0
Thursday 25 Jul 2013 01:02
یوم القدس کی اہمیت اور کردار بہت زیادہ نمایاں ہے

اسرائیل کی پشت پناہ عالمی طاقتیں ہی شام میں انتشار اور روضہ سیدہ زینب (س) پر حملے کے پیچھے ہیں، تاج حیدر

اسرائیل کی پشت پناہ عالمی طاقتیں ہی شام میں انتشار اور روضہ سیدہ زینب (س) پر حملے کے پیچھے ہیں، تاج حیدر
پاکستانی سیاست کی مشہور و معروف سیاسی شخصیت سابق سینیٹر تاج حیدر پاکستان پیپلز پارٹی صوبہ سندھ کے سیکریٹری جنرل ہیں۔ آپ کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے۔ مشرق وسطٰی سمیت عالمی ایشوز پر آپ گہری نگاہ رکھتے ہیں۔ اسلام ٹائمز نے تاج حیدر کے ساتھ مسئلہ فلسطین اور شام کے حالات کے حوالے سے ایک مختصر نشست کی۔ اس موقع پر آپ کے ساتھ کیا گیا خصوصی انٹرویو قارئین کیلئے پیش ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: مغربی ممالک امریکہ کی سربراہی میں صیہونی حکومت کی بےجا حمایت کرتے ہیں، اسکے مظالم کی پشت پناہی کرتے ہیں، اسکے بارے میں آپکا کیا خیال ہے۔؟
تاج حیدر: دیکھیں، مغرب میں بھی تبدیلی آ رہی ہے اور جمی کارٹر نے مسئلہ فلسطین کے حوالے سے کافی پیشرفت کی تھی، 13، 14 کتابیں لکھ چکے ہیں۔ وہ مسلسل فلسطینیوں کیلئے لکھ رہے ہیں، آواز اٹھا رہے ہیں۔ ابھی یورپین یونین نے بھی اسرائیل مخالف قراردار منظور کی ہے۔ قراردار میں فلسطینی مقبوضہ علاقوں میں جو اسرائیلی حکومت کی جانب سے کالونیاں بن رہی ہیں، کی مخالفت کی گئی ہے کہ یہ کالونیاں غلط ہیں، انہیں نہیں بننا چاہئیے، تو آہستہ آہستہ مغرب کے اندر بھی جو سامراجی اثرات تھے وہ کم ہو رہے ہیں اور وہ لوگ جو حق و انصاف کی باتیں کرتے ہیں، وہ فلسطینیوں کے اپنی مملکت بنانے کے خواب کی پیروی کر رہے ہیں۔ اب وقت کا دھارا پلٹ رہا ہے، اب نئی جہت، نئی سوچ پیدا ہو رہی ہے۔ اب ان طاقتوں سے جو یہ کہتی ہیں کہ مذہبی انتہاء پسندی اور مذہبی تعصب غلط ہے، بڑی شد و مد کے ساتھ یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ وہ ایک طویل عرصے سے ایک مذہبی انتہاء پسند ریاست کی ہر طریقے سے امداد کیوں کر رہے ہیں۔ یہ سوال اب ساری دنیا اور خود امریکہ میں بھی اٹھایا جا رہا ہے۔ خود یہودی مفکرین کہہ رہے ہیں کہ اسرائیل کا قیام غلط ہے اور مسئلہ فلسطین کو حل ہونا چاہئیے۔ لہٰذا عالمی رائے عامہ اب اس مسئلے پر سوچ رہی ہے اور پلٹ رہی ہے۔

اسلام ٹائمز: عرب حکمرانوں کے صیہونی اور امریکی حکومت سے وابستہ مفادات انہیں فلسطین کی حمایت اور امداد سے روکتے ہیں، اس حوالے سے آپکا کیا خیال ہے۔؟
تاج حیدر: جہاں بھی جمہوریت ہوگی وہاں تبدیلی ہوگی۔ تو اس کو عرب، غیر عرب نہ کہیں بلکہ جہاں شہنشاہیت ہے، جیسا کہ عوام شہنشاہیت کے پیچھے نہیں ہوتے، تو وہ عوامی جذبات کا خیال نہیں کرتے، نہ ہی وہ منتخب ہو کر آتے ہیں۔ لیکن جہاں بھی جمہوریت ہوگی، جہاں عوام کی رائے کو اہمیت دی جائے گی وہاں سب کے سب فلسطین کیلئے کھڑے ہونگے۔ لیکن اس کے باوجود آپ دیکھیں گے کہ 1974ء میں شہید ذوالفقار علی بھٹو کی آواز پر سارا عالم اسلام ایک چھت کے نیچے جمع ہو رہا تھا۔ سب نے القدس کو ایک مرکز بنایا، القدس کی بازیابی کو مرکزی حیثیت دی گئی۔ اس وقت سب نے محسوس کیا کہ القدس کی آزادی امت مسلمہ کے اتحاد کیلئے ایک مرکزیت فراہم کر رہی ہے۔ تو شہنشاہوں کے مفادات کی کیا بات ہے وہ ذمہ دار ہی نہیں ہیں۔ دیکھیں میں اگر کسی سے ووٹ لے کر آ رہا ہوں تو میں اس کی بات کرونگا اور اگر میں کسی سے ووٹ لے کر نہیں آ رہا تو نوکریاں بانٹتا رہوں گا، سفارشیں کرتا رہوں گا۔

اسلام ٹائمز: آپکی نظر میں یوم القدس کی اہمیت اور اسکو منانے کے مسلم امہ پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔؟
تاج حیدر: اب زمانہ کافی آگے چلا گیا ہے اور اب عالمی سطح پر جو رائے عامہ ہے اس کو متحرک (mobilize) کرنے کی ضرورت ہے۔ اس لئے مسئلہ فلسطین کو اجاگر کرنے اور رائے عامہ ہموار کرنے کے حوالے سے یوم القدس کی اہمیت اور کردار بہت زیادہ نمایاں ہے۔ یہ جو دنیا بھر میں احتجاج، ریلیاں، سیمینارز، کانفرنسز وغیرہ ہوتے ہیں یہ سب رائے عامہ ہموار کرنے کیلئے ہی ہے۔ اس سے مخالفین کو بھی ایک واضح پیغام جاتا ہے کہ ہم اس مسئلہ پر کس طریقے سے سوچ رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس وقت جنگ و جدل سے تو مسئلے طے نہیں ہو رہے بلکہ یہ جو بین الاقوامی رائے عامہ ہے یہ مسئلے کے حل میں سب سے زیادہ اثر انداز ہو رہی ہے۔ اس تناظر میں یوم القدس منانے اور اسکی عالمی سطح پر رائے عامہ ہموار کرنے اور مسئلہ فلسطین کو اجاگر کرنے کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔

اسلام ٹائمز: مسئلہ فلسطین کا حل، القدس کی بازیابی اور عالمی رائے عامہ کے حوالے سے کیا کہنا چاہئیں گے۔؟
تاج حیدر: اس حوالے سے اپنے فرائض سے ذرہ برابر بھی کوتاہی نہ برتتے ہوئے القدس کی بازیابی کو، قبلہ اول کی بازیابی کو اپنا نصب العین بناتے ہوئے اور اپنی کوششوں کو مربوط کرتے ہوئے، اس سلسلے میں آگے بڑھتے ہوئے، ہمیں پوری کوشش اس بات کی کرنی چاہئیے کہ اس جائز مسئلے پر، مظلوموں کے حق کے مسئلے پر، کہ کسی کو بھی خواہ وہ مسلمان ہو یا عیسائی یا ہندو یا کوئی اور اسکا یہ حق ہے کہ اسے اپنے گھر پہ رہنے کا حق ہو، اس کو اپنے گھر سے نکالا نہیں جاسکتا، ہم عالمی عائے عامہ کو ہموار کریں۔ سب کو بتائیں کہ کس طریقے سے سامراج نے یہ کھیل کھیلا اور کس طریقے سے نفرت اور تعصب کا بیج بویا اور کتنی خون ریزی اس کی وجہ سے ہوئی۔ جب تک اسرائیل باقی ہے اس وقت تک یہ ناانصافی باقی رہے گی، اسرائیل کے نام سے کبھی کوئی ملک نہیں تھا دنیا کے نقشے پر۔
 
لہٰذا اس تاریخی حقائق کی روشنی میں عالمی رائے عامہ کو ہموار کرکے اسرائیل سے متعلق جلد فیصلہ کر دینا چاہئیے۔ اب دنیا کو اس مسئلہ کا کوئی نہ کوئی حل تلاش کرنا ہوگا۔ فلسطین جہاں سینکڑوں سالوں سے، ڈیڑھ ہزار سال سے کسی قسم کی مذہبی منافرت کے بغیر کسی قسم کے تعصب کے بغیر دنیا کے تین بڑے مذاہب اسلام، عیسائیت، یہودیت کے ماننے والے رہتے رہے تھے، اس کو پھر ایک جمہوریہ بنایا جائے۔ جہاں پر ہر مذہب کے ماننے والے کو برابر حقوق حاصل ہوں۔ جہاں پر آپس میں بیٹھ کر اپنا آئین و قوانین بنائیں۔ جہاں پھر سے ایک بار پھر وہی دوستی اور بھائی چارہ اور برداشت کا ماحول ہو، جو کہ اس سرزمین کا سینکڑوں سالوں سے طرہ امتیاز رہا ہے۔ 

اب ضمیر عالم کو سوچنا پڑے گا کہ آخر کب تک دنیا کے نظام کو طاقت کی بنیاد پر چلایا جائے گا۔ کب تک طاقت کی بنیاد پر امریکہ اور امریکہ کے حواری پوری عالمی رائے عامہ کو ٹھکراتے رہیں گے۔ جب امریکہ کو کہیں حملہ کرنا ہوتا ہے تو اقوام متحدہ کی تمام قراردادوں کو پس پشت ڈال دیا جاتا ہے۔ امریکہ اور اسرائیل دونوں اقوام متحدہ کی تمام ایسی قراردادوں کو جو ان کے مفاد کے خلاف ہیں، پس پشت ڈال دیتی ہیں۔ اگر دنیا میں امن قائم کرنا ہے تو اقوام عالم کو تمام ایسی قوتوں کی مذمت کرنا ہوگی اور انکا مقابلہ کرنا پڑے گا، جو ہتھیاروں کو ذریعے اپنا تسلط دوسری اقوام پر رکھنا چاہتے ہیں۔ یہ سوچنے کی اور غور و فکر کرنے کی بات ہے کہ یہ جو سازش ہے دنیائے اسلام کو پارہ پارہ کرنے کی اور اسرائیل نام کا صہیونیت کا ملک بنانے کی، کہیں یہ ہمارا امتحان تو نہیں ہے، کہیں خدا نے اپنی برکت سے، اپنی حکمت سے دنیائے اسلام کو یہ موقع تو فراہم نہیں کیا کہ وہ یہ سوچیں اور یہ جو اسلام کا جسد پارہ پارہ ہے اس کو یکجا کریں اور ایک قوت میں مسلمانان عالم اپنے آپ کو ڈھالیں۔ کہیں تمام عالم انسانیت کا ضمیر جھنجوڑنے کیلئے اللہ تعالٰی نے یہ آزمائش تو پیدا نہیں کی کہ تمام دنیا میں وہ لوگ جو امن کی بات کرتے ہیں، جو انسانی بھائی چارے کی بات کرتے ہیں، جو انصاف کی بات کرتے ہیں، جو اس بات کی تائید کرتے ہیں کہ جو جس کا وطن ہے اس کو وہاں حکمرانی کرنے کا حق ہے۔

اسلام ٹائمز: حضرت بی بی سیدہ زینب (س) کے روضہ اقدس پر دہشتگردوں کے راکٹ حملے اور شام کے حالات خراب کرنے میں کونسی قوتیں ملوث ہیں۔؟
تاج حیدر: شام میں سیدہ بی بی زینب (س) کے روضہ مبارک پر حملہ ہوا ہے، حملہ عالم اسلام کیلئے عظیم دکھ ہے، اس دکھ کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ انہیں طاقتوں کی جانب سے یہ حملہ ہوا جو پشت پناہی کرتی رہی ہیں دنیائے اسلام میں یہ جو اسرائیل کا خنجر گھونپا گیا ہے۔ اسرائیل کو عالمی طاقتوں نے عالم اسلام کے قلب میں ایک سازش کے تحت گھونپا تھا، جو کہ اب ایک ناسور بن چکا ہے۔ یہی عالمی طاقتیں شام میں تمام خانہ جنگی کے پیچھے ہیں۔ یہی طاقتیں عقائد کے نام پر دنیائے اسلام کو تقسیم کرنے کی گھناﺅنی سازشیں کر رہی ہیں۔ بہرحال ظالموں کی تدبیر ناقص ہوتی ہے۔ وقتی کامیابی، وقتی تسلط سے کبھی یہ نہیں سمجھنا چاہئیے کہ آواز حق دب گئی۔ حقیقت یہ ہے کہ شام کو تقسیم کرنے کی سازش کی جا رہی ہیں اور جگہ جگہ امریکی سامراج کے حمایت کردہ لوگ جو ہیں وہ بائیں بازو کے ترقی پسندوں کے خلاف کھڑے ہوئے ہیں اور یہ سلسلہ ایک عرصے سے جاری ہے۔ لیکن اب وہاں (شام میں) بھی آپ دیکھ رہے ہیں کہ حالات پلٹ رہے ہیں اور ان طاقتوں کو پسپائی ہو رہی ہیں جو امریکی سامراج کی سپورٹ سے ہیں اور شام میں انتشار پیدا کر رہے ہیں۔ مجھے میرے ایک محترم بڑے ہنس کر یہ کہہ رہے تھے کہ آج شاید فریڈم فائٹر (freedom fighter) وہ ہوتے ہیں جو امریکی اسلحہ سے لڑ رہے ہیں کہ جن کو امریکہ مسلح کر رہا ہے۔ دیکھیں میں باہر کی امداد پر یقین نہیں رکھتا، سب سے زیادہ مجھے جو یقین ہے وہ اپنے مقصد کی سچائی پر ہے اور پھر عوام کی حمایت پر یقین رکھتا ہوں۔ تو بنیادی طور پر شام کی عوام ہیں اور انکا مقصد ہے جس کی یہ فتح ہے اور مقصد اگر صحیح ہو تو پھر ہر طرف سے مدد آتی ہے۔ شام میں فتح عوام کی ہوگی۔
خبر کا کوڈ : 286524
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش