0
Tuesday 11 Feb 2014 01:03
محکمہ تعلیم کے حوالے سے غیر ملکی ایجنسیوں کا کردار بھی افسوسناک رہا ہے

ریاستی اداروں نے ماضِی میں محکمہ تعلیم میں موجود کرپشن مافیا کو تحفظ دیا ہے، انجینئر اسلم

ریاستی اداروں نے ماضِی میں محکمہ تعلیم میں موجود کرپشن مافیا کو تحفظ دیا ہے، انجینئر اسلم
انجینئر محمد اسلم کا تعلق اسکردو سے ہے۔ ابتدائی تعلیم آپ نے کیرئیر گائیڈنس پبلک اسکول اسکردو سے حاصل کرنے کے بعد ہائیر اسکینڈری ایجوکیشن کراچی گلشن اقبال سے حاصل کی اس کے بعد سرسید انجینئرنگ یونیورسٹی کراچی سے انجینئرنگ کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد ایک نجی ادارے میں اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ آپ کو دورِ طالب علمی میں آئی ایس او بلتستان ڈویژن کے مختلف عہدوں پر بھی کام کرنے کا اعزاز حاصل ہے۔ اپنے دور طالب علمی میں کراچی میں بھی آئی ایس او کراچی ڈویژن میں فعالیت کرتے رہے ہیں۔ ان دنوں بلتستان میں مجلس وحدت مسلمین پاکستان بلتستان ڈویژن کے سیکرٹری تعلیم کی ذمہ داری نبھانے میں مصروف ہیں۔ اسلام ٹائمز نے آپ سے گلگت بلتستان کے حوالے سے ایک انٹرویو کیا ہے جو اپنے قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: گلگت بلتستان میں موجود سرکاری محکمہ تعلیم کی کارکردگی کے بارے میں آپ کیا کہنا چاہیں گے ۔؟

انجینئر اسلم: دیکھیں محترم! سرکاری محکمہ تعلیم کے لیے حکومت کی جانب سے کروڑوں کا بجٹ ہونے کے باوجود نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔ کبھی ایسا ہوا ہے کہ گلگت بلتستان کی سطح پر کسی بھی طالب علم نے نمایاں کامیابی حاصل کی ہو؟ کبھی سرکاری تعلیمی اداروں کے نتائج اچھے رہے ہوں۔؟ میں آپ کو بتاتا چلوں کہ بلتستان میں گذشتہ کئی سالوں سے سرکاری اسکولوں کا مجموعی نتیجہ پندرہ فی صد سے زیادہ نہیں رہا۔ یہاں پر ایسی بھی مثالیں ہیں کہ وہ افراد جو محکمہ تعلیم میں خدمات
انجام دیتے رہے ہیں، وہ بھی اپنی اولادوں کو سرکاری اسکول میں نہیں بھیجتے۔ اسکے علاوہ بھی امیروں کے بیٹے بیٹیاں نجی اسکولوں کا رخ کرتے ہیں۔ یہاں مجبور، غریب اور نادار افراد ہی تعلیم حاصل کرنے کے لیے آتے ہیں۔ گذشتہ سال سیکرٹری تعلیم کے بیٹے بیٹیاں بھی نجی تعلیمی ادارے میں زیور علم سے آراستہ ہو رہے تھے۔ آپ خود بتائیں کہ جس ادارے کے سیکرٹری اپنے بچوں کو نجی تعلیمی اداروں میں بھیجتے ہوں اس ادارے کی کارکرگی کیا اچھی ہو سکتی ہے۔

اسلام ٹائمز: گلگت بلتستان میں محکمہ تعلیم آج جس نہج پر ہے وہاں تک پہنچانے میں کونسے عوامل کارفرما ہو سکتے ہیں۔؟
انجینئر اسلم: کسی بھی خطے کے میں سب سے اہم اسٹیک ہولڈر وہاں کی انتظامیہ اور بیوروکریسی وغیرہ  ہوتی ہے۔ ان کی نااہلی یا غلط پالیسی کے نتیجے میں ان کے ماتحت ادارے کرپشن اور دیگر غیرقانونی سرگرمیوں کا مرکز و محور بن جاتے ہیں۔ یہاں بھی ایسا ہی ہوا، ایک تو بیوروکریسی یہاں پہ عیجب و غریب  اور متعصب ذہنیت کے ساتھ عشروں سے کام کرتی رہی اور خاطر خواہ اداروں میں بہتری لانے کی بجائے دولت و شہرت کو ترجیح دیتی رہی۔ جس کے نتیجے میں یہ ادارہ تباہ و برباد ہو گیا۔ ان کے بعد سیاسی نمائندے اور دولت و اختیار کے پجاریوں نے چند کھوٹے سکوں اور جاہل لوگوں کو خوش کرنے کے لیے بہتی گنگا میں ہاتھ دھوتے رہے۔ یہاں ایک اور عنصر عرض کرتا چلوں کہ اس خطے میں جو کہ حساسیت کے اعتبار سے منفرد ہے غیر ملکی ایجنسیوں نے بھی خفیہ طور
پر لاقانونیت کو فروغ دینے اور سرکاری اداروں و ریاستی رٹ کو کمزور کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کیا ہے۔ اس اہم خطے میں غیر ملکی ایجنسیوں نے عشروں سے ناخواندگی کو فروغ دینے، تعلیم و تعلم کے سلسلے کو قتل کرنے کے لیے کرپشن ڈرونز سے حملے کیے ہیں۔ اسی طرح محکمہ تعلیم میں جاری بدعنوانیوں کے خلاف مسجد و محراب کا کردار بھی قابل ذکر نہیں رہا ہے۔ ہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ ملکی ایجنسیاں بھی آج تک کسی کرپٹ فرد کو بالخصوص محکمہ تعلیم کے کرپشن مافیا کا گھیرا تنگ کرنے کی بجائے انہیں تحفظ فراہم کرتی نظر آئی ہے۔ ان عوامل کے سبب گلگت بلتستان میں تعلیم کا محکمہ تباہی و بربادی کے دھانے پر پہنچا ہوا ہے اور افسوسناک بات یہ ہے جو کسی بھی مہذب ریاست میں کہیں ایسا نہیں ہوا کہ غیرقانونی کام کو قانونی بنانے کے لیے غیرقانونی طریقہ اپنایا ہو۔ جیسے کہ آج کل وہ اساتذہ جو غیرقانونی طور پر رشوت کے عوض بھرتی ہو چکے ہیں، ان سے ٹیسٹ انٹرویو لیا جا رہا ہے جبکہ بغیر اشتہار کے کسی بھی قسم کی بھرتی ہی غیرقانونی عمل ہے۔

اسلام ٹائمز: ان دنوں محکمہ تعلیم میں جو تحقیقات جاری ہیں اس کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے۔؟

انجینئر اسلم: پہلی مرتبہ ایسا لگ رہا ہے کہ ریاستی عناصر بالخصوص بیوروکریسی اس خطے سے مخلص ہو کر اپنی ذمہ داریاں نبھانے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس سلسلے میں چیف سیکرٹری گلگت بلتستان کے اقدامات قابل تحسین ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ان کا گھیرا تنگ کرنے اور یہاں سے تبادلہ کرانے
کے لیے کرپشن مافیا سرتوڑ کوششوں میں مصروف ہے۔ اگر ایسا ہوا اور کرپٹ عناصر اپنے عزائم میں کامیاب ہوئے تو یہ بھول جائیں کہ اس خطے میں کبھی ریاست کی رٹ قائم ہوگی۔ اس عمل سے عوام تک یہ بات پہنچ جائے گی کہ ہر برے کام کے لیے مضبو ط ہو جائیں اور طاقت کے بلبوتے پر ہر غیرقانونی کاموں کو انجام دیں۔ پھر ظاہر ہے کہ تنگ آمد بہ جنگ آمد کے فلسفے پر لوگ عمل پیرا ہونگے اور یہ خطہ انکار کی کا شکار ہو جائے گا، جو کہ منطقی نتیجہ ہے۔ دوسری طرف وفاقی حکومت کو آئندہ انتخابات میں عوامی پذیرائی یا کرپشن مافیا میں سے ایک کا انتخاب کرنا ہوگی۔ بعض لوگوں کی طرف سے حالیہ کاروائیوں کو سیاسی انتقام کا رنگ دیا جا رہا ہے جو کہ صد در صد غلط ہے۔ میں خود جانتا ہوں مسلم لیگ نون کے بھی ایسے نمائندے ہیں جو تحقیقات کے خلاف اور کرپشن کی حمایت میں ہیں۔ اسی طرح پی پی پی کے بھی بعض نمائندے تحقیقات کے حق میں اور کرپشن کے خلاف ہیں۔ میں بتاتا چلوں کہ چند لیگی رہنماوں نے چیف سیکرٹری کو بھی سخت اقدامات سے روکنے کی کوشش کی ہے، ہم ان تمام نام نہاد سیاسی رہنماوں کو جو کرپشن کے حق میں ہیں یا منافقت کا شکار ہیں آئندہ انتخابات میں اسمبلیوں سے نکال باہر کریں گے۔

اسلام ٹائمز: بعض افراد کا آپ لوگوں کے حوالے سے یہ کہنا ہے کہ ایک تو آپ کی تنظیم تحقیقات کی حمایت کر کے لوگوں سے روزگار چھین رہی ہے اور دوسری طرف کرپشن کو اچھال اچھال کر عوام میں پذیرائی حاصل کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں ۔؟
انجینئر
اسلم: کہنے والے کہتے رہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ کرپشن کے خلاف تحقیقات کے حق میں بولنے سے اور غیرقانونی تقرریوں کو ختم کرنے سے بیروزگاری عام نہیں ہوگی بلکہ اہل افراد برسر روزگار ہونگے اور لاکھوں رشوت کے عوض بھرتی ہونے والے لکھپتی افراد اپنا نجی کام یا کاروبار کر سکیں گے۔ یہ عمل ہمارا اخلاقی، قانونی، دینی اور سیاسی فریضہ ہے، جسے ہم بڑے اعتماد کے ساتھ ادا کرتے رہیں گے چاہے لوگ کچھ بھی کہیں۔ دوسری طرف کرپشن کو اچھالنے کے حوالے سے ایسا ہے کہ اگر عمومی سوال ہے تو میں یہ کہوں گا کہ کرپشن کو اچھالنے سے ان لوگوں کو تکلیف ہونا فطری امر ہے جو اس کام میں ملوث ہے اور انہوں نے عوام کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ کرپشن کی طاقت سے عوام میں پذیرائی حاصل کی ہے۔ جو افراد اس وقت کرپشن کے حق میں چیخ رہے ہیں اور مختلف ناموں اور ڈمی تنظیموں کے ذریعے بیانات داغ رہے ہیں دراصل انکے مالی مفادات زد پر ہیں۔ اگر یہ سوال ایک مخصوص بیان سے متعلق ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ ان کا یہ بیان بھی غنیمت ہے۔ انہوں نے سانحہ چلاس، کوہستان، بابوسر، گیاری، دہشت گردی اور دیگر سینکڑوں ملی معاملات پر چپ سادھ رکھی تھی۔ اب لگتا ہے کہ کرپشن کے خلاف تحقیقات نے ان کو میدان میں لے آئے ہیں۔ ٹھیک ہے وہ کسی طرح مرد میدان تو بن گئے، میں اس بیان کو خوش آئند قرار دیتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ وہ آئندہ بھی اظہار وجود کرنے کے علاوہ کرپشن کے خلاف کبھی کبھی اپنے بیانات کو اخباروں کی زینت بنائیں گے۔
خبر کا کوڈ : 350382
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش