ہیں

خطہ سے امریکہ کے پرامن انخلاء کیلئے پاکستان اور ایران کا موقف ایک ہونا ضروری ہے، سراج الحق

خطہ سے امریکہ کے پرامن انخلاء کیلئے پاکستان اور ایران کا موقف ایک ہونا ضروری ہے، سراج الحق
جماعت اسلامی پاکستان کے نائب امیر سراج الحق کا بنیادی تعلق صوبہ خیبر پختونخوا کے علاقہ دیر پائین سے ہے، آپ نے میٹرک تک بنیادی تعلیم مختلف مقامی سکولوں میں حاصل کی، جس کے بعد گورنمنٹ ڈگری کالج تیمر گرہ سے بی اے کی ڈگری لی، پشاور یونیورسٹی سے بی ایڈ اور پھر ایم اے تک تعلیم حاصل کی، آپ آٹھویں جماعت سے ہی اسلامی جمعیت طلبہ کیساتھ وابستہ ہوگئے، تین سال صوبائی سطح پر جمعیت کے ناظم رہے، بعد ازاں اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان کے ناظم اعلٰی بن گئے، تعلیمی مراحل سے فراغت کے بعد جب عملی میدان میں آئے تو تقریباً ایک سال جماعت اسلامی کے کارکن کے طور پر کام کیا، پھر باقاعدہ جماعت کے رکن بن گئے، بعد ازاں جماعت اسلامی صوبہ سرحد کے سیکرٹری جنرل کی ذمہ داری سنبھال لی، اکتوبر 2002ء کے انتخابات کے نتیجے میں ایم ایم اے کی حکومت کے قیام کے ساتھ بطور سینئر صوبائی وزیر حکومت میں چار سال فرائض سرانجام دیئے، 2003ء میں جماعت اسلامی صوبہ سرحد کے امیر بنے، اپریل 2009ء میں جماعت اسلامی کے مرکزی انتخاب کے بعد آپ کو نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان کی ذمہ داری سونپی گئی، سراج الحق کو درویش صفت طبیعت اور مجاہدانہ اوصاف کی بدولت جماعت اسلامی میں منفرد مقام حاصل ہے، دینی جماعت کے اہم رکن اور سیاستدان ہونے کیساتھ آپ ملکی اور بین الاقوامی امور پر بھی گہری نظر رکھتے ہیں، اسلام ٹائمز نے ملکی سیاسی صورتحال اور بین الاقوامی حالات کے تناظر میں سراج الحق کیساتھ ایک خصوصی انٹرویو کا اہتمام کیا، جو قارئین کے پیش خدمت ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: آپ کے خیال میں کیا ملی یکجہتی کونسل اپنے مقررہ اہداف حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گی یا پھر وہی مسائل دوبارہ درپیش آئیں گے، جن کی بنا پر یہ اتحاد ماضی میں غیر فعال ہوا تھا۔؟
سراج الحق: بنیادی چیز تو نیت اور ارادہ ہے اور نیت تو یہی ہے کہ جو مسلکی اختلافات ہیں انہیں کم کیا جائے، تاہم وہ ختم تو نہیں ہوسکتے، تاہم ان اختلافات کو علمی سطح پر لایا جائے، جھگڑے فساد کرنا، ایک دوسرے پر الزام لگانا اور لوگوں کو جگ ہنسائی کا موقع فراہم کرنے سے اجتناب کیا جائے، پاکستان میں مختلف مسالک کے لوگ موجود ہیں اور ظاہر ہے کہ ان کی موجودگی ایک حسن ہے۔ گلہائے رنگا رنگ سے ہے زینت چمن۔ مسلکی اختلاف تو صحابہ کرام کے دور میں بھی موجود تھے اور اس کے بعد بھی موجود رہے، لیکن اس زمانے میں یہ اختلاف نفرت اور تعصبات پر نہیں بلکہ علمی رائے کی بنیاد پر ہوتے تھے، لیکن بعد میں اب یہ شخصی اختلاف کی شکل میں نمودار ہوئے ہیں۔ پھر حزبی و گروہی اختلاف۔ پھر ایک چیز منبر و مہراب سے آگے جا کر عوام کے ہاں گلی کوچوں اور چوکوں اور چوراہوں پہنچتی ہے تو اس کی اصل شکل بالکل بدل جاتی ہے۔

یہاں پھر شیعہ اور سنی اختلافات سے بڑھ کر جھگڑے شروع ہوئے اور پھر اس میں قتل مقاتلے ہونے لگے، اسی طرح پھر دیوبندی اور بریلویوں کے مسائل ہیں اور اہلحدیث اور غیر اہلحدیث کے مسائل موجود ہیں، ہر معاملے پر مختلف آرا آتی تھیں، ان فاصلوں کو ختم کرنے اور لوگوں کو ایک میز پر لانے کیلئے ملی یکجہتی کونسل قائم کی گئی ہے، جس کے بہت اچھے اثرات نکل رہے ہیں، ملی یکجہتی کونسل کا ایک سیکرٹریٹ ہے، جس سے علماء کو ہر موضوع پر ایک خطبہ دیا جائے گا، اب پہلا خطبہ جو علماء کو بھیجا گیا ہے وہ رمضان المبارک کے حوالے سے ہے اور اس کے علاوہ بھی بہت ساری چیزیں ہیں، جو ویژن اور آئیڈیا کی سطح پر رہ کر بہتر شکل اختیار کریں گی۔

اسلام ٹائمز: بعض حلقوں کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ ملی یکجہتی کونسل کا قیام در اصل متحدہ مجلس عمل کی بحالی کے امکانات ختم ہونے کا اشارہ ہے۔ آپ اس بارے میں کیا کہیں گے۔؟
سراج الحق: یہ تو متحدہ مجلس عمل کی بحالی کیلئے ایک بہتر ماحول فراہم کر رہا ہے، یہاں مختلف مسالک کے لوگ آپس میں بیٹھے ہیں اور جو دوری تھی وہ ختم ہوگئی ہے، اس لحاظ سے اگر یہ اتحاد ایم ایم اے کی بحالی میں معاون ثابت نہیں ہوتا تو اس کی بحالی کے امکانات ختم کرنے کیلئے بھی نہیں ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ جب قاضی صاحب ملی یکجہتی کونسل کے صدر منتخب ہوئے تو ان کی کوشش رہی ہے کہ اس مجلس میں مولانا فضل الرحمان، مولانا سمیع الحق اور دیگر مسالک کے جید علمائے کرام بھی موجود ہوں۔

اسلام ٹائمز: جماعت اسلامی چونکہ دفاع پاکستان کونسل کا حصہ ہے اور نیٹو سپلائی کی بحالی سے قبل اس اتحاد کے رہنمائوں نے کہا تھا کہ اگر حکومت نے نیٹو سپلائی بحال کی تو اسے یہ فیصلہ واپس لینے پر مجبور کیا جائے گا، اب چونکہ سپلائی بحال ہوچکی ہے، لہذا دفاع پاکستان کونسل کا مستقبل کا لائحہ عمل کیا ہوگا۔؟
سراج الحق: دفاع پاکستان کونسل مختلف سیاسی جماعتوں کا اتحاد ہے اور یہ نیٹو سپلائی اور امریکی مداخلت کے خلاف قائم ہوا ہے، لیکن یہ کوئی فوجی تنظیم نہیں ہے کہ ڈنڈے اٹھائے جائیں اور ٹینکوں کا مقابلہ ٹینکوں سے کیا جائے، بلکہ ایک سیاسی پلیٹ فارم ہے اور سیاسی انداز میں حکومتی فیصلوں پر تنقید کرنا، احتجاج اور لانگ مارچ کرنا اس کا حصہ ہے، اور یہ ہو بھی رہا ہے، اگر کسی کا یہ خیال ہے کہ دفاع پاکستان کونسل والے ڈنڈے اٹھائیں گے تو ایسا نہیں، ہم ملک میں جو فساد ہے اسے کم کرنا چاہتے ہیں، اسی وجہ سے سیاسی انداز میں ہم اپنے مقصد کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ ہم حکومت کو مجبور کر دینگے کہ وہ نیٹو سپلائی کی بحالی کا فیصلہ واپس لے لے، اور ہماری اس تحریک کی وجہ سے حکومت کا جارحانہ انداز ختم ہوا ہے۔

اسلام ٹائمز: پاکستان کی اکثر اسلامی تحریکوں کا یہ ماننا ہے کہ پاکستان میں امریکی حمایت سے ہی اقتدار میں آیا جاسکتا ہے، ایسی صورتحال میں جماعت اسلامی اور دیگر دینی قوتیں حکومت میں آنے کی توقع کیسے رکھ سکتی ہیں۔؟
سراج الحق: اسلامی تحریکوں کے اقتدار میں نہ آنے میں امریکہ اور دوسری قوتوں سے بڑھ کر ان کے آپس کے اختلافات سب سے بڑی رکاوٹ ہیں، اور جب یہ ایک ہو جاتی ہیں تو قوم ان کی طرف متوجہ ہو جاتی ہے، میرا نہیں خیال کہ اگر یہ تمام لوگ ایک ایجنڈے پر متحد ہو جاتے ہیں تو امریکہ سمیت کوئی انکا راستہ روک سکتا ہے۔ ظاہر ہے کہ امریکہ زیادہ سے زیادہ یہ کرسکتا ہے کہ سیکولر جماعتوں کو ایک کردے، یعنی سیکولر جماعتوں اور دوسری طرف دینی جماعتوں کا اتحاد ہو جائے تو پھر غلامان مصطفٰی (ص) اور غلامان اوباما کے درمیان ایک مقابلہ ہو۔ میرا اپنا خیال یہ ہے کہ دینی ووٹ تقسیم کرنے کا عمل دینی جماعتیں ہی انجام دیتی ہیں اور جب وہ ایک ہو جاتی ہیں تو وہ ایک بڑی قوت بن جاتی ہیں، تحریک نظام مصطفٰی (ص) میں جب سب ایک ہوگئے تھے تو قوم نے ساتھ دیا، اسی طرح ختم نبوت (ص) کے مسئلے پر تمام دینی قوتیں ایک ہوئیں تو لوگوں نے انکا ساتھ دیا، اور جب متحدہ مجلس عمل کے نام پر یہ ایک ہوئیں تو قوم نے پھر ساتھ دیا، مسئلہ قوم کا نہیں بلکہ دینی جماعتوں کے آپس کے اتحاد کا ہے۔

اسلام ٹائمز: آئندہ الیکشن میں دینی جماعتیں کسی اتحاد کی بنیاد پر حصہ لیں گی یا دینی ووٹ گزشتہ انتخابات کی طرح پھر تقسیم ہو جائے گا۔؟
سراج الحق: ہم تو چاہتے ہیں کہ سب ایک ہو جائیں اور مسلکی اور جماعتی مفادات سے بالاتر ہو کر قوم کو بچانے، امریکی مداخلت کو ختم کرنے اور افغانوں کو سپورٹ دینے کیلئے متحد ہو جائیں، الیکشن کا چونکہ ابھی اعلان نہیں ہوا ہے اس لئے جو اتحادی ابھی نہیں بنے اور ابھی ہر چیز قبل ازوقت ہے، لیکن جیسے ہی الیکشن کا اعلان ہو جاتا ہے تو ایک صف بندی شروع ہو جائے گی۔

اسلام ٹائمز: چند روز قبل مجلس وحدت مسلمین کے سیکرٹری جنرل علامہ ناصر عباس جعفری نے اسلام ٹائمز کو انٹرویو میں کہا کہ جماعت اسلامی قاضی حسین احمد کے دور میں معتدل قوتوں کے قریب تھی، تاہم اب تکفیری گروہوں کے ساتھ ہے۔ آپ اس بارے میں کیا کہیں گے۔؟
سراج الحق: میں نہیں جانتا کہ انہوں نے یہ الزام کیوں عائد کیا ہے۔ ایسے جتنے بھی لوگ جو اسلحہ پر یقین رکھتے ہیں، آپ انہیں جمہوریت کی طرف لیکر آتے ہیں، آئین اور دستور کی جانب راغب کر لیتے ہیں، سیاسی جدوجہد اور الیکشن کی طرف لے آتے ہیں تو میں سمجھتا ہوں کہ اس میں ملک کی بہت بڑی خیر خواہی ہے۔ ماضی میں بھی جماعت اسلامی نے اس قسم کی کوششیں کی ہیں کہ وہ تنظیمیں جو مسلح جدوجہد پر یقین رکھتی ہیں، ان کو جمہوری جدوجہد کی طرف لایا جائے، اگر ایسا ممکن ہو جاتا ہے تو یہ بہت بڑی کامیابی ہوگی۔

اسلام ٹائمز: برما میں مسلمانوں کے قتل عام پر عالمی و ملکی میڈیا اور مسلم ممالک کی مجرمانہ خاموشی کو کیسے دیکھتے ہیں اور کیا جماعت اسلامی اس حوالے سے کوئی تحریک شروع کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔؟
سراج الحق: دیکھیں سب سے بڑی ذمہ داری تو او آئی سی اور حکمرانوں کی ہے کہ برما کی حکومت پر دبائو ڈالا جائے، سعودی عرب یہ کام کرے، ایران یہ کام کرے، اور سوڈان یہ کرے، پھر غیر جانبدار ممالک سے رابطہ کریں اور اقوام متحدہ میں بھی بات اٹھائی جائے، اسی طرح سلامتی کونسل میں اس ایشو کو اٹھایا جائے تو یہ ذمہ داری بنیادی طور پر تو ان حکمرانوں کی ہے، جو اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں، جماعت اسلامی تو ایک سیاسی جماعت ہے اور سیاسی جماعت ایک جلسہ اور احتجاج کرسکتی ہے، جو جماعت اسلامی پہلے ہی کر رہی ہے، ہمارا پاکستان کے حکمرانوں سے یہی مطالبہ ہے کہ وہ برما کے مسئلے پر غیرت اور ہمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے آواز اٹھائیں اور برما کی حکومت سے بات کی جائے۔

میرا خیال ہے کہ اگر حکومت پاکستان نے بھی یہ کام کر لیا تو وہاں کے مسلمانوں کو کافی ریلیف مل سکتا ہے۔ لیکن پاکستان کے حکمرانوں کا یہ ایجنڈا ہے ہی نہیں کہ افغانستان، فلسطین یا برما کے مسلمانوں کو کوئی ریلیف دیا جائے، ان کا اصل ایجنڈا اپنی حکمرانی ہے، جماعت اسلامی اس سلسلے میں اپنا فرض ادا کر رہی ہے اور آگے بھی کرے گی، آہستہ آہستہ یہ مسئلہ عوام کے سامنے آرہا ہے۔ پہلے تو لوگوں کو بالکل پتہ ہی نہیں تھا، جماعت اسلامی ایک سیاسی جماعت ہے، ہمارا کوئی اس قسم کا انٹیلی جنس نیٹ ورک نہیں کہ اگر کسی ملک میں کوئی واقعہ ہو وہ ہمیں فوری معلوم ہو جائے، ہمیں تب ہی پتہ چلتا ہے کہ جب میڈیا پر کچھ آتا ہے، جب یہ مسئلہ سامنے آیا تو ہم نے اس پر ایکشن لیا، تاہم پھر بھی ہمارا عمل ایک سیاسی جماعت کی حیثیت سے ہی ہے، ایک حکومت کی نہیں۔

اسلام ٹائمز: خطے سے امریکی مداخلت کا خاتمہ کب ہوتا دیکھ رہے ہیں۔؟
سراج الحق: میں سمجھتا ہوں کہ خود امریکہ تھک چکا ہے اور افغانستان سے نکلنے کیلئے اس نے ایک ٹائم ٹیبل بھی دیدیا ہے، لیکن اس کیلئے ضروری ہے کہ پاکستان اور ایران کا موقف ایک ہو اور ایک ہی حکمت عملی اپنائی جائے، تاکہ امریکہ کا انخلا ایک ایسے انداز میں ہو، جس سے الٹا پاکستان اور پڑوسی ممالک کو نقصان نہ پہنچے، لیکن پاکستان کی حکومت یہ چاہتی ہے کہ امریکہ افغانستان میں رہے، اس کو یہ خوف ہے کہ اگر افغانستان کے اندر اسلامی حکومت قائم ہوتی ہے تو اس کا ری ایکشن یہاں پر بھی آئے گا، اس لئے اسلام آباد کے جو منافقین ہیں وہ یہ نہیں چاہتے کہ امریکہ افغانستان سے چلا جائے، تاہم خیر اسی میں ہے کہ پاکستان اور ایران مل کر کابل کے حوالے سے حکمت عملی بنائیں اور وہاں افغان عوام کی حکومت قائم ہو جائے اور ان کی خود مختاری ہو۔

اسلام ٹائمز: عرب دنیا میں بیداری کی لہر کو کیسے دیکھتے ہیں اور وہ مسلم ممالک جہاں امریکی مداخلت ہے، اس کے خاتمے کیلئے کیا اقدامات تجویز کرینگے۔؟
سراج الحق: عرب دنیا میں جو تحریک اٹھی ہے اور ایک بہار آئی ہے اس کے پیچھے ایک طویل جدوجہد ہے، شہادتوں کی ہزاروں داستانیں ہیں اور ہزاروں کی تعداد میں ان لوگوں نے جیلوں کی سلاخوں اور پھانسی گھاٹوں کو چوما ہے، ایک تسلسل کے ساتھ وہاں کی قیادتوں نے قربانیاں دی ہیں، یہ ایسے علاقے ہیں جہاں جمہوریت تھی ہی نہیں، پہلی بار لوگوں کو آزادانہ ماحول میں ووٹ دینے کا موقع ملا اور انہوں نے اسلامی تحریکوں کے حق میں فیصلہ دیا، میں سمجھتا ہوں کہ آئندہ الیکشن میں عرب ممالک میں آنے والے ان انقلابات کا اثر پاکستان کے افق پر بھی ہوگا، اگر پاکستان کی دینی جماعتوں نے اسے اپنے حق میں کیش کیا تو یہ ان کے لئے ایک موقع ثابت ہوسکتا ہے، باقی رہی امریکہ کی بات تو امریکہ کو تو حکمران بلاتے ہیں وہ خود تو نہیں آتا، جب تک امریکی پٹھوں حکمران ہیں امریکہ موجود رہے گا، اگر لوگ انقلابی قیادت کو ووٹ دیتے ہیں تو اس میں امریکہ کے اثرات کم ہوسکتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: آپ سے آخری سوال کہ جماعت اسلامی پاکستان میں کس قسم کا انقلاب چاہتی ہے۔؟ سراج الحق: ہم تو وہی چاہتے ہیں جو ہم نے خلافت راشدہ میں دیکھا، ہم نے جو منشور پیش کیا ہے اس میں مدینہ کی اسلامی ریاست کو ہی رول ماڈل قرار دیا گیا ہے، لیکن ہم یہ سب کچھ عوام کی رائے کی بنیاد پر کرنا چاہتے ہیں، ہم گوریلا تنظیموں یا عسکری طریقہ پر یقین نہیں رکھتے، عوام کی رائے کے نتیجے میں انقلاب آئے گا تو وہ زیادہ دیرپا ہوگا، ہم چاہتے ہیں کہ اس کے نتیجے میں ایک فلاحی ریاست قائم ہو جائے، جس میں قرآن و سنت کے مطابق زندگی گزارنا ممکن ہو، اس میں پھر آزادی بھی ہوگی جس طرح کہ خلافت راشدہ میں مسلمانوں کو آزادی حاصل تھی، پھر غریب اور امیر کا فرق بھی ختم ہو جائے گا، اور پاکستان کا اسلامی اور نظریاتی تشخص بھی بحال ہو جائے گا۔ جماعت اسلامی ایک اسلامی، ترقی پسند اور جمہوری جماعت ہے، اس لئے ہم ان تینوں چیزوں کا خیال رکھیں گے، کہ عوامی مشورہ بھی شامل ہو اور اقتصادی لحاظ سے بھی ہم عوام کو آگے لے جائیں، اور یہ تمام کام اسلام کی روشنی میں ہوں۔
خبر کا کوڈ : 182441
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
ماشاء اللہ بہت مناسب باتیں ہیں۔ محترم سراج الحق نے حقایق پر مبنی باتیں کی ہیں۔۔ اب قاری کی مرضی کہ وہ ان باتوں کو کس تناظر اور پس منظر سے دیکھتے ہیں
msulimns unity is the need of our servival.
ہماری پیشکش