0
Friday 29 Nov 2013 23:02

عمران خان نے نئی نسل کو سیاسی میدان میں لانے کا وعدہ پورا کیا، سہیل آفریدی

عمران خان نے نئی نسل کو سیاسی میدان میں لانے کا وعدہ پورا کیا، سہیل آفریدی
سہیل خان آفریدی کا بنیادی تعلق قبائلی علاقہ خیبر ایجنسی سے ہے، اور آپ سیاسی میدان میں قدم رکھنے والے اپنے خاندان کے پہلے فرد ہیں، آپ نے 2008ء میں پاکستان تحریک انصاف کے اسٹوڈنٹ ونگ، انصاف اسٹوڈنٹس فیڈریشن میں بحیثیت رکن شمولیت اختیار کی۔ پھر پشاور یونیورسٹی کے صدر منتخب ہوئے، اور بعدازاں انٹرا پارٹی الیکشن کے ذریعے آئی ایس ایف پشاور کے صدر بنے۔ گذشتہ ایک سال سے آپ انصاف اسٹوڈنٹس فیڈریشن خیبر پختونخوا کے صدر کی حیثیت سے خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ اور اس وقت پشاور یونیورسٹی سے ایم فل کر رہے ہیں۔ ’’اسلام ٹائمز‘‘ نے سہیل خان آفریدی کیساتھ ایک انٹرویو کا اہتمام کیا، جو قارئین کے پیش خدمت ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: عمران خان نے الیکشن سے قبل یوتھ کو بہت متحرک کیا اور کئی وعدے کئے گئے، اس وقت خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی ہی کی حکومت ہے، آپ کے خیال میں یہ حکومت اپنے وعدے کس حد تک پورے کر پائی۔؟
سہیل آفریدی:
تحریک انصاف کے الیکشن سے قبل جو اہم وعدے تھے، وہ تقریباً سب کے سب پورے ہو رہے ہیں، ایک ہمارا یہ وعدہ تھا کہ کرپشن کا خاتمہ کریں گے۔ پہلے ہم دیکھتے تھے کہ گریڈ 19۔ 20 کے افسران 11 یا 12 بجے اپنے دفاتر کو جاتے تھے، لیکن اب ہم دیکھتے ہیں کہ وہ صبح 8 بجے اپنے دفاتر میں موجود ہوتے ہیں۔ دوسری بات یہ کہ مالی بدعنوانی کی تھی، جو کہ اب نہ ہونے کے برابر ہے۔ بعض جگہوں پر کرپشن ہو رہی ہے تاہم یہ وہ جگہیں ہیں جہاں ہم ابھی نہیں پہنچے۔ پولیس کی بات کی جائے تو وہ بھی کافی حد تک سدھر چکی ہے۔ موجودہ آئی جی پی انتہائی مخلص شخص ہیں۔ اور اپنا کام بہت اچھے طریقے سے کر رہے ہیں۔ جہاں تک شعبہ تعلیم کی بات ہے تو میں ایک اسٹونٹ لیڈر ہوں، اور پشاور یونیورسٹی میں اب تک وہی سابقہ دور حکومت کی انتظامیہ تعینات ہے، جسے سیاسی بنیادوں پر تعینات کیا گیا تھا۔ اس حوالے سے ہم نے عمران خان صاحب، وزیراعلیٰ صاحب اور اسپیکر صاحب سے بھی بات کی ہے کہ گذشتہ دور حکومت میں سیاسی بنیادوں پر ہونے والی تعیناتیوں کو ختم کیا جائے اور میرٹ کی بنیاد پر غیر سیاسی تقرریاں کی جائیں۔

اسلام ٹائمز: امن و امان کا مسئلہ ہو تو کوئی بھی ملک ترقی نہیں ک رسکتا، اس حوالے سے ہمیں صوبہ میں صورتحال مزید خراب تر ہوتی نظر آئی، اس کے علاوہ آپ جیسے نوجوان آج بھی ہاتھوں میں ڈگریاں لئے بے روزگار پھر رہے ہیں، اس حوالے سے آپ یوتھ نے اپنی پارٹی پر کیا کوئی دباو ڈالا۔؟
سہیل آفریدی:
ہم نے واقعی پریشر ڈالا تھا، اس سلسلے میں ہماری اسپیکر صاحب سے بات ہوئی تھی، اسپیکر صاحب نے ہمیں بتایا کہ پشاور میں ہم ایک ماڈل سٹی بنا رہے ہیں، جوکہ ایک لاکھ چالیس ہزار جرب اراضی ہر محیط ہو گا۔ اس میں 40 ہزار جرب زمین ایجوکیشن سٹی کیلئے ہو گی، جہاں کالجز اور یونیورسٹیز ہونگی۔ سرمایہ کار بھی آنے کیلئے تیار تھے لیکن دھماکوں اور حکیم اللہ محسود کے مارے جانے کی وجہ سے امن و امان کی صورتحال خراب ہو گئی۔ جیسا کہ یہ ایک حقیقت ہے کہ جہاں امن و امان کا مسئلہ ہو وہاں سرمایہ کار بہت کم آتے ہیں کیونکہ جہاں انہیں منافع نہ ملنے کا خدشہ ہو تو وہ وہاں سرمایہ کاری نہیں کرتے۔ اگر وہ سرمایہ کاری کر بھی لیں تو دھماکے ہو جائیں یا پھر ان کے کئے گئے کام کا نقصان ہو جائے تو وہ یہ برداشت نہیں کرتے۔ 

بقول اسپیکر صاحب سرمایہ کار تیار تھے اور اس پراجیکٹ پر کام شروع ہونے والا تھا۔ لیکن بدقسمتی سے یہ جو افسوسناک واقعات ہوئے تو وہ پیچھے ہٹ گئے ہیں۔ اب وہ کہتے ہیں کہ ہماری ان سے بات ہوئی ہے اور کوشش کر رہے ہیں کہ سرمایہ کار دوبارہ تیار ہو جائیں۔ آپ کی دوسری بات یہ کہ نوجوانوں کو نوکریاں نہیں مل رہیں۔ تو میں یہ کہوں گا کہ جب تک سرمایہ کار نہیں آئیں گے، جب تک صنعتیں قائم نہیں ہوں گی تو تب تک نئی نوکریاں پیدا نہیں ہوں گی۔ عدالت کا جو حکم آیا ہے کہ جو ملازم 60 سال کی عمر کو پہنچ جائے تو اس کے بعد ریٹائرڈ ہو جائے۔ ہمارے کے پی کے سمیت پورے پاکستان میں 60 سال سے زائد عمر کے ملازمین کے خلاف کریک ڈاون ہونا چاہیئے۔ نوجوان لوگ زیادہ متحرک ہوتے ہیں، اب تعلیم یافتہ بھی زیادہ پیدا ہو رہے ہیں، ان میں کام کرنے کی امنگ بھی زیادہ ہوتی ہے، کرپشن بھی کم کرتے ہیں۔ تو میرے خیال میں اگر ان باتوں پر غور کیا جائے اور کریک ڈاون کیا جائے تو نوکریوں کا مسئلہ خودبخود حل ہو جائے گا۔

اسلام ٹائمز: پی ٹی آئی کا یہ بھی دعویٰ تھا کہ جوانوں کو اسمبلیوں میں لانے کے زیادہ سے زیادہ موقع فراہم کئے جائیں گے، آپ کے خیال میں اس دعوے میں کس حد تک کامیابی ملی۔؟
سہیل آفریدی:
ہمارے عبید نیاز صاحب 30 سال سے کم عمر ہیں، ایم این اے مراد سعید بھی 30 سال سے کم عمر ہیں، طفیل انجم اور گل سیب خان بھی نوجوان ہیں، عادل نواز صاحب کو ٹکٹ ملا تھا، وہ بھی 30 سال سے کم عمر ہیں۔ بہت سارے ایسے افراد کو ٹکٹ ملے تھے جو 30 سال سے کم عمر ہیں، تاہم ہماری بدقسمتی کہ وہ زیادہ تر کامیاب نہیں ہو سکے۔ میری ابھی 23 سال عمر ہے، ورنہ مجھے بھی ٹکٹ مل جاتا۔ جتنے بھی نوجوان اس قابل تھے اور چاہتے تھے کہ انہیں ٹکٹ ملے تو ان سب کو پارٹی ٹکٹ ملے۔ خان صاحب نے جو وعدہ کیا تھا، اس سے ہم مطمئن ہیں کہ وہ اپنے اس وعدے پر 100 فیصد کاربند رہے اور ان لوگوں کو ٹکٹ دیئے جن کا حق بنتا تھا۔

اسلام ٹائمز: ایک طالب علم رہنماء کی حیثیت سے آپ کیا سمجھتے ہیں کہ پی ٹی آئی حکومت کیلئے مشکلات کون کھڑی کر رہا ہے۔؟
سہیل آفریدی:
یہ تو ایک حقیقت ہے کہ ہر پارٹی کا سیاسی اختلاف ہوتا ہے، چاہے وہ آپ کے ساتھ اتحادی ہو یا اپوزیشن میں۔ ہر بندہ یہ چاہتا ہے کہ اس کی پارٹی مضبوط ہو۔ جہاں پر اتحادی حکومتیں آتی ہیں میرے خیال میں وہاں پر مسائل زیادہ ہوتے ہیں۔ کیونکہ آپ کو سمجھوتے کرنے پڑتے ہیں۔ لہذا اتحاد بذات خود ایک مسئلہ ہے۔ اگر ہم اکیلے حکومت بناتے تو ہم اپنے نظریہ اور پالیسی پر آسانی سے عملدرآمد کرا سکتے تھے لیکن بعض اوقات مسائل آ جاتے ہیں، ہمارے ساتھ شیرپاو صاحب کی جماعت بھی اتحادی تھی، جوکہ اب حکومت سے فارغ ہو چکی ہے۔ وہ بھی مسائل پیدا کر رہے ہیں، کیونکہ بعض جگہ پر ان کی سننی پڑتی تھی، اگر نہ سنتے تو پھر دھمکیاں یا پھر دیگر سیاسی حربوں کا استعمال کیا جاتا تھا۔ قومی وطن پارٹی تو حکومت سے فارغ ہو چکی ہے البتہ جماعت اسلامی ماشاءاللہ ہمارے ساتھ بہت اچھے طریقہ سے چل رہی ہے۔ امید ہے کہ آگے بھی کوئی مسئلہ نہیں آئے گا۔ ہمارے وزیراعلیٰ صاحب بہت اچھے طریقہ سے آگے بڑھ رہے ہیں۔ وہ اس عہد کیساتھ آگے بڑھ رہے ہیں کہ یہ ان کی آخری فتح تھی، اس کے بعد وہ سیاست سے ریٹائرڈ ہو جائیں گے۔ لیکن وہ ایسے کام کریں گے کہ پوری قوم آخری دم تک نہیں یاد رکھے۔
خبر کا کوڈ : 325878
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش