0
Wednesday 23 Jan 2013 01:20

بلوچوں کا استحصال بند ہو جائے تو علیحدگی کی باتیں ہونا بند ہوجائیں گی، صابر بلوچ

بلوچوں کا استحصال بند ہو جائے تو علیحدگی کی باتیں ہونا بند ہوجائیں گی، صابر بلوچ
پاکستان کا رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا صوبہ بلوچستان قدرتی وسائل سے مالامال خطہ ہے، گذشتہ چند سالوں میں بلوچستان صوبہ کی حکومت کو وزارت خزانہ سے 7 ارب روپے آچکے ہیں لیکن آج بھی یہ صوبہ ہمارے ملک کا سب سے پسماندہ ترین صوبہ ہے، آخر ایسا کیوں! کسی کو سچ کہنے کی توفیق نہ ہوئی اور مختلف تاویلات کے ساتھ صرف بلوچستان کے عوام کی محرومیت کا ذکر ہوتا رہا، لیکن بلوچستان کے ایک فرزند کو سچ کہنے کی نہ صرف جرأت ہوئی بلکہ اس نے اپنے موقف کی صداقت کی خاطر جدوجہد اور قربانی سے دریغ نہ کیا۔ یہ فرد واحد کسی امیر گھرانے سے نہ تھا، نہ وہ قومی دانشوروں میں شمار ہوتا تھا، لیکن اس کے دل و دماغ پر ایک ہی تھا کہ وہ اپنے معاشرہ اور ماحول میں بسے ہوئے بھائی بہنوں کی زندگی کس طرح بہتر بنا سکتا ہوں۔ بلوچستان کے سرداری نظام کی ایک خصوصی پہچان جسے کلیدی حیثیت حاصل تھی، وہ ’’ششک ماجی جبری ٹیکس‘‘ تھا۔ مختصر الفاظ میں اس ٹیکس کی تعریف یہ تھی کہ آپ کے اثاثہ میں سب سے قیمتی اور عزیز شے پر مالک سے پہلے سردار کا حق ہوگا۔ اگر آپ کے پاس سو اونٹ ہیں ان میں سے ایک اپنی کارکردگی کے لحاظ سے نمایاں ترین ہے تو آپ کے سردار کا کارندہ اس کی رسی پکڑ کر اسے سردار کے توشہ خانہ لے جائے گا اور مالک خاموشی سے اس عمل کو دیکھنے پر مجبور ہوگا۔ مزاحمت پر اسے پرائیویٹ جیل بلکہ عقوبت خانہ میں زندگی کا بیشتر وقت گزارنا ہوگا۔ ششک ٹیکس سرداری نظام کی پہچان اور سردار کی حاکمیت کا نشان سمجھا جاتا تھا۔ صابر بلوچ نے اس نشان پر ضرب کلیمی لگانے کا فیصلہ کیا۔ اس جدوجہد میں انہیں بھی قید و بند کی صعوبتوں کی آزمائش میں پڑنا پڑا۔ لیکن انہوں نے اپنی جدوجہد میں کمی لانے کی بجائے اسے اور تیز تر کر دیا اور بی ایس او تنظیم کے ذریعے نوجوانوں کو منظم کرنے کا کام شروع کر دیا۔ قصہ مختصر بالآخر زیردست ہوا۔ صابر بلوچ جو کبھی سینیٹر نہ بنے تھے وہ سرخرو ہوئے اور ششک ٹیکس غیرقانونی قرار دیا اور ہمیشہ کے لئے محنتی عوام کو اس روحانی تکلیف اور بے عزتی سے نجات دلوائی، جو اسے اس وقت اٹھانی پڑتی تھی جب سردار کا کارندہ مونچھوں پر تاؤ دیتا آتا اور رعایا کے مال سے بہترین اور عزیز شے کو اٹھا کر لے جاتا اور مالک کو افسوس کرنے کی اجازت بھی نہ ہوتی تھی۔ صابر بلوچ نے ضیاءالحق کے عہد جبر میں بحالی جمہوریت کی تحریک ایم آر ڈی میں فعال کردار ادا کیا۔ اس دوران بھی وہ مچھ، کوئٹہ اور مستونگ کی بدنام زمانہ جیلوں میں قید رہے۔ صابر بلوچ نے بلوچستان میں پینے کے پانی کی قلت ہے اور کئی علاقوں میں خواتین کو روزانہ میلوں کا پیدل سفر کر کے پانی لانا پڑتا ہے۔ صابر بلوچ نے اپنی ذاتی کاوشوں سے ایسے علاقوں میں ٹیوب ویل نصب کرائے اور عوام خصوصاً خواتین کی مشکلات کو کم کرنے کی کوشش کی۔ سینیٹر صابر بلوچ اس وقت ایوان بالا کے ڈپٹی چیئرمین کے منتخب عہدے پر متمکن ہیں اور اپنے صوبے کے عوام کے حقوق کیلئے ان کی جدوجہد آج بھی جاری و ساری ہے۔ ان کی عوامی حقوق اور انسانی خدمت کی جدوجہد کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے ہیومن رائٹس سوسائٹی آف پاکستان کی ایوارڈ کمیٹی نے انہیں حقوق انسانی ایوارڈ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ ڈپٹی چیئرمین سینٹ صابر بلوچ کا ’’اسلام ٹائمز‘‘ کو دیا گیا انٹرویو قارئین کیلئے پیش کیا جا رہا ہے۔
                                              ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اسلام ٹائمز: بلوچستان میں گورنر راج کے نفاذ سے حالات بہتر ہو جائینگے۔؟
صابر بلوچ: بلوچستان میں امن و امان کا مسئلہ سنگین صورتحال اختیار کر گیا تھا، لوگ عدم تحفظ کا شکار تھے، جبکہ وہاں کے صوبائی حکمران صوبے کے انتظامی معاملات میں دلچسپی نہیں لیتے تھے، وہ پاکستان میں ہونے کے باوجود بلوچستان میں نہیں ہوتے تھے اوپر سے غیر سنجیدگی کا یہ عالم تھا کہ وہ ہر وقت لوگوں سے ہنسی مذاق کے موڈ میں رہتے تھے، جن لوگوں کے پیارے مرے ہوئے ہوں آپ انہیں کہیں کہ میں آنسو پونچھنے کیلئے 2 ٹرک ٹشو پیپر بھجوا دیتا ہوں، یہ کہاں کی عقلمندی ہے۔ بلوچستان کے عوام نے ہر طرح سے مایوس ہو کر گورنر راج کا مطالبہ کیا۔ وفاقی حکومت نے گورنر راج نافذ کرکے کوئی غیر جمہوری کام نہیں کیا گورنر راج کا نفاذ آئین کے مطابق ہے اور بلوچستان حکومت 2 ماہ کیلئے معطل کی گئی ہے، بلوچستان میں گورنر راج کے نفاذ کے بعد حالات میں بہتری آنی چاہئے، تاکہ لوگوں کو احساس ہو کہ کوئی ان کے بارے میں سوچتا ہے، اگر حالات میں بہتری نہ آئی تو لوگوں میں مایوسی پیدا ہوگی۔

اسلام ٹائمز: سپیکر بلوچستان اسمبلی کے اسمبلی اجلاس بلانے کو آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں۔؟
صابر بلوچ: سپیکر بلوچستان اسمبلی معطل شدہ اسمبلی کا اجلاس نہیں بلاسکتے، ویسے بھی اجلاس کا نوٹیفکیشن گورنر کے دستخطوں سے ہوتا ہے، ممبران اسمبلی سپیکر کو ریکوزیشن بھجوا سکتے ہیں، لیکن اجلاس گورنر ہی کال کریں گے، سپیکر کا موجودہ اجلاس بلانا غیر آئینی و غیر قانونی ہے۔

اسلام ٹائمز: وزیراعلٰی بلوچستان کا کہنا ہے کہ اگر امن و امان کے حوالے سے میری حکومت معطل کی گئی ہے تو پھر دوسرے صوبوں کی حکومتیں بھی معطل کی جائیں وہاں کون سا امن ہے۔؟
صابر بلوچ: امن و امان کا مسئلہ ہر جگہ پر ہے، لیکن وہ بلوچستان کو دوسرے صوبوں سے نہ ملائیں، کم از کم وہاں حکومت تو موجود ہے، اگر صوبے کے حکمران خود موجود نہ ہوں گے تو قانون نافذ کرنے والے ادارے کتنی توجہ دیں گے، بلوچستان میں گورنر راج کی ذمہ دار خود بلوچستان حکومت ہے۔

اسلام ٹائمز: وزیراعلٰی بلوچستان کا کہنا ہے کہ ریکوڈک منصوبے کی وجہ سے ان کو معطل کیا گیا ہے۔؟
صابر بلوچ: بلوچستان حکومت 2 ماہ کیلئے معطل ہے، دوسرا اس کا ریکوڈک کے ساتھ کوئی تعلق نہیں بنتا۔ ریکوڈک معاملہ بھی صوبائی حکومت نے ازخود طے نہیں کیا اور اس کے معاملات عدالتوں میں ہیں، وزیراعلٰی بلوچستان کو چاہئے کہ وہ وطن واپس آئیں اور معاملات کا سامنا کریں۔

اسلام ٹائمز: بلوچستان میں حالات خراب کیونکر ہیں اور اس کا حل کیا ہے۔؟
صابر بلوچ: اگر یہ کہا جائے کہ بلوچستان میں سب ٹھیک ہے تو یہ درست نہیں، اگر وہاں حالات خراب ہیں تو اس کی وجوہات کیا ہیں، اس کا پس منظر کیا ہے، بہتری کیلئے پہلے اس کی وجوہات تلاش کرنا ہونگی۔ بیماری کے علاج سے قبل بیماری کی تشخیص ضروری ہے، بلوچستان کو قیام پاکستان سے لیکر نظر انداز کیا گیا، بلوچستان میں ہمیشہ سے ایجنسیوں کا راج رہا ہے، آج تک بلوچستان کے صحیح نمائندوں کو آگے نہیں آنے دیا گیا۔ وہاں ایجنسیوں نے اپنی مرضی اور منشا کے مطابق لوگوں کو جتوا کر اسمبلیوں میں بھجوایا ہے، وہاں عوامی مینڈیٹ کی حکومتیں نہیں ہیں، یہ کتنی زیادتی ہے کہ باقی پورے ملک میں لوگ اپنی مرضی کے نمائندے منتخب کریں، اپنی مرضی کی حکومت بنائیں، لیکن بلوچستان کے عوام کو یہ حق بھی نہ دیا جائے کہ تم اپنی مرضی کا بندہ منتخب کرو اور اپنی مرضی کی حکومت بناؤ۔ 

وہاں صرف معاشی محرومیاں نہیں ہیں، وہاں سیاسی محرومی بھی ہے، سب سے بڑھ کر انسان کی عزت نفس ہوتی ہے، لیکن وہاں عام عوام کی عزت نفس کو مجروح کیا گیا، ان پر فیصلے ٹھونسے جاتے رہے ہیں، ان کو آزادانہ طور پر فیصلے کرنے کا حق نہیں دیا گیا۔ وہاں طاقتوں نے اپنی مرضی کے لوگ جتوا کر اسمبلیوں میں بھجوائے اور جسے چاہا جب چاہا ڈس کوالیفائی کر دیا۔ بلوچستان کے مسئلہ کے حل کیلئے ضروری ہے کہ وہاں کے لوگوں کو بااختیار بنایا جائے، ان کا ہر لحاظ سے احساس محرومی ختم کیا جائے، انہیں سیاسی و سماجی بنیادی حقوق و سہولتیں فراہم کی جائیں۔ تاکہ وہ اپنی مرضی سے اپنے نمائندے منتخب کرسکیں آج بھی بلوچستان میں پانی، بجلی، گیس میسر نہیں۔

اسلام ٹائمز: بلوچستان کو وفاقی حکومت کی جانب سے خصوصی پیکج دیا گیا اور ہر سال 25 کروڑ سے 35 کروڑ کے ترقیاتی فنڈز بھی دیئے جاتے رہے، لیکن اس کے باوجود عوام کا احساس محرومی اسی طرح برقرار ہے، کیا وہاں فنڈز خرچ نہیں ہوئے۔؟
صابر بلوچ: اتنے زیادہ ترقیاتی فنڈز ایم پی اے کو سیاسی رشوت تو ہوسکتی ہے، لیکن بلوچستان کے عوام کے مسائل کا حل نہیں ہوسکتا، جن لوگوں کو فنڈز جاری کئے گئے، ان سے حساب مانگنا چاہئے کہ انہوں نے کہاں خرچ کئے ہیں۔

اسلام ٹائمز: بلوچستان کے حالات بہتر بنانے کیلئے کن اقدامات کی ضرورت ہے۔؟
صابر بلوچ: سب سے پہلے تو باتوں کی بجائے عمل ہونا چاہئے، عوام کو بتایا جائے کہ کیا کیا عملی اقدامات کئے گئے ہیں، عوام کو ریاستی معاملات میں شامل کیا جائے، عوام جب معاملات کا حصہ ہوں گے تو ان میں احساس ذمہ داری بڑھے گا اور حقیقت کا ادراک ہوگا، جب عوام سے باتیں چھپائی جائیں تو ابہام بڑھے گا۔ وہاں پالیسی ساز کچھ ہیں اور عملدرآمد کروانے والے کچھ اور ہیں، بلوچستان کے عوام کو سیاسی شناخت کی ضرورت ہے، پاکستان کی پالیسی سازی میں انہیں کیوں سیاسی شناخت نہیں دی جاتی، ان کی سب سے بڑی احساس محرومی سیاسی شناخت ہے۔

اسلام ٹائمز: پیپلز پارٹی بھی بلوچستان کی حکومت کا حصہ رہی ہے اور وفاق میں بھی پیپلز پارٹی کی حکومت تھی، تو کیا بلوچستان کے مسائل کی ذمہ دار پیپلز پارٹی بھی ہے۔؟
صابر بلوچ: پیپلز پارٹی کی بلوچستان میں اتحادی حکومت تھی، لیکن صوبائی حکومت نے عدم دلچسپی کا مظاہرہ کیا، وفاقی حکومت نے تو بلوچستان کے حوالے سے تاریخ ساز اقدامات کئے، سب سے پہلے بلوچوں کے زخموں پر مرہم رکھتے ہوئے صدر مملکت نے ماضی کی غلطیوں کی بلوچ عوام سے معافی مانگی، اس کے بعد صوبائی خود مختاری کے دیرینہ مطالبہ پر وفاقی حکومت نے صوبوں کو خود مختار بنا دیا، لیکن اس خود مختاری کے اثرات آئندہ چند سالوں بعد واضح ہوں گے، وہ صوبے جو اربوں روپے کے اوور ڈرافٹ پر حکومتی امور چلا رہے تھے، وہ آج کھربوں روپے کے منصوبے مکمل کر رہے ہیں، یہ سب وفاقی حکومت کی مہربانی ہے کہ اس نے نہ صرف صوبوں کو رقوم منتقل کی ہیں، بلکہ صوبوں کو اپنے اختیارات بھی منتقل کر دیئے ہیں، جہاں تک بلوچستان کا تعلق ہے تو بلوچستان رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے، جبکہ آبادی کے لحاظ سے سب سے چھوٹا صوبہ ہے، وفاقی حکومت نے وسائل کی تقسیم کے فارمولے این ایف سی میں پہلی بار بلوچستان کو رقبے کے لحاظ سے وسائل تقسیم کئے ہیں، بلوچستان کا دیرینہ مطالبہ منظور کرتے ہوئے انہیں معاشی طور پر خصوصی وسائل فراہم کئے گئے۔

بلوچستان کے ساتھ مسلم لیگ (ن) نے بڑی سخت زیادتی کی ہے، 2008ء کے انتخابات میں مسلم لیگ (ن) نے الیکشن میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ کیا، ان کے فیصلے میں تحریک انصاف، جماعت اسلامی اور بلوچستان کی سیاسی جماعتیں شامل تھیں، لیکن بعد میں مسلم لیگ (ن) نے دیگر سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لئے بغیر الیکشن میں جانے کا فیصلہ کر لیا، جس سے سب سے زیادہ نقصان بلوچستان کو ہوا وہاں کی اصل قیادت پارلیمانی سیاست سے دور ہوگئی اور انتہائی کم سطح کے لوگوں کو اسٹیبلشمنٹ نے جتوا کر اسمبلیوں میں پہنچا دیا، اس طرح بلوچستان میں سیاسی محرومیوں کی ذمہ دار مسلم لیگ ن بھی ہے۔

اسلام ٹائمز: کیا آئندہ انتخابات میں بلوچستان کی سیاسی جماعتیں حصہ لیں گی، بعض خدشات ہیں کہ بلوچستان کی سیاسی جماعتیں دوبارہ الیکشن کا بائیکاٹ کر رہی ہیں۔؟
صابر بلوچ: بلوچستان کی اکثریتی سیاسی جماعتیں آئندہ انتخابات میں حصہ لیں گی، انہوں نے آئندہ الیکشن کی تیاریاں شروع کر دی ہیں، وہاں سیاسی جلسے جلوس شروع ہوچکے ہیں، یہ ہم سب کا فرض ہے کہ وہاں کی ناراض قیادت کو منائیں، انہیں انتخابات میں حصہ لینے پر آمادہ کریں۔

اسلام ٹائمز: بلوچستان کے بعض ناراض رہنما وطن واپس نہیں آنا چاہتے، آپ ان کو کیسے منائیں گے۔؟
صابر بلوچ: بار بار ڈائیلاگ کا دروازہ کھٹکھٹایا جائے تو راستہ نکل ہی آتا ہے، ناراض لوگوں کے ساتھ سنجیدگی کے ساتھ مذاکرات کی ضرورت ہے، بلوچستان کے مسائل کا حل کسی آپریشن میں نہیں بلکہ ڈائیلاگ میں ہے اور سیاسی عمل میں سے یہ تاثر غلط ہے کہ انتخابات کی صورت میں بلوچستان میں نقصان ہوگا۔ میں سمجھتا ہوں کہ بلوچستان کے مسئلے کا حل ہی انتخابات میں ہے، بلوچستان میں صاف شفاف غیر جانبدار الیکشن سے عوام کی اصل قیادت منتخب ہو کر سامنے آئیگی، جس سے لوگوں میں اعتماد بڑھے گا۔

اسلام ٹائمز: یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ بلوچستان میں علیحدگی کی تحریکیں چل رہی ہیں، اس میں کس حد تک حقیقت ہے۔؟
صابر بلوچ: دنیا کے مختلف ممالک میں علیحدگی کے مطالبات ہوتے رہتے ہیں، بھارت کے کئی صوبوں میں کئی سال سے علیحدگی کے مطالبات ہو رہے ہیں۔ فلپائن، سری لنکا حتیٰ کہ برطانیہ میں بھی علیحدگی کے مطالبات ہو رہے ہیں، یہ مطالبات اس وقت ہوتے ہیں جب کسی کی بات نہ سنی جائے، ان کے جائز مطالبات پورے نہ ہوں، وہ اپنے حقوق کے حوالے سے مایوس ہوں، تو پھر وہ علیحدگی کی باتیں کرنا شروع کر دیتے ہیں، آپ ان کی محرومیوں کا ازالہ کر دیں، جو آوازیں کہیں سے نکل بھی رہی ہیں تو وہ وقت کے ساتھ ساتھ خاموش ہوجائیں گی۔ بلوچستان میں بے شمار قدرتی خزانے ہیں، ہمیں منصوبہ بندی کرنی چاہئے کہ ہم ان وسائل سے فیض یاب ہوسکیں، ہمیں وہاں کے خزانے استعمال میں لاکر نہ صرف بلوچستان کے عوام کو خوشحال بناسکتے ہیں، بلکہ پورے ملک میں خوشحالی لائی جاسکتی ہے۔
خبر کا کوڈ : 233703
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش