0
Sunday 27 Apr 2014 20:56
مجلس وحدت مسلمین الٰہی اہداف کے حصول کی متلاشی ہے

اداروں میں موجود چند عناصر شیعہ کلنگ میں ملوث ہیں، علامہ سبطین حسینی

خیبر پختونخوا اور گلگت بلتستان کے انتخابات میں بھرپور حصہ لیںگے
اداروں میں موجود چند عناصر شیعہ کلنگ میں ملوث ہیں،  علامہ سبطین حسینی
علامہ سبطین حسینی مجلس وحدت مسلمین صوبہ خیبر پختونخواہ کے سیکرٹری جنرل ہیں۔ آپ کا تعلق کرم ایجنسی کے صدر مقام پارہ چنار سے ہے۔ شہید قائد عارف حسین الحسینی کے شہر سے تعلق کی بناء پر خیبر پختونخواہ کے مومنین آپ سے بےلوث محبت کا اظہار کرتے ہیں۔ علامہ سبطین حسینی صوبہ خیبر پختونخواہ میں اتحاد بین المومنین کے فروغ کے لیے پرخلوص کوششیں کررہے ہیں۔ دینی گھرانے سے تعلق کی بناء پر ابتدائی دینی تعلیم گھر پر حاصل کی۔ انٹرمیڈیٹ کرنے کے بعد دینی تعلیم جامعہ شہید حسینی سے حاصل کی۔ بعد ازاں تعلیم حاصل کرنے ایران چلے گئے، جہاں قرآن و حدیث میں ایم فل کی ڈگری حاصل کی۔ مختلف مدارس میں درس و تدریس سے وابستہ رہے۔ 2010ء میں شہداء کے یتیم بچوں کے لیے زینبیہ اکیڈمی کی بنیاد رکھی۔ 15 ستمبر 2013ء جامعۃ القائم ٹیکسلا کی بنیاد رکھی۔ مجلس وحدت مسلمین کی صوبائی مسئولیت کی ذمہ داری لینے کے بعد خیبر پختونخواہ کے مختلف اضلاع اور تحصیلوں کے دورہ جات کئے اور وہاں تنظیم سازی کی۔ گذشتہ دنوں اسلام ٹائمز کے ساتھ ہونیوالی ملاقات میں علامہ سبطین حسینی نے مختلف معاملات پر جو اظہار خیال کیا، قارئین کی دلچسپی کے لیے پیش خدمت ہے۔

اسلام ٹائمز: آپ کا تعلق شہید قائد کے شہر سے ہے۔؟ کیا سمجھتے ہیں کہ مجلس وحدت مسلمین کس حد تک شہید قائد کے مشن کو لیکر چل رہی ہے۔؟
علامہ سبطین حسینی: اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان بھر کے مومنین بالخصوص اور دنیا بھر کے مومنین بالعموم پارہ چنار سے ایک خاص محبت و لگاؤ رکھتے ہیں۔ شہید قائد کا دور حیات ملت کا سنہرا دور تھا۔ اگر آپ مجلس وحدت مسلمین کے قیام سے پہلے اور بعد کے حالات پر نظر ڈالیں تو آپ کو محسوس ہوگا کہ ایم ڈبلیو ایم کے قیام سے قبل ملت تشیع کا جانی، مالی و دیگر نقصان ہوتا رہا مگر اس نقصان کے خلاف کوئی آواز نہیں اٹھی۔ ملت تشیع کانہ صرف قتل عام جاری تھا، بلکہ ملت کے مسلمہ اصولوں و حقوق کو بیدردی کے ساتھ پامال کیا جا رہا تھا۔ اس قتل عام اور پامالی کو روکنے کے لیے، اللہ کی رضا اور مومنین کے تحفظ کیلئے مجلس وحدت مسلمین کا قیام عمل میں لایا گیا۔ میرے خیال میں یہی وہ الہی کاروان ہے جس کی بنیاد مرحوم سید حسین دہلوی نے رکھی اور شہید قائد نے اس کو پروان چڑھایا۔ مجلس وحدت کے بانیان، اور سربراہان یا تو شہید قائد کے قریبی رفقاء ہیں یا ان کے شاگرد ہیں۔ یہ الٰہی کاروان الٰہی اہداف کے حصول کے لیے ہی متلاشی ہے۔

اسلام ٹائمز: شہید قائد کی تقاریر میں اداروں خصوصاً فوج کے کردار پر مثبت تنقید ملتی ہے، مختلف شہروں میں ایسے واقعات بھی پیش آئے ہیں جن میں سکیورٹی ادارے مومنین کو گھروں سے اٹھا کر لے گئے اور بعد ازاں ان کی لاشیں ملیں، لیکن ان سب کے باوجود مجلس وحدت مسلمین کے پلیٹ فارم سے ہمیشہ ہی فوج کی حمایت میں بات کی جاتی ہے، کیوں۔؟

علامہ سبطین حسینی: کسی بھی ملک کے لیے اس کی دفاعی قوت کا مستحکم ہونا بہت ضروری ہے۔ اقوام کی زندگی مضبوط دفاعی پالیسی اور سکیورٹی پلان پر منحصر ہے۔ ایم ڈبلیو ایم اگر فوج کی مضبوطی کی بات کرتی ہے تو اس کے بلند مقاصد ہیں۔ جو اصل پاکستان اور نظریاتی و جغرافیائی سرحدوں کا دفاع مطمع نظر ہے لیکن اگر شیعہ قتل عام میں کچھ قوتیں ملوث یا افراد ملوث ہیں تو اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ بحیثیت ادارہ شیعہ کلنگ میں ملوث ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اداروں میں چند عناصر دشمن کے عزائم کی تکمیل کے لیے ملک میں فتنہ فساد برپا کرتے ہیں۔ ملک میں مسلک کی بنیاد پر قتل عام کرنے والے لوگ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو بھی سبوتاژ کرنا چاہتے ہیں۔ ایم ڈبلیو ایم فوج کے شہیدوں کی یاد بھی مناتی ہے، اپنے جلسوں میں فوج کے شہیدوں کے حق میں دعا بھی کرتی ہے۔ ایم ڈبلیو ایم کا فلسفہ یہی ہے کہ پاکستان مضبوط ہو۔ پاکستان کے ادارے، فوج، سکیورٹی ایجنسیز مضبوط ہوں لیکن ساتھ میں یہ مطالبہ بھی کرتی ہے کہ شیعہ دشمنی، شیعہ کلنگ یا ملک میں فرقہ واریت پھیلانے والے عناصر کا قلع قمع بھی کیا جائے۔ اس وطن کا شہری ہونے کے ناطے ہمیں اپنی فوج کے مورال کو بلند رکھنا ہوگا۔ دفاعی ادارہ جتنا باوقار ہو گا ریاست کے وقار میں اتنا ہی اضافہ ہوگا۔ 

اسلام ٹائمز: ڈی آئی خان جیل پر طالبان حملے میں قیدی مومنین کو بیدردی کے ساتھ شہید کیا گیا۔؟ ایم ڈبلیو ایم نے اس کے خلاف احتجاج کیا لیکن باقاعدہ قانونی کاروائی کا راستہ اختیار نہیں کیا۔؟ اس کی کیا وجہ ہے۔؟
علامہ سبطین حسینی: سب سے پہلے تو آپ یہ دیکھیں کہ جس ملک میں صدر پر قاتلانہ حملے ہوں، وزیراعظم پر حملے ہوں، وزیراعظم کا بیٹا اغوا ہو جائے اور عرصہ گزر جانے کے بعد بازیاب نہ کرایا جا سکے۔ اراکین پارلیمنٹ کو قتل کیا جائے۔ صوبائی اسمبلیوں کے اراکین دن دیہاڑے نشانہ بن جائیں اس ملک میں کیسے توقع کی جا سکتی ہے کہ جیلوں میں غریب قیدی محفوظ ہوں گے۔ جہاں تک شیعہ کلنگ کی بات ہے، مجلس وحدت مسلمین صرف شیعہ قتل کے خلاف آواز بلند نہیں کرتی بلکہ ہر مظلوم کے ساتھ ہیں۔
ایک شعر ہے کہ
میرے وطن میں چلی ہے یہ رسم بست و کشاد
کہ سنگ و خشت مقید ہیں اور سگ آزاد

ملک میں سگ آزاد والی پالیسی کو روکنا ہو گا۔ یہی ہماری پالیسی ہے اور اسی پر کاربند ہیں۔

اسلام ٹائمز: مذاکرات کے خلاف آپ کی پالیسی بڑی واضح ہے ، آپ کو کیا لگتاہے طالبان کے خلاف آپریشن سے امن و امان کا مسئلہ حل ہوجائے گا۔؟
علامہ سبطین حسینی: چند دن پہلے مجلس وحدت مسلمین کے کنونشن کے دوران مقتدر ادارہ جسے شوریٰ عالی کہا جاتا ہے کہ اجلاس میں اسی موضوع پر ایک طویل بحث ہوئی۔ جس کا باقاعدہ اعلامیہ جاری کیا گیا کہ پاکستان میں امن کی فضا کو برقرار رکھنے کے لیے اور ملک دشمن قوتوں سے محفوظ رکھنے کے لیے پاکستان دشمنوں کے خلاف سخت ایکشن لیا جائے۔ دہشت گرد ملک دشمن قوتوں کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں۔ ان دہشت گردوں نے مہران بیس، کامرہ بیس، میں کن طیاروں پر حملہ کیا۔ ملک کی دفاعی لائن کو توڑنے کی کوشش کی۔ یہ صرف ایم ڈبلیو ایم کا مطالبہ نہیں ہے۔ سنی اتحاد کونسل کا بھی یہی مطالبہ ہے۔ علامہ طاہر القادری صاحب کا بھی یہی مطالبہ ہے۔ اس کے علاوہ بھی سیاسی جماعتوں کا یہی مطالبہ کہ دہشت گردوں کے خلاف ایکشن لیا جائے۔ یہ سیاسی جماعتیں اور لوگ ملک سے، فوج سے، اداروں سے اور عوام سے مخلص ہیں۔ یہاں اس بات کی بھی وضاحت ضروری ہے کہ وہ لوگ جو سامراج، امریکہ یا پاکستان کے دشمنوں کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ ان سے ہمیں کوئی اور رویہ اختیار کرنا ہو گا لیکن جو لوگ پاکستان کی سالمیت کے دشمن ہیں ان سے ہمیں انہی کی زبان میں بات کرنی ہوگی۔

اسلام ٹائمز: مخالفین کی جانب سے یہ الزام عائد کیا جاتا ہے کہ ایم ڈبلیو ایم نے شیعہ شہادتوں کو سیاسی زینہ بنایا ہے، اس الزام میں کتنی صداقت ہے۔؟
علامہ سبطین حسینی: میں یہ نہیں کہتا کہ کسی کو اپنی پالیسی بیان کرنے کا یا بیانات دینے کا حق حاصل نہیں ہے۔ اگر ایک تسلسل کے ساتھ مسلسل قتل عام جاری ہو اور اس کے خلاف صدائے احتجاج تک بھی بلند نہ ہو تو کہاں کا انصاف ہے۔ کوئٹہ میں جب سینکڑوں شہادتیں ہوئیں۔ ان حالات میں کہ جب کوئی پوچھنے والا بھی نہیں تھا تو ایک جماعت مظلوم کی حمایت میں کھڑی ہوتی ہے اور شہداء کے لاشوں کے ساتھ بیٹھ کر یزیدیت کو نشان عبرت بنا دیتی ہے۔ اس احتجاج کے اثرکو بھی دیکھیں کہ خیبر سے کراچی تک اور کوئٹہ سے کشمیر تک احتجاج ہوتا ہے اور ملک میں نہ کوئی پتہ ٹوٹتا ہے، نہ کوئی شیشہ ٹوٹتا ہے نہ کوئی ٹائر جلتا ہے۔ ایسے پرامن احتجاج بذات خود قوموں کو مہذب جذبہ اور ولولہ دیتے ہیں۔ اس میں سیاست کی بات نہیں ہوتی۔ کراچی میں شہادتیں ہوئیں۔ شہداء کے ورثا علامہ امین صاحب کا انتطار کرتے رہے کہ وہ آ کر جنازہ پڑھائیں مگر علامہ امین شہیدی نے شرکت کرنے کے باوجود نماز جنازہ نہیں پڑھائی کیونکہ جنازوں پر سیاست کرنا مجلس وحدت مسلمین کا وطیرہ نہیں ہے۔ بھکر میں بھی مظلوموں کے ساتھ مجلس وحدت مسلمین کھڑی تھی۔ مظلوموں کے لیے آواز اٹھانا ہمارا قرآنی فریضہ ہے۔ ایم ڈبلیو ایم شہداء کے خون پر سیاست نہیں کرتی لیکن ایسا بھی نہیں کہ شہداء کو فراموش کر دے۔ اس کے علاوہ ایم ڈبلیو ایم صرف شہداء کے ورثا کی حد تک بحالی کے کاموں میں مصروف نہیں ہے بلکہ دیگر فلاحی کاموں میں بھی بھرپور حصہ لے رہی ہے۔

اسلام ٹائمز: اتحاد بین المسلمین پر تو توجہ دی جارہی ہے لیکن اتحاد بین المومنین کے لیے زیادہ تحرک نظر نہیں آتا۔ کیا وجہ ہے ۔؟
علامہ سبطین حسینی: اتحاد بین المومنین پر توجہ نہ دی جائے تو مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے۔ ابھی میں خود کئی اضلاع کا دورہ کرکے آیا ہوں۔ سب کے مدارس میں خود گیا ہوں۔ مجلس وحدت مسلمین کی جانب سے کسی کی نفرین نہیں کی جاتی۔ ہماری پالیسی نہ ہی ہاں میں ہاں ملانے کی ہے اور نہ الزام تراشی کی۔ ہماری پہلے دن سے مومنین کے درمیان پیار محبت کے فروغ کے لیے کوششیں جاری ہیں۔ جس کی بڑی مثال آپ کو دفاع وطن کنونشن میں قبلہ راجہ ناصر صاحب کی طرف سے بھی نظر آئے گی۔
اسلام ٹائمز: سابقہ انتخابات مین تجربے کے بعد کیا خیبر پختونخواہ میں بلدیاتی اور گلگت بلتستان میں ہونیوالے انتخابات میں حصہ لے گی۔؟
علامہ سبطین حسینی: پہلی بات تو یہ ہے کہ حالیہ ہونے والے الیکشن نہیں سلیکشن تھے، جس کے خلاف ان لوگوں نے بھی واویلا کیا جنہوں نے حکومتیں بنائیں لیکن اس کے باوجود مجلس وحدت مسلمین جو کہ ایک نئی سیاسی جماعت تھی، اس کو انتخابات کا تجربہ بھی نہیں تھا لیکن اس کے باوجود ایک کامیاب کوشش تھی۔ ہم بلدیاتی انتخابات میں بھرپور حصہ لیں گے اور گلگت بلتستان میں بھی نمایاں کامیابی دیکھ رہے ہیں۔ خیبر پختونخواہ میں علاقے کے حالات کو دیکھتے ہوئے فیصلے کریں گے۔

اسلام ٹائمز: آپ خیبرپختونخواہ میں مجلس وحدت مسلمین کے سیکرٹری جنرل ہیں، کوٹلی امام حسین (ع) پورے صوبے میں واحد اراضی تھی جو وقف امام حسین (ع) تھی، پی ٹی آئی کی حکومت نے اسے وقف امام حسین (ع) سے ہٹا کر اپنی ملکیت میں لے لیا ہے، اس اقدام کے خلاف تاحال ایم ڈبلیو ایم نے کوئی آواز نہیں اٹھائی، کیوں۔؟
علامہ سبطین حسینی: ہم پی ٹی آئی حکومت کی یہ سازش کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ دورہ ڈیرہ اسماعیل خان کے دوران میں نے کوٹلی امام حسین (ع) میں حاضری دی اور علامہ رمضان توقیر صاحب کے مدرسے جامعۃ النجف کے اساتیز سے تفصیلی ملاقات ہوئی۔ کوٹلی کے مسئلہ میں بہت سے علاقائی افراد کا دخل ہے۔ قانونی لحاظ سے وہ مسئلہ اتنا مشکل نہیں جتنا قومی لحاظ سے مشکل بنا ہوا ہے۔ وہاں کے لوگ اس بارے میں جو بھی فیصلہ کریں اور قدم اٹھائیں۔ مجلس وحدت مسلمین ان کا ساتھ دے گی اگر وہاں کے لوگ ہی اس مسئلہ کے حل میں رکاوٹ بنیں تو پھر کوئی بھی اسے حل نہیں کرسکتا۔
خبر کا کوڈ : 376774
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

متعلقہ خبر
ہماری پیشکش