0
Friday 26 Jul 2013 02:20

القدس کا مسئلہ ہمارے لئے انتہائی اہم ہے، راجہ ظفر الحق

اگر شام کا معاملہ کچھ عرصہ اور جوں کا توں رہا تو بیحد خرابی پیدا ہونیکا اندیشہ ہے
القدس کا مسئلہ ہمارے لئے انتہائی اہم ہے، راجہ ظفر الحق
جناب راجہ ظفرالحق ایک ماہرِ قانون، ممتاز دانشور، سیاسی رہنما اور سیکرٹری جنرل موتمرِ عالمِ اسلامی ہیں اور ان کا شمار ملک کی معروف بزرگ شخصیات میں ہوتا ہے۔ 1981ء سے 1985ء تک وزیر اطلاعات و نشریات اور مذہبی امور رہے۔ 1985-86 میں مصر میں پاکستانی سفیر کی حیثیت سے خدمات سرانجام دیں۔ 1986-87 میں وفاقی وزیر کے مساوی عہدے پر وزیراعظم پاکستان کے سیاسی مشیر بنائے گئے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 45 ویں اجلاس منعقدہ 1990-91 میں پاکستان کے نمائندہ کے طور پر شریک ہوئے۔ 1991ء میں چھ سال کے لئے پاکستان سینیٹ کے ممبر منتخب ہوئے۔ 1992ء میں عالم اسلام کی قدیم ترین تنظیم موتمر عالمِ اسلامی کے سیکرٹری جنرل منتخب ہوئے جو کہ 1926ء میں قائم ہوئی تھی۔ 1994ء سے 96 تک پاکستان سینیٹ کے لیڈر آف دی اپوزیشن رہے اور سینیٹ کے لیڈر آف دی ہاﺅس کے طور پر انتخاب 1997ء سے 1999ء تک عمل میں آیا۔ 1997ء سے 2002ء تک موتمرِ عالمِ اسلامی کے دوبارہ سیکرٹری جنرل منتخب ہوئے اور پھر 2002ء سے تاحال اس عہدے پر فائز ہیں۔
سیاسی حوالے سے جائزہ لیں تو 2000ء سے 2009ء تک اور پھر 2011ء میں دوبارہ پاکستان مسلم لیگ نواز کے چیئرمین منتخب ہونے کے بعد اب تک اِس محاذ پر سرگرم عمل ہیں۔ جناب راجہ ظفر الحق اب بھی (2009ء سے 2015ء تک کی ٹرم کے لئے) بطور سینیٹر کام کر رہے ہیں۔ آپ نہایت شریف النفس، محبِ وطن اور اِسلامی دُنیا کا درد رکھنے والے پاکستانی ہیں، اور اس کے ساتھ بین المذاہب ہم آہنگی پر پختہ یقین رکھتے ہیں۔ سیکرٹری جنرل موتمرِ عالمِ اِسلامی کے ساتھ عالم اسلام کے سلگتے مسائل کے موضوع پر اسلام ٹائمز نے انٹرویو کیا ہے، جس کا خلاصہ قارئین اِسلام ٹائمز کی نذر ہے۔


اسلام ٹائمز: شام کا بحران پورے عالم اسلام کو اپنی لپیٹ میں لیتا چلا جا رہا ہے، موتمر العالم الاسلامی کے ایک ذمہ دار ہونے کی حیثیت سے اس مسئلے کا کیا حل تجویز کرتے ہیں۔؟
سینیٹر راجہ ظفر الحق: میں یہ سمجھتا ہوں کہ او آئی سی کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ او آئی سی جو کہ ستاون اسلامی ممالک کی نمائندہ تنظیم ہے، جسے اقوام متحدہ بھی تسلیم کرتا ہے۔ او آئی سی کو چاہیے کہ شام کے معاملے میں ایک پیس کمیٹی تشکیل دے، جو اس مسئلے کو مزید خراب ہونے سے بچائے، ورنہ مسلمانوں کے دشمن اس ساری صورتحال پر انتہائی خوش ہیں کہ مسلمان آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ دست و گریباں ہیں۔ اگر شام کا معاملہ کچھ عرصہ اور جوں کا توں رہا تو بے حد خرابی پیدا ہونے کا اندیشہ ہے۔ اب آپ دیکھیں کہ پہلے سیدہ زینب سلام اللہ علیہا کے روضہ مبارک کو تباہ کرنے کی کوشش کی گئی، پھر اس کے جواب میں حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالٰی عنہ کے روضے کو تباہ کرنے کی کوشش کی گئی۔ یہ معاملہ ایسا ہی ہے کہ دو سگے بھائی ہوں اور ایک دوسرے کو ماں بہن کی گالیاں دے رہے ہوں۔ ماں بہن تو دونوں کی وہی ہوتی ہے۔ یہ صورتحال انتہائی تکلیف دہ ہے اور اگر اس کی روک تھام کے لئے کوشش نہ کی گئی تو معاملہ بہت آگے تک پھیل سکتا ہے۔

اسلام ٹائمز: میڈیا رپورٹس کے مطابق پاکستان سے کچھ افراد اس جنگ کا حصہ بننے کیلئے شام روانہ ہو رہے ہیں، کیا حکومتی سطح پر اس حوالے سے کچھ سوچا جا رہا ہے۔؟

سینیٹر راجہ ظفر الحق: مجھے معلوم نہیں ہے کہ ان میڈیا رپورٹس میں کتنی حقیقت ہے، اور کتنی صداقت ہے، یا یہ صرف مفروضے ہیں۔

اسلام ٹائمز: ملی یکجہتی کونسل جو پاکستان میں مسالک کے مابین ہم آہنگی اور اتحاد بین المسلمین کے لئے کوشاں ہے، اسکے کام کو کس انداز سے دیکھتے ہیں۔؟

سینیٹر راجہ ظفر الحق: میں ملی یکجہتی کونسل کے اس کام اور اس کے مقصد کو عزت اور انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہوں۔ اگر اس میں چند اثر و رسوخ والے لوگ آجائیں اور اس کے کام میں مدد کریں تو یہ ایک نیکی کا کام ہے، چونکہ پاکستان میں بھی تو ایسی ہی آگ لگی ہوئی ہے، جو کبھی گلگت میں سامنے آتی ہے تو کبھی کوئٹہ میں اور کبھی کراچی میں، لیکن یہ آگ زیادہ پھیلنی نہیں چاہیے۔ پاکستان میں اس آگ کو بجھانے کے لئے ملی یکجہتی کونسل کا کردار انتہائی ضروری ہے۔

اسلام ٹائمز: کیا موتمر العالم الاسلامی اور ملی یکجہتی کونسل مل جل کر یکساں کاز کے لئے کام کرسکتے ہیں۔؟

سینیٹر راجہ ظفر الحق: موتمر ایک عالمی تنظیم ہے۔ اس کے صدر سعودی عرب کے عبداللہ بن عمر صاحب ہیں۔ اس کے نائب صدر سری لنکا کے اسپیکر ہیں۔ دوسرے نائب صدر سوڈان کے سابق صدر ہیں۔ یہ ایک عالمی تنظیم ہے۔ ملی یکجہتی کونسل پاکستان کی حد تک کام کر رہی ہے۔

اسلام ٹائمز: ہم دیکھتے ہیں کہ مرحوم قاضی حسین احمد جب زندہ تھے تو ملی یکجہتی کونسل کے پلیٹ فارم سے عالمی اتحاد امت کانفرنس کا انعقاد بھی کیا گیا، اور اتحاد امت کے عالمی ایجنڈے کو لیکر آگے بڑھنے کی کوشش کی گئی۔؟

سینیٹر راجہ ظفر الحق: قاضی حسین احمد بہت متحرک اور دور اندیش انسان تھے۔ افسوس ہے کہ وہ نہیں رہے ہیں۔ لیکن ان کے خوابوں کو شرمندہ تعبیر کرنے کی اور اتحاد امت کے معاملہ کو آگے بڑھانے کی اشد ضرورت ہے۔

اسلام ٹائمز: ہم دیکھ رہے ہیں کہ امریکہ و اسرائیل مسلسل مسلمانوں کو لڑوا رہے ہیں، لیکن مسلمانوں کی نمائندگی کا دعویٰ کرنے والے او آئی سی اور موتمر العالم الاسلامی جیسے اداروں کا کردار ان مسائل میں نہ ہونے کے برابر ہے، اس کی کیا وجوہات ہیں۔؟

سینیٹر راجہ ظفر الحق: اصل میں جو کچھ یہ کر رہے ہوتے ہیں وہ نظر نہیں آتا، لیکن جو ان کی کمی ہوتی ہے وہ فوراً ظاہر ہو جاتی ہے۔

اسلام ٹائمز: عالم اسلام کے سلگتے مسائل کے حوالہ سے ان اداروں کے کارہائے نمایاں پر روشنی ڈال دیں۔؟

سینیٹر راجہ ظفر الحق: مثلاً فلسطین کے معاملہ پر موتمر نے بڑا کام کیا ہے اور فلسطینی اس کی قدر بھی کرتے ہیں۔ اسی طرح کشمیر کا مسئلہ ہے، جو ایک مستقل مضمون کے طور پر لیا جاتا رہا، سری لنکا و مصر میں ہونی والی کانفرنسوں میں اس کو زیر بحث لایا گیا اور اس مسئلے کو اجاگر کیا گیا ہے۔ اسی طرح برما کے مسلمانوں کے مسئلے کو ہم نے عالمی سطح پر اٹھایا، اسی طرح فلپائن میں جو صلح ہوئی، مورو نیشنل فرنٹ کے سربراہ کو موتمر نے سپورٹ کیا، وہ یہاں اسلام آباد میں ہی رہتے تھے۔  ان کی اہلیہ کی قبر بھی یہاں ہے۔ ان کو تمام تر سہولیات اور کانفرنسوں میں آنے جانے کا بندوبست موتمر ہی نے کیا تھا۔ اسی طرح ہمارا ایک دفتر جنیوا میں بھی ہے۔ جہاں مقبول احمد صاحب ہمارے نمائندے ہیں۔ تو وہاں جتنی بھی انسانی حقوق کی کانفرنسیں ہوتی ہیں، تو کشمیر سے وفد کو بھی ہم سپانسر کرتے ہیں۔ اور دیگر مسائل میں بھی ہماری وہاں بھرپور نمائندگی ہوتی ہے۔ اسی طرح یو این او ہیڈکوارٹر اور ویانا میں بھی ہماری نمائندگی موجود ہے۔ میں خود بھی نمائندگی کے لئے کئی مرتبہ وہاں گیا ہوں۔ اسی طرح اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے جو بنکاک میں موجود ہے، اس کے ذریعے ہم ترقیاتی کاموں میں جو تمام مذاہب کے لئے یکساں ہیں، ان میں بھی ہم بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ اسی طرح ہم نے سری لنکا میں ایک سنٹر قائم کیا ہے جو مسلمانوں اور بدھ مت کے درمیان کشیدگی کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کرے گا۔ برما، تھائی لینڈ، کوریا، جاپان اور چین میں بدھ مذہب کے لوگوں کے ساتھ ہم رابطے میں ہیں۔

اسلام ٹائمز: عالم اسلام کے سلگتے مسائل، جن میں بلاد شام سرفہرست ہے، اس معاملے میں موتمر نے کیا حکمت عملی اختیار کی ہے۔ ؟

سینیٹر راجہ ظفر الحق: ہم نے متعلقہ لوگوں کے ساتھ رابطوں اور ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے اور انہیں یہ باور کرایا جا رہا ہے کہ یہ جو عالم اسلام میں آگ سلگائی جا رہی ہے، یہ شام تک محدود نہیں رہے گی، اس کے اثرات بہت دور تلک جائیں گے اور ممکن ہے کہ انہیں کنٹرول کرنے میں کئی سال لگ جائیں۔ یہ امر بہت تکلیف دہ ہے۔

اسلام ٹائمز: ملی یکجہتی کونسل نے یوم القدس اور یوم آزادی پاکستان کو ایک دن منانے کا اعلان کیا ہے، اس اقدام کو کس نگاہ سے دیکھتے ہیں۔؟

سینیٹر راجہ ظفر الحق: رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو یوم القدس کے طور پر منایا جاتا ہے۔ ایران نے طویل عرصے کی جدوجہد کے بعد اس دن کو پوری دنیا میں شایان شان طریقے سے منانے کے لئے اقدامات کئے ہیں۔ القدس کا مسئلہ ہمارے دلوں کے اتنا قریب ہے کہ پاکستان ابھی بنا نہیں تھا تو حضرت قائداعظم رحمتہ اللہ علیہ نے مسلمانوں کے اس دیرینہ مسئلے پر زور دیا تھا۔ تشکیل پاکستان کے ساتھ ساتھ اگر کسی کاز پر قائد اعظم (رہ) نے زور دیا تو وہ مسئلہ فلسطین تھا۔ اس کے حل کے لئے انہوں نے ایک کمیٹی بھی تشکیل دی تھی، چندہ بھی اکٹھا کیا اور فلسطین بھیجوایا تھا۔ مصر میں کھڑے ہوکر قائد اعظم نے اس مسئلے کی حمایت کی یعنی مسئلہ فلسطین کی حمایت اس وقت سے جاری ہے۔

اسلام ٹائمز: غاصب صیہونی ریاست کے خلاف دنیا اس وقت بیدار رہی ہے، مختلف مارچ اور فریڈم فلوٹیلاز فلسطین کی حمایت کے لئے جان کی پروا کئے بغیر آگے بڑھ رہے ہیں، تو کیا ان اقدامات کے اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔؟

سینیٹر راجہ ظفر الحق: اگر زیادہ موثر طریقے سے عوام تک یہ بات پہنچائی جائے اور نوجوانوں کو اس جدوجہد میں شامل کیا جائے تو اس کے بہتر نتائج سامنے آسکتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: مسلمانان عالم کے لئے کیا پیغام دینا چاہیں گے۔؟
سینیٹر راجہ ظفر الحق: پوری انسانیت کی بہتری کے لئے کام کریں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کسی ایک طبقے یا کسی ایک علاقے یا ایک وقت کے لئے نہیں ہے، وہ ساری انسانیت کے لئے ہے۔ 
خبر کا کوڈ : 286778
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش