0
Thursday 19 Dec 2013 13:26

جبتک دہشتگردوں کا آخری ٹھکانہ باقی ہے، آپریشن جاری رہنا چاہیئے، علامہ مقصود ڈومکی

جبتک دہشتگردوں کا آخری ٹھکانہ باقی ہے، آپریشن جاری رہنا چاہیئے، علامہ مقصود ڈومکی
علامہ مقصود علی ڈومکی مجلس وحدت مسلمین بلوچستان کے سیکرٹری جنرل ہیں۔ بلوچستان میں سکیورٹی کی ابتر صورتحال کے باوجود قومی و ملی کاموں میں بڑھ چڑھ کا حصہ لیتے ہیں۔ علامہ مقصود علی ڈومکی پر کوئٹہ شہر میں ایک قاتلانہ حملہ بھی ہو چکا ہے، جس میں جوابی کارروائی کے نتیجے میں ایک دہشتگرد ہلاک ہو گیا، تاہم اللہ تعالٰی نے انہیں محفوظ رکھا۔ اسلام ٹائمز نے ملک میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی اور تشیع کے خلاف ہونے والی سازشوں کے حوالے سے علامہ مقصود علی ڈومکی کا انٹرویو کیا ہے، جو قارئین کیلئے پیش خدمت ہے۔

اسلام ٹائمز: پے در پے شیعہ نسلی کشی کا سلسلہ جاری ہے، کیا ملک خانہ جنگی کی جانب گامزن ہے۔؟

علامہ مقصود علی ڈومکی: میں سمجھتا ہوں کہ اسلام دشمن سامراجی قوتیں امریکہ، اسرائیل اور بھارت کی یہ پرانی کوشش رہی ہے کہ پاکستان میں فرقہ وارانہ فسادات کرا کے خانہ جنگی کی کیفیت پیدا کی جائے۔ لیکن میں نہیں سمجھتا کہ انہیں اس مقصد میں کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ آج بڑھتی ہوئی دہشت گردی کے واقعات میں جب شیعہ قتل ہوتے ہیں تو کہا جاتا ہے کہ سنی ملوث ہیں اور جب سنی قتل ہوتے ہیں تو کہا جاتا ہے شیعہ ملوث ہیں لیکن دراصل ان واقعات میں شیعہ و سنی نہیں بلکہ امریکہ و اسرائیل کے ایجنٹ ملوث ہیں۔ جو ڈالروں کے عوض معصوم لوگوں کا خون بہاتے ہیں۔ سنی شیعہ آج بھی سمجھتے ہیں کہ ان کا مشترکہ دشمن کون ہے۔ ان حالات کے ذمہ دار ریاستی ادارے ہیں، ان کا کام ہے کہ دہشت گردوں کو لگام دیں۔ عام آدمی نے ہتھیار اٹھا لئے تو پاکستان میں افراتفری پیدا ہو جائے گی۔ ریاستی ادارے صرف سیاسی و مذہبی شخصیات کے خلاف اسکینڈل بنانے میں مصروف رہتے ہیں انہیں اپنے کام کی پرواہ نہیں ہے۔ ان کی بنیادی ذمہ داری عوام و ریاست دشمن عناصر کے خلاف کارروائی کرنا ہے۔

اسلام ٹائمز: کہا جا رہا ہے کہ ذاکر اہلبیت ناصر عباس اور شمس معاویہ کے قتل میں ایک ہی گروہ ملوث ہے، اس حوالہ سے کیا کہیں گے۔؟

علامہ مقصود علی ڈومکی: قبلہ علامہ ساجد علی نقوی صاحب نے یہ بیان دیا ہے۔ ان کے بیان میں بڑی حد تک وزن ہے۔ وہ ایک ذمہ دار شخصیت ہیں، اس معاملہ کو بڑی سنجیدگی سے دیکھنا پڑے گاکہ کیا یہ ایک ہی گروہ ہے جو شیعہ کو بھی نشانہ بنایا ہے اور سنی کو بھی۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ دونوں کے پس پردہ سامراجی قوتیں امریکہ و اسرائیل ہیں۔

اسلام ٹائمز: یوم عاشور راولپنڈی میں رونما ہونے والے واقعہ کے بعد عزاداری کے خلاف سازشیں تیز ہو گئی ہیں، عزاداری سیدالشہداء (ع) پر قدغن و محدودیت کے بارے میں کیا کہیں گے۔؟

علامہ مقصود علی ڈومکی: اس خطے میں عزاداری سید شہداء کے جلوس صدیوں سے برآمد ہو رہے ہیں۔ جن میں ہمارے برادران اہل سنت بڑی تعداد میں شامل ہوتے ہیں بلکہ بلوچستان اور سندھ میں ہندو، سکھ اور عیسائی بھی ان جلوسوں میں شرکت کرتے ہیں۔ عزاداری کو ختم کرنا کسی کو خواب ہو سکتا ہے جس کی مجھے تعبیر نظر نہیں آتی۔ یہ ہمارا بنیادی انسانی حق اور مذہبی فریضہ ہے۔ ایک شیعہ لیڈر کی قیادت میں سنی شیعہ دونوں نے مل کر پاکستان حاصل کیا۔ اس ملک میں یہ تصور کرنا کہ وہ شیعہ قوم کو بند گلی میں دھکیل دیں گے یا انہیں اقلیت قرار دے دیں گے، خام خیالی ہے۔ عزاداری امام حسین (ع) ظالم کے خلاف احتجاج کا نام ہے یہ کسی مکتبہ فکر کے خلاف نہیں ہے۔ ہم وقت کے یزید اور ظالم کے خلاف جلوس نکالتے ہیں اور ہر کسی کو دعوت دیتے ہیں کہ آئیں ہمارے ساتھ شامل ہو جائیں۔ جہاں تک جلوس عزا کی سکیورٹی کا تعلق ہے تو عزادارن حسین اپنی جانوں پر کھیلتے ہوئے ان جلوسوں کی حفاظت کرتے چلے آئے ہیں۔ یہ جلوس وقت کے ساتھ بڑھ سکتے ہیں رک نہیں سکتے۔

اسلام ٹائمز: ملک میں عزاداری کے خلاف چلنے والی لہر کے بعد یو ای ٹی پشاور کے بعد یو ای ٹی ٹیکسلا میں بھی یوم حسین (ع) پر پابندی عائد کر دی گئی ہے، اس حوالہ سے کیا کہیں گے۔؟

علامہ مقصود علی ڈومکی: یہ ہمارے بہت محترم تعلیمی ادارے ہیں، چاہے ان کے وائس چانسلر ہوں یا ان کی انتظامیہ، ان کو یہ بات سمجھانی ہوگی کہ یوم حسین (ع) منانا فرقہ واریت کو ہوا دینا نہیں ہے۔ یوم حسین (ع) میں خود وائس چانسلر اور سنی اکابرین شرکت کرتے ہیں۔ محرم کے ایام میں اہل سنت پروگرامات اور ٹاک شوز میں آ کر امام حسین علیہ السلام کی قربانی کو بیان کرتے ہیں۔ پورے پاکستان میں موجود یونیورسٹیوں کو چاہیئے کہ یوم حسین (ع) کے انعقاد میں مکمل تعاون کریں۔ یوم حسین (ع) اتحاد امت کا مظہر ہونا چاہیئے۔

اسلام ٹائمز: طالبان کی ہٹ دھرمی کے بعد اب حکومت کو کیا راستہ اختیار کرنا چاہیئے۔؟

علامہ مقصود علی ڈومکی: جہاں مہذب انسان ہوں وہاں معاملات کے حل کے لئے مذاکرات کئے جاتے ہیں، لیکن جہاں دہشت گرد ہوں جن کے ہاتھ معصوم انسانوں کے خون سے رنگین ہوں وہاں مذاکرات مناسب نہیں ہیں۔ جب کہا جاتا ہے کہ امریکہ اور سعودی عرب طالبان کے مخالف ہیں تو طالبان کو کروڑوں ڈالر کون دے رہا ہے۔ ہر طالبان لیڈر کے ساتھ ہزاروں مسلح افراد ہوتے ہیں جن کو تنخواہیں دی جاتی ہے۔ یہ سب سوالیہ نشان ہیں جن پر حکومت کو سوچنا ہو گا۔ قرآن نے قصاص کا راستہ دکھایا ہے۔
وَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيَاةٌ يَا أُولِي الْأَلْبَابِ
اے صاحبان عقل قصاص میں زندگی ہے۔
ہماری عدالتیں اس معاملہ میں جانبداری کو مظاہرہ کر رہی ہیں۔ حال ہی میں فارغ ہونے والے چیف جسٹس پر یہ الزام تھا کہ اس نے دہشت گردوں کے خلاف انصاف سے فیصلے نہیں کئے۔ اس سے بڑی شرمندگی کی بات کیا ہو گی کہ وزیر اعظم نواز شریف نے کہا کہ اگر جج ڈرتے ہیں تو ماسک پہن کر دہشت گردی کیسز کی سماعت کریں۔ یہ شرم کا مقام ہے اس ادارے کے لئے جو ریاست میں انصاف کا ٹھیکیدار ہے۔ نئے چیف جسٹس اور آرمی چیف کو سمجھنا چاہیئے کہ دہشت گردوں کا ایک علاج ہے اور وہ ہے آپریشن۔ جب تک دہشت گردوں کا آخری ٹھکانہ موجود ہے، آپریشن جاری رہنا چاہیئے۔ ان کے تربیتی کیمپ بند ہونے چاہیئیں، اب یہ ڈرامہ بہت چل چکا اسے بند ہونا چاہیئے۔
خبر کا کوڈ : 332078
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش