0
Tuesday 28 Jan 2014 12:32
بدقسمی سے مدرسوں کو اَن پڑھ مولویوں نے اپنا فورم بنا لیا ہے

طالبان کی حالیہ کارروائیوں کا مقصد حکومت کو پریشر میں لاکر مذاکرات کرنا اور اپنی باتیں منوانا ہے، جنرل (ر) عبدالقیوم

اسرائیل سمجھتا ہے کہ اگر شام میں پرو سعودی حکومت آگئی تو اسکی اسرائیل کیساتھ مخالفت کم ہوجائیگی
طالبان کی حالیہ کارروائیوں کا مقصد حکومت کو پریشر میں لاکر مذاکرات کرنا اور اپنی باتیں منوانا ہے، جنرل (ر) عبدالقیوم
لیفٹینٹ جنرل ریٹائرڈ عبدالقیوم کا نام ملک کے ممتاز محققین اور سیاسی نشیب و فراز پر گہری نظر رکھنے والے بلند پایہ دفاعی و سیاسی تجزیہ نگاروں میں ہوتا ہے، ریٹائرڈ جنرل عبدالقیوم، پاکستان آرڈینسنس بورڈ اور پاکستان سٹیل ملز کے سابق چیئرمین رہے ہیں، نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کے ممبر اور سابق وزیراعظم محترمہ بینظیر بھٹو کے ملٹری سیکرٹری کے فرائض بھی انجام دے چکے ہیں اور اس وقت نظریہ پاکستان فورم اسلام آباد کے صدر کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں، اسلام ٹائمز نے طالبان کی جانب سے حالیہ حملوں میں تیزی، مذاکرات، ممکنہ فوجی آپریشن، پاک افغان تعلقات، جنیوا کانفرنس اور خطے میں امریکی کردار پر ایک سیر حاصل انٹرویو کیا ہے۔ جو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: پاکستان اور امریکہ کے درمیان دوبارہ اسٹریٹجک مذاکرات شروع ہوگئے ہیں، یہ مذاکرات کیا ہیں اور انکی اہمیت کیا بنتی ہے۔؟

ریٹائرڈ جنرل عبدالقیوم: نائن الیون کے بعد امریکہ نے پاکستان کو استعمال کیا اور ہر لحاظ سے استعمال کیا، اس کے بدلے میں پاکستان کو کچھ بھی نہیں ملا، بالآخر 2010ء میں امریکہ نے کہا کہ آپ ہمارے اسٹریٹجک پارٹنر ہیں، لہٰذا آپ کے اور ہمارے درمیان کمپوزٹ اسٹریٹجک مذاکرات ہونے چاہئیں، جس میں ہم آپ کی مدد کریں گے۔ ان مذاکرات میں تقریباً گیارہ چیزیں شامل ہیں، اکانومی، انرجی، انسداد دہشتگردی، ایجوکیشن، ہیلتھ، سائنس، زراعت اور پانی سمیت دیگر چیزیں شامل ہیں۔ امریکہ نے کہا کہ ان گیارہ چیزوں پر بیٹھ کر ہم مذاکرات کرتے ہیں، ہم بتائیں گے کہ ہم اس پر کیا کرسکتے ہیں۔ 2011ء میں اس پر وزارتی لیول پر تین میٹنگز ہوئیں، جن کا حاصل کچھ بھی نہیں تھا۔ وہ ہمیں بے وقوف سمجھ رہے تھے، یعنی انہوں نے ہماری معنی خیز مدد نہیں کی، یہی ہمارا ان سے گلہ تھا کہ آپ نے بھارت کے ساتھ نیوکلئیر ڈیل تک کرلی ہے، لیکن ہمیں وہ چیزیں نہیں دے رہے۔
ریمنڈ ڈیوس، سلالہ حملہ، اسامہ کی گرفتاری اور شکیل آفریدی کی رہائی کا مطالبہ، یہ وہ چیزیں تھیں جن کے باعث مذاکرات میں تعطل آگیا۔ نواز شریف کے وزیراعظم بننے کے بعد دوبارہ اس ایشو پر بات ہوئی، اعلٰی سطح پر ملاقاتیں کی گئیں اور آج دوبارہ یہ مل بیٹھ رہے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ وزارت خارجہ اپنے معاملات کو مستعدی سے آگے بڑھائے گی۔ ان کے ساتھ بیٹھ کر جہاں پر ان کا تعاون چاہیے وہ لے گی، انسداد دہشتگردی میں معاونت چاہیے، انٹیلی جنس شیئرنگ ہے، اسطرح وہ بجائے خود ڈرون حملے کرنے کہ ہمیں ٹارگٹ بتائیں اور دہشتگردوں
کا پتہ بتائیں، ہم خود ان کیخلاف کارروائی کرینگے۔ اس خطے کے مسائل کا ذمہ دار تو امریکہ ہے، جس کی وجہ سے آج پاکستان اس دلدل میں برے طریقے سے پھنس گیا ہے۔ اگلے ایک دو دن میں ہمیں ان مذاکرات کی تمام تفصیلات مل جائیں گی۔

اسلام ٹائمز: افغان صدر حامد کرزئی نے سکیورٹی معاہدے پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ یہ معاہدہ کیا ہے اور اس سے افغانستان پر کیا اثرات مرتب ہونگے۔؟

ریٹائرڈ جنرل عبدالقیوم: یہ بہت ہارڈ سوال ہے، شروع میں امریکہ کیساتھ معاہدہ کرنے کے حوالے سے کرزئی نے کہا کہ میں لوئی جرگہ سے پوچھوں گا، لوئی جرگہ نے اسے معاہدے پر دستخط کرنے کا اختیار دیدیا۔ اب اسے احساس ہوا ہے کہ میں نے معاہدے پر دستخط کر دیئے تو اس کا مطلب اپنے ہاتھ کاٹ کر امریکہ کو دینے کے مترادف ہیں۔ امریکہ کہہ رہا ہے کہ آپ ہمیں 9 آرمی بیس دیں جہاں پر ہماری فوجیں رہینگی، ان پر لوکل قانون نافذ نہیں ہوسکے گا، ہم بغیر کسی اطلاع کے آپریشن کرسکیں گے، گھروں میں چھاپے مار سکیں گے، اور جو بگرام جیل میں قیدی ہیں انہیں رہا نہ کیا جائے، انہیں ہم دیکھیں گے۔ اس بات کا کرزئی کو کریڈٹ دینا چاہیے کہ اس نے دستخط کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ ابھی کرزئی نے کہا ہے کہ جب تک امریکہ اور پاکستان افغان طالبان سے مذاکرات نہیں کراتے وہ دستخط نہیں کریں گے۔ آپ نے دیکھا کہ عراق نے بھی دستخط نہیں کیے تھے۔ امریکہ کے افغانستان میں بیسز رکھنے کا مطلب یہ نہیں کہ امریکہ کو یہاں انسانی حقوق کی فکر مندی ہے یا اسے افغانیوں سے یا یہاں وہ جمہوریت لانا چاہتا ہے۔ امریکہ یہاں کے ذخائر پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ روس اور چائنہ پر نگاہ رکھ سکیں گے۔ وہ نیوکلیئر پاکستان اور پوٹینشل ایران کے پڑوس میں ڈیرہ ڈالنا چاہتے ہیں۔ یہ ان کے ٹوٹل ڈیفنس ہے جو ایشاء پیسفک ریجن سے شروع ہوتا ہے دیگوگارشیا انڈین اورشین میں جاتا ہے اور اسٹیٹ آف ہارمونز کو ملاتا ہے، پرشین گلف کو لیکر یہاں افغانستان تک آنا چاہتے ہیں، بعد میں یہ کہیں کہ ہمیں میزائل ڈیفنس شیلڈ بھی لگانی ہے۔ پاکستان کو افغانستان کی سپورٹ کرنی چاہیے کہ وہ اس پر دستخط نہ کرے۔

اسلام ٹائمز: کیا وجہ ہے کہ آج بھی ہمارے افغانستان کیساتھ تعلقات ٹنشن میں ہیں، یہاں جتنی بھی طالبان کارروائیاں ہوتی ہیں وہ افغان علاقے کنڑ سے کی جاتی ہیں اور دہشتگرد وہیں جاکر پناہ لیتے ہیں۔؟

ریٹائرڈ جنرل عبدالقیوم: اس کی وجہ یہ ہے کہ کنڑ اور نورستان کا علاقہ 85 فیصد پہاڑیوں پر مشتمل ہے جس طرح ہمارے قبائلی علاقے ہیں۔ اب جیسے امریکن
اور نیٹو فورسز کا افغانستان کے اسی فیصد علاقے پر کوئی کنٹرول نہیں تو یہ علاقہ بالکل ہی غیر محفوظ ہے جہاں پر ان کا کنٹرول نہیں اور ملا فضل اللہ کمپنی دندناتے پھرتے ہیں۔ حیرانگی کی بات یہ ہے کہ امریکی اس علاقے میں کوئی ڈرون نہیں مارتے جبکہ پاکستان میں ان کے آئے روز ڈرون حملے جاری رہتے ہیں۔ کنڑ اور نورستان یہ وہ علاقے ہیں جہاں سے یہ لوگ بیٹھ کر ہمارے علاقوں میں کارروائیاں کرتے ہیں۔ یہ بہت تکلیف دہ بات ہے کہ یہ لوگ وہاں سے آکر یہاں کارروائیاں کریں۔ ہم نہیں چاہتے کہ ہم یہاں سے جاکر وہاں ائیر اسٹرایک کریں، یہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہوگی۔ جس طرح ہمارے سرحدی ایریا میں امریکن اٹیک کرتے ہیں اور ہم احتجاج کرتے ہیں، ہم یہ پریکٹس نہیں دہرانا چاہتے۔

اسلام ٹائمز: طالبان نے حالیہ دنوں میں پاکستانی فورسز اور شہریوں پر حملے تیز کر دیئے ہیں۔ آخر کب تک قوم یہ حملے جھیلتی رہے گی، کیوں ان کیخلاف فیصلہ کن کارروائی نہیں کی جاتی۔؟

ریٹائرڈ جنرل عبدالقیوم: دہشتگردی کی حالیہ لہر کی دو تین وجوہات ہیں، ایک تو حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد نئی لیڈرشپ نے یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ ہم زندہ ہیں، اپنے لوگوں کا مورال اپ رکھنے کیلئے انہوں نے حملے کئے ہیں۔ دوسرا یہ کہ 2014ء میں امریکہ نے اس خطے سے نکلنا ہے اور وہاں ایک نئی حکومت بنے گی، چاہے وہ طالبان کی حکومت بنتی ہے یا کوئی نیوٹرل حکومت قائم ہوتی ہے تو ان کی سپلائی لائنیں بند ہوجائیں گی۔ کیونکہ ابھی پاکستان میں جو افراد کارروائیاں کر رہے ہیں انہیں موساد اور دیگر ملکوں کی ایجنسیاں سپورٹ کر رہی ہیں۔ جب افغانستان میں نئی حکومت بنے گی تو ان کی یہ سپلائی لائن بند ہوجائے گی۔ اس لئے یہ لوگ انڈر پریشر ہیں۔ ادھر سے وہ نکالیں گے اور ادھر سے پاکستان ان کیخلاف کارروائی کریگا۔ اب پوری قوم متحد ہے کہ ان کیخلاف آپریشن کیا جائے اور انہیں سبق سکھایا جائے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ جب وزیرستان میں آپریشن کی بات ہوتی تھی تو کہا جاتا تھا کہ امریکی ڈومور پر یہ باتیں کی جا رہی ہیں لیکن اب صورتحال مختلف ہے۔ سب کہہ رہے ہیں کہ ان کیخلاف کارروائی کی جائے۔ حالیہ کارروائیوں کا مقصد حکومت کو پریشر میں لاکر مذاکرات کرنا اور اپنی باتیں منوانا ہے۔

اسلام ٹائمز: جب آپ نے کہا کہ پوری قوم متحد ہے تو پھر کیا چیز مانع ہے کہ ان کیخلاف کارروائی نہیں کی جا رہی۔؟

ریٹائرڈ جنرل عبدالقیوم: دیکھیں، جب آپ فوجی آپریشن کی بات کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہی ہے کہ سیاسی جماعتیں فیل ہوگئی ہیں
اور کوئی بھی حکومت اپنے آپ کو فیل نہیں کہلانا چاہتی۔ کوئی بھی لیڈر اپنے ملک میں ملٹری آپریشن لانچ کرنا نہیں چاہتا۔ ابھی اگر وزیرستان میں آپریشن کیلئے فوج کو لانچ کر بھی دیں اور اس علاقے کو کافی حد تک کلیئر بھی کر دیں تو بھی دہشتگردی اور شدت پسندی ختم نہیں ہوگی۔ بلوچستان میں اپنی نوعیت کی بغاوت چل رہی، کراچی کے اپنے حالات ہیں۔ اسی طرح پنجاب ہے، جہاں لشکر جھنگوی سمیت دیگر تنظیمیں ہیں جو کارروائیاں کرتی ہیں۔ اس لئے پہلی کوشش یہی ہونی چاہیے کہ انہیں کسی طریقہ سے ڈفیوز کیا جائے۔ اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ اب جہاں انہیں ٹارگٹ ملے گا اور یہ کارروائی نہیں کریں گے۔ اس لئے قوم کو اس غلط فہمی نہیں رہنا چاہیے کہ وزیرستان میں آپریشن ہوا تو معاملات حل ہوجائیں گے۔ کارروائی کرنے کا فیصلہ سوچ سمجھ کرنا ہوگا، اس میں عجلت کی ضرورت نہیں۔ کیونکہ پہلے بھی ہم نے سوات اور دیگر علاقوں میں وقت سے پہلے آپریشن کرکے یہ مسائل پیدا کئے ہیں۔

اسلام ٹائمز: جنرل صاحب، سری لنکا کی مثال ہمارے سامنے ہے، انہوں نے کس طرح دل جمعی کیساتھ آپریشن کرکے یہ مسئلہ حل کرلیا ہے، ہم کیوں نہیں کرسکتے۔؟

ریٹائرڈ جنرل عبدالقیوم: سری لنکا نے یہ سب اٹھائیس سال تک جھیلا ہے۔ انہوں نے بہت سارے محاذوں پر لڑائی کی ہے۔ انہوں نے سفارتی محاذ پر بھی کام کیا ہے۔ سری لنکا کا پاکستان سے موازنہ نہیں کرنا چاہیے۔ سری لنکا چھوٹا ملک ہے جو مینج ایبل ہے۔ پاکستان اس کے مقابلہ میں بڑا ملک ہے جہاں مذہبی انتہاء پسندی کا مسئلہ، لسانیت سمیت کئی طرح کی تقسیم ہے۔ ہمارے باڈر پر انڈیا کھڑا ہے جس کی فوجیں ہمہ وقت تیار بیٹھی ہیں۔ سری لنکا کی پڑھی لکھی سوسائٹی ہے۔

اسلام ٹائمز: کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ماضی میں ہم سے غلطیاں ہوئی ہیں اور طاقت کے توازن کو مذہبی سطح پر ڈسٹرب کیا گیا ہے، جس کا آج ہم خمیازہ بھگت رہے ہیں۔؟

ریٹائرڈ جنرل عبدالقیوم: یہ تاریخ کی باتیں ہیں اس سے مذہب کا کوئی تعلق نہیں، پاکستان کے قیام کے وقت بھی مدارس تھے، مدارس کا قیام کوئی بری چیز نہیں، مدرسہ کا نصاب کالجز میں بھی پڑھانا چاہیے تاکہ انسان سازی ہوسکے، لیکن بدقسمی سے مدرسوں کو اَن پڑھ مولویوں نے اپنا فورم بنا لیا ہے اور وہاں پھر ہر طرح کی ٹرینگ دی جانے لگی، لشکر بننے لگے، اسلام میں سلطنت کے امیر کے بغیر کوئی کچھ نہیں کرسکتا، یہ تو کوئی بات نہیں کہ آپ رائفل اٹھائیں اور اپنی مرضی کا نظام نافذ کر دیں۔ آئین پاکستان اور پارلیمنٹ موجود ہے۔ پاکستان میں شیعہ سنی تقسیم کو ہم نے اپنا میدان جنگ
بنایا ہوا ہے، کوئی لوگ سنیوں کے شدت پسند گروپوں کو سپورٹ کرتے ہیں تو کوئی شیعوں کے گروہ کو سپورٹ کرتے ہیں۔ آپ دیکھیں کہ ہمارے درمیان 97 فی صد سے بھی زائد مشترکات موجود ہیں صرف تین فی صد ایسی چیزیں ہیں جن پر اتفاق نہیں، لیکن ہم تین فیصد چیزوں کو لیکر بیٹھ جاتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: میاں صاحب کی حکومت کو آٹھ ماہ ہوچکے ہیں، امن و امان کی صورتحال پہلے سے بھی دگرگوں ہے، امید کی جارہی تھی کہ وہ کوئی بڑا بریک تھرو کرینگے لیکن ایسا کچھ دیکھنے کو نہیں ملا، ایک رائے پائی جارہی تھی کہ میاں صاحب کی حکومت آتے ہی مذاکرات ہوجائیں گے لیکن کچھ نہیں ہوا۔ میاں صاحب نے مولانا سمیع الحق کو اسائنمنٹ دی جس سے وہ بھی الگ ہوگئے ہیں۔؟

ریٹائرڈ جنرل عبدالقیوم: سمیع الحق کی جہاں تک بات ہے تو اس پر وزیراعظم ہاؤس نے وضاحت کردی ہے کہ انہیں طالبان سے مذاکرات کے حوالے سے کوئی اسائنمنٹ نہیں دی گئی۔ ایک جنرل بات کی تھی، اس لئے سمیع الحق صاحب بار بار کہتے رہے کہ وزیراعظم ہاؤس سے کوئی رسپانس نہیں مل رہا۔ وجہ یہی تھی کہ انہیں کوئی ایسا کام نہیں سونپا گیا تھا۔ جہاں مذاکرات کا تعلق ہے حکومت کو ابھی تک کوئی کامیابی نہیں ملی، حکومت یہی ورد کرتی رہے کہ ہاں ہم مذاکرات کرنا چاہتے ہیں۔ باقی سکیورٹی ایجنسیز کام کریں اور پن پوائنٹ کریں کہ کون کیا ہے اور کہاں ہے۔ باہر کے لنکس کیا ہیں اور اندر سے کون سپورٹ کر رہا ہے۔ جہاں پر ضروری ہو وہ ایکشن لیتے رہیں۔

اسلام ٹائمز: کیا حالیہ اجلاس میں یہ فیصلہ ہوا ہے کہ جہاں ٹارکٹ ملے، اڑا دو۔؟

ریٹائرڈ جنرل عبدالقیوم: جی جی حالیہ اجلاس میں یہ فیصلہ ہوا ہے اور ہونا بھی ایسا ہی چاہیے۔ اگر سمجھتے ہیں کہ چند لوگ اکٹھے ہوکر آپ پر اٹیک کرنے والے ہیں، لوگوں کو نشانہ بنانا چاہتے ہیں تو آپ بیٹھیں گے تو نہیں۔ انہیں ٹارگٹ کریں گے۔

اسلام ٹائمز: جنیوا کانفرنس پر کیا کہیں گے۔؟
ریٹائرڈ جنرل عبدالقیوم: دیکھیں جنیوا کانفرنس میں ایران سے مربوط چیزیں ڈسکس ہوئی ہیں۔ میرے خیال میں مڈل ایسٹ میں تبدیلی ہوتی نظر آرہی ہے، کیونکہ انیس سو تیس سے لیکر ابتک ان کی ساری چیزیں سعودی عرب کیساتھ تھیں۔ وقت گزرنے کیساتھ ایران کو بھی فورس کے طور پر استعمال کیا گیا، تاہم انقلاب اسلامی کے بعد یہ صورتحال رک گئی۔ اس کے بعد دوبارہ سعودی عرب کو استعمال کیا گیا۔ دوسرا اب سعودی عرب اور ایران کے درمیان تناو کی کیفیت ہے۔ حتٰی شام کے معاملے پر دونوں کے درمیان تناو ہے۔ ایران شام میں بشار الاسد کی حکومت کو سپورٹ کر رہا ہے۔ جنیوا مذاکرات
سے پہلے امریکہ ایران کا مخالف تھا، تاہم اب وہ اس طرح مخالف نہیں رہا۔ امریکہ سوچ رہا ہے کہ انہیں ایران زیادہ سوٹ کرتا ہے۔ کیونکہ ایران میں جمہوریت ہے، ایک پڑھی لکھی مڈل کلاس ہے، اور ٹوٹل ملٹری فورس ہے اور ایران کی سنٹرل اسٹریٹیجک لوکیشن ہے۔ اس صورتحال پر حتٰی اسرائیل اور سعودی عرب امریکہ سے ناراض ہیں۔ میرے خیال میں اگر ایران نے اچھی سفارتکاری کی تو یہ مزید آگے بڑھیں گے۔ میں نے کچھ دن پہلے اپنے آرٹیکل میں لکھا تھا اور میاں صاحب کو پیغام دیا تھا کہ وہ بیچ میں آئیں اور ایران اور سعودی عرب کی صلح کرائیں۔ اسی میں پاکستان اور ان دونوں ممالک کا مفاد ہے۔ اس صورتحال میں ہمارے گیس اور تیل کے مسائل بھی حل ہوجائینگے۔

اسلام ٹائمز: سعودی عرب اور اسرائیل میں کیا مشترکات ہیں کہ دونوں ایک پیج پر ہیں۔ مثال کے طور پر مصر کی جمہوری حکومت کے خاتمے میں جتنا رول اسرائیل نے ادا کیا اتنا ہی سعودی عرب نے ادا کیا۔؟

ریٹائرڈ جنرل عبدالقیوم: اس کی وجہ یہ تھی کہ مرسی کی حکومت ایک منتخب حکومت تھی اور منتخب حکومت دونوں کو راس نہیں آسکتی تھی۔ فوجی حکومت کیمپ ڈیوڈ معاہدہ کے تحت وجود میں آئی تھی۔ اس لئے اسرائیل کو خطرہ لاحق ہوگیا۔ فوجی حکومت امریکہ اور اسرائیل کے تابع آجائے گی۔ سعودی عرب کیلئے بھی یہی تھا کہ اگر مرسی حکومت قائم ہو جاتی تو سعودی عرب میں بھی لوگ جمہوری حکومت کا مطالبہ کریں گے۔

اسلام ٹائمز: اگر مصر کی صورتحال یہی تھی تو سعودی عرب نے کیوں شام میں مداخلت کی اور وہاں بھی اس کا اسٹینڈ وہی رہا۔ حتٰی سعودی عرب نے یہاں تک کہہ دیا کہ حملہ تم کرو خرچ ہم کریں گے۔؟

ریٹائرڈ جنرل عبدالقیوم: شام میں حکمران طبقہ جو ہے وہ شیعہ ہے۔ بشارالاسد شیعہ ہے، ایران اسے سپورٹ کرتا ہے۔ اس لئے اسے ہٹانے کیلئے سعودی عرب یہ سب کچھ کر رہا ہے، تاکہ وہاں سنی حکومت قائم ہوسکے۔ اسی لئے القاعدہ بھی وہاں شور شرابہ کر رہی ہے۔ پہلے امریکہ نے بھی زبرست دباو رکھا کہ اسے ہٹایا جائے۔ ایک وجہ یہ بھی تھی کہ بشارالاسد اسرائیل کو سوٹ نہیں کرتا۔ کیونکہ شام لبنان کے ساتھ ملکر اس کیخلاف لڑائی کرتا ہے۔ اسرائیل سمجھتا ہے کہ اگر پرو سعودی حکومت آگئی تو اسکی اسرائیل کے ساتھ مخالفت کم ہوجائے گی۔ امریکہ، اسرائیل اور انکے دیگر اتحادیوں نے کوشش کی کہ بشارالاسد کیخلاف کوئی کارروائی ہوسکے لیکن ایران اور روس نے انہیں باور کرا کر دیا کہ ایسا ناممکن ہے اور امریکہ کو بھی سمجھ آگئی کہ وہ مزید کوئی نیا محاذ کھولنے کا متحمل نہیں ہوسکتا۔
خبر کا کوڈ : 345750
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش