0
Sunday 23 Feb 2014 20:46

شام کے حوالے سے یو ٹرن عالم اسلام کیخلاف خیانت ہے، مولانا اصغر عسکری

شام کے حوالے سے یو ٹرن عالم اسلام کیخلاف خیانت ہے، مولانا اصغر عسکری
مولانا اصغر عسکری مجلس وحدت مسلمین پنجاب کے صوبائی ڈپٹی سیکرٹری جنرل ہیں اور اسلام آباد میں عرصہ دراز سے مقیم ہیں۔ عالم دین، خطیب اور تجزیہ نگار ہونے کے ساتھ ساتھ ہمیشہ عملی میدان میں موجود رہتے ہیں۔ بھکر کی صورتحال، ایم ڈبلیو ایم پر ایران نواز ہونے  اور اسٹیلشمنٹ کے ایجنڈا پر کام کرنے جیسے متضاد الزامات، شام کے حوالے سے پاکستان کی پالیسی میں آنے والے یو ٹرن اور مجلس وحدت مسلمین کی قومی حقوق کے تحفظ کے لیے تنظیمی اور سیاسی حکمت عملی کے حوالے سے اسلام ٹائمز کے ساتھ ہونے والی انکی گفتگو قارئین کے استفادہ کے لیے حاضر خدمت ہے۔

اسلا م ٹائمز: ایک تاثر یہ ہے کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کی مخالفت سے مراد ملٹری آپریشن کی حمایت ہے، جو اسٹیبلشمنٹ کا ایجنڈا ہے، کیا یہ درست ہے کہ ایم ڈبلیو ایم کی مذاکرات مخالف پالیسی بھی اسی کا حصہ ہے۔؟
مولانا اصغر عسکری: ہم تو اسوقت سے آپریشن کی بات کر رہے ہیں کہ جب مذاکرات کا کہیں ذکر ہی نہیں تھا۔ شروع دن سے ہی ہمارا یہی موقف تھا۔ ہمارا اسوقت بھی یہی موقف تھا جب فیصل رضا عابدی اور حامد رضا ہمارے ساتھ نہیں تھے۔ ہم آج بھی اس پر قائم ہیں کہ 60 ہزار پاکستانیوں کے قاتلوں کے ساتھ مذاکرات نہیں ہونے چاہیں۔ طالبان نواز قوتوں نے جب طالبان کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا تو پاکستان نواز اور امن پسند قوتوں کو ہم نے ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کر کے آواز بلند کی۔ جب تک معتدل اور امن پسند قوتیں مل کر دہشت گردی کے خلاف جدوجہد نہیں کریں گی، پاکستان میں امن قائم نہیں ہوگا۔ سنی اتحاد کونسل، وائس آف شہداء اور ایم ڈبلیو ایم کا متحد ہونا  فطری اتحاد ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ہم کسی سکیورٹی ادارے یا اسٹیبلیشمنٹ سے ڈیکٹیشن لینے والے نہیں، شوریٰ عالی جیسے ہمارے ادارے فیصلے کرتے ہیں کہ ملکی اور قومی مفاد کیا ہے اور ہماری کیا ذمہ داری ہے۔

اسلام ٹائمز: بھکر کی موجودہ صورتحال کیا ہے؟ اور بدامنی کی وجوہات کیا تھیں۔؟
مولانا اصغر عسکری: بھکر چونکہ ڈیرہ اسماعیل خان سے پینتیس کلومیٹر کے فاصلے پر ہے، اور ڈی آئی خان کا علاقہ وزیرستان کے ساتھ جڑ ہوا ہے۔ جب وزیرستان میں آپریشن شروع ہوا تو وہاں سے کئی قبائل اور انکے ساتھ دہشت گردوں نے ڈیرہ اسماعیل خان اور بعد میں بھکر، دریا خان کا رخ کیا۔ جسکے نتیجے میں یہاں حالات خراب ہوئے، لشکر جھنگوی اور کالعدم سپاہ صحابہ نے اہل تشیع کو نشانہ بنایا۔ وزیرستان سے تعلق رکھنے والے دہشت گرد گروہوں نے پنجاب میں اپنی جڑیں مضبوط بنانا شروع کر دیں، وزیرستان کے بعد بھکر کے راستے دہشت گردوں نے پنجاب میں رسائی حاصل کرنے کی کوشش کی۔

اس سلسلے میں بارہا انتظامیہ اور حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ حالات کو خراب ہونے سے بچائیں اور انکے خلاف کارروائی کریں۔ انتظامیہ اور حکومت نے تو کوئی کارروائی نہیں کی لیکن کالعدم سپاہ صحابہ اور لشکر جھنگوی کے حوصلے بڑھے اور انہوں نے اہل تشیع کیخلاف غلیظ نعرے بازی اور ٹارگٹ کلنگ کی مہم شروع کر دی۔ کوٹلہ جام کا واقعہ بھی انتظامیہ کے غیر ذمہ دارانہ رویے کیوجہ سے پیش آیا۔ اہل تشیع کی طرف سے عوامی سطح پر یا کسی تنظیم کی طرف سے کوئی غیر قانونی ردعمل سامنے نہیں آیا اور نہ ہی ہم نے اپنے حقوق کے لیے کوئی غیر قانونی راستہ اختیار کیا، حالانکہ مذہبی منافرت کو ہوا دینے کے لیے بھکر اور دریا خان میں گستاخآنہ وال چاکنگ، کافر کافر کے نعرے اور ریلیاں نکالنا ایک معمول بن گیا تھا لیکن آج بھی انتظامیہ ہمارے ہی خلاف جانبدارانہ طور پر کارروائی کر رہی ہے۔

اسلام ٹائمز: پنجاب حکومت اور انتظامیہ کی جانبدارانہ کارروائی کیخلاف ایم ڈبلیو ایم کی طرف سے چارہ جوئی نہیں کی گئی۔؟
مولانا اصغر عسکری: پنجاب حکومت طالبان نواز ہے اور اہل تشیع کیخلاف ان کا رویہ متعصبانہ ہے۔ کوٹلہ جام کا واقعہ تکفیری گروہ کالعدم سپاہ صحابہ کی وجہ سے پیش آیا، لیکن اسکے باوجود ہمارے کارکنوں اور تنظیمی رہنماوں کو گرفتار کیا گیا۔ ابھی تک ہمارے 45 کارکن میانوالی جیل میں اسیر ہیں۔ ظلم تو یہ ہے کہ تمام مقدمات میں بری ہوجانے کے باوجود، عدالتی احکامات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے، نقص امن کا بہانہ بنا کر ہمارے بری ہونے والے کارکنوں کو نظر بند کیا گیا ہے۔ نظر بند کیے جانے والے لوگوں میں ہمارے سیاسی رہنما احسان اللہ خان بھی شامل ہیں۔

یہ سلسلہ بھکر یا دریا خان تک محدود نہیں ہے بلکہ راولپنڈی کیس میں بھی بلاجواز طور پر 74 افراد جہلم کی جیل میں اسیر ہیں۔ اسی طرح چنیوٹ میں گرفتاریاں ہوئی ہیں، سرگودہا میں کارکنوں کو پکڑا گیا ہے اور بھکر دریا خان میں بلا وجہ اور بغیر کسی جرم اور ثبوت کے ہمارے کارکنوں کو شیڈول فور میں ڈال دیا گیا ہے۔ پچھلے دنوں ایم ڈبلیو ایم ضلع بھکر کے سیکرٹری جنرل اور انکے تین ساتھیوں کو سرگودہا تاریخ سے واپسی پر گروٹ کے قریب PTD کے نام سے حساس ادارے کے اہلکاروں نے اغوا کیا اور فیصل آباد میں انہیں ہراساں کرنے کے بعد چھوڑ دیا۔ پنجاب حکومت اور بالخصوص پنجاب کے وزیر قانون کے ایما پر ہمارے گرفتار کیے جانے والے کارکنوں پر تشدد کیا گیا اور ان سے کہا گیا کہ وہ ایم ڈبلیو ایم سے استعفٰی دیں اور ہر قسم کی تنظیمی اور قومی سرگرمیاں ختم کر دیں۔ اس سلسلے میں ایم ڈبلیو ایم نے تحریک حمایت مظلومین چلانے کا فیصلہ کیا ہے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ تمام اسیروں کو رہا کیا جائے اور پنجاب حکومت جانبدارانہ طور طریقے چھوڑ دے۔ پہلے مرحلے میں پنجاب میں احتجاج ہوگا اور اگر ہمارے مطالبات پورے نہ کیے گئے تو ملک بھر میں احتجاج کریں گے۔

اسلام ٹائمز: احتجاج کی کال بجا ہے، لیکن کیا ایم ڈبلیو ایم کا تنظیمی ڈھانچہ اسکا متحمل ہے۔؟
مولانا اصغر عسکری: کیوں نہیں، ہنگامی صورتحال سے دوچار رہنے کے باوجود مجلس وحدت مسلمین پنجاب کے تمام اضلاع میں اپنا سیٹ اپ مکمل کرچکی ہے اور تمام اضلاع فعال ہیں۔ کارکنوں کی تربیت کے پروگرام جاری ہیں۔ 2 مارچ کو شوریٰ کا اجلاس ہے جس میں تمام اضلاع شریک ہوں گے، اسکے بعد 12 مارچ کو تربیتی ورکشاپ ہوگی جسمیں تمام اضلاع کے کارکن شریک ہوں گے۔ ہمارے وسائل محدود ہیں لیکن کارکردگی اطمینان بخش ہے۔ عوامی رابطے بہت مضبوط ہیں، اس لیے اسیر کارکنوں کی رہائی کے لیے ضرور تحریک چلائیں گے اور قانونی اقدامات بھی کریں گے، ہمارے لیے یہ معاملہ بہت حساس ہے، کارکنوں کو انتظامیہ کے تعصب کی بھینٹ نہیں چڑھنے دیں گے۔

اسلام ٹائمز‫: ‬‪ ‬ جیسا کہ آپ نے فرمایا کہ اہل تشیع کے ساتھ زیادتی بھی ہو رہی ہے اور انکی آواز بھی نہیں سنی جا رہی، مجلس وحدت مسلمین اسی نعرے کے تحت سیاسی عمل میں وارد ہوئی کہ یہ قومی حقوق کے حصول کو یقینی بنانے کا راستہ ہے، کیا یہ تنظیم کی ناکامی نہیں ہے۔؟
مولانا اصغر عسکری: یہ طویل جدوجہد ہے، لیکن پہلے مرحلے میں ہمیں حوصلہ افزا کامیابی ملی ہے ناکامی نہیں۔ کوئٹہ سمیت مختلف ایشوز پر عوام نے ہمارا ساتھ دیا ہے، یہ اسکا واضح ثبوت ہے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ عوامی جدوجہد اور حقوق کی خاطر آواز بلند کرنے کے لیے تمام جمہوری اور جائز طریقے بروئے کار لانا ضروری ہے، لیکن اگر ہمیں اپنے حقوق حاصل کرنے ہیں تو پارلیمنٹ ہی ایک موثر راستہ ہے، جہاں آپ کی آواز ہونی چاہیے۔ آج اگر ہم امن پسند قوتوں کو اکٹھا کر پائے ہیں تو یہ ایم ڈبلیو ایم کی مختلف ایشوز کے حوالے سے موثر حکمت عملی اور اسی سیاسی عمل میں وارد ہونے کا نتیجہ ہے۔ گذشتہ انتخابات میں، میں خود بھی امیدوار تھا اور میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ دوسری سیاسی جماعتوں اور بالخصوص مذہبی سیاسی جماعتوں جیسا کہ جماعت اسلامی اور جے یو آئی کے دھڑے ہیں، جو آدھی صدی سے سیایسی عمل کا حصہ ہیں، انکی نسبت ہماری حکمت عملی اور مطلوبہ نتائج بہتر تھے، حالانکہ ہمارا پہلا موقع تھا کہ ہم اس سیاسی عمل میں شریک ہوئے۔ 
ابھی جب بلدیاتی الیکشنز ہوں گے تو ہماری سیاسی کونسل نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ ہم ان میں حصہ لیں گے۔ دیگر مذہبی اور سیاسی جماعتیں، جب سے بلدیاتی انتخابات کے اعلانات ہوئے ہیں، وہ ایم ڈبلیو ایم سے رابطے کر رہی ہیں کہ ہمارے ساتھ مل کر انتخابات میں آئیں۔ یہ ہمارا پہلا تجربہ تھا اور یہ اسکا نتیجہ ہے کہ جو پارٹیاں پچاس پچاس سال سے سیاست میں ہیں انہوں نے خواہش ظاہر کی ہے کہ وہ ہمارے ساتھ ملکر سیاست میں آگے بڑھیں۔ اکثر جگہوں پر تو جماعت اسلامی اور جے یو آئی جیسی جماعتوں سے ہمارے امیدواروں نے زیادہ ووٹ لیے تھے۔ ہمیں یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ موجودہ ملکی حالات میں اگر مذکورہ مذہبی جماعتوں کی موثر آواز موجود ہے تو وہ فقط سیاسی میدان میں اثرورسوخ کی وجہ سے ہے۔

اسلام ٹائمز: کیا انتخابی عمل میں شریک ہونے سے پاکستان کے موجودہ نظام میں تبدیلی ممکن ہے؟ آپ نے مثال کے طور پر جن مذہبی جماعتوں کا ذکر کیا ہے وہ ساٹھ سال سے یہ مقصد حاصل نہیں کرسکی ہیں۔ آپ کیا کہیں گے اس حوالے سے۔؟
مولانا اصغر عسکری: مذہبی سیاسی جماعتوں نے اپنا سیاسی مقام بنایا ہے اور اسی اثر و نفوذ کی بدولت بہت کچھ منوایا بھی ہے۔ موجودہ نظام میں تبدیلی اور انقلاب کی جہاں تک بات ہے تو اس میں تاخیر یا ناکامی کی وجہ ایک نہیں ہے۔ البتہ قیادت اگر مخلص رہے اور پارٹیاں اصولی سیاست کریں تو پاکستان کے عوام اسلام پسند ہیں وہ ضرور ساتھ دیتے ہیں۔ موجودہ حالات میں مذہبی سیاسی جماعتوں کیطرف سے شدت پسندوں کی طرف جھکاو، طالبان کی حمایت اور بعض موقعوں پر قومی مفاد کی بجائے جماعتی مفاد یا ذاتی مفاد کو ترجیح دینے کیوجہ سے یہ تاثر اور گہرا ہوا ہے۔ مذہبی جماعتوں کی حکومت بھی رہی، ایم ایم اے کی حکومت، لیکن نہ تو وہ اسلام اور شریعت کو نافذ کرسکے اور نہ ہی مفاد عامہ کے لیے کوئی کام کیا۔ ایسی صورتحال کیوجہ سے عوام کو مایوسی ہوئی ہے اور لوگوں کا اعتماد اٹھ گیا ہے، مذہبی سیاسی جماعتوں کی مقبولیت میں کمی آئی ہے۔ ہماری کوشش ہے کہ ہم نے پہلے مرحلے میں جو سیاسی اور عوامی کامیابی حاصل کی، اسکو جاری رکھیں اور پاکستان کی بقا اور سالمیت کی خاظر اعتدال پسند اور امن پسند، محب وطن قوتوں کو یکجا کرکے جدوجہد کریں اور وقار کیساتھ اصولوں کی سیاست کریں۔

اسلام ٹائمز: کیا آپ کی بات سے یہ مراد لی جاسکتی ہے کہ آپکی سیاسی جدوجہد کا ایک مقصد جماعت اسلامی، جے یو آئی اور ایم ایم اے میں شامل جماعتوں کے کھوئے ہوئے وقار کو بحال کرنا ہے۔؟
مولانا اصغر عسکری: اب بھی وقت ہے اگر مذہبی قوتیں اکٹھی ہوجائیں تو نہ صرف یہ کہ عوام ساتھ دیں گے بلکہ پاکستان میں بدامنی اور شدت پسندی کی فضا کو بھی ختم کیا جاسکتا ہے۔ پاکستان کے حالات کا یہ تقاضا ہے کہ اسلام پسند قوتیں اکٹھی ہوں نہ کہ طالبان پسند، ورنہ حالات کی خرابی پر قابو نہیں پایا جاسکتا۔

اسلام ٹائمز: پاکستان میں دہشتگردی کی ایک وجہ سعودی عرب کا عمل دخل ہے اور حال ہی میں سعودی ولی عہد کی پاکستان آمد کے موقع پر شام کے حوالے سے پاکستان نے اپنا دیرینہ موقف تبدیل کیا ہے۔ آپ اسکو کس نگاہ دیکھتے ہیں؟ کیا ایم ڈبلیو ایم جیسی جمہوری اور امن پسند قوتوں کی ذمہ داری نہیں ہے کہ اس موقع پر موثر آواز اٹھائیں، تاکہ حکومت کا موقف اور خارجہ پالیسی ملکی مفادات کے منافی رخ اختیار نہ کرے؟
مولانا اصغر عسکری: موجودہ حکومت کی خارجہ پالیسی واضح طور پر پاکستان کے مفادات کے خلاف ہے اور شام کے حوالے سے بدلتا ہوا موقف عالم اسلام کے ساتھ خیانت ہے۔ ہم اسکی بھرپور مخالفت کر رہے ہیں۔ پاکستان کی تمام جمہوری قوتیں اس پر متفق ہیں کہ سعودی عرب کی طرف سے ملنے والی امداد سے قائم ہونے والے سترہ ہزار مدارس اور ان میں موجود دہشت گردانہ ذہنیت رکھنے والے چوبیس لاکھ طلبہ پاکستان کی پرامن فضا کے لیے خطرہ ہیں۔ پاکستان کے تعلقات سب کے ساتھ ہونے چاہیں لیکن موجودہ حکومت کی خارجہ پالیسی ایران مخالف اور سعودی نواز ہے، ایران ہمارا ہمسایہ ملک ہے اور پاک ایران تعلقات میں سرد مہری یا تعلقات میں بگاڑ پاکستان اور عالم اسلام کے مفادات کے منافی ہے۔ شام کے مسئلے پر پالیسی میں تبدیلی یہ ظاہر کرتی ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے، عوامی امنگوں کے برعکس، پاکستان کو دہشت گردوں کے بلاک میں لا کھڑا کیا ہے۔ شام کے حوالے سے نواز حکومت کا یو ٹرن پاکستان کے مفاد میں نہیں۔

اسلام ٹائمز: مجلس وحدت مسلمین جیسی تنظیموں کے متعلق یہ بھی کہا جاتا ہے کہ آپ ایران نواز ہیں اور پاکستان کی بجائے ایران کے مفادات کو مدنظر رکھ کر کسی پالیسی کی حمایت یا مخالفت کرتے ہیں۔؟
مولانا اصغر عسکری: یہ کیسے کہہ سکتے ہیں، ہم نے ہمیشہ مملکت خداداد پاکستان کی سالمیت کی بات کی ہے، پاکستان ہمارا ملک ہے اور ہم وطن کی سالمیت اور بقا کی خاطر مسلسل قربانیاں دے رہے ہیں۔ 100، 100جنازے سامنے رکھ کر ہم نے صبر کا دامن نہیں چھوڑا۔ ‬ ہم نے کبھی ریاست کیخلاف بغاوت کی بات نہیں کی اور نہ کبھی قانون اپنے ہاتھ میں لیا ہے۔ ہمارا یہ عزم ہے کہ آئندہ بھی اگر اندرونی یا بیرونی دشمنوں نے پاکستان پر مسلط ہونے کی کوشش کی تو اپنی جانیں قربان کرنے کے لیے صف اول میں ہوں گے۔ اسلامی جمہوری ایران کے ساتھ ہمارا تعلق عقیدے اور آئیڈیالوجی کی بنیاد پر ہے۔ غیبت امامؑ زمانہ میں مذہب تشیع کے پاس نظام ولایت فقیہ کی پیروی ہمارے مذہب کا حصہ ہے، ہم شیعہ ہیں لیکن ولایت فقیہ کے ساتھ ہماری یہ وابستگی کسی ملک کے مفادات کی خاطر نہیں بلکہ مذہب کے اصولوں کیوجہ سے ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ایران سارے عالم اسلام کے لیے آئیڈیل ہے، ایران نے ہمیشہ استعمار کے خلاف آنکھ میں آنکھ ڈال کر بات کی ہے، فلسطین کاز کے لیے اسرائیلی غاصبانہ قبضے کیخلاف مظلوموں کی ہمیشہ سے حمایت کی ہے، مظلوموں کی آواز کو پوری دنیا میں ہر جگہ پر اٹھایا ہے، ہم ایران کی ان پالیسیوں کی قدر کرتے ہیں اور سراہتے ہیں۔ کفار اور یہود کے خلاف اگر کوئی اور مسلمان ملک بھی یہ کردار ادا کرے گا تو ہم ان سے بھی ایسی ہی محبت کریں گے جیسے ایران سے ہمیں محبت ہے، یہ محبت اور وابستگی کردار اور اصولوں کی وجہ سے ہے، اسلام اور مسلمانوں کی خاطر قربانیوں کی وجہ سے ہے، یہ ایران کا حق ہے۔ اسی طرح ایران دنیا کی ایک کامیاب جمہوریت بھی ہے، جہاں بلا تفریق سب کے حقوق کا پاس رکھا جاتا ہے اور کسی کے ساتھ زیادتی نہیں ہوتی۔ ہم ایران نواز نہیں بلکہ ہماری ایران سے وابستگی اصولوں اور کردار کی بنیاد پر ہے۔
خبر کا کوڈ : 354755
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش