0
Wednesday 21 May 2014 23:35
ہم کسی کا طلبا ونگ نہیں، آئی ایس او اپنے فیصلوں میں مکمل خودمختار ہے

آئی ایس او کامیابی کیساتھ خط امام خمینی (رہ) پر کاربند ہے، اطہر عمران

آئی ایس او کامیابی کیساتھ خط  امام خمینی (رہ) پر کاربند ہے، اطہر عمران
امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کے مرکزی صدر اطہر عمران طاہر کا تعلق ضلع لیہ سے ہے۔ اس وقت آپ پریسٹن یونیورسٹی لاہور میں ایم بی اے کے طالب علم ہیں۔ باقاعدہ تنظیمی سفر کا آغاز زرعی یونیورسٹی فیصل آباد سے کیا۔ تنظیم میں یونٹ ڈپٹی جنرل سیکرٹری، یونٹ نائب صدر، یونٹ صدر زرعی یونیورسٹی، مرکزی ڈپٹی جنرل سیکرٹری، مرکزی سیکرٹری تعلیم کی ذمہ داریاں ادا کیں اور آج کل مرکزی مسئولیت کے دوسرے دور میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ "اسلام ٹائمز" نے اپنے قارئین کے لیے اطہر عمران طاہر سے آئی ایس او کے یوم تاسیس کے حوالے سے ایک انٹرویو کا اہتمام کیا ہے، جو پیش خدمت ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: آپ کی تنظیم یوم تاسیس منا رہی ہے، آئی ایس او کو 42 سال بعد کہاں دیکھتے ہیں؟

اطہر عمران: الحمدللہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ آئی ایس او نے اپنے انقلابی تشخص کو نہ صرف برقرار رکھا بلکہ معاشرے میں رائج بھی کیا، نوجوانوں کو لسانی، علاقائی، قومی تعصبات سے بالاتر ہو کر عالمگیر طرز تفکر عطا کیا، آج دنیا بھر میں پھیلے ہوئے انقلابی جوان جو معاشرے میں اہم کردار ادا کر رہے ہوں اسی تنظیم سے سابقہ رکھتے ہیں۔ پاکستان بھر میں افکار امام خمینی کی حقیقی ترویج کا بیڑا اسی نظم کے وابستگان نے اٹھایا، اپنے کردار و عمل اور دیانتداری سے گلی گلی قریہ قریہ امام راحل کی فکر کو عام کرنے کا فریضہ بطریق احسن سر انجام دیا۔

ملت کے اسیران کا معاملہ ہو یا شہداء کے خانوادگان کی کفالت، نوجوانوں کی تربیت کا معاملہ ہو یا ان کی تعلیمی رہنمائی، ملت تشیع پاکستان کے مسائل کی بات ہو یا بین الاقوامی ایشوز، عزاداری و ماتم کا معاملہ ہو یا جلوس ہائے عزاداری میں نماز با جماعت کا قیام، کالجز اور یونیورسٹیز میں مغربی ثقافت اور فحاشی کے خلاف بغاوت ہو یا استعمار وقت کے خلاف اعلان جنگ، متاثرین سیلاب، زلزلہ و قحط سالی ہو یا مستضعفین فلسطین و کشمیر و بحرین و پاکستان، نیز تمام انسانی اقدار کو حفظ کرنے اور معاشرے کی فلاح و بہبود کے لیے جو درد دل رکھنے والے بےلوث خدمت گار نظر آتے ہیں ان کا بالواسطہ یا بلاواسطہ تعلق اسی الٰہی کارواں سے ہے۔ پس یہ بات باعث فخر ہےکہ آئی ایس او نے ایسے جوانوں کی تربیت کی جن کا دل مسلک و مکتب سے بھی بالاتر ہو کر انسانیت کے لیے دھڑکتا ہے۔ آئی ایس او نے ایک عظیم درسگاہ کا کردار ادا کیا جو تحصیل علم کے پیاسوں کی پیاس بجھا کر انہیں معاشرے کے لیے ایک مفید انسان بناتی ہے۔ آئی ایس او اب ایک تنظیم نہیں بلکہ ایک نظریئے کا نام ہے اور یہ نظریہ معاشرے کے دل و دماغ میں گھر کر چکا ہے۔ آئی ایس او کو لوگوں کے قلوب سے نکالنا ایک ناممکن عمل ہے۔

اسلام ٹائمز: آپ ماشاءاللہ دوسری بار میرکارواں منتخب ہوئے، اپنے مقررہ اہداف کے حصول میں کہاں تک کامیابی ملی؟

اطہر عمران: دوسری بار آئی ایس او کی مسئولیت کا ملنا میرے لیے باعث سعادت تھا یا باعث امتحان اسی کشمکش میں مبتلا ہوں، البتہ لطف الٰہی سمجھتے ہوئے اسے قبول کیا ہے اور اپنی صلاحیتوں کے مطابق اس کو احسن انداز میں نبھانے کا عزم کیا۔ مقرر کردہ اہداف کے لیے کوشاں ہیں۔ بفضل خدا اور بشرط زندگی سال رواں کے آخر تک اپنے مطلوبہ اہداف حاصل کر لیں گے۔ انشاءاللہ باقی ذمہ داریاں آئندہ آنے والے دوست ادا کریں گے۔ جہاں تک ذاتی فعالیت اور کارکردگی سے مطمئن ہونے کا سوال ہے میں ذاتی طور پر قطعاً مطمئن نہیں ہوں۔ خدا سے دعاگو ہیں کہ اپنی خوشنودی کے لیے کماحقہ کام کرنے کی توفیق عنایت فرمائے۔ بقول شاعر
جان دی، دی ہوئی اسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا


اسلام ٹائمز: آئی ایس او طلباء کے مسائل حل کرنے میں زیادہ مصروف دکھائی نہیں دیتی نیز حکومت کی تعلیمی پالیسیوں کے حوالے سے کیا کہیں گے؟

اطہر عمران: آئی ایس او نے ہمیشہ اپنا تعلیمی کردار ادا کیا ہے، متحدہ طلباء محاذ کی فعالیت ہو یا مسلم اسٹوڈنٹس یونٹی کا فورم، کیریئر گائیڈنس سیمینارز، طلوع فجر کنونشن، یکساں نصاب کی جدوجہد، شمالی علاقہ جات میں نصاب کی تبدیلی کی تحریک، امتحان سے پہلے امتحان، مقابلے اور اعلٰی تعلیمی اداروں میں داخلوں کے پری ٹیسٹس کی تیاری، اور وظائف سب تعلیمی کارکردگی ہے جو کہ کسی بھی دوسری طلباء تنظیم سے زیادہ ہے۔ ایک طلباء تنظیم کے لیے اپنی حدود و قیود معین ہوتی ہیں، جہاں تک آئی ایس او کا تعلق ہے اب اسے صرف طلباء حقوق تک محدود کرنا درست نہیں۔ پاکستان میں ایک طلباء تنظیم ہونے کے باوجود پوری ملت کی مسیحائی کی۔ قومی افق پر ابھرنے والی تقریبا تمام جماعتوں نے اسی کی کوکھ سے جنم لیا۔

42 سال کے نشیب و فراز کے باوجود جہاں بہت سارے انقلابی اپنے خط کو برقرار نہ رکھ سکے، آئی ایس او آج بھی خط امام خمینی پر کاربند ہے اور اسے اپنا محور سمجھتی ہے، البتہ اس بات سے اتفاق ہے کہ اسے اپنی تعلیم و تربیت جیسے بنیادی ایجنڈے سے قطعا روگردانی نہیں کرنی چاہیئے۔ جہاں تک حکومت کی تعلیمی پالیسی کا تعلق ہے یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ حکومتی تعلیمی پالیسی بنانے والے ماہرین نہیں بلکہ اکثر اقرباء پروری کی بنیاد پر بھرتی کیے گئے کارندے ہیں، ہر ایک دو سال بعد نئی تعلیمی پالیسی ان کی ناکامی اور نااہلی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ تعلیم کے معاملے پر میرٹ پر کمپرومائز کرنا آنے والی نسلوں سے خیانت ہے۔

اسلام ٹائمز: تعلیمی اداروں میں طلباء تنظیمیں اپنا حقیقی کردار ادا کر رہی ہیں؟

اطہر عمران: نہیں، تعلیمی ادارے دراصل شعور و آگاہی کا مرکز ہوتے ہیں، جہاں لوگوں کو فکری، علمی اور سیاسی شعور ملنا چاہیئے البتہ ہمارے تعلیمی ادارے ایک پیشہ ور تو بناتے ہیں مگر ایک اچھا انسان اور مہذب شہری بنانے سے قاصر ہیں جو کہ تشویش ناک ہے۔ طلباء تنظیموں کا تعلیمی اداروں میں کرداد ایک ایسے گلدستے جیسا ہونا چاہیئے، طلباء جس کی مہک سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکیں اور وہ بھی اس گلدستے کا حصہ بنیں۔ بدقسمتی سے حقیقت اس کے برعکس ہے چند مفاد پرست پے رول پر کام کرنے والے گروپس جنہیں تنظیم کہنا بھی درست نہیں ہے اپنی ذاتی اہمیت کو درک کیے بغیر لسانی، اور علاقائی تعصبات کو ہوا دینے، سیکولر طبقے کے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں۔ جس کے نتیجے میں اسلامی تنظیمیں بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ آج تمام اسلام پسند جماعتیں مسلکی اختلافات سے بالاتر ہو کر جامعات میں رائج مغربی ثقافت کے خلاف قیام کریں اور اسے اسلامی طرز ثقافت سے بدل دیں۔ میرے خیال میں یہی تمام طلباء تنظیموں کا فلسفہ وجودی یہی ہونا چاہیئے۔

اسلام ٹائمز: آئی ایس او کے سابقین سے روابط کے حوالے سے کام جاری ہے، آپ اس کے کیا ثمرات دیکھتے ہیں؟

اطہر عمران: آئی ایس او کے سابقین، ہماری تنظیم کا بکھرا ہوا قیمتی اثاثہ ہیں، جنہیں الحمدللہ جمع کرنے کا کام گذشتہ سال سے شروع ہوا اور تدریجاً بہتری کی طرف گامزن ہے۔ شجرہ طیبہ یقینا اپنے ثمرات سے معاشرے کو فیض یاب کرتا ہے، آئی ایس او جیسے شجرہ طیبہ کا ثمرہ اس کے سابقین ہیں جن سے پوری ملت استفادہ کر رہی ہے اور یہ معاشرے میں امید بن کر ان کے مسائل کے حل کے لیے کوششں کرتے رہتے ہیں۔ سابقہ دو سالوں سے یوم تاسیس اور ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید کی برسی کے پرشکوہ اور عظیم اجتماعات سابقین کی کوششوں کا ثمر ہیں۔ اس سال بھی انشاءاللہ تاسیس کے پروگرامات میں سابقین کا کلیدی کردار ہو گا۔ مختلف ڈویژنز میں مربی ورکشاپس کا سلسلہ، کیرئیر گائیڈنس سیمینارز کا انعقاد اور ڈویژنل ہیڈ کوارٹرز پر دفاتر و ہاسٹلز قائم کرنے کی شروعات سابقین کی بدولت ہے جو کہ ایک خوش آئند قدر ہے۔

اسلام ٹائمز: سعودی عرب کے ڈیڑھ ارب ڈالر کے "تحفے" کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟

اطہر عمران: ڈالر اور ریال کے تحفے سعودی عرب سے آئیں یا یورپ اور امریکہ یا کہیں اور سے یقیناً اس کے اثرات مرتب ہوتے ہیں، ملکی خارجہ پالیسی نہ صرف اس سے تبدیل ہوتی ہے بلکہ حکمران طبقہ کی ذہنی محرومی ان کے بیانات سے آشکار ہوتی ہے۔ خودانحصاری اور ملّی غیرت کسی ملک کی بقاء کے لیے بنیادی اہمیت رکھتی ہے اور بدقسمتی سے مملکت خداداد پاکستان میں شرق و غرب زدہ نااہل حکمرانون نے ملّی غیرت و حمیت کا جنازہ نکال دیا ہے۔ عالمی منظر نامے پر پاکستان کو ایک دہشت گرد ملک کے طور پر پیش کیا جاتا ہے اور آگ و خون کا کھیل کھیلنے کے لیے پاکستان کو کھیل کے میدان کے طور پر پیش کیا ہے، گذشتہ کئی ماہ سے قوم کو دہشت گردوں سے مذاکرات کا جھانسا دے کے انکی توجہ کو اہم معاملات سے محو کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے تاکہ ملک دشمن عناصر پھر سے منظم ہو سکیں اور انہیں شام و بحرین میں بھیجنے کے علاوہ اپنی ناجائز حکومت کے باقی رکھنے کا جواز پیدا کر سکیں۔ طالبان سے مذاکرات ایک فریب و دھوکے کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔

اسلام ٹائمز: ملت جعفریہ پاکستان کے حقوق کے لیے سرگرم جماعتوں کے کرداد سے آپ کس حد تک مطمئن ہیں۔؟

اطہر عمران: میرے خیال میں من حیث القوم منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت ہے، جس کا فقدان نظر آتا ہے۔ قومی جماعتوں کے میدان میں حضور کے باوجود مطلوبہ نتائج نہ ملنے کی ایک وجہ پراگندہ رہنا ہے۔ گروہی و حزبی اختلافات سے بالاتر ہو کر اگر قومی جماعتوں کے مسئولین مل بیٹھیں اور مشترکہ متفقہ ٹھوس قومی و ملی پلان مرتب کریں تو اب سے کئی گنا بہتر نتائج کی توقع کی جا سکتی ہے۔ آئی ایس او ملت کی مضبوطی اور تقویت کے لیے اٹھائے جانے والے تمام اقدامات کا خیر مقدم کرتی ہے۔ آئی ایس او تمام انقلابی و فکری گروہوں کی وحدت کی نہ صرف قائل ہے بلکہ عملی وحدت کے قیام کے لیے اپنا پل کا سا کردار ادا کرنے کی مخلصانہ کاوشوں کا ماضی بھی رکھتی ہے۔ آئی ایس او مشترکات کی بنیاد پر تمام انقلابی گروہوں کے ساتھ ہے مگر اپنے جداگانہ تشخص کے ساتھ اپنے فیصلوں میں خودمختار ہے۔ آئی ایس کو کسی جماعت کا طلباء ونگ تصور کرنا احمقانہ طرز تفکر ہے۔

اسلام ٹائمز: شام کی صورتحال کے حوالے سے کیا کہیں گے؟

اطہر عمران: شام تکفیریوں کا قبرستان بننے جا رہا ہے، شامی عوام نے سیاسی بصیرت کا ثبوت دیتے ہوئے بیرونی مداخلت کو زہر قاتل قرار دیا ہے۔ امریکہ اسرائیل اور اسکے اتحادی عرب ممالک کو منہ کہ کھانا پڑی۔ متضاد اطلاعات کے مطابق پاکستانی حکمرانوں نے شام میں جاری آگ اور خون کے میدان میں کودنے کا احمقانہ فیصلہ کیا جس سے خود مملکت خداداد پاکستان میں مسائل بڑھنے کا اندیشہ پیدا ہو گیا۔ پاکستان جو خود دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے حکمرانوں کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ کسی پراکسی وار کا حصہ بنا جائے، المختصر شامی فوج نے اہم مناطق اپنے کنٹرول میں لے لیے ہیں۔ تازہ اطلاعات کے مطابق باغیوں کو لاجسٹک سپورٹ بھی کم ہوئی ہے اور ان کے جذبے بھی ماند پڑ گئے ہیں۔ لہذا پسپائی ان کا مقدر ہے انشاءاللہ۔

اسلام ٹائمز: حکومت طالبان مذاکرات کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟
اطہر عمران: ہمارا پہلے دن سے موقف ہے کہ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے، طالبان سے مذاکرات کرنا وحشی درندوں کو یہ سمجھانے کے مترادف ہے کہ آج سے آپ مہذب شہری بن جائیں۔ لوگوں کے درمیان رہیں، خون خرابہ ترک کر دیں اور وہ جو چیر پھاڑ کرنا آپکی سرشت میں شامل ہو چکا ہے اس سے اعلان بیزاری کر دیں۔ حالانکہ حقیقت اسکے برعکس ہے، درندہ جس کے رہنے کی بہترین جگہ جنگل ہے، جہاں صرف طاقت کا قانون ہی نافذالعمل ہوتا ہے وہ کبھی بھی انسانوں کے درمیان رہنے کا عادی نہیں ہو سکتا۔ پس اگر زبردستی مہذب بنانے کی ناکام کوشش کی بھی جائے تو عادت سے مجبور ہو کر اپنی درندہ صفت عادات کا اعادہ کرتا ہے۔ نتیجتاً معاشرہ اس سے محفوظ نہیں رہ سکتا۔ المختصر معاشرے کے ایسے ناسور اور فتنہ گر خوارج کا سر کچلنے میں ہی عافیت ہے۔


اسلام ٹائمز: آئی ایس او کے کارکنان کے نام کیا پیغام دینا چاہیں گے؟

اطہر عمران: آئی ایس او کے یوم تاسیس کے موقع پر آئی ایس سے وابستہ تمام مومنین، مخلصین، سابقین، موجودین اور ہم عصر تنظیمی بھائیوں کی خدمت میں ہدیہ تبریک عرض کرتا ہوں، ہم خدا کے حضور سجدہ ریز ہو کر اپنے آپ کو خوش بخت سمجھتے ہیں کہ ہمیں ایسے الٰہی کارواں کے ساتھ وابستہ ہو کرذاتی اصلاح، خود شناسی، خود سازی، اور معاشرہ سازی جیسے اہم موضوعات کی طرف متوجہ ہونے کا موقع ملا۔ الٰہی کارواں نے انفرادی سوچ سے بالاتر ہو کر اجتماعی شعور عطا کیا ہے، جو خدا کا اپنے بندوں پر خصوصی لطف و کرم ہے۔ انہیں الفاظ کے ساتھ عرائض تمام کروں گا کہ شہداء کی یہ پاک امانت ہم تک صرف خلوص کی بنیاد پر منتقل ہوئی ہے اپنے امور کو صرف قربۃًالی اللہ انجام دے کر خوشنودی خدا، خوشنودی رسول اور آئمہ ھدٰیؑ کے حقدار بن سکتے ہیں۔ خدا ہمیں" نائب برحق امام زمانؑہ" حضرت امام خامنہ ای کی وحدت کی آرزو پوری کرنی کی توفیق مرحمت فرمائے۔
خبر کا کوڈ : 384942
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش