0
Tuesday 12 Jul 2011 13:47

ایران کے اسلامی انقلاب نے فرقہ واریت کے سامنے بند باندھ دیا، صاحبزادہ فیض الرحمان درانی

ایران کے اسلامی انقلاب نے فرقہ واریت کے سامنے بند باندھ دیا، صاحبزادہ فیض الرحمان درانی
صاحبزادہ مسکین فیض الرحمان درانی تحریک منہاج القرآن انٹرنیشنل کے امیر اور پاکستان عوامی تحریک کے صدر ہیں، آپ ممتاز سیاست دان اور جید عالم دین ہیں، اتحاد بین المسلمین کے حوالے سے ان کی کوششیں لائق تحسین ہیں، تحریک منہاج القرآن اور پاکستان عوامی تحریک کے پلیٹ فارم سے امت مسلمہ کی ترقی، خوشحالی اور فروغ اسلام کے لئے مصروف عمل ہیں، ملک میں نظام مصطفٰی کے نفاذ کے داعی ہیں، گزشتہ روز ’’اسلام ٹائمز‘‘نے ان سے خصوصی انٹرویو کیا جو قارئین کے لئے پیش خدمت ہے۔(ادارہ) 

اسلام ٹائمز:صاحبزادہ صاحب، ملک میں دہشتگردی،افراتفری، امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال، کراچی میں ٹارگٹ کلنگ ، عوام کا احساس عدم تحفظ اور سیاسی کھینچا تانی، حقیقی مسائل کیا سمجھتے ہیں؟
صاحبزادہ فیض الرحمان درانی:پاکستان کے حقیقی مسائل کئی ایک ہیں، جن میں سب سے بڑا مسئلہ تو یہ ہے کہ کسی بھی ملک، قوم، ادارے یا جماعت کے متعین مقاصد ہوتے ہیں، جن کو حاصل کرنا اس ملک، قوم یا انجمن کے لوگوں کا مشترکہ ہدف ہوتا ہے، شومئی قسمت، بانی پاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناح (ر) اور مفکر پاکستان حضرت علامہ محمد اقبال (ر) کے ذہن میں پاکستان کی تشکیل کی غرض و غایت اور مقصد متعین تھا، لیکن بعدازاں جب آپ اس جہان فانی سے رخصت ہو گئے تو پاکستان میں موجودہ قیادت، بیوروکریسی اور اسٹیبلشمنٹ بلکہ ریاست کی پوری مشینری کے ذہن میں بانی پاکستان و مفکر پاکستان جیسا مقصد موجود نہیں تھا، اور بعد میں آج تک بدقسمتی سے جو بھی برسراقتدار آیا ان کے ذہن میں وہ تصور واضح نہیں تھا، جس سے وہ قوم کی رہنمائی کرتے ہوئے ان کے جسمانی، نظریاتی اور ذہنی طور پر تیار کر پائیں، تاکہ وہ ملک پاکستان میں اور عالمی سطح پر ایسا ماحول تشکیل دیں کہ جس سے وہ بنیادی مقاصد حاصل ہو سکتے۔ آج جب تمام سیاسی جماعتیں ان اصولوں سے منحرف ہو گئی ہیں جس کے باعث ان مسائل کا سامنا ہے۔
اسلام ٹائمز:صاحبزادہ صاحب،قائد اعظم محمد علی جناح کا ویژن کا کیا تھا، کیوں کہ نوجوان نسل آج یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ آیا پاکستان ایک اسلامی فلاحی ریاست کے قیام کے لئے بنا یا پھر ایک سیکولر ریاست کیلئے۔؟
صاحبزادہ فیض الرحمان درانی:پاکستان کی تشکیل کا بنیادی مقصد ملک میں نظام مصطفٰی کا نفاذ تھا، جو کہ بحیثیت مجموعی اس قوم کے خون میں رچا بسا تھا اور ہے۔ یہ ایسا مقصد تھا، جس کے بغیر پاکستانی قوم جی نہیں سکتی، اب بھی پاکستان جن مسائل میں گھرا ہوا ہے، اس کا حل نظام مصطفٰی کے نفاذ میں ہی مضمر ہے۔
اسلام ٹائمز:صاحبزادہ صاحب، ملک کی مجموعی صورتحال کو دیکھتے ہوئے کیا آپ سمجھتے ہیں کہ موجودہ حکومت کے تین برس گزر جانے کے باوجود عوامی مسائل حل ہو پائے ہیں اور کیا عوام کے توقعات بر آئی ہیں۔؟
صاحبزادہ فیض الرحمان درانی:بدقسمتی سے ابتداء سے لے کر تشکیل پاکستان اور قائداعظم (ر) کی رحلت کے بعد سے کسی بھی حکمران کو پاکستان کا حقیقی مسئلہ سمجھ نہیں آیا، موجودہ حکمران بھی ان مقاصد سے بے شعور لوگوں کے قبیل سے ہیں، جن کے سامنے کوئی مقصد نہیں اور کسی قائد یا لیڈر کے سامنے اگر کوئی واضح مقصد نہ ہو تو، جہاں پر وہ قوم کو مجتمع کر کے لے جائے اس مقصد کے حصول کے لئے لے جائے، تو ظاہر ہے اس کا کوئی فائدہ نہیں، یہی حال موجودہ حکمرانوں کا ہے، یہ مقصد اور ہدف سے عاری ہیں، ان کو اقتدار تو مل گیا ہے، لیکن کس لئے ملا ہے، اور مقصد کیا ہے، یہ نہیں جانتے اور بغیر کسی مقصد کے انجانی سمت میں دوڑ لگا رہے ہیں۔ جس کا نتیجہ لامتناہی بحرانوں کی صورت میں قوم کے سامنے ہے اور یہ بحران دن بدن بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ شومئی قسمت موجودہ حکمران پاکستان کے ایک ایسے لیڈر کی پیداوار ہیں کہ جس کی زندگی کی پوری تگ و دو عوامی جذبات بھڑکانے اور روٹی کپڑا اور مکان کا دلکش نعرہ دے کر ووٹ بٹورنے تک محدود تھی۔ یہ نہ اس دائرے سے باہر نکل کر کسی قومی مقصد کا تعین کر سکتے تھے اور نہ ہی یہ کام ہو سکا۔ اب بھی موجودہ بحرانوں کا حل ان حکمرانوں کا پسماندہ ذہن نہیں سوچ سکتا، عقل و شعور سے عاری موجودہ حکمران اور نام نہاد اپوزیشن کے لیڈر ان دنوں ڈرائنگ رومز کی سیاست، آپس میں ایک دوسرے کو لعنت ملامت کرنا، پھٹکار اور گالیوں کے سوا یہ کچھ نہیں کر سکتے۔
اسلام ٹائمز:صاحبزادہ صاحب،ان تمام مسائل کو دیکھتے ہوئے ان کا حل آپ کی نگاہ میں کیا ہے۔؟
صاحبزادہ فیض الرحمان درانی:اگر ہم پاکستانی قوم کسی ایسے لیڈر کا انتخاب کر لینے میں کامیاب ہو جائیں، جس کی نظر پاکستان کے سب سے بڑے سیاسی، معاشی ،معاشرتی اور روحانی مسئلہ کے حل کے لئے نظام مصطفٰی کا قیام کرسکے اور ساری قوم ہم آہنگ ہو کر اللہ او راس کے رسول (ص) اور قرآن کی طرف رجوع کرے اور اپنے پاؤ ں پر کھڑی ہونے کی سکت پیدا کر لے اور اغیار کی طرف کاسہ گدائی پھیلانے سے اعتراض کرے تو امید ہے کہ یہ ملک اور قوم اپنے مقصد کے حصول میں کامیاب ہو جائے گی۔
اسلام ٹائمز:صاحبزادہ صاحب، یہ طالبان کون ہیں اور ان کو کون استعمال کر رہا ہے۔؟
صاحبزادہ فیض الرحمان درانی:لغوی اعتبار سے طالبان کسی چیز کی طلب کرنے والے کو کہتے ہیں۔ مثلا علم کے طالبان، اقتدار کے طالبان، وغیرہ۔ آج کل طالبان کی جو اصطلاح استعمال کی جا رہی ہے وہ امریکہ کے مخالفین ہیں جن کو ماضی میں مجاہد اور آج دہشت گر دقرار دیا جا رہا ہے۔ افغانستان میں روس کے خلاف ان کو لڑایا گیا اور امریکہ نے پہلے ہی یہ منصوبہ بنا رکھا تھا کہ روس کو افغانستان سے نکالنے کے بعد وہ طالبان کو کیسے ختم کرے گا، اس حوالے سے دہشت گردی کے واقعات کروائے گئے، پاکستان میں شیعہ اور سنی کی لڑائی کروائی گئی۔ افغانستان میں بسنے والے طالبان نے اپنی حکومت کے قیام کی جدوجہد کر دی، جو امریکہ کو بہت ناگوار گزری اور یہ طالبان امریکہ کی لڑائی سے فارغ ہو کر امریکہ سے ہی لڑنے لگ گئے۔ آج امریکہ ان سے مذاکرات کی میز پر معاملات حل کرنے کے لئے کوشاں ہے، جب کہ پاکستان میں موجود طالبان کی صورتحال اس کے برعکس ہے۔ ان کو مزارات پر حملے کروا کر امریکہ استعمال کر رہا ہے، ماضی میں شیعہ سنی لڑائی کے بعد دونوں مکاتب فکر جان گئے کہ ہمیں کوئی لڑا رہا ہے، اس لئے انہوں نے آپس میں لڑنے سے انکار کر دیا اور اسلام اور پاکستان دشمنوں نے درباروں پر حملے کروا کر سنی کو سنی سے لڑانے کی سازش کی، جو کامیاب نہیں ہو سکتی، عوام باشعور ہو گئے ہیں۔
اسلام ٹائمز:صاحبزادہ صاحب، پاکستان میں دہشت گردی کے اصل محرکات کیا ہیں اور ان کے پیچھے کون سی سوچ کارفرما ہے؟ 
صاحبزادہ فیض الرحمان درانی:اس کے کئی عوامل ہیں، پاکستان کے سیاسی و جغرافیائی حالات اور اقتصادی و معاشی کمزوریاں، دہشت گردی کا سب سے بڑا سبب ہیں۔ پاکستانی حکمرانوں کو جب بھی موقع ملا، انہوں نے وطن کی عزت و ناموس کا سودا کیا اور اسے فروخت کر دیا۔ ان حکمرانوں کو ڈالروں کی ضرورت ہے، جہاں سے ان کو ڈالرز ملیں گے یہ ان ممالک اور قوتوں کے لئے کام کریں گے، اس مقصد کے لئے آمرین اور غاصبین صاحبان اقتدار نے باہر کے دراندزوں کو بھی دہشت گردی کے لئے استعمال کیا اور پاکستان کے اندر بھی نظریہ پاکستان کے مخالف نام نہاد علماء سو کو بھی اس مقصد کے لئے استعمال کیا گیا۔ دہشت گردی کی بنیادی وجہ نام نہاد حکمران ہیں، جن کے پاس حکمرانی کا کوئی مقصد نہیں، بس دولت کا حصول ہے اور اپنے بینک بیلنس بنانا مقصد ہے، اس کیلئے یہ سب کچھ کرنے کو تیار ہیں، یہی وجہ ہے کہ پرائی آگ انہوں نے ڈالر لے کر اپنے گھر لگا رکھی ہے۔
اسلام ٹائمز:صاحبزادہ صاحب، کیا شیعہ سنی اختلافات اتنے شدید ہیں کہ ایک دوسرے کو قتل کیا جائے۔؟؟؟
صاحبزادہ فیض الرحمان درانی:شیعہ سنی اختلافات کوئی نیا مسئلہ نہیں، یہ قرون اولیٰ سے یہودیوں کی ناپاک سازش کا نتیجہ ہے۔ مسلمانوں کو مسلمانوں سے لڑایا گیا اور واقعی نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ دشمن کے ایجنٹوں نے شیعہ کافر اور سنی کافر کے نعرے ایجاد کئے، آپ جانتے ہیں پاکستان میں ان نعروں کے موجد کون تھے اور ان کی کڑیاں کہاں ملتی ہیں، یہ بھی اب آشکار ہو چکا ہے۔ پاکستان میں شیعہ سنی کے درمیاں اختلافات کروائے گئے، لیکن ایران میں امام خمینی (ر) کے انقلاب اسلامی نے آ کر اس آگ کے سامنے بند باندھا۔ انقلاب اسلامی کے بعد استعمار کا یہ گھناؤنا منصوبہ قابو میں آ گیا، انقلاب نے شیعت کا تحفظ کیا اور ایران میں اسلامی حکومت نے شیعوں کی اصل تصویر دنیا کے سامنے پیش کی، جس سے بہت سے لوگوں کو پتہ چل گیا کہ ہم تو سازش کا شکار ہو رہے تھے، انقلاب نے دشمن کی سازشوں پر پانی پھیر دیا۔ اب صورتحال یہ ہے کہ کہیں بھی فتویٰ بازی نہیں ہو رہی ،سنی شیعہ کو اور شیعہ سنی کو مسلمان سمجھتا ہے۔ فروعی اختلافات اپنی جگہ، لیکن یہ اتنے گھمبیر نہیں کہ قتل و غارت کی جائے، کوئی بھی مسلمان مسجد یا امام بارگاہ میں حملے یا بم دھماکے کاسوچ بھی نہیں سکتا، دونوں مقدس مقام ہیں دونوں جگہوں پر قرآن مجید ہوتے ہیں، کوئی مسلمان بھلا کیسے مقدس کتاب کو شہید کر سکتا ہے، عبادت میں مشغول افرادکو کیسے نشانہ بنا سکتا ہے۔ یہ اسلام دشمن قوتوں کی کارستانی تھی، جس پر عمل ہوا۔ اس کا مقصد اسلام کو کمزور کرنا تھا۔ بحمدللہ! دونوں مکاتب فکر میں ایسے علماء کا ظہور ہو چکا ہے، جو اتحاد بین المسلمین پر یقین رکھتے ہیں اور اسلام کے فلسفہ اعتصام پر کار فرما ہیں،
اسلام ٹائمز:صاحبزادہ صاحب،امریکہ کے پاکستان میں اہداف کیا ہیں۔؟؟؟
صاحبزادہ فیض الرحمان درانی:امریکہ خو دکو دنیا کی سپرپاور کہتا ہے، اس کا سب سے بڑا مقصد اور ہدف یہ ہے کہ پوری دنیا اس کے در پر سجدہ ریز ہو، کوئی ملک اس کی دسترس سے باہر نہ ہو، ہر ملک میں اس کی بات چلتی ہو، وہ دنیا میں جس ملک اور جس قوم سے جو چاہیے کام کروالے۔ لیکن امریکہ کے اس ہدف کے سامنے قدرت بھی خندہ زن ہے، قانون فطرت ہے کہ تکبر، غرور اور ظلم سے حکومت قائم نہیں رہ سکتی۔ امریکہ اپنی حکومت کا قیام چاہتا ہے اس کے لئے اسے تکبر سے کام لینا پڑے یا ظلم کرنا پڑے، وہ کر گزرتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ تکبر، غرور اور ظلم سے حاصل کیا گیا اقتدار ناپائیدار ہوتا ہے۔ بقول حضرت علی کرم اللہ وجہہ کہ ’’کافر کی حکومت میں اگر عدل ہے تو وہ قائم رہ سکتی ہے، لیکن کسی مسلمان کی حکومت میں جب ظلم ہو گا تو وہ قائم نہیں رہ سکتی‘‘۔
اسلام ٹائمز:صاحبزادہ صاحب، کیا پاکستان کو امریکہ سے دوستی رکھنی چاہیے۔؟؟؟
صاحبزادہ فیض الرحمان درانی:اسلامی سیاست کے مطابق اسلامی ریاست میں دنیا کے کسی بھی ملک کے ساتھ اچھے روابط باہمی مساوات اور عزت و احترام کی بنیاد پر قائم رکھے جا سکتے ہیں۔ اگر امریکہ پاکستان کو برابری کی بنیاد پر رکھ کر بات کرے تو ٹھیک ہے، دوستی میں کوئی حرج نہیں، لیکن جب بات غلام اور آقا کی طرز پر ہو تو اسلام غلامی کی اجازت نہیں دیتا، بلکہ امام حسین علیہ السلام کا فرمان ہے کہ غلامی کی زندگی سے عزت کی موت بہتر ہے۔
اسلام ٹائمز:صاحبزادہ صاحب، ملک میں بم دھماکے، خودکش حملے، ٹارگٹ کلنگ، عدم برداشت کا رویہ، اس صورتحال میں ملک کو امن کا گہواہ کیسے بنایا جاسکتا ہے؟
صاحبزادہ فیض الرحمان درانی:جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا کہ پاکستان میں امن و سلامتی اور ترقی کے لئے ایک ہی راستہ ہے کہ پاکستانی قوم تشکیل پاکستان کے بنیادی مقصد (نظام مصطفی کے قیام) کو مدنظر رکھے۔ یہ واحد نظام ہے، جس پر تمام مکاتب فکر متحد ہیں۔ اس نظام کو لاگو کر دیا جائے، ملک میں امن قائم ہو جائے گا۔ اس کے علاوہ کوئی بھی نظام پاکستان میں نہیں چل سکتا، ہم نے ضیاء الحق کا اسلام بھی نافذ کر کے دیکھ لیا اور پرویز مشرف کی روشن خیالی کو بھی آزما لیا، سارے نظام یہاں فیل ہیں، صرف نظام مصطفٰی ہمارے تمام مسائل کا حل ہے۔
اسلام ٹائمز:صاحبزادہ صاحب، عرب ممالک میں بیداری کی حالیہ لہر کو کس نظر سے دیکھتے ہیں۔؟؟؟
صاحبزادہ فیض الرحمان درانی:عرب ممالک میں عرصہ دراز سے شخصی اور آمرانہ حکومتیں قائم ہیں، امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہوتا جا رہا ہے۔ عوام ایک مستقل خوف کا شکار تھے، ڈر کے مارے کوئی بات نہیں کرتا تھا۔ میڈیا کی آزادی نے ان کو فائدہ دیا اور لوگ بات کرنے کے قابل ہوئے اور باہر نکلے۔ عرب ممالک میں حبس زدہ ماحول ایک دم پھٹا اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ یکے بعد دیگرے تمام عرب ملکوں میں بیداری آ رہی ہے اور اس سے جہاں امریکہ کو پسپائی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، وہاں مظلومین بھی ظلم سے نجات حاصل کر رہے ہیں۔ یہ لہر خوش آئند ہے اور اس کے اثرات پاکستان پر بھی پڑیں گے۔
اسلام ٹائمز:صاحبزادہ صاحب، بحرین میں جو کچھ ہو رہا ہے اس حوالے سے کیا کہیں گے۔ بحرین میں سعودی عرب کی مداخلت کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟؟
صاحبزادہ فیض الرحمان درانی:بحرین میں جو کچھ ہو رہا ہے یہ ہر آمر کے ساتھ ہونا ہے۔ ظلم مستقل قائم نہیں رہ سکتا، ظالم حکمرانوں نے عوام کو دبائے رکھا، لیکن اب وہ زمانے بیت گئے۔ اب دنیا بدل چکی ہے، اب وہ شہنشاہیت کا زمانہ نہیں رہا۔ اب حکمرانوں کو انصاف کرنا ہو گا، جمہوریت کو فروغ دینا ہو گا، اسی میں ان کی بقاء ہے، بصورت دیگر ظالم کی جگہ اب کہیں اور ہے، اس میں سعودی عرب کی آمریت نوازی افسوسناک ہے، اس کو زیب نہیں دیتا کہ عوام کو کچلنے کے لئے اپنی افواج بحرین بھیجے۔
اسلام ٹائمز:صاحبزادہ صاحب، کیا سعودی عرب امت مسلمہ کی رہبری کر سکتا ہے۔؟
صاحبزادہ فیض الرحمان درانی:دیار عرب کو جو فضیلت حاصل ہے، وہ مکہ مکرمہ شریف اور مدینہ منورہ شریف کی بدولت ہے ۔یہ امت مسلمہ کے دو اہم ترین مراکز ہیں۔ اگر دیار عرب میں صحیح اسلامی حکومت قائم ہو جائے، جس کی بنیاد نظام مصطفٰی ہو تو یہ رہبری کر سکتا ہے، بصورت دیگر یہ ایسے ہی بے یارو مددگار رہیں گے۔ یہاں خلافت راشدہ کا نظام رائج کرنا ہو گا۔
اسلام ٹائمز:صاحبزادہ صاحب، ایران کے اسلامی انقلاب کو کس نظر سے دیکھتے ہیں۔؟
صاحبزادہ فیض الرحمان درانی:تمام اسلامی ممالک کے لئے ضروری ہے، بلکہ لازم ہے کہ وہ ایران میں آنے والے اسلامی انقلاب کا بغور مشاہدہ اور مطالعہ کریں۔ ایران میں انقلاب واعتصمو بحبل للہ جمیعا ولا تفرقو کی بنیاد پر آیا ہے۔ کسی بھی ملک میں تین طاقتیں ہوتی ہیں۔ اول حکمران، دوم علماء اور تیسری قوت عوام ہوتے ہیں۔ ایران کے اسلامی انقلاب میں تینوں نے اپنا کردار ادا کیا۔ اور اس میں اتحاد بین المسلمین نے اہم کردار ادا کیا۔ ایرانی قوم نے امام خمینی کی قیادت میں اتحاد کا مظاہرہ کیا اور اس اتحاد کے انعام کے طور پر اللہ نے انہیں انقلاب اسلامی سے نوازا۔ پاکستان میں اسلامی انقلاب کے لئے معاشرے کے ان تین طبقات کو متحد ہونا ہو گا۔ اگر ہم متحد نہ ہوئے تو ہمیں ننگی گالیاں، بہتان تراشیاں، تہمت، غیبت اور بددعائیں دینے کے سوا کچھ نہیں ملے۔
خبر کا کوڈ : 84335
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش