0
Friday 23 Jan 2015 22:41

بعض مذہبی و سیاسی جماعتیں دہشتگردوں کے سیاسی ونگ کے طور پر کام کرتی ہیں، بریگیڈئیر (ر) محمود شاہ

بعض مذہبی و سیاسی جماعتیں دہشتگردوں کے سیاسی ونگ کے طور پر کام کرتی ہیں، بریگیڈئیر (ر) محمود شاہ
بریگیڈیئر (ر) سید محمود شاہ معروف تجزیہ نگار ہیں، آپ سیکرٹری قبائلی علاقہ جات رہ چکے ہیں اور اس کے علاوہ پاک فوج میں بریگیڈیئر کی حیثیت سے بھی فرائض منصبی ادا کرچکے ہیں۔ شاہ صاحب قبائلی علاقہ جات سمیت افغان امور کے ماہر سمجھے جاتے ہیں اور اس کے علاوہ دیگر ملکی و بین الاقوامی امور پر بھی گہری نظر رکھتے ہیں۔ بریگیڈیئر (ر) سید محمود شاہ صاحب ایک میڈیا دوست شخصیت بھی ہیں۔ اس کے علاوہ آپ اکثر مختلف مذاکروں، مکالموں، فکری نشستوں میں بھی شریک اور اپنے مدلل خیالات کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں، ’’اسلام ٹائمز‘‘ نے ملک کی موجودہ صورتحال کے حوالے سے جناب بریگیڈیئر (ر) محمود شاہ کیساتھ ایک انٹرویو کا اہتمام کیا، جو قارئین کے پیش خدمت ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: سانحہ پشاور کے بعد آرمی چیف سمیت دیگر عسکری حکام نے افغانستان کا دورہ کیا، آپکے خیال میں ان دورہ جات کے کیا مقاصد تھے، اور کیا کوئی کامیابی بھی ملی ہے۔؟
بریگیڈئیر (ر) محمود شاہ:
افغانستان میں اشرف غنی صاحب اور عبداللہ عبداللہ صاحب کی نئی قیادت آئی ہے، افغانستان میں عموماً پشتون اور نان پشتون کی گرمی سردی رہی ہے، ایک طرف اشرف غنی پشتون ہیں تو عبداللہ عبداللہ کا تعلق شمالی اتحاد سے ہے، یہ دونوں ملکر افغانستان کے بارے میں اچھا سوچ سکتے ہیں، ایک دوسرے کو نیچا دکھانے والی بات نہیں ہے بلکہ ایک مشترکہ سلسلہ ہے۔ انہوں نے پاکستان کی طرٖف بہت اخلاص کا مظاہرہ کیا ہے، ان کو معلوم ہے کہ اگر افغانستان میں امن قائم کرنا ہے تو پاکستان سے دوستی رکھنی ہوگی، اب پاکستان نے بھی پالیسی اپنائی ہے کہ گڈ طالبان اور بیڈ طالبان نہیں بلکہ سارے ہی بیڈ ہیں، اور پھر ان کیخلاف شمالی وزیرستان میں آپریشن شروع کیا، چاہے اس میں حقانی نیٹ ورک ہو، حافظ گل بہادر نیٹ ورک ہو یا پھر کوئی اور، سب کیخلاف کارروائیاں کی جا رہی ہیں۔ پاک فوج نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ اس حوالے سے کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا، اسی وجہ سے تحریک طالبان پاکستان کی تنظیم ٹوٹ گئی اور انہوں نے افغانستان میں جاکر پناہ لے لی۔

افغانستان میں ایساف کے کمانڈر نے بھی یہ تسلیم کیا کہ حملوں میں کمی آئی ہے، لہذا اس وجہ سے پاکستان کو عالمی سطح پر سراہا جا رہا ہے، اور افغانستان کی حکومت بھی یہی سمجھ رہی ہے۔ اس کے بعد آپ نے دیکھا کہ پاکستان کے چیف آف آرمی aسٹاف نے بھی افغانستان کا دورہ کیا۔ بارڈر پر بعض مشکلات ہوتی ہیں، تاہم پاکستان کی فوج اس سے نمٹنے کیلئے کافی ٹرینڈ ہے، اس کے علاوہ بھارت کیساتھ سرحد پر بھی اکثر ٹینشن رہتی ہے، اس لئے فلیگ میٹنگس بھی ہوتی ہے، پاکستان کی فوج افغان فورسز کو یہ سکھا رہی ہے کہ اگر آپ کو سرحد پر کوئی مسئلہ ہو تو آپ سفید جھنڈا لہرائیں تو پاکستان سے آپ کے پاس جھنڈے کیساتھ کوئی آئے گا، اور مسئلہ حل کیا جائے گا۔ اور اگر اس سطح پر مسئلہ حل نہیں ہوتا تو اس سے اوپر لیول پر معاملہ کو حل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ پشاور اور کوئٹہ کے کور کمانڈرز نے بھی افغانستان کا دورہ کیا، لہذا اسی نیت کے تحت یہ ملاقاتیں ہوئی ہیں۔

اسلام ٹائمز: کیا ان ملاقاتوں میں ملا فضل اللہ کی حوالگی کا معاملہ بھی اٹھایا گیا، یا پھر ملاقاتیں سکیورٹی اور بارڈر صورتحال تک محدود رہیں۔؟
بریگیڈئیر (ر) محمود شاہ:
اس بارے میں بھی ان سے بات کی ہے، لیکن ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ افغان فورسز کی اتنی صلاحیت نہیں ہے، افغانستان میں کابل کے باہر بھی سکیورٹی کی حالت انتہائی مخدوش ہے، چاہے قندہار ہو یا شمال میں جہاں فضل اللہ موجود ہے، وہاں افغان سکیورٹی فورسز اتنی تعداد میں موجود نہیں ہیں، اگر موجود بھی ہیں تو وہ اتنے تگڑے نہیں ہیں۔ بہرحال ان کو یہ بتایا ضرور ہے، اور امریکہ نے بھی اس (فضل اللہ) کو عالمی دہشتگرد قرار دیا ہے۔

اسلام ٹائمز: پاکستان میں جاری دہشتگردوں کیخلاف آپریشن کو افغان حکومت، ایساف فورسز کیسے دیکھتی ہیں، آیا انکا بھی کوئی تعاون حاصل ہے۔؟
بریگیڈئیر (ر) محمود شاہ:
میں سمجھتا ہوں کہ افغان فورسز کی اتنی صلاحیت نہیں ہے اور نہ ہی تربیت، ایساف کچھ کرسکتی تھی لیکن ان کا مشن دسمبر میں ختم ہوچکا ہے، اب وہ صرف مخصوص آپریشنز کریں گی، ہم اپنے بارڈر پر مضبوط کھڑے ہیں، اور ان کیساتھ بارڈر منیجمنٹ پر بات ہو رہی ہے کہ پاکستان میں وہاں سے کوئی دہشتگرد آتے ہیں یا پھر یہاں سے وہاں دہشتگرد جاتے ہیں تو ایک دوسرے کو بتایا جاسکتا ہے کہ وہ اس ایریا میں موجود ہے، آپ کچھ کرسکتے ہیں تو کر لیں۔ ہم نے تو آپریشن ضرب عضب اپنے بارڈر تک تو کرلیا ہے۔

اسلام ٹائمز: پاکستان میں دہشتگردی پر قابو پانے کیلئے کیا درست سمت میں جایا جا رہا ہے۔؟
بریگیڈئیر (ر) محمود شاہ:
بات یہ ہے کہ جب قوم میں اتفاق آجاتا ہے تو اس کے مثبت نتائج ملتے ہیں، تاہم پاکستان کی بعض مذہبی و سیاسی جماعتیں دہشتگردی کی کسی نہ کسی طریقہ سے ذمہ دار ہیں، یہ دہشتگردوں کے سیاسی ونگ کے طور پر کام کرتی ہیں۔ سانحہ پشاور کے وقت چونکہ معاملہ بہت گرم تھا، اور لوگوں نے بہت نفرت کا اظہار کیا تھا، اس وجہ سے انہوں نے مذمت کر ڈالی، درحقیقت یہی وہ لوگ ہے جو دہشتگردوں کے سہولت کار ہیں، جب آپریشن ہوتا ہے تو یہ دہشتگردوں کے حق میں بیانات دیتے ہیں، ہمیں دہشتگردی کو جڑ سے ختم کرنے کیلئے بہت زیادہ جدوجہد کی ضرورت ہوگی، خاص طور پر مدرسوں پر نظر ہونی چاہئے، پاکستان میں بہت زیادہ مدرسے ہیں، ان سے جو لوگ نکلتے ہیں وہی جہاد کی طرف جاتے ہیں، یہ مدارس ہی ذہن سازی کرتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: جن سیاسی و مذہبی جماعتوں کا آپ نے ذکر کیا، کیا مستقبل میں آپکو ان جماعتوں کی پالیسیاں تبدیل ہوتی نظر آتی ہیں، یا پھر ایک طرف پوری قوم اور دوسری طرف یہ جماعتیں۔؟
بریگیڈئیر (ر) محمود شاہ:
میرا خیال ہے کہ جب قوم اکٹھی ہوگی اور قوم کو اکٹھا ہونا چاہئے، تو ان مذہبی و سیاسی جماعتوں کی بات نہیں سننی چاہئے، یا جس طریقہ سے مساجد نے ہماری سوسائٹی پر قبضہ کیا ہوا ہے، یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ اگر کسی محلہ یا علاقہ کی کسی مسجد میں مولوی زہر اگل رہا ہے تو اسے جواب دیں، قوم جب اکٹھی ہوگی تو ہمارے اوپر جو ان مولیوں نے قبضہ کیا ہوا ہے اس سے نکلنا ہوگا، یہ مشکل ضرور ہوگا لیکن اگر ہر شہری اس کا احساس کرے، ان کے پروپیگنڈوں، اور لاوڈ سپیکرز کے استعمال وغیرہ سے مسائل پیدا ہو رہے ہیں، اسلام میں مولویوں کی کوئی جگہ نہیں ہے۔
خبر کا کوڈ : 434558
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش